رزق اور برکت

’’آج کل گزارا بہت مشکل ہو گیا ہے‘‘، ’’صبح سے شام تک کوہلو کے بیل کی طرح پستے ہیں لیکن پھر بھی دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی‘‘، ’’کیا کریں اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی گھر کا خرچ نہیں چلتا‘‘۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے جملے ہمیں اکثر سننے کو ملتے رہتے ہیں اور بہت کم لوگ ہی ایسے ملتے ہیں جو اپنی آمدن پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کریں۔ جو لوگ لاکھوں کروڑوں کی آمدن کے باوجود بھی یہ رونا روتے رہتے ہیں کہ ایک فیکٹری سے کام نہیں چلتا دو فیکٹریاں ہونی چاہئیں۔ ایک مکان ایک گاڑی سے گزارا مشکل ہے اور جن پر اپنی دولت میں اضافے کا شوق اور جنون سوار ہوتا ہے جس میں کبھی کمی نہیں آتی بلکہ ہر آئے دن اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے، ان لوگوں کا معاملہ تو دوسرا ہے جس کا تذکرہ اس وقت مقصود نہیں، انہوں نے اپنے آپ کو حبِ مال اور دنیا کی ہوس کا غلام بنا رکھا ہے جس میں اپنی آخرت بھی برباد کرتے رہتے ہیں اور دنیا کا سکون بھی غارت۔

ہاں اگر کوئی واقعتاً ضروریات کے حصول میں سرکرداں ہے اور اخراجات کے بوجھ نے جس کو پریشان کر رکھا ہے لیکن دن رات کی محنت اور کوشش بھی اُس کی مشکلات کو آسان کرنے سے قاصر ہے تو اس معاملہ میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔ یہ مانا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے، یہ بھی تسلیم ہے کہ ضروریات اور اخراجات میں اضافہ ہوگیا ہے اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ روزگار کا حصول بہت مشکل ہے۔ یہ تمام مسائل اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مالی پریشانیوں کی سب سے بڑی وجہ مال میں بے احتیاطی اور حلال کمائی کے حصول اور حرام سے بچنے کی فکر اور اہتمام کا نہ ہونا ہے۔ حالانکہ رزقِ حلال کے حصول کی فکر و کوشش فرائض میں سے ہے۔

’’حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حلال حاصل کرنے کی فکر و کوشش فرض کے بعد فریضہ ہے‘‘۔ یعنی اللہ اور رسول پر ایمان اور نماز و زکوٰۃ وغیرہ جو اسلام کے اولین اور بنیادی ارکان و فرائض ہیں، درجہ اور مرتبہ میں ان کے بعد حلال روزی حاصل کرنے کی فکر اور کوشش کرنا بھی ایک اسلامی فریضہ ہے۔ بندہ اگر اس سے غفلت برتے اور کوتاہی کرے گا تو خطرہ ہے حرام روزی سے پیٹ بھرے گا اور آخرت میں اس کا انجام وہی ہوگا جو حرام سے پیٹ بھرنے والوں کا بتلایا گیا ہے۔

دوسری طرف سچائی اور دیانتداری کے ساتھ رزق کمانے والوں کے لئے بشارت بھی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’پوری سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنے والا تاجر، نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا‘‘۔ ﴿ترمذی﴾

حرام روزی کا انجام آخرت میں تو واضح ہے لیکن دنیا میں بھی انسان حرام رزق کے ذریعے ’’برکت‘‘ سے محروم ہو جاتا ہے۔ انسان ظاہری آنکھ سے دیکھ کر یہ سمجھتا ہے کہ اُس کی ضروریات مال سے پوری ہوتی ہیں یعنی مال جتنا زیادہ ہوگا ضروریات بھی اتنی ہی زیادہ اور آسانی سے پوری ہوں گی حالانکہ حقیقت میں ہماری ضروریات مال سے نہیں بلکہ اُس برکت سے پوری ہوتی ہیں جو ہمارے مال میں اللہ تبارک و تعالیٰ عطا فرماتے ہیں۔ اور یہ ’’برکت‘‘ رزقِ حلال سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ’’برکت‘‘ کا مفہوم جس پر واضح ہو جائے اور اگر اس کی حقیقت دل میں بیٹھ جائے تو اُس کا میلان کبھی حرام رزق کی طرف نہیں ہوگا اور وہ ہمیشہ رزقِ حلال کو ہی دنیا و آخرت میں ذریعہ نجات سمجھے گا۔

’’برکت‘‘ کو ایک مثال سے سمجھنے سے کوشش کرتے ہیں۔ فرض کریں ایک شخص نے دن بھر میں 100 روپے کمائے، کھانے پینے کا کچھ ضروری سامان لیا، گھر میں آکر بچوں کو بھی کچھ پیسے دیئے اور کچھ بچا کر بھی رکھ لئے، سب گھر والوں نے ہنسی خوشی کھانا کھایا، اللہ کا شکر ادا کیا اور سکون کی نیند سو گئے۔ دوسری طرف کسی نے دن بھر میں ایک ہزار روپے کمائے، سارا دن بھی پریشانی میں گزرا، گھر آیا تو بچہ بیمار تھا اُس کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا، کرایہ، فیس اور دوائی وغیرہ میں ساری رقم خرچ ہوگئی بلکہ مزید قرض لینی پڑی، بھاگ دوڑ اور تکلیف الگ اور رات بھی پریشانی میں جاگ کر گزری۔ یہی برکت اور بے برکتی کا فرق ہے کہ ایک سو روپیہ گنتی کے لحاظ سے تو کم ہے لیکن اس میں اللہ تعالیٰ نے برکت عطا فرمائی جس کے باعث ضروریات بھی پوری ہو گئیں، کچھ بچت بھی ہوگئی اور سکون و اطمینان بھی نصیب ہوا۔ جبکہ ہزار روپیہ گنتی کے لحاظ سے سو روپے سے زیادہ ہے لیکن بے برکتی کی وجہ سے اس رقم سے نہ تو ضروریات پوری ہوئیں نہ چین و سکون میسر آیا۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ برکت کا مطلب ہے کہ تھوڑی چیز سے زیادہ فائدہ حاصل ہو جائے۔

رزقِ حرام میں مبتلا ہونے کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ حلال روزی سے گزارا ممکن نہیں اور آمدنی میں اضافہ اور روزمرّہ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ناپ تول میں کمی، جھوٹ، دھوکہ، رشوت، سود، جوئے وغیرہ جیسے طریقے اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ اور بعض لوگ تو اس کا برملا اظہار کرنے سے بھی نہیں شرماتے۔ حالانکہ یہ بات مسلمان کے اس عقیدے کے بالکل خلاف ہے کہ رازق صرف اللہ ہے۔ حق تعالیٰ کا ارشادِپاک ہے: ’’اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے وہ جہاں رہتا ہے، اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اسے بھی۔ یہ سب کچھ کتاب روشن میں ﴿لکھا ہوا﴾ ہے‘‘ ﴿ھود:۶﴾۔

یعنی زمین پر چلنے والا ہر جاندار جسے رزق کی احتیاج لاحق ہو، اس کو روزی پہنچانا خدا نے محض اپنے فضل سے اپنے ذمہ لازم کر لیا ہے۔ جس قدر روزی جس کے لیے مقدر ہے یقیناً پہنچ کر رہے گی۔ جو وسائل و اسباب بندہ اختیار کرتا ہے، وہ روزی تک پہنچنے کے دروازے ہیں۔ اور یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے رزق کے حصول کے لئے حلال طریقہ اختیار کرتے ہیں یا حرام۔ اب اگر کوئی اپنا وہ رزق جو اُس کی قسمت میں لکھا ہے اور ہر حال میں اُسے ملنا ہے، خود غلط طریقہ اختیار کر کے اپنے لئے حرام بنا لے تو اس سے بڑھ کر بیوقوفی کی کیا بات ہوگی؟ حالانکہ حرام مال کا آخرت میں کیا انجام ہونے والا ہے یہ قرآن و حدیث میں بالکل واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے اور دنیا میں بھی حرام مال کی نحوست آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے لیکن جب آنکھوں پرحبِ مال کی پٹی بندھ جاتی ہے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ ﴿کسی ناجائز طریقہ سے﴾ حرام مال کمائے اور اس میں سے اللہ کے لئے صدقہ کرے، تو اس کا صدقہ قبول ہو۔ اور اس میں سے خرچ کرے تو اس میں ﴿اللہ کی طرف سے﴾ برکت ہو۔ اور جو شخص حرام مال ﴿مرنے کے بعد پیچھے چھوڑ جائے گا تو وہ اس کے لئے جہنم کا توشہ ہی ہوگا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بدی کو بدی سے نہیں مٹاتا بلکہ بدی کو نیکی سے مٹاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گندگی گندگی کو نہیں دھو سکتی۔‘‘ ﴿مسند احمد﴾۔ حدیث کا حاصل اور مدعا یہ ہے کہ حرام مال سے کیا ہوا صدقہ قبول نہیں ہوتا اور حرام کمائی میں برکت نہیں ہوتی، اور جب کوئی آدمی ناجائز و حرام طریقہ سے کمایا ہوا مال مرنے کے بعد وارثوں کے لئے چھوڑ گیا تو وہ آخرت میں اس کے لئے وبال ہی کا باعث ہوگا ،اس کو حرام کمانے کا بھی گناہ ہوگا اور وارثوں کو حرام کھلانے کا بھی۔

حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’وہ گوشت اور وہ جسم جنت میں نہ جاسکے گا جس کی نشونما حرام مال سے ہوئی ہو اور ہر ایسا گوشت اور جسم جو حرام مال سے پلا بڑھا ہے دوزخ اس کی زیادہ مستحق ہے‘‘﴿ مسند احمد﴾۔

صحیح مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ حرام مال اتنا خبیث اور اتنا منحوس ہے کہ اگر کوئی آدمی سر سے پاؤں تک درویش اور قابلِ رحم فقیر بن کے کسی مقدس مقام پر جا کے دعا کرے لیکن اس کا کھانا پینا اور لباس حرام سے ہو تو اُسکی دعا قبول نہ ہوگی۔ ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ حرام مال سے خریدا ہوا کپڑا جب تک جسم پر رہے گا اس کی کوئی نماز اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہ ہوگی۔

حضرت ابو ہریرہ(رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی کو اسکی پرواہ نہ ہوگی کہ وہ جو لے رہا ہے حلال ہے یا حرام، جائز ہے یا ناجائز‘‘ ﴿بخاری﴾۔ حدیث کا مطلب بالکل ظاہر ہے۔ بلاشبہ وہ زمانہ آچکا ہے۔ آج کتنے لوگ ہیں جو کھانے پینے یا پہننے کے بارے میں حلال یا حرام کی خیال رکھتے ہیں، یہاں تک کہ جو لوگ دیندار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اس بارے میں سوچنا اور تحقیق کرنا ضروری نہیں سمجھتے کہ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز۔ جبکہ حضرات صحابہ کرام (رض) کی زندگیوں میں حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کے باعث اس کا کس قدر اہتمام تھا اس کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ہوتا ہے۔

’’ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت عمر(رض) کی خدمت میں دودھ پیش کیا، آپ(رض) نے اس کو قبول فرما لیا اور پی لیا، آپ(رض) نے اس آدمی سے پوچھا کہ دودھ تم کہاں سے لائے؟ اس نے بتلایا کہ فلاں گھاٹ کے پاس سے گزر رہا تھا وہاں زکوٰۃ کے جانور اونٹنیاں بکریاں وغیرہ تھیں لوگ ان کا دودھ دوہ رہے تھے، انہوں نے مجھے بھی دیا، یہ وہی دودھ تھا۔ حضرت عمر(رض) کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو حلق میں انگلی ڈال کر آپ نے قے کردی اور اس دودھ کو اس طرح نکال دیا‘‘۔

لہٰذا مالی مشکلات سے چھٹکارا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ قرآن و حدیث کے واضح ارشادات کی روشنی میں رزق حلال کمانے کا اور حرام مال سے بچنے کا اہتمام اور کوشش کی جائے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ ﴿آمین﴾
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 192748 views A Simple Person, Nothing Special.. View More