رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سالار، غزوات اور جنگوں کا احوال - 11

غزوہ خندق (احزاب)
23 شوال5 ہجری کو پیش آیا
بنی نضیر کے یہودی جنہوں نے اپنی کینہ توزی اور انتقام کے خیال سے مدینہ کو چھوڑا تھا وہ خاموشی سے بیٹھ گئے، جب یہ لوگ خیبر پہنچے تو ان کے سردارحی بن اخطب اور کنانہ بن ابی الحقیق ابو عامر فاسق اور ایک دوسری جماعت کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوگئے قریش اور ان کے تابعین کو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کی دعوت دی۔ انہوں نے قریش سے کہا کہ محمد کی طرف سے تمہارے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اگر فوراً انہوں نے پسپا کر دینے والے لشکر کی تیاری نہیں کی تو محمد ہر جگہ اور ہر شخص پر غالب آجائیں گے۔

ایک طرف بدر موعد میں قریش کی شکست و سرنگونی اور جنگی قرارداد کے مطابق لشکر اسلام کے خوف سے ان کا حاضر نہ ہونا اور لشکر اسلام کی پے درپے کامیابی نے قریش کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ بڑھتی ہوئی جنگی طاقت کے پیش نظر بنیادی طور پر اسلامی تحریک کی سرکوبی کی فکر کرنی چاہیے۔ اس وجہ سے قریش خود اس بات کی فکر میں تھے کہ وہ ایک عظیم لشکر فراہم کریں اور اب بہترین موقع آن پہنچا تھا۔ اس لیے کہ یہودیوں نے اعلان کر دیا تھا کہ ہم تمہارے ساتھ رہیں گے یہاں تک کہ سرکار دو عالم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیں گے اس وجہ سے قریش کے سرداروں کے ساتھ کعبہ میں گئے اور وہاں انہوں نے قسم کھائی کہ ایک دوسرے کو بے سہارا نہیں چھوڑیں گے ۔ پیغمبر اسلام سے مقابلہ کے لئے آخری فرد کی زندگی تک ایک دل اور ایک زبان ہو کر ڈٹے رہیں گے۔ قریش نے یہودیوں کے سربرآوردہ افراد سے پوچھا کہ تم قدیم کتاب کے جاننے والے اور عالم دین ہو تم فیصلہ کرو کہ ہمارا دین بہت ہے یا محمد کا ۔۔؟ یہودیوں کے نیرنگ باز سرداروں نے جواب دیا کہ”تمہارا دین بہت ہے اور تم حق پر ہو۔“

قرآن اس اتحاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ”کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جن کو کتاب سے کچھ حصہ دیا گیا ہے وہ کس طرح بتوں اور طاغوت پر ایمان لاتے ہیں اور کافرین و مشرکین سے کہتے ہیں کہ تمہارا راستہ مومنین کی بہ نسبت حقیقت سے زیادہ نزدیک ہے“۔

یہودی سرداروں سے مشرکین مدد کا وعدہ کر لینے اور روانگی کی تاریخ معین کر لینے کے بعد یہودیوں نے بھی ان سے وعدہ کیا کہ بنی قریظہ کے یہودیوں کو جو اس وقت ساکن مدینہ تھے، مدد کے لئے بلائیں گے اور لوگوں کو پیمان شکنی اور جنگ پر آمادہ کرنے کے بعد وہ لوگ قبیلہ غطفان کی طرف روانہ ہوئے، قبیلہ غطفان کے افراد نے ان کی ہمراہی کے علاوہ اپنے ہم عہد قبیلہ بنی سلیم کو مدد کے لیے بلایا۔(تاریخ طبری ج۲ ص ۵۶۶)

یہودیوں کی تحریک پر ”تحریک اسلامی کی مخالفت میں بہت بڑا متحدہ محاذ تیار ہوگیا اور مختلف جماعتوں اور گروہوں کے لوگ چاہے وہ مشرکین ہوں، مستکبرین ہوں، یہود و منافقین ہوں، مدینہ سے فرار کرنے والے ہوں، قریش کے مختلف قبائل کے افراد ہوں یا بنی سلیم بنی غطفان، بنی اسد، سب نے آپس میں مل کر اسلام کے خلاف جنگ لڑنے کو تارک کا راستہ سمجھا تاکہ نور خدا کو خاموش کر دیں۔ جنگی اخراجات اور لازمی اسلحہ کی فراہمی یہود کی طرف سے تھی۔

لشکر احزاب کی مدینہ کی طرف روانگی
مختلف قبیلوں اور گروہوں سے اس جنگی عہد و پیمان میں شرکت کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد10 ہزار سے زیادہ تھی اور لشکر کی کمان ابو سفیان کے ہاتھوں میں تھی۔ مختلف گروہ کے جنگجو افراد اسلحہ سے لیس روانگی کے لیے تیار تھے۔ اس زمانہ کے جنگی ایمونیشن اور ساز و سامان سے لیس اتنا بڑا لشکر سرزمین حجاز نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ماہ شوال 5 ہجری میں ابوسفیان نے احزاب کے سپاہیوں کو 3 الگ الگ دستوں میں یثرب کی جانب روانہ کیا۔

لشکر کی روانگی سے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی آگاہی
جب یہ لشکر مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوا تو قبیلہ خزاعہ کے چند سوار نہایت سرعت کے ساتھ پیغمبر کے پاس پہنچے اور سپاہ احزاب کی روانگی کی خبر دی۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آمادگی اور لشکر کی جمع آوری کے اعلان کے ساتھ جنگی ٹیکنیک اور دفاعی طریقہ کارمتعین کرنے کے لئے اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا۔ اس جنگی مشورہ میں یہ بات پیش ہوئی کہ مدینہ سے باہر نکل کر ان سے جنگ کی جائے یا مدینہ کے اندر موجود رہیں اور شہر کو ایک طرح سے محصور بنا دیں۔؟ اس موقع پر جناب سلمان فارسی نے کہا” اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب ہم ایران میں تھے تو اس وقت اگر دشمن کے شہ سواروں کے حملہ کا خطرہ ہوتا تھا تو ہم شہر کے چاروں طرف خندق کھود دیتے تھے۔ دفاع کے لئے جو مجلس مشاورت منعقد ہوئی تھی اس میں سلمان کی رائے کو مان لیا گیا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سلمان کے نقشہ کے مطابق خندق کھودنے کا حکم دیا۔ (مغازی ج۲ ص ۴۴۴)

اس زمانہ میں مدینہ تین طرف سے طبیعی رکاوٹوں جیسے پہاڑوں، نخلستان کے جھنڈ اور نزدیک نزدیک بنے ہوئے گھروں سے گھرا ہوا تھا صرف ایک طرف سے کھلا اور قابل نفوذ تھا۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دس آدمیوں کو 40 ہاتھ کے ایک قطعہ ارض کو کھودنے پر مامور کیا۔ جزیرة العرب کی گرم اور جھلسا دینے والی ہوا کے برخلاف مدینہ، صحراء کی طرح سرد اور تکلیف دہ ہے، جس دن خندق کی کھدائی ہو رہی تھی اس دن صبح سویرے جب آفتاب بھی نہیں نکلا تھا، جاڑے کی سخت سردی میں 3 ہزار مسلمان لبوں پر، پرشور نعرہ اور دلوں میں حرارت ایمانی کے جوش و ولولہ کے ساتھ کام میں مشغول ہوگئے اور غروب آفتاب تک کام کرتے رہے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کام میں مشغول تھے۔ پھاؤڑے چلاتے مٹی کو زنبیل میں ڈال کر کاندھوں پر رکھ کر باہر لاتے تھے۔ سلمان نہایت تیزی سے چند آدمیوں کے برابر کام کر رہے تھے۔ مہاجر و انصار ہر ایک نے کہا کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔ لیکن رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں“۔ (سیرت حلبی ج۳ ص ۳۱۳)

خندق کھودتے کھودتے سلمان کے سامنے ایک بہت بڑا سفید پتھر آگیا۔ خود انہوں نے اور دوسرے افراد نے بھی کافی کوشش کی مگر وہ پتھر اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ خود تشریف لائے اور کلہاڑی سے اس پتھر پر ایک ضرب لگائی اس ضرب کی وجہ سے ایک بجلی چمکی اور پتھر کا ایک حصہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صدائے تکبیر بلند کی۔ جب دوسری اور تیسری بار آپ نے کلہاڑی چلائی تو ہر ضرب سے بجلی چمکی اور پتھر کے ٹکڑے ہونے لگے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہر بار صدائے تکبیر بلند کرتے رہے، جناب سلمان نے سوال کیا کہ آپ بجلی چمکتے وقت تکبیر کیوں کہتے ہیں؟

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب پہلی بار بجلی چمکی تو یمن اور صنعاء کے محلوں مکو میں نے کھلتے دیکھا، دوسری مرتبہ بجلی کے چمکنے میں شام و مغرب کے کاخہائے سرخ کو فتح ہوتے دیکھا، اور جب تیسری بار بجلی چمکی تو میں نے دیکھا کہ کاخہائے کسریٰ میری امت کے ہاتھوں مسخر ہو جائیں گے۔

مومنین رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کیے ہوئے وعدے سے خوش ہوگئے اور انہوں نے ”بشارت بشارت“ کی آواز بلند کی۔ لیکن منافقین نے مذاق اڑایا اور کہا کہ حالت یہ ہے کہ دشمن ہر طرف سے ٹوٹے پڑ رہے ہیں اور ہم میں اتنی جرات نہیں ہے کہ ہم اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے باہر نکل سکیں اور سرکار دو عالم کاخہائے ایران و روم کی فتح کی گفتگو کر رہے ہیں۔ سچ تو ہے کہ یہ باتیں فریب سے زیادہ نہیں ہیں۔ (معاذ اللہ)۔ قرآن منافقین کے بارے میں کہتا ہے” منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری (نفاق) ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدے جو خدا اور اس کے رسول کر رہے ہیں یہ دھوکہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ (تاریخ طبری ج۲ ص ۵۶۹)

منافقین خندق کھودنے میں مسلمانوں کی مدد کر رہے تھے مگر ان کی کوشش تھی کہ کسی بہانے سے اپنے کاندھوں کو اس بوجھ سے خالی کرلیں اس طرح وہ اپنے نفاق کو آشکار کر رہے تھے۔ خندق کی کھدائی تمام ہوئی اس کا طول21000 ہاتھ تقریباً 5 کلومیٹر گہرائی 5ہاتھ اور اس کی چوڑائی اتنی تھی کہ ایک سوار گھوڑے کو جست دے کر پار نہیں کرسکتا تھا۔ آخر میں خندق کے بیچ میں کچھ دروازے بنا دیئے گئے اور ہر دروازہ کی نگہبانی کے لئے ایک قبیلہ معین کر دیا گیا۔ زبیر بن عوام کو دروازہ کے محافظین کی سرپرستی پر معین کیا گیا۔ (تاریخ یعقوب ج۲ ص ۵۰)

مسلمانوں نے بھی خندق کے پیچھے اپنے لیے محاذ بنالیے اور شہر کے دفاع کے لیے تیر انداز مکمل آمادگی کے ساتھ موجود تھے۔

۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔

نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 111833 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More