قسمت کا لکھا ہی ملتا ہے اور کچھ نہیں: (حصہ سوئم)

سچ ہے کہ حرص عقل مند کی آنکھ بھی بند کر دیتی ہے۔ یہ پرندوں اور مچھلی کو بھی جال میں پھنسا دیتی ہے، یہ جوان جو نہی کشتی میں سوار ہوا ، اس نے ملاح کی داڑھی اور گریبان پکڑ لیے اور کھینچ کر جھنجھوڑا اور مارنا شروع کر دیا۔ کشتی میں ملاح کے سوار دوست نے مدد کے لئے ہاتھ اُٹھایا مگر سخت معاملہ دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا۔ سب سواریوں نے صلح کرائی اور کرایہ کا مطالبہ رفع دفع ہو گیا۔

یہ حقیقت ہے کہ جب تو لڑائی دیکھے تو تحمل سے کام لے ، اس لیے کہ نرمی لڑائی کا دروازہ بند کر دیتی ہے ، اور زبان کی مٹھاس اور مہربانی اور شفقت ہاتھی کے بال بال کو کھینچ لانے میں کام آتی ہے ، جب توکہیں لڑائی جھگڑا دیکھے تو نرمی اختیار کر کیونکہ تیز تلوار اپنی سختی کے باوجود نرم ریشم کو نہیں کاٹتی۔

القصہ لوگوں نے نوجوان کی خوشامد کی اور منافقانہ چال سے اسے نرم کیا، پیار اور شفقت دکھائی اب دوبارہ کشتی روانہ ہو گئی اور دور کافی گہر ے پانی میں جا کر ملاح نے کہا کہ کشتی میں کچھ خرابی ہو گئی ہے ۔ تم میں سے جو زیادہ طاقتور ہے اس کشتی سے اتر کر اس ستون پر کھڑے ہو کر رسی کھینچے تاکہ یہ نیچے بہہ کر نہ چلی جائے۔ اور میں خرابی کو درست کر لوں۔ جوان نے اپنی طاقت کے غرور سے معاملہ کو نہ سوچااور نہ ہی ملاح سے تلخی کے معاملہ پر فکر کی اور حکماء کا قول بھی ذہن میں نہ لایا۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ جس کا تو نے دل دکھایا ہو اگر اس کے بعد سینکڑوں آرام بھی تو اُسے پہنچائے وہ ایک رنجش کو بھو نہیں سکتا۔ جیسا کہ تیر زخم سے نکل آتا ہے مگر اس کی تکلیف دل میں گھسی رہتی ہے۔ اگر کسی کو ستایا جائے تو وہ بعد میں بھی دل کو صاف نہیں کر پاتا۔ ایسے ہی اگر تو دشمن کو ستائے تو اس سے مطمئن مت ہو۔

جو نہی وہ جوان کشتی کی رسی لے کر ستون پر چڑھا ۔ ملاح نے رسی اس کے ہاتھ سے کھینچ لی، اور کشتی کو چلا دیا۔وہ جوان بے چارہ گہرے پانی میں ستون پر اکیلا رہ گیا۔ اس طرح اس نے بڑی پریشانی کے دو دن وہاں گزارے ۔ تیسرے دن نیند میں تھا کہ اچانک اوپر سے پانی میں گرا کچھ غوطے کھائے اور ہاتھ پاؤ ں مارنے کے بعد کنارے پر جالگا اس کی زندگی ابھی باقی تھی۔ بھوک سے نڈھال درختوں کے پتوں پر دو دن گزارے اور آہستہ آہستہ چل کر جنگل کی طرف گیا بھوک پیاس سے برے حال میں تھا۔ اچانک وہاں ایک کنواں دکھائی دیا۔ وہاں پہنچا تو پانی قیمتاََ دیا جا رہا تھا۔ اس نے پانی مانگا، انہوں نے رحم نہ کھایا، جوان نے زبردستی پینا چاہا۔ اس پر اُسے چند آدمیوں نے پیٹا، یہاں تک کہ وہ زخمی ہو گیا۔

سچ ہیکہ جب مچھر بھی بہت زیادہ ہو جائیں تو ہاتھی مار گراتے ہیں ، اگرچہ وہ بہادری اور سختی والا ہوتا ہے۔ ایسے ہی اگر چیونٹیوں میں اتفاق ہو جائے تو یقیناخونخوار شیر کی کھال اتار لیتی ہیں۔

وہاں سے مار پیٹ ہوئی تو مایوس ہو کر ایک راہ پہ آیا ۔ اتفاق سے ایک قافلہ مل گیا ان کے ہمرا ہ چلتا رہا۔ رات کو ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں جنگلی ڈاکوؤں کا بڑا خطرہ تھا۔ سبھی خوف سے کانپ رہے تھے۔ گویا انہیں موت نظر آرہی تھی ۔ مگر وہ ان لوگوں سے بولا کہ خوف نہ کھاؤ میں اکیلا بھی پچاس مردوں کا مقابلہ کر سکتا ہوں ۔ آپ لوگوں کی معمولی مدد سے خطرہ ٹل جائے گا۔ اب قافلہ والوں نے اس کی بات پر کچھ تسلی پائی اور اس کے ہمراہ ہونے پر خوشی کا اظہار کرنے لگے ۔ انہوں نے اس کی کھانے پینے میں مدد ضروری سمجھی۔ جوان کئی دنوں سے بھوکا تھا۔ کچھ کھانا کھایا اور پانی پی کر پر سکون ہوا اور فوراََ سو گیا۔ اس قافلہ میں ایک تجربہ کا ر بوڑھا بھی تھا۔ اس نے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے تو چوروں کی نسبت تمہارے اس رہبر سے زیادہ ڈر ہے۔ اس نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی کے پاس چند درہم جمع ہو گئے ۔ اسے چوروں کا خوف ہوا ۔ وہ جاگتا رہا دوسری رات کو وہ اپنے دوست کو بلا لایا، تاکہ تنہائی کی وحشت اور چوروں کا خطرہ نہ ہو۔ وہ دوست چند رات اس دیہاتی کے ہاں رہا۔ جیسے ہی اُسے درہموں کی خبر ہوئی، موقع پا کر وہ اُڑا لیے اور بھاگ گیا۔ دوسرے دن لوگوں نے دیہاتی کو خالی ہاتھ اور روتے دیکھا۔ اس کا حال معلوم کیا کسی نے کہا شاید تیری رقم چور لے گئے ۔ مگر وہ بولا نہیں خدا کی قسم راہبر لے گیاہے۔
(جاری۔۔۔۔حصہ چہارم)
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182335 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More