میڈیکل سائنس اور مسلمانوں کی خدمات

اسلام میں بنیادی طور پر علم کی دو ہی قسمیں کی گئی ہیں ،علم نافع اور علم غیر نافع ، علم نافع سے ایسے علوم مراد ہیں جو انسانیت کے لئے دنیا یا آخرت کے اعتبار سے فائدہ مند ہو ، غیر نافع وہ علوم ہیں جو دین یا دنیا کے اعتبار سے بے فائدہ یا نقصان دہ ہوں ۔ رسول اﷲ ﷺ نے ایسے علم سے اﷲ کی پناہ مانگی ہے ، جو غیر مفید ہو ،اور ایسے علم کی اﷲ سے دعا مانگی ہے جو نفع بخش ہو ۔ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ حکمت مومن کا گم شدہ مال ہے ۔ اس ارشاد کا منشاء بھی یہی ہے کہ جو علم و حکمت کی بات حاصل ہو اور وہ انسانیت کی مفاد میں ہو، اس کو اس رغبت اور اشتیاق کے ساتھ حاصل کرنا چاہئے جیسا کہ کوئی شخص اپنے گم شدہ مال کو محبت و تڑپ اور شوق ورغبت کے ساتھ حاصل کرتا ہ۔ جو علو انسانیت کے نافع اور فائدہ مند ہیں ان میں سے ایک طب اور میڈیکل سائنس ہے ۔ یہ خدمت خلق کا ایک نہایت اہم ترین اور ضروری ترین ذریعہ ہے ، کیونکہ کوئی انسان اس ضرورت سے بری نہیں ، دولت مند ہو یاغریب ، بادشاہ ہو یا رعایا ، طاقت ور و تنومند ہو یا جسمانی اعتبار سے کمزور نحیف ، بیماری کے پنجہ سے کوئی محفوظ نہیں یہ ہماری ہی دراصل انسان کی عجز اور خدا کے سامنے اس کی مجبوری و مقہوری کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ ورنہ جانے انسان کس قدر کود سر اور سرکش ہو جائے ، اس لئے میڈیکل سائنس نہ صرف انسان بلکہ تمام حیوانات کے لئے ایک ناگزیر ضرورت ہے ۔اور اب تو طب و عالج کا دائرہ فیض نبا تا ت تک متعدی ہو گیا ہے ، اسی لئے سید نا حضر ت علی ؓ سے مروی ہے کہ اصل علم تو دو ہی ہیں ایک تو فقہ طریقہ زندگی کو سمجھنے کے لئے اور دوسرے طب اصلاح بدن کے لئے اسی طرح کی بات مشہور فقیہ اور محدث امام شافعی ؒ سے بھی منقول ہے ۔ اسی لیے مسلمانوں نے شروع سے اس فن کو اپنی تحقیق کا خاص موضوع بنا یا ہے اور اس سلسلے میں مسلمان اطباء کی خدمات اتنی واضح اور نمایاں ہے کہ ان کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مغرب نے باوجود اس کے کہ مسلمانوں کی علمی اور سائنسی خدمات پر پردہ رکھنے کی بے حد کوششیں کی ہیں ۔ اس کے باوجود کہیں کہیں وہ بھی اس بات پر مجبورہو ئے کہ مسلمان سائنس دانوں کی خدمات کا اعتراف کریں ۔ مسلمان اہل فن کا عام طریقہ رہا ہے کہ وہ کسی کام کو اپنی طرف منسوب کرنے سے گریز کرتے تھے اور اس کو اخلاص سے خلاف سمجھتے تھے اسی لئے آج کل جس طرح نو ایجا د داؤاؤں اور دریافتوں کو لوگ اپنے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کے یہاں یہ طریقہ مروج نہیں تھا ۔ اس لئے مسلمانوں کی بہت ہی تحقیقات پر پردہ گمنا می پڑا ہوا ہے۔ اس کے باوجود مسلمان سائنس دانوں کی جو خدمات سامنے آگئی ہیں وہ بھی کچھ کم نہیں ہیں، اس وقت ان ہی خدمات کا ایک سر سری تذ کرہ مقصود ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم ترین نام ابو لحسن علی بن سہل طبری( ۲۵۱ھ) کا آتا ہے جو بغداد کے تمام شفا خانوں پر نگران اعلیٰ تھے ۔ یہ اپنے طبی تجربات کو ڈائری میں قلمبندی کرتے جاتے تھے۔ جس کا تعلق ادو یہ کی خصوصیات علم الحیو انات ، صحت موسم اور آب و ہوا سے ہوتا ، ا ن ہی تجربات کو انہوں نے ایک ضخیم کتاب کی صورت میں ابجدی ترتیب سے ’’ فردوس الحکمت ‘‘ کے نام سے مرتب کیا یہ پہلی طبی انسا ئیکلو پیڈیاہے۔ جو طبری کا بہت بڑا کار نا مہ ہے ،اس کے علاوہ بھی طب کے موضوع پر طبری کی بعض اور بھی کتابیں ہیں ۔ طب کا ایک اہم شعبہ آنکھ سے متعلق علاج کا رہا ہے آنکھ انسانی جسم کا انتہائی نازک عضو ہے۔ جو بہت ہ باریک شریا نوں پر مشتمل ہے ابو القاسم عمار مو صلی ( ۳۷۷ھ۱۰۰ء)امراض چشم کے نہ صرف بڑے ماہر تھے بلکہ ا س شعبہ میں کئی جدید تحقیقات و اکتشافات بھی پیش کئے ۔ مو تیا بند کا آپریشن سے سے پہلے عمار موصلی ہی نے کیا ۔ گو ی موصلی آنکھوں کا سب سے بڑا سرجن ہے ۔ آنکھ سے متعلق بیماریوں اور ان کے علاج کے طریقوں کی بابت اپنی تحقیقات اور تجربات کا نچوڑ موصلی نے ’’ علاج العین ‘] کے نام سے مرتب کیا جو اس فن کی نہایت اہم کتاب تصور کی جاتی ہے ۔ یورپ میں اس کا ترجمہ بہت پہلے ہو چکا ہے ۔۱۹۰۵ میں جرمنی زبان میں بڑے اہتمام سے اس کا ترجمہ شائع ہوا ہے ۔

اس کے بعد طب کی تاریخ میں ہ عظیم الشان نام آتا ہے جسے میڈیکل سائنس کی تاریخ ابو القاسم زہر اوی ( ۳۹۵ھ۱۰۰۹ء) کے نا م سے یاد کرتی ہے اس کے سامنے جبین عقیدت خم کرتی ہے یہ طب کی تاریخ کا پہلا سرجن ہے ۔ جس نے آ پر یشن کے فن کو مرتب کیا ، اس کے آلات بنائے اور ایک سو سے زیادہ آلات سر جری ایجاد کئے ، موتیا بند اور ٹو نسل کا آپریشن کیا ۔ آپریشن کے نازک طریقے ایجاد کئے ، حلق ، سر ، گردہ ، پیٹ اور آنکھوں کے آ پریشن کا طریقہ بتا یا ، مریض کے بے ہوش کرنے کے سلسلے میں مناسب دواؤں کی رہنمائی کی ، کینسر کے مرض پر خاص تحقیق ک یاور بتا یا کہ کینسر کے پھوڑے یا زخم کو چھیڑ نا نہیں چاہیے ۔ غرض ، سر جری کی دنیا میں اس کے کار نا مے ناقابل فراموش ہیں ، مغربی مصنفین کو بھی جس کا اعتراف ہے ۔ زہراوی نے اپنے ملی تجربات کو ڈائری کی صورت میں لکھنے کا اہتمام کیا ، یہ ڈائری ’’ تصریف ‘‘کے نام سے موسوم ہے اور سرجری کے فن میں نہایت اعلیٰ کتاب تصور کی جاتی ہے ۔

تاریخ طب کا کون رمز آشنا ہوگا، جو امام ابو بکر محمد زکریا رازی ( ۳۰۸ھ۱۹۳۲ء) کے نا سے آشنا ہو،۱۹۳۰ میں پیرس میں رازی کی ہزار سالہ برسی بڑے اہتمام سے منائی جا چکی ہے اور بین الا قوامی طبی کانگریس کے اجلاس لندن منعقد ہ ۱۹۱۳ء میں رازی اور فن طب کو ایک اہم موضوع کی حیثیت سے شریک رکھا گیا اور ان کو فن طب کا امام تسلیم کیا گیا،طب کے میدان میں رازی کی خدمات بہت وسیع ہیں ، فرسٹ ایڈ کا طریقہ رازی ہی کی ایجاد ہے ۔ اس نے جری بوٹیوں پر بہت تجربات کئے ہیں ۔ وہ طبیعات ( Physics) کا بھی بڑا ماہر تھا ۔ اسی نے نا میاتی اور غیر نا میاتی کیمیا کی تقسیم کی ہے۔ دواؤں کے صحیح وزن کے لئے ’’میزان طبعی ‘‘ ایجاد کی۔ جس سے چھوٹی چیز کا بھی وزن معلوم کیا جا سکتا ہے جراحی کے لئے نشتر (Seton) اسی نے بنا یا ہے الکحل جو آج ایک کثیر المقا صد محلول ہے۔ رازی ہی اس کا موجد ہے رازی کا سب سے بڑا طبی کار نامہ چیچک کے بارے میں اس کی تحقیقات ہیں ، اس نے چیچک پر تحقیق کی ، اس کے اسباب دریافت کئے احتیاط اور علاج کا طریقہ بتایا اور اس مرض کے بارے میں اپنی تمام تحقیقات کو کتابی شکل میں مرتب کیا ، جو چیچک کے موضوع پر دنیا کی پہلی کتاب ہے ۔ یہ کتاب مدتوں یورپ کے میڈیکل کا لجوں میں داخل نصاب رہی ہے۔ اس کے علاوہ الحاوی ، المصوری اور متعدد کتابیں رازی کے قلم کی رہین منت ہیں اور کثرکتابوں کا یورپین زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے رازی کو حکومت وقت نے ایک اچھے اسپتال کے قیام کے لئے مامور کیا اور بہتر جگہ کے انتخاب کرنے کا مشورہ دیا ۔ امام رازی نے یہ تد بیر کی کہ شہر کے مختلف مقامات اور محلوں میں گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے لٹکا دیئے اور تین دنوں تک ان کے رنگ ، بو اور مزے میں ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینا رہا ، تین دن گز رجانے کے باوجود جس مقام کا گوشت زیادہ سے زیادہ اپنی کیفیت پر باقی رہا، رازی نے اس جگہ کا اسپتال کے لئے انتخاب کیا اس سے اس عظیم محقق کی ذہانت اور خدا داد فراست کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پیشہ طب میں سنان بن ثابت حرانی ( ۳۲۰ھ۹۴۲ء ) کا نام بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، جس نے فن طب میں پیشہ ورانہ اصلاحات کیں ، اطباء کے لئے اسنا د جاری کی گئیں ، مطب کرنے کی اجازت دی گئی اور عطائی قسم کے اطباء کو علاج سے منع کیا گیا اس نے حکومت کی طرف سے فن طب کی اہلیت کا دعویٰ کرنے والے ایک ہزار امیدواروں کا امتحان لیا ۔ جن میں سات سو کا میاب ہوئے، ان ہی کو مطب سر ٹیفکیٹ جاری کی گئی سنان بن ثابت حرانی نے گشتی شفا خانہ کا طریقہ بھی ایجاد کیا ، کچھ اطبا ء اس بات پر ما مور تھے کہ دو اؤں کے ساتھ مختلف محلوں کا دورہ کریں اور مریض کا ان کے مقام پر علاج کر دیں ۔

علم و فن کی دنیا میں ایک نہایت قابل احترام شخصیت حکیم ابو نصر فارابی ( ۲۳۸ھ۹۵۰ء) کی ہے جس کا شمار تاریخ کے ذہین انسانوں میں ہوتا ہے ، فا رابی مختلف علوم و فنون کا ما ہر اور جامع شخص تھا ، ریاضی اور علم تمدن فارابی کاخاص موضوع ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ علم نفسیات کا بھی ماہر تھا اور اس فن کو طب و علاج سے جو تعلق ہے وہ ظاہر ہے ۔

ادویہ اور میڈیسن کی تحقیق میں ایک نہایت نمایاں اور ناقابل فراموش کا م بلکہ کار نامہ ابو منصور موفق ہروی ( ۴۰ ۳ھ ۹۶۱ء ) کا ہے ، ابو منصو ر نبا تات (Botany) کا بڑا اعلیٰ درجے کا محقق تھا ،نبا تا ت کے علاوہ اس نے جماداتی ادویہ پر بھی تحقیق کی ہے ادویہ پر اس کی کتاب ’’ حقائق الا دویۃ ‘‘ بڑی معر کہ کی چیز سمجھی جاتی ہے اس کتاب میں ۵۸۵ دواؤں کے نام اور ان کی صحیح پہچا ن کی نشاند ہی کی گئی ہے۔ اس نے ادویہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ معدنی ، نبا تاتی ، اور حیوانا تی ، اسی نے خاصیت اور اثرات کے لحاظ سے دواؤں کے چاردرجے کئے ہیں ۔ گرم و تر گر وخشک سردوتر ، سردو خشک معدنی مفردات اور مرکبات میں ان کی کئی ایجادات اور نئے انکشافات ہیں ، غرض وہ دواؤں کے مثبت اور منفی خواص کا ماہر تھا ، اس نے اس مقصد کے لئے بہت سارے تجربات کئے اور طویل و پُر مشقت اسفا ر کو برداشت کیا ۔حمل اور جنین طب کا ایک اہم اور نازک موضوع ہے ،اس کے ماہر تھے عریب بن سعد الکا تب قرطبی ( ۳۵۶ھ ۹۷۶ء ) امراض نسواں عریب بن سعد کا خاص موضوع تحقیق ہے ۔ حمل کے استقرار اور جنین کی حفاظت ، زچہ اور بچہ نیز دایہ گری کے موضوع پر عریب کی بہت اہم تالیفا ت ہیں ، جو اس کے بہت طویل تجرابات اور تحقیقات کا نچوڑ ہیں ۔ وہ نبا تات کا بھی ماہر تھا اوراس نے نبا تات سے متعلق بھی بڑے قیمتی تجربات بیان کئے ہیں ۔امراض چشم کے ماہرین میں ایک نہایت اہم نام علی بن عیسی ( ۴۴۱ھ ۱۰۳۱ء ) کا ہے ۔ عمار موصلی کے بعد یہ دوسرے بڑے ماہر امراض چشمہیں علی بن عیسیٰ نے امراض چشم سے متعلق تین جلدوں میں نہایت مفصل کتاب’’ تذکرۃ الخحلین‘‘ لکھی ہے جو گویا اس موضوع پر انسا ئیکلو پیڈیاہے ۔ اس کتاب میں آنکھ سے متعلق ۱۳۰ بیماریوں کا ذکر آیا ہے نیز آنکھوں کے لئے مفید ۱۴۳ مفرد دواؤں کے نام اور ان کی خصوصیات اس کتاب میں مذ کور ہیں ۔ ۱۴۹۹ ء میں اٹالین ۱۹۰۳ میں فر ا نسیسی اور ۱۹۰۴ء میں جرمنی زبان میں اس کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے اور بڑے بڑے اہل فن نے مصنف کی عبقریت اور کتاب کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے ۔اب اس کے بعد فن طب کے امام الا ئمہ شیخ حسین بو علی سینا ( ۴۲۸ھ ۸ ۱۰۳ء) کا نام آتا ہے ، جن کے نا م پرد نیا طب کے بڑے اصحاب تحقیق اور ماہرین فن کی گردن اعتراف بھی خم ہو جاتی ہے شیخ بو علی سینا سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں ، جن میں سے اکثر کتابیں یورپین زبانوں میں منتقل ہو چکی ہیں شیخ کو دنیا کی عظیم باکمال شخصیتوں میں شمار کیا گیا ہے طبیعات ، حاتیات ، تشریح الاعضاء (Biology) منافع اعضاء (Physiology) نیز علم العلاج اور علم الامراض وعلم لادویہ کا عظیم ماہر اور محقق سمجھا جاتا ہے شیخ کی کتابوں اور خدمات کے سر سر ی تعارف کے لئے بھی بڑی تفصیل مطلوب ہے ۔ شیخ کو علم النفس کا موجد سمجھا جاتا ہے شیخ نے اعضا ء جسما نی کی اعضا مفردہ اور اعضا مر کبہ کی حیثیت سے جو تقسیم کی ہے وہی آج تک قائم ہے ۔شیخ نے روشنی کی رفتار پر بھی تحقیق کی ہے شیخ کی مشہور کتاب ’’ القانون ‘‘ صدیوں یورپ کی طبی در س گاہوں میں داخل نصاب رہی ہے اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ لا طینی زبان میں پندر ہویں صدی میں سولہ بار اور سو لہویں صدی میں بیس بار اس اس کا ترجمہ طبع ہو چکا ہے ۔۱۹۳۰ء میں اس کا انگریزی ترجمہ ہوا یہ کتاب پانچ جلدوں میں ہے۔ تشریح اعضا ء منافع اعضا ء اور علم العلاج اس کا موضوع ہے ۔ ڈاکٹر ہورٹن نے جرمن زبان میں شیخ کی کتاب ’’ الشفاء ‘‘ کا ترجمہ کیا ہے اور اس کی شرح لکھی ہے۔ تشریح اجسام کے ماہرین اور امراض چشم کے با کمال معا لجین ایک نمایاں نام علاء الدین ابو الحسن ابن النفیس قرشی ( ۱۲۰۱۔ ۸۹ ۱۲ء ) کا ہے۔ ابن النفیس کا شمار دنیا کے ممتگاز اطباء میں ہے۔ اس نے شیخ بوعلی سینا کی کتاب ’’ القانون ‘‘ پر بھی بحث کی ہے اور بعض امور میں ان سے اختلاف رائے بھی کیا ہے۔ ابن النفیس کا بہت بڑا کا رنامہ حیوانی اجسام میں دور ان خون کے نظام کی دریافت ہے۔ اسی نے سب سے پہلے یہ ثابت کیا کہ دوران خون مسلسل جاری ہے۔ جو پھیپھڑوں میں پہنچ کر تازہ ہوا حاصل کرکے پورے جسم میں دوڑ تا رہتا ہے ۔، عام طور پر یہ کارنا مہ ولیم ہاروے (Harvey William) ( ۱۶۸۷) کے سر باندھا جاتا ہے یہ تاریخ کے ساتھ کھلی نا انصافی ہے ، درحقیقت سب سے پہلے اس کی دریافت ابن النفیس نے کی ہے۔ طبی تحقیقات میں لسان الدین بن خطیب ( ۱۳۱۳ء تا ۱۳۷۴ء) کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا ، اسی نے سب سے پہلے متعدی اور غیر متعدی امراض کی شناخت کی پھر متعدی امراض پر تحقیق کرتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا کہ کچھ ان دیکھے جراثیم بھی پائے جاتے ہیں جو امراض کے متعدی ہونے کا باعث ہوتے ہیں ۔ یقینا یہ ابن الخطیب کا بہت بڑا کا رنامہ ہے ۔ طا عون کے مرض پر بھی اس کی تحقیقات نہایت قیمتی سمجھی جاتی ہیں ۔ بعد میں فن طب جو ترقیا ں ہوئیں ان میں جراثیم کے وجود کے نظر یہ کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی اور اسی کی روشنی نئی نئی دوائیں ایجاد پڈیر ہوئیں اور جن امراض کو لا علاج سمجھا جا تا تھا ۔ ان کی دوائیں ایجاد پذیر ہوئیں ۔
MD Mushahid Hussain
About the Author: MD Mushahid Hussain Read More Articles by MD Mushahid Hussain: 19 Articles with 27056 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.