ایک کمہار درکار ہے

اگر آئینہ چہرہ دکھانے کی بجائے انسان کے پوشیدہ اعمال کردار اور کرتوت ظاہر کرنا شروع کردے تو انسان جو آئینے سے بڑا پیار کرتا ہے اسے کبھی بھی نہ دیکھے یا اگر انسان اپنے گریبان میں دیکھنے کی ہمت و جسارت کرے اور یہ حوصلہ پیدا کرے مجھ میں کیا کمی کوتاہی اور خامیاں ہیں تو پھر وہ ضرور دوسروں کے بارے ریمارکس پاس کرنے اور ہرزہ سرائی کرنے سے کسی حدتک گریز کریگا۔ لیکن اپنے بارے میں جاننے کیلئے کوئی بھی بے تاب نہیں ہمیں تو بس اوروں کے عیوب و نقائص سے سروکار ہوتا ہے دوسرے لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے میں ہمیں تسکین ملتی ہے اور اس میں ید طولی حاصل ہے اور یہ سلسلہ ہم اس وقت مزید عود کر شدت کے ساتھ درپیش ہوتا ہے جب کوئی دوسرا ہمارے گریبان میں جھانکتا ہے یہ ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتاہے تو ہم اسے کھانے کو دوڑتے ہیں ناپسندیدگی اور نفرت کا اظہار کرتے ہیں اس سے قطع تعلق کرلیتے ہیں کیوں؟ کیونکہ وہ دوسرا یا تیسرا شخص ہوتا ہے جس کی سچی باتیں کڑوی اور تلخ ہوتی ہے اور ہم ان کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں لیکن کیا ہم خود اس آئینے کی مددسے اپنے بارے میں جان کر اپنے آپ سے نفرت کرسکتے ہیں کراہت محسوس کرسکتے ہیں ؟ نہیں ہم نہیں کرسکتے اس لئے ہم اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکتے بلکہ دوسروں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ ہمارے بارے میں اپنی رائے قائم کریں جو کہ ہمیں قابل قبول نہیں ہوتی ۔ اس لئے تو مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ خوداحتسابی کا عمل سب سے بہتر ہے اگرخلوص نیت اور صدق دل سے کیا جائے۔

آجکل نیب نیب ہورہی ہے نیب کو تنقید و تصحیک کا نشانہ بنایاجارہا ہے تھریٹ دیئے جارہے ہیں وزیر اعظم سے لیکر ایم این اے تک ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے نیب کا احتساب کسی کو ہضم نہیں ہورہا ہے دکھایا جو آئینہ تو برا مان گئے کے مصداق ہر ایک ناراضگی و غصے کا اظہار کررہا ہے کوئی پر کاٹنے کی بات کررہا ہے تو کوئی ناخن تراشنے پر اتارو ہے کسی کو ناخنوں کے بڑھنے پر اعتراض ہے تو کوئی اس کی اڑان سے خائف ہے کسی کے ذہن پر نیب کا آسیب سوار ہے تو کسی کا دل نیب کی مٹھی میں بند ہونے پر تیار ہے کوئی اپنے آپ کو صاف ستھرا پیش کرکے اپنی پگڑی اچھالنے پر خفا ہے تو کوئی اس بات سے نالاں ہے کہ کوئی دوسرا اپنے ناخنوں سے ا نکے جسم کو کیوں نوچ رہا ہے کسی نے اپنی خفت مٹانے اور بہادری جتانے کیلئے بیان داغ دیا ہے کہ نیب سے ناراض ہیں اور نہ ہی اس سے خوفزدہ ہیں۔ مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان تحریک انصاف اور دیگرجماعتیں اور ان کے ترجمان اور مشیران ہر روز نیب کے حوالے سے بیان داغتے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں جماعت کا سربراہ دھمکی لگاتا ہے اپنی اوقات میں رہنے کا مشورہ دیتا ہے اور سنگین نتائج بھگتنے کا عندیہ دیتا ہے اسی جماعت کے ایک اور سینئررہنما گنج کے خوف سے ناخن تراشنے کی بات کررہے ہوتے ہیں چوہدری شیر علی کے مطابق نیب بھارت سے آئی ہوئی کوئی مقدس گائے نہیں ہے احتساب سب کا ہونا چاہئے مڑے تاجروں سے مک مکا کرلیا جاتا ہے صرف سیاستدانوں ہی نہیں عدلیہ کے احتساب کے ساتھ ساتھ خود نیب کے لوگوں کا بھی ایک ضروری عمل ہے جبکہ دوسری طرف اس جماعت کے انتہائی سینئر رہنما چیئرمین نیب چوہدری قمر زمان کا دفاع کررہے ہوتے ہیں اوروزیراعظم کے بیان کی تاویل بھی دے رہے ہوتے ہیں ان کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کا بیان نیب اور اس کے چیرمین کو نشانہ بنانا نہیں تھا بلکہ وزیراعظم کسی کی باتوں میں آکر ایسا کہہ گئے تھے انہیں اتنا ڈرایا گیا اور ایسا منظر نامہ پیش کیا گیا کہ وزیراعظم کو اپنی تجارت و معیشت خطرے میں نظرآئی کیونکہ بتانے والے پاکستان کے بڑے تاجر تھے اور اپنے پیٹی بھائیوں کی بات کو نظر انداز کرنا…… توبہ توبہ۔ بس پھر کیا تھا جو دل میں آئی زبان پر لے آئے اور زبان سے نکلی بات کمان سے نکلے تیر کی مانند واپس نہیں آسکتی لیکن اس کو justify کرنے کیلئے ایک پوری فوج تیار ہے اس لئے وزیر اعظم کا مطلب یوں نہیں تھا بلکہ یوں تھا یونہیں کہہ رہے تھے بلکہ ان کامقصد تو کچھ یوں تھا کی گردانیں ہر طرف سے سنائی دیتی رہیں۔ ویسے بھی نواز شریف اور شہباز شریف کے بارے میں ہمارے تجزیہ کاروں اور دانشوروں اور اہل قلم کی رائے یہی ہے کہ ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو‘‘

دوسری طرف قمر زمان کائرہ نیب کے گن گاتے دکھائی دیتے ہیں اور یو سف رضا گیلانی اپنی پگڑی کو اچھلنے سے بچانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں وہ اپنے آپ کوصاف ستھرا گردان رہے ہیں ان تمام باتوں سے قطع نظر نیب کا ادارہ جس مقصد کیلئے بنایا گیا ہے اسے اپنے مقصد پر کاربند رہنے اور رکھنے کی ضرورت ہے بلا تفریق بلا اشتعال اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عربی و عجمی سیاہ و سفید سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہئے کیونکہ جو مجرم ہے اسے اس کے گناہوں کی سزا ملنی چاہئے اور مجرموں کے سہولت کاروں کو بھی ان کے ساتھ شامل کرنا چاہئے جو یقینا ان کے کردہ کرتوتوں میں ان کے برابر کے نہ سہی حصہ دار ضرور ہیں اور ان سب کو سیدھا کرنے کیلئے ایک کمہار کی ضرورت ہے وہ کمہار جسے ایک بادشاہ اپنے گدھوں کو سیدھا رکھنے پر بنا پر بادشاہت دے دیتا ہے اور جب اس کے سامنے ایک چور کو لایا جاتا ہے تو وہ اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ہے توجلاد ایسا نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے کہ چور وزیر کاخاص بندہ ہے کمہار پھر ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ہے تو وزیر اس کی سفارش کرتا ہے اب بادشاہ حکم دیتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو اور وزیر کی زبان کاٹ دو اور ایسا ہی کیا جاتا ہے بس پھر کیا تھا کہ ملک میں تمام درباری و خوشامدی چیلے اور کرچھے سب سیدھے ہوجاتے ہیں لہذا اس قوم کیلئے ایک کمہار کی ضرورت ہے لیکن اس کمہار کو بادشاہ کون بنائے گا کیونکہ بادشاہ بنانے والے تو خود ہی………………
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 192527 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More