’’وزیراعظم پہلے تو یہ بتائیں اِن کی حکومت کا کام ادارے چلاناہے یا دستورسازی کرناہے . .. .؟؟

وزیراعظم کایہ کہناکہ پی آئی اے ہڑتالیوں کے آگے سرنہیں جھکائیں گے‘‘ معنی خیز ہے پی آئی اے بحران پر طرفین کو لازمی اصولی لچک کا مظاہرہ کرناہوگا ورنہ مفاہمتی چڑیا اُڑگئی تو پھر...؟؟
آج حکومت اور پی آئی اے بحران کے حوالے سے طرفین( حکومت اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی )کے غیرلچکدرانہ رویوں پر ایسالگ رہاہے کہ جیسے دونوں طرفین نے اپنے اپنے مفادا ت کے خاطرانَا کامسئلہ بنالیا ہے اوراَب طرفین نہ جھکنے کی ضد پر پوری طرح سے اڑچکے ہیں ۔

جیساکہ گزشتہ دِنوں ہمارے بزنس مائنڈ وزیراعظم نوازشریف نے پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف قومی ائیرلائن کے ملازمین کے احتجاج اور ہڑتال کے حوالے سے کشمیر اسمبلی کے جوائنٹ سیشن اورگورنمنٹ ہاؤس مری میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ’’ پی آئی اے میں غیرقانونی ہڑتال کے آگے سرنہیں جھکائیں گے‘‘ جس طرح وزیراعظم نے یہ جملہ اداکیا ہے یہ بڑاہی معنی خیز ہے۔

ایسے میں آج اگر موجودہ پی آئی اے بحران کے تناظرمیں اپنے تین بار وزارتِ عظمیٰ کی مسندِ عالیٰ پر قدمِ خاص رنجافرمانے والے اپنے بزنس مائنڈ وزیراعظم نوازشریف صاحب کے اِس کہے کا جائزہ لیاجائے تو وزیراعظم کا یہ جملہ صریحاََ حکومتی کم مگر وزیراعظم نوازشریف کی ضد کا زیادہ اورواضح اشارہ دے رہاہے اور پی آئی اے بحران کے حوالے سے ایسا لگ رہاہے کہ جیسے وزیراعظم جمہوریت کو توبچاناچاہتے ہیں مگر جمہوریت بچانے کی اوٹ سے یہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور دھرناسیاست کرنے والوں کو بیجا تنقیدکا نشانہ بناکر خودیہ نہیں چاہتے ہیں کہ پی آئی اے بحران کا حل اور خاتمہ باہمی رضامندی اور مذاکرات سے نکالاجائے۔

اگرچہ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے خطاب میں مزیدیہ بھی کہاکہ ’’ ہم سب کو ریاست کی اجتماعی ترقی کے لئے سوچناچاہئے،حزب اختلاف کو تعمیری کردار اداکرناچاہئے ،سیاست برائے سیاست نہیں ہونی چاہئے،پی آئی اے میں غیرقانونی ہڑتال کے آگے سر نہیں جھکائیں گے، قومی ائیر لائن کو ترقی دے کر منافع بخش بناناچاہتے ہیں،کسی کو ذاتی مفادکے لئے مُلکی مفاد سے کھیلنے نہیں دیں گے‘‘اور ایسے بہت سے جذباتی جملے اپنے اِس خطاب میں اداکئے ۔

حالانکہ آج پی آئی اے کے بحران کے حوالے سے سب سے زیادہ ذاتی اور سیاسی مفادات برسرِ اقتدار جماعت اور حکمرانوں (خاص طور پر ہمارے بزنس مائنڈ وزیراعظم نوازشریف )کے ہی نظرآرہے ہیں، کیوں کہ اِنہیں یہ معلوم ہے کہ جیسے تیسے دوڈھائی سال بعد جب اِن کی حکومت اپنی مدت پوری کرکے چلی جائے گی تو پھر اِنہیں اقتدار توملنانہیں ہے سو اِس عرصے میں اپنے اوراپنے کاروباری حلقوں کے مفادات کا ہی خیال کرتے ہوئے جس قدر جلد ممکن ہوسکے پی آئی اے جیسے دیگر قومی منافع بخش اداروں کو خسارے کے ادارے ظاہر کرکے اِنہیں اپنے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کردیاجائے اور نجی تحویل میں دے کرکاروباری طبقے کو زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیاکی جائیں سو محض اِس بنا پر موجودہ حکومت پی آئی اے سمیت دیگر قومی منافع بخش اداروں کی نج کاری کا ارادہ کئے ہوئے ہے اَب یہاں وزیراعظم نوازشریف پہلے تو یہ بتائیں کہ آج اِن کی حکومت کا کام ادارے چلاناہے ؟ یا دستورسازی کرناہے؟؟ آج وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی حکومت کے وزراء جنتا زور پی آئی اے سمیت دیگر منافع بخش قومی اداروں کی نج کاری کرنے پر دے رہے ہیں اگر اتناہی وقت یہ مُلک میں قانون سازی کرنے پر دیں تو مُلک میں قانون کی پاسداری عملی طور پر نظر بھی آئے اور مُلک میں قانون کی بالادستی بھی قائم ہوجائے۔

جبکہ ایسے میں پی آئی اے کی مزدور یونین جوائنٹ ایکشن کمیٹی بھی اپنے ادارے اور مزدوروں کی نوکریوں کے تحفظ کے لئے کمر کس کے پوری طاقت کے ساتھ پُرامن اور مثبت احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں سے حکومت الوقت کو یہ باورکرارہی ہے کہ ایک سال تک قومی ائیر لائن کی نج کاری کا منصوبہ ترک کیاجائے، حکومت پی آئی اے کی نج کاری کرنے سے قبل ادارے کے مزدوروں کو مکمل طور پر اعتماد میں لے اور حکومت ہر ملازم کی نوکری کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کرے ، حکومت پی آئی اے کی نج کاری اور قومی ائیرلائن کے ملازمین کی نوکریوں کے معاملے میں جلدبازی کاایسا مظاہرہ نہ کرے جیسا کہ حکومت نے سابقہ محکمہ کے ای ایس سی(KESC) کی نج کاری کرتے وقت KESCکے ملازمین کی نوکریوں کا تحفظ نہیں کیا تھااور آج موجودہ Kالیکٹرک کی نجی انتظامیہ نے(KESC) کے پرانے ملازمین کی پہلے تو مراعات ختم کیں پھر اِن پر بہانے بہانے سے مختلف چارجز لگاکر اِنہیں نوکریوں سے نکال باہر کررہی ہے آج اگر حکومت PIAکے ملازمین کی نوکریوں کے تحفظ اور اِنہیں تنخواہ اور دیگر حوالوں سے ملنے والی مراعات کی ذمہ داری لیتی ہے تو پھرپی آئی اے کی نج کاری کا منصوبہ بنائے تو ٹھیک ہے ورنہ جب تک حکومت ایسانہیں کرتی ہے تو پھر نہ ہم اپنے ادارے کی کسی بھی صورت میں نج کاری ہونے دیں گیاور نہ ہی حکومت کا کوئی ایسا مزدور دُشمن اقدام تسلیم کریں گے جس سے پی آئی اے کے ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑجائیں ، خواہ اِس کشمکش میں ہماری جانیں ہی کیوں نہ چلی جائیں۔

تاہم جس روز یعنی کہ جمعہ 5فروری کو ہمارے بزنس مائنڈوزیراعظم نوازشریف نے یہ کہاتھاکہ’’ پی آئی اے میں غیرقانونی ہڑتال کے آگے سرنہیں جھکائیں گے‘‘اُسی روز جمعہ ہفتہ کی درمیانی شب کراچی میں پی آئی اے ایکشن کمیٹی اور نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمدزبیرکے مابین مذاکرات کی پہلی نشت لگی’’ اِس مذاکراتی عمل میں نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر نے حکومتی نمائندگی کرتے ہوئے یہ موقف پیش کیاکہ’’ مذاکراتی عمل کو حقیقی معنوں میں کامیاب بناناہے تو آپریشن بحال کریں‘‘ جس پر پی آئی اے جوائنٹ ایکشن کمیشن کے سہیل بلوچ کا یہ کہناتھاکہ’’حتمی نتیجے تک ایسانہیں ہوسکتا‘‘۔

اگرچہ یہ بات چیت پہلے روزتو ڈیڈلاک ختم کرنے میں بے نتیجہ ضرور ثابت ہوئی مگر پھر بھی دونوں جانب سے اتنی اُمیدضرور پیداہوئی کہ ادارے اور ملازمین کے تحفظ کے ساتھ ساتھ قومی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مذاکراتی عمل کو جاری رکھاجائے گااور بہت جلدآنے والے دِنوں سے باقاعدہ شروع ہونے والے بامقصد مذاکراتی عمل میں بہت جلد دونوں طرفین کی جانب سے اصولی لچک کا مظاہرہ کیاجائے گا اور اُمیدہے کہ مذاکراتی عمل سے عنقریب پی آئی اے بحران کے حل کے حوالے سے پیداہونے والا ڈیڈلاک ختم ہوگا اور طرفین کی جانب سے لچک کا مظاہر ہ ہوگاورنہ مذاکراتی اور مفاہمتی عمل کی چڑیااُڑگئی تو پھر ..؟؟سوائے پچھتاوے کے طرفین کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

بہرحال ،مذاکراتی عمل سے ہی پی آئی اے بحران کا ضرور حل نکالاجائے اورطرفین بالخصوص وزیراعظم اور حکومت سیاسی اور ذاتی فوائد کے بجائے قومی مفادات کوملحوظ خاطررکھتے ہوئے مثبت نتائج نکالیں جس میں دوطرفین میں سے پی آئی اے کے مزدوروں کے زیادہ مفادات کا تحفظ یقینی بنایاجائے اور یوں دونوں طرفین مل کرچاہیں توبہت کچھ بہتر کرسکتے ہیں جیسے کہ اِن دنوں جس طرح مُلک بھر میں فلم’’ طیارے زمین پر‘‘ چلائی جارہی ہے اِس فلم کا ضرورفلاپ کریں اور اِس طرح دونوں طرفین چاہیں توگزشتہ کئی دِنوں سے ہڑتالوں کے باعث قومی ائیر لائن کے طیاروں کی اُڑان نہ بھرنے سے پی آئی اے اور مُلک کو جو اربوں کا نقصان ہواہے اِس کا بھی ازالہ کرسکتے ہیں۔ (ختم شُد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 888212 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.