نبی علیہ السلام کو بشر یا بھائی وغیرہ کہنا حرام ہے حصہ اول

نبی جنس بشر میں آتے ہیں اور انسان ہی ہوتے ہیں۔ جن یا بشر یا فرشتہ نہیں ہوتے یہ دنیاوی احکام ہیں۔ ورنہ بشریت کی ابتداء آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ کیونکہ وہ ہی ابو البشر ہیں اور حضور علیہ السلام اس وقت نبی ہیں جبکہ آدم علیہ السلام آب و کل میں ہیں خود فرماتے ہیں کنت نبیا وادم بین الماء والطین اس وقت حضور نبی ہیں بشر نہیں سب کچھ صحیح لیکن ان کو بشر یا انسان کہہ کر پکارنا یا حضور علیہ السلام کو یامحمد یا کہ اے ابراہیم کے باپ یا اے بھائی باوا وغیرہ برابری کے الفاظ سے یاد کرنا حرام ہے۔ اور اگر اہانت کی نیت سے پکارا تو کافر ہے۔ عالمگیری وغیرہ کتب فقہ میں ہے کہ جو شخص حضور علیہ السلام کو ھذا الرجل یہ مرد اہانیت کی نیت سے کہے تو کافر ہے بلکہ یا رسول اللہ یاحبیب اللہ یا شفیع المذنبین وغیرہ عظمت کے کلمات سے یاد کرنا لازم ہے۔ شعراء جو اشعار میں یامحمد لکھ دیتے ہیں وہ تنگی موقعہ کی وجہ سے ہے پڑھنے والے کو لازم ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ لے۔ اسی طرح جو کہتے ہیں کہ۔
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحہ تیرا

یہ تیرا انتہائی ناز کا کلمہ ہے جیسے اے آقا میں تیرے قربان۔ اے ماں تو کہاں ہے ؟ اے اللہ تو ہم پر رحم فرما! اس تو اور تیرے کی حیثیت اور ہے۔

1) قرآن فرماتا ہے۔
لا تجعلوا دعآء الرسول بینکم کدعآء بعضکم بعضا (پارہ 18 سورہ 24 آیت 63)
ولا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون (پارہ 26 سورہ 49 آیت 2)
“رسول کے پکارنے کو ایسا نہ ٹھہرالو جیسا کہ تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جاویں اور تم کو خبر نہ ہو۔“

ضبطی اعمال کفر کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مدارج جلد اول وصل از جملہ رعایت حقوق اولیت میں ہے، “مخوانید اور ابنام مبارک اوچنانمکہ می خوایند بعضے از شما بعض را بلکہ بگوئیہ یارسول اللہ یانبی اللہ با توقیر و توضیح۔“ نبی علیہ السلام کو ان کا نام پاک لے کر نہ بلاؤ جیسے بعض بعض کو بلاتے ہیں۔ بلکہ یوں کہو یارسول اللہ یانبی اللہ توقیر و عزت کے ساتھ۔

تفسیر روح البیان زیر آیت لاتجعلوا ہے۔
والمعنی لاتجعلوا نداءکم ایاہ و تسمیتکم لہ کندآء بعضکم بعضا لاسمہ مثل یامحمد و یا ابن عبداللہ ولکن بلقبہ المعظم مثل یانبی اللہ و یارسول اللہ کما قال اللہ تعالٰی یایھا النبی و یایھا الرسول
“معنٰی یہ ہیں کہ حضور علیہ السلام کو پکارنا یا نام لینا ایسا نہ بناؤ جیسا کہ بعض لوگ بعض کو نام سے پکارتے ہیں جیسے یامحمد اور یا ابن عبداللہ وغیرہ لیکن ان کے عظمت والے القاب سے پکارو جیسے یانبی اللہ یارسول اللہ جیسا کہ خود رب تعالٰی فرماتا ہے یا ایہاالنبی یا ایہاالرسول۔“

ان آیات قرآنیہ اور اقوال مفسرین و محدثین سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کا ادب ہر حال میں ملحوظ رکھا جاوے نداء میں، کلام میں، ہر ادا میں۔

2) دنیاوی عظمت والوں کو بھی ان کا نام لے کر نہیں پکارا جاتا۔ ماں کو والدہ صاحبہ، باپ کو والد ماجد، بھائی کو بھائی صاحب جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اگر کوئی اپنی ماں کو باپ کی بیوی یا باپ کو ماں کا شوہر کہے یا اس کا نام لے کر پکارے یا اس کو بھیا وغیرہ کہے۔ تو اگرچہ بات تو سچی ہے مگر بے ادب گستاخ کہا جائیگا کہ برابری کے کلمات سے کیوں یاد کیا۔ حضور علیہ السلام تو خلیفۃ اللہ الاعظم ہیں ان کو نام سے پکارنا یا بھائی وغیرہ کہنا یقیناً حرام ہے۔ گھر میں بہن ماں بیوی بیٹی سب ہی عورتیں ہیں مگر ان کے نام و کام و احکام جداگانہ جو ماں کو بیوی یا بیوی کو ماں کہہ کر پکارے وہ بے ایمان ہی ہے اور جو ان سب کو ایک نگاہ سے دیکھے وہ مردود ہے ایسے ہی جو نبی کو امتی یا امتی کو نبی کی طرح سمجھے وہ ملعون ہے دیوبندیوں نے نبی کو امتی کا درجہ دیا ان کے پیشوا مولوی اسمعٰیل نے سید احمد بریلوی کو نبی کے برابر کرسی دی دیکھو صراط المستقیم کا خاتمہ۔ معاذاللہ

3) رب تعالٰی جس کو کوئی خاص درجہ عطا فرمائے۔ اس کو عام القاب سے پکارنا اس کے ان مراتب عالیہ کا انکار کرنا ہے اگر دنیاوی سلطنت کی طرف سے کسی کو نواب یا خان بہادر کا خطاب ملے تو اس کو آدمی کا بچہ یا بھائی وغیرہ کہنا اور ان القاب کو یاد کرنا جرم ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم حکومت کے عطا کئے ہوئے ان خطابات سے ناراض ہو تو جس ذات عالی کو رب کی طرف سے نبی رسول کا خطاب ملے اس کو ان القاب کے علاوہ بھائی وغیرہ کہنا جرم ہے۔

4) خود پروردگار نے قرآن کریم میں حضور علیہ السلام کو یامحمد یا اخامومنین کہہ کر نہ پکارا بلکہ یا ایھاالنبی یا ایھاالرسول یاایھاالمزمل یاایھاالمدثر وغیرہ وغیرہ پیارے القاب سے پکارا حالانکہ وہ رب ہے تو ہم غلاموں کو کیا حق ہے کہ ان کو بشر یا بھائی کہہ کر پکاریں۔

5) قرآن کریم نے کفار مکہ کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ وہ انبیاء کو بشر کہتے تھے۔
قالوا ماانتم الا بشر مثلنا ولئن اطعتم بشرا مثلکم انکم اذالخسرون (پارہ 18 سورہ 36 آیت 15)
“کافر بولے نہیں ہو تم مگر ہم جیسے بشر اگر تم نے اپنے جیسے بشر کی پیروی کی تو تم نقصان والے ہو وغیرہ وغیرہ۔“

اس قسم کی بہت سی آیات ہیں اسی طرح مساوات بتانا یا انبیاء کرام کی شان گھٹانا طریقہ ابلیس ہے کہ اس نے کہا۔
خلقتنی من نار و خلقتہ من طین “خدایا تو نے مجھے آگ سے اور ان کو مٹی سے پیدا فرمایا۔“
مطلب یہ کہ میں ان سے افضل ہوں اسی طرح اب یہ کہنا کہ ہم میں اور پیغمبروں میں کیا فرق ہے۔ ہم بھی بشر وہ بھی بشر بلکہ ہم زندہ وہ مردے یہ سب ابلیسی کلام ہے۔

اعتراض نمبر 1 :۔ قرآن فرماتا ہے۔
قل انما انا بشر مثلکم (پارہ 24 سورہ 41 آیت 6)
“اے محبوب فرما دو کہ میں تم جیسا بشر ہوں۔“
اس آیت قرآنیہ سے معلوم ہوا کہ حضور بھی ہماری طرح بشر ہیں اگر نہیں تو آیت معاذاللہ جھوٹی ہو جاویگی۔

جواب:۔ اس آیت میں چند طرح غور کرنا لازم ہے ایک یہ کہ فرمایا گیا ہے قل اے محبوب آپ فرما دو۔ تو یہ کلمہ فرمانے کی صرف حضور علیہ السلام کو اجازت ہے کہ آپ بطور انکسار تواضع فرماویں یہ نہیں کہ قولوا انما ھو بشر مثلنا اے لوگو تم کہا کرو کہ حضور علیہ السلام ہم جیسے بشر ہیں۔ بلکہ قل میں اس جانب اشارہ ہے کہ بشر وغیرہ کلمات تم کہہ دو ہم تو نہ کہیں گے۔ ہم فرمائیں گے۔

شاھدا و مبشرا و نذیرا وداعیا الی اللہ باذنہ و سراجا منیرا ہم تو فرمائیں گے یایھا المزمل یاایھا المدثر وغیرہ ہم تو آپ کی شان بڑھائیں گے آپ انکساراً یہ فرما سکتے ہیں۔ نیز اس آیت میں کفار سے خطاب ہے، چونکہ ہر چیز اپنی غیر جنس سے نفرت کرتی ہے لٰہذا فرمایا گیا کہ اے کفار تم مجھ سے گھبراؤ نہیں میں تمہاری جنس سے ہوں یعنی بشر ہوں۔ شکاری جانوروں کی سی آوازیں نکال کر شکار کرتا ہے۔ اس سے کفار کو اپنی طرف مائل کرنا مقصود ہے اگر دیوبندی بھی کفار میں سے ہی ہیں تو ان سے بھی یہ خطاب ہو سکتا ہم مسلمانوں سے فرمایا گیا ایکم مثلی طوطے کے سامنے آئینہ رکھ کر اور خود آئینہ کے پیچھے کھڑے ہو کر بولتے ہیں تاکہ طوطا اپنا عکس آئینہ میں دیکھ یہ سمجھے کہ یہ میرے جنس کی آواز ہے انبیائے کرام رب کا آئینہ ہیں آواز و زبان ان کی ہوتی ہے اور کلام رب کا۔ گفت من آئینہ مشقول دوست۔ یہ عکس کا لحاظ ہے دوسرے اس طرح کہ مثلکم پر آیت ختم نہ ہوئی بلکہ آگے آ رہا ہے۔ یُوحٰی اِلَیَّ + یُوحٰی اِلٰی کی قید ایسی ہے جیسے ہم کہیں کہ زید دیگر حیوانات کی طرح حیوان ہے مگر ناطق ہے تو ناطق کی قید نے زید اور دیگر حیوانات میں ذاتی فرق پیدا کر دیا کہ اس قید سے زید تو اشرف المخلوقات انسان ہوا۔ اور دوسرے حیوانات اور شئے اسی طرح وحی کی صفت نے نبی اور امتی میں بہت بڑا فرق بتا دیا۔ حیوان اور انسان میں صرف ایک درجہ کا فرق ہے مگر بشریت اور شان مصطفوی میں 27 درجہ کا فرق ہے اولاً بشر پھر شہید پھر متقی پھر ولی پھر ابدال پھر اوتار پھر قطب پھر غوث پھر غوث الاعظم پھر تابعی پھر صحابی پھر مہاجر پھر صدیق پھر نبی پھر رحمۃ للعالمین وغیرہ یہ 27 مراتب کا اجمالی ذکر ہے۔ تفصیل دیکھنا ہو تو ہماری کتاب شان حبیب الرحمان میں ملاحظہ کرو۔ تو عام بشر اور مصطفٰی علیہ السلام میں شرکت کیسی ؟ یہ شرکت تو ایسی بھی نہیں جیسی کہ جنس عالی یا کسی عرض عام کے افراد کو انسان سے ہے یہ تو ایسا ہوا کہ کوئی کہے اللہ ہماری طرح موجود ہے۔ اللہ ہماری طرح سمیع و بصیر ہے کیونکہ کلمہ موجود و علیم ہر جگہ بولا جاتا ہے۔ جس طرح ہماری موجودیت اور رب کی موجودیت میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ ایسے ہی ہماری بشریت اور محبوب علیہ السلام کی بشریت میں کوئی نسبت نہیں۔
مولانا مثنوی میں فرماتے ہیں۔
اے ہزاراں جبرئیل اندر بشر
بہر حق سوئے غریباں یک نظر
“حضور علیہ السلام کی بشریت ہزارہا جبریلی حیثیت سے اعلٰی ہے۔“

تیسرے اس طرح کہ قرآن کریم میں ہے۔ مثل نورہ کمشکوۃ فیھا مصباح رب کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں ایک چراغ ہے۔ اس آیت میں بھی کلمہ مثل ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ نور خدا چراغ کی طرح روشنی ہے۔
اسی طرح قرآن میں ہے۔
وما من دآبۃ الارض ولا طائر یطیر بجناحیہ الا امثالکم (پارہ 7 سورہ 6 آیت38 )
“نہیں ہے کوئی جانور زمین میں نہ کوئی پرندہ جو اپنے بازوؤں سے اڑتا ہو مگر وہ تمہاری طرح امتیں ہیں۔“
یہاں بھی کلمہ امثال موجود ہے تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر درست ہوگا کہ ہر انسان گدھے اُلو جیسا ہے ہرگز نہیں نیز انما کا حصر اضافی ہے نہ کہ حقیقی یعنی میں نہ خدا ہوں نہ خدا کا بیٹا بلکہ تمہاری طرح خالص بندہ ہوں جیسے ہاروت ماروت کا کہنا انما نحن فتنۃ

چوتھے اس طرح کہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور علیہ السلام ایمان عبادات، معاملات غرضیکہ کسی شے میں ہم جیسے نہیں ہر بات میں فرق عظیم ہے۔ حضور علیہ السلام کا کلمہ ہے انا رسول اللہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر ہم یہ کہیں تو کافر ہو جاویں۔ حضور علیہ السلام کا ایمان دیکھی ہوئی چیزوں پر کہ رب کو جنت و دوزخ کو ملاحظہ فرما لیا۔ ہمارا ایمان سنا ہوا ہے ہمارے لئے ارکان اسلام پانچ حضور علیہ السلام کے لئے چار یعنی آپ پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ دیکھو شامی شروع کتاب الزکوٰۃ۔ ہم پر پانچ نمازیں فرض حضور علیہ السلام پر چھ یعنی تہجد بھی فرض ومن اللیل فتھجد بہ نافلتہ لک ہم کو چار بیویوں کی اجازت حضور علیہ السلام کے لئے کوئی پابندی نہیں جس قدر چاہیں۔ ہماری بیویاں ہمارے مرنے کے بعد دوسرے نکاح کر سکتی ہیں۔ مگر حضور علیہ السلام کی ازواج پاک سب مسلمانوں کی مائیں وازواجہ امھاتھم کسی کے نکاح میں نہیں آ سکتی ولا تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ہمارے بعد ہماری میراث تقسیم ہو حضور کی میراث نہ بٹے ہمارا پیشاب پائخانہ ناپاک۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فضلات شریفہ امت کے لئے پاک (دیکھو شامی باب الانجاس) مرقات باب احکام المیاہ فصل اول میں ہے ومن ثم اختار کثیر من اصحابنا طھارۃ فضلاتہ اسی مرقاۃ باب الستر کے شروع میں ہے۔ ولذا حجمہ ابؤ طیبتہ فشرب دمہ اسی طرح مدارج النبوۃ میں جلد اول وصل عرق شریف صفحہ 25 میں بھی ہے۔ یہ تو شرعی احکام میں فرق بتائے گئے ورنہ لاکھوں امور میں فرق عظیم ہے۔ ہم کو اس ذات کریم سے کوئی نسبت ہی نہیں یوں سمجھو کہ بے مثل خالق کے بے مثل بندے ہیں۔
بے مثلی حق کے مظہر ہو پھر مثل تمہارا کیونکر ہو
نہیں کوئی تمہارا ہم رتبہ نہ کوئی تمہارا ہم پایا
اس قدر فرق عظیم کے ہوتے ہوئے مثلیت کے کیا معنٰی۔

پانچویں اس طرح کہ اس آیت میں ہے بشر مثلکم یہ نہیں ہے کہ انسان مثلکم بشر کے معنے ہیں ذوبشرہ۔ یعنی ظاہری چہرے مہرہ والا۔ بشرہ کہتے ہیں ظاہر کھول کو۔ تو معنٰی یہ ہوئے کہ میں ظاہر رنگ و روپ میں تم جیسا معلوم ہوتا ہوں کہ اعضائے بدن دیکھنے میں یکساں معلوم ہوتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے یوحی الی ہم صاحب وحی ہیں۔ یہ گفتگو بھی فقط ظاہری طور پر ہے۔ ورنہ ہمارے ظاہری اعضاء کو حضور علیہ السلام کے اعضاء مبارکہ سے کوئی نسبت نہیں۔ قدرت الٰہی تو دیکھو کہ منہ کا لعاب شریف کھاری کنویں میں پڑے پانی کو میٹھا کردے۔ حدیبیہ کے خشک کنویں میں پڑ جاوے تو پانی پیدا کر دے حضرت جابر کی ہانڈی میں پڑ کر شوربا اور بوٹیاں بڑھا دے۔ آٹے میں پڑے تو آٹے میں برکت دے صدیق کے پاؤں میں پہنچ کر سانپ کے زہر کو دفع کرے۔ عبداللہ ابن عتیک کے ٹوٹے ہوئے پاؤں میں پہنچ کر ہڈی جوڑ دے۔ حضرت علی کی دکھتی ہوئی آنکھ سے لگے تو کحل الجواہر کا کام دے۔ آج ہزار روپیہ کی دوا بھی اس قدر اثر نہیں رکھتی۔ اگر سر پاک سے قدم پاک تک ہر عضو شریف کی برکات دیکھنا ہیں تو ہماری کتاب شان حبیب الرحمان کا مطالعہ کرو۔ ہمارے ہر عضو کا سایہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے کسی عضو کا سایہ نہیں پسینہ پاک میں مشک و عنبر سے بہتر خوشبو۔

چھٹے اس طرح کہ شیخ عبدالحق مدارج النبوۃ جلد اول باب سوم وصل ازالہ شبہات میں فرماتے ہیں در حقیقت متشابہات اندر علماء آں را معافی لائقہ تاویلات رائقہ کردہ راجع بحق ساختہ اند۔“ یہ آیات حقیقت میں متشابہات ہیں کہ علماء نے ان کے مناسب معافی اور بہتر تاویلیں کرکے حق کی طرف پھیرا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح یداللہ فوق ایدیھم یا مثل نورہ کمشکوۃ وغیرہ آیات جو بظاہر شان خداوندی کے خلاف معلوم ہوتی ہے وہ متشابہات ہیں۔ اسی طرح انما بشر وغیرہ وہ آیات جو بظاہر شان مصطفٰی کے خلاف ہیں متشابہات ہیں لٰہذا ان کے ظاہر سے دلیل پکڑنا غلط ہے۔

ساتویں اس طرح کہ روزہ وصال کے بارے میں حضور نے فرمایا ایکم مثلی تم میں ہم جیسا کون ہے ؟ بیٹھ کر نفل پڑھنے کے بارے میں فرمایا لکنی لست کاحد منکم لیکن ہم تمہاری طرح نہیں۔ صحابہ کرام نے بہت موقعوں پر فرمایا اینا مثلہ ہم میں حضور علیہ السلام کی طرح کون ہے ؟ احادیث تو فرما رہی ہیں کہ حضور علیہ السلام ہم جیسے نہیں اور اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم جیسے ہی ہیں ان میں مطابقت کرنا ضروری ہ وہ اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آیت میں تاویل کی جاوے۔

آٹھویں اس طرح کہ تفسیر سورہ مریم میں کھیعص کے ماتحت ہے کہ حضور علیہ السلام کی تین صورتیں ہیں۔ صورت بشری، صورت حقی، صورت ملکی۔ بشریت کا ذکر انما انا بشر حقی کا ذکر ہوا۔ من رانی فقدر الحق جس نے ہم کو دیکھا حق کو دیکھا صورت ملکی کا ذکر فرمایا لی مع اللہ وقت لا یسعنی فیہ ملک مقرب ولا نبی مرسل بعض وقت ہم کو اللہ سے وہ قرب ہوتا ہے کہ نہ اس میں مقرب فرشتہ کی گنجائش ہے نہ مرسل نبی کی۔ معراج میں سدرہ پہنچ کر طاقت جبریلی ختم ہو گئی۔ مگر حضور علیہ السلام کی بشری طاقت کی ابھی ابتداء نہ تھی اس آیت میں محض ایک صورت کا ذکر ہے۔

نویں اس طرح کہ بشر مثلکم میں یہ تو فرمایا کہ ہم تم جیسے بشر ہیں یہ نہ فرمایا کہ کس وصف میں تم جیسے ہیں یعنی جس طرح تم محض بندے ہو۔ نہ خدا نہ خدا کے بیٹے نہ خدا کی صفات سے موصوف اسی طرح عبداللہ ہوں نہ اللہ ہوں نہ ابن اللہ ہوں عیسائیوں نے چند معجزات دیکھ کر عیسٰی علیہ السلام کو ابن اللہ کہہ دیا۔ تم ہمارے صدہا معجزات دیکھ کر یہ نہ کہہ دینا بلکہ عبداللہ و رسولہ۔

تفسیر کبیر شروع پارہ 12 زیر آیت فقال الملاء الذین کفروا قصہ نوح میں ہے کہ نبی بشر اس لئے ہوتے ہیں کہ اگر فرشتہ ہوتے تو لوگ ان کے معجزات کو ان کی ملکی طاقت پر محمول کر لیتے۔ آپ جب بشر ہو کر یہ معجزات دکھاتے ہیں تو ان کا کمال معلوم ہوتا ہے غرضیکہ انبیاء کی بشریت ان کا کمال ہے لٰہذا آیت کا مقصود یہ ہوا کہ ہم تم جیسے بشر ہو کر ایسے کمالات دکھاتے ہیں۔ تم تو دکھادو۔

دسویں اس طرح کہ بہت سے الفاظ وہ ہیں جو پیغمبر اپنے لئے استعمال فرما سکتے ہیں اور وہ ان کا کمال ہے مگر دوسرا کوئی اب کی شان میں یہ کہے تو گستاخی ہے دیکھو آدم علیہ السلام نے عرض کیا ربنا ظلمنا انفسنا یونس علیہ السلام نے رب سے عرض کیا انی کنت من الظلمین موسٰی علیہ السلام نے فرعون سے فرمایا فعلتھا اذا وانا من الضالین لیکن کوئی دوسرا اگر ان حضرات کو ظالم یا ضال کہے تو ایمان سے خارج ہوگا۔ اسی طرح بشر کا لفظ بھی ہے۔

اعتراض (2) حضور علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایا واکرموا اخاکم تم اپنے بھائی کا (ہمارا) احترام کرو جس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام ہمارے بھائی ہیں۔ مگر بڑے بھائی ہیں نہ کہ چھوٹے۔
(3) :۔ قرآن فرماتا ہے۔
والی مدین اخاھم شعیبا والی ثمود اخاھم ضلعا والی عاد اخاھم ھودا۔ (پارہ8 سورہ 7 آیت؟)
ان آیات میں رب نے انبیائے کرام کو مدین ثمود اور عاد کا بھائی فرمایا معلوم ہوا کہ انبیاء امتیوں کے بھائی ہوتے ہیں۔

جواب :۔ حضور علیہ السلام نے اپنے کرم کریمانہ سے بطور تواضع و انکسار فرمایا اخاکم اس فرمانے سے ہم کو بھائی کہنے کی اجازت کیسے ملی۔ ایک بادشاہ اپنی رعایا سے کہتا ہے کہ میں آپ لوگوں کا خادم ہوں تو رعایا کو حق نہیں کہ بادشاہ کو خادم کہہ کر پکارے۔ اسی طرح رب نے ارشاد فرمایا کہ حضرت شعیب و صالح و ہود علیہم السلام مدین اور ثمود اور عاد قوموں میں سے تھے۔ کسی اور قوم کے نہ تھے۔ یہ بتانے کے لئے اخاھم فرمایا یہ کہاں فرمایا کہ ان کی قوم والوں کو بھائی کہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اور ہم پہلے باب میں ثابت کر چکے ہیں کہ انبیائے کرام کو برابری کے القاب سے پکارنا حرام ہے اور لفظ بھائی برابری کا لفظ ہے۔ باپ بھی گوارہ نہیں کرتا کہ اس کا بیٹا اس کو بھائی کہے۔

اعتراض (4) :۔
قرآن کہتا ہے انما المؤمنون اخوۃ مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور حضور علیہ السلام بھی مومن ہیں لٰہذا آپ بھی ہم مسلمانوں کے بھائی ہوئے تو حضور علیہ السلام کو کیوں نہ بھائی کہا جاوے۔

جواب :۔ پھر تو خدا کو بھی اپنا بھائی کہو کیونکہ وہ بھی مومن ہے قرآن میں ہے الملک القدوس السلام المؤمن اور ہر مومن آپس میں بھائی۔ لٰہذا خدا بھی مسلمانوں کا بھائی معاذاللہ۔ نیز بھائی کی بیوی بھابھی ہوتی ہے اور اس سے نکاح حلال اور نبی کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ان سے نکاح حرام ہے۔ (قرآن کریم) لٰہذا نبی ہمارے لئے مثل والد ہوئے والد کی بیوی ماں ہے نہ کہ بھائی کی۔ جناب ہم تو مومن ہیں۔ اور حضور علیہ السلام عین ایمان۔ قصیدہ بردہ شریف میں ہے۔
فالصدق فی الغار والصدیق لم یریا

یعنی غار ثور میں صدق بھی تھا صدیق بھی تھے
حضور علیہ السلام اور عام مومنین میں صرف لفظ مومن کا اشتراک ہے جیسے رب اور عام مومنین میں نہ کہ حقیقت مومن میں ہم اور طرح کے مومن ہیں اس کی تفصیل ہم جواب نمبر1 میں بیان کر چکے ہیں۔

اعتراض (5) :۔
حضور علیہ السلام اولاد آدم ہیں ہماری طرح کھاتے پیتے سوتے جاگتے اور زندگی گزارتے ہیں بیمار ہوتے ہیں، موت آتی ہے اتنی باتوں میں شرکت ہوتے ہوئے ان کو بشر یا اپنا بھائی کیوں نہ کہا جاوے۔

جواب :۔ اس کا فیصلہ مثنوے میں خوب فرما دیا ہے۔
گفت اینک مابشر ایشاں بشر
ما و ایشاں بستہ خوابیم و خور !
ایں نہ دانستند ایشاں از عمٰی
ہست فرقے درمیاں بے انتہا
ہر دو یک گل خورد و زنبور و نحل
زاں یکے شد نیش شد و زاں مشکناب
ایں خورد گرد و پلیدی زیں جدا
واں خورد گرد وہمہ نور خدا

کفار نے کہا کہ ہم اور پیغمبر بشر ہیں کیونکہ ہم اور وہ دونوں کھانے سونے میں وابستہ ہیں اندھوں نے یہ نہ جانا کہ انجام میں بہت بڑا فرق ہے۔ بھڑ اور شہد کی مکھی ایک ہی پھول چوستی ہے مگر اس سے زہر اور اس سے شہد بنتا ہے۔ دونوں ہرن ایک ہی دانہ پانی کھاتے ہیں۔ مگر ایک سے پاخانہ اور دوسرے سے مشک بنتا ہے۔ یہ جو کھاتا ہے اس سے پلیدی بنتی ہے نبی کے کھانے سے نور خدا ہوتا ہے۔

یہ سوال تو ایسا ہے جیسے کوئی کہے کہ میری کتاب اور قرآن یکساں ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں ایک ہی روشنائی سے ایک کاغذ پر ایک ہی قلم سے لکھی گئیں۔ ایک ہی قسم کے حروف تہجی سی دونوں بنیں ایک ہی پریس میں چھپیں۔ ایک ہی جلد ساز نے جلد باندھی۔ ایک ہی الماری میں رکھی گئیں پھر ان میں فرق ہی کیا ہے۔ مگر کوئی بیوقوف بھی نہیں کہے گا کہ ان ظاہری باتوں سے ہماری کتاب قرآن کی طرح ہو گئی۔ تو ہم صاحب قرآن کی مثل کس طرح ہو سکتے ہیں ؟ یہ نہ دیکھا کہ حضور کا کلمہ پڑھا جاتا ہے ان کو معراج ہوئی ان کو نماز میں سلام کرتے ہیں ان پر درود بھیجتے ہیں۔ تمام انبیاء و اولیاء ان کے خدام بارگاہ ہیں۔ یہ اوصاف ماوشما تو کیا ملائکہ کو بھی نہ ملے۔
محمد بشر کا کالبشر
یاقوت حجر لا کالحجر
حضور علیہ السلام بشر ہیں عام بشر نہیں
یاقوت پتھر ہے مگر عام پتھر نہیں
بعض دیوبندی کہتے ہیں کہ اگر حضور کو بشر کہنا حرام ہے تو چاہئیے کہ انسان یا عبد کہنا بھی حرام ہو کہ ان سب کے معنٰی قریب قریب ہیں پھر تم کلمہ میں عبدہ ورسولہ کیوں کہتے ہو ؟

جواب :۔ یہ ہے کہ لفظ بشر کفار بہ نیت اہانیت کہتے تھے اور نبی کو رب نے انسان یا عبد بطور تعظیم فرمایا خلق الانسان علمہ البیان اور اسری بعبدہ لیلا لٰہذا یہ الفاظ تعظیماً کہنا جائز ہے اور بشر کہنا حرام ہے جیسے راعنا اور انظرنا ہم معنٰی ہیں۔ مگر راعنا کہنا حرام ہے کہ طریقہ کفار ہے۔
ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب فرمایا۔
عبد دیگر عبدہ چیزے دگر
او سراپا انتظار او منتظر

حضور کی عبدیت سے رب کی شان ظاہر ہوتی ہے اور رب کی عظمت سے ہماری عبدیت چمکی وزیر بھی شاہی خادم ہے اور سپاہی بھی مگر وزیر سے بادشاہ کی شان کا ظہور اور شاہی نوکری سے سپاہی کی عزت۔

اعتراض (6) :۔
شمائل ترمذی میں حضرت صدیقہ کی روایت ہے کہ فرماتی ہیں کان بشر من البشر حضور علیہ السلام بشروں میں سے ایک بشر تھے۔ اسی طرح جب حضور علیہ السلام نے عائشہ صدیقہ کو اپنی زوجیت سے مشرف فرمانا چاہا۔ تو صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں آپ کا بھائی ہوں کیا میری دختر آپ کو حلال ہے۔ دیکھو حضرت عائشہ نے حضور علیہ السلام کو بشر اور صدیق نے اپنے کو حضور کا بھائی بتایا۔

جواب :۔
بشر یا بھائی کہہ کر پکارنا یا محاورہ میں نبی علیہ السلام کو یہ کہنا حرام ہے عقیدہ کے بیان یا دریافت مسائل کے اور احکام ہیں۔ حضرت صدیقہ یا صدیق رضی اللہ عنہما عام گفتگو میں حضور علیہ السلام کو بھائی یا بشر نہ کہتے تھے یہاں ضرورتاً اس کلمہ کو استعمال فرمایا ہے صدیقۃ الکبرٰی تو یہ فرما رہی ہیں کہ حضور علیہ السلام کی زندگی پاک نہایت بے تکلفی اور سادگی سے عام مسلمانوں کی طرح گزری کہ اپنا ہر کام اپنے ہاتھ ہی سے انجام دیتے تھے۔ اسی طرح حضرت صدیق اکبر نے مسئلہ دریافت کیا کہ حضور نے مجھے خطاب اخوت سے نوازا ہے کیا اس خطاب پر حقیقی بھائی کے احکام جاری ہونگے یا نہیں ؟ اور میری اولاد حضور کو حلال ہوگی یا نہیں ؟ ہم بھی عقیدے کے ذکر میں کہتے ہیں کہ نبی بشر ہوتے ہیں۔ حضرت خلیل نے ایک ضرورت پر حضرت سارہ کو فرما دیا ھذا اختی یہ میری بہن ہیں حالانکہ وہ آپ کی بیوی تھیں۔ اس سے لازم نہیں آتا کہ حضرت سارہ اب آپ کو بھائی کہہ کر پکارتیں۔

ہم ان حضرات کا عام محاورہ دکھاتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ حضور علیہ السلام رشتہ میں صدیقہ کے زوج اور سیدنا علی کے بھائی حضرت عباس کے بھائی کی اولاد ہیں۔ مگر یہ حضرات جب بھی روایت حدیث کرتے ہیں تو صدیقہ یہ نہیں فرماتیں کہ میرے زوج نے فرمایا، یا حضرت عباس یا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہما یہ نہیں کہتے کہ ہمارے بھتیجے یا ہمارے بھائی نے یہ فرمایا۔ سب یہ ہی فرماتے ہیں قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جو حضرات رشتہ کے لحاظ سے بھائی ہیں وہ بھی بھائی نہیں کہتے تو ہم کمینوں غلاموں کو کیا حق ہے کہ بھائی کہیں۔
نسبت خود بگست کردم و بس منفعلم
زانکہ نسبت بسگت کوئے تو شد بے ادبی است
ہزار بار بشویم دہن بمشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است

جناب شروع السلام میں تو یہ حکم تھا کہ حضور علیہ السلام سے کچھ عرض کرنا چاہے۔ وہ پہلے کچھ صدقہ دے بعد میں عرض کرے۔ قرآن فرماتا ہے۔
یایھا الذین امنوا اذانا جیم الرسول فقد موابین یدی نجوکم صدقۃ (پارہ 28 سورہ 58 آیت 12)
یعنی اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس پر عمل بھی کیا کہ ایک دینار خیرات کرکے دس مسائل دریافت کئے (تفسیر خازن یہ ہی آیت) پھر یہ حکم اگرچہ منسوخ ہو گیا۔ مگر محبوب علیہ السلام کی عظمت شان کا پتہ لگ گیا کہ نماز میں رب سے ہمکلام ہو تو صرف وضو کرو۔ لیکن حضور علیہ السلام سے عرض معروض کرنا ہو تو صدقہ کرو پھر بھائی کہنا کہاں رہا ؟
Muhammad Owais Aslam
About the Author: Muhammad Owais Aslam Read More Articles by Muhammad Owais Aslam: 97 Articles with 672746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.