(ریسلنگ) رُستم زماں گاماں پہلوان(تاریخِ وفات 23ِمئی 1960ء)

( دُنیا کا ناقابلِ شکست پہلوان)۔۔۔۔۔ عالمی چیمپئین شپ میں گاما کا مقابلہ پولینڈ کے "زی بسکو" سے ہونا قرار پایا ۔ جو دُنیا کے تین نامور پہلوانوں میں سے ایک تھا۔ اس مقابلے کو صدی کی کشتی کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔ 10ستمبر1910ء کو یہ مقابلہ شام 4بجے شروع ہوا اور 2 گھنٹے34منٹ تک مسلسل جاری رہنے کے بعد ختم ہوا۔ اس دوران گاما اپنے حریف پر مکمل طور پر حاوی رہے اور زی بسکو بھی اُنکے مقابلے میں فنِ کُشتی کی کسی خاص چال کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ ان حالات میں رات پڑنے تک فیصلہ نہ ہو سکا کہ کسی کو فاتح قرار دیا جاسکے۔ حالانکہ ترازو کا جھکاؤ گاما ں کی طرف ہی متوقع کیا جا رہا تھا ۔بہرحال منتظمین نے فیصلہ کیا کہ مقابلہ اگلے ہفتے پھر شروع ہو گا۔لیکن مقررہ وقت پر زی بسکو میدان میں نہ آیااور گاما ں نے17ِ ستمبر 1910 ء کو "جون بُل بیلٹ " بمعہ 250پاؤنڈ نقد انعام جیت کر" ورلڈ چیمپئین " یعنی رُستمِ زماں "کا اعزا ز حاصل کر لیا۔کہتے ہیں گاما کی جیت پر اُس وقت کے انگلستان کے بادشاہ جارج پنجم نے فخریہ کہا تھا کہ "ہے تو ہماری ہی نو آبادی کا"۔

گاما ں پہلوان

 مشہورِ زمانہ گاما ں پہلوان۔جنہیں رُستم زماں کا خطاب ملااور رُستمِ ہند و پنجاب بھی کہلائے ۔اُنکا اصلی نام "غلام محمد" تھا۔ 1880ء کو امرتسر میں کشمیری پہلوانوں کے خاندان میں پیدا ہوئے۔اُنکے والد عزیز پہلوان ،جو غلام پہلوان کی پشت میں سے تھے،ہندوستان کی شاہی ریاست "دتیا،مدیہ پردیش" میں درباری پہلوان تھے۔اس تعلق سے مستقبل میں ریاست کے حکمران" بھوانی سنگھ" نے گاما ں اور اُنکے بھائی امام بخش کی سرپرستی بھی کی۔

گاماں پہلوان کی قدو قامت اور خوراک:
گاما ں کا وزن 250پاؤنڈ،قد 5فُٹ 7انچ،چھاتی56انچ اور ڈولا17انچ تھا۔ روزانہ 5000بیٹھکیں اور 3000ڈانڈ لگاتے تھے ۔بیٹھکیں لگانے کیلئے 95کلو وزنی ڈسک استعمال کرتے تھے جو آج بھی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سپارٹس میوزیم پٹیالہ بھارت میں موجود ہے۔بلکہ 23 ِ دسمبر 1902ء کو 22سال کی عمر میں گاماں مندوی کے نزدیک نظر باغ محل میں 1200کلو گرام وزنی پتھر اُٹھانے کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔وہ بروڈا ریاست دنگل میں حصہ لینے گئے تھے تو یہ کارنامہ بھی کر دکھایا۔ لہذا ڈھائی فُٹ اُونچا یہ پتھر بھی ان دنوں بروڈا کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ اُنکی روزانہ کی خوراک میں بکرے کا گوشت،مُرغیاں ،مکھن،دودھ،پھل اور ڈیڑھ پاؤنڈ بادام کی سردائی لازمی تھی ۔اس خوراک اور دیگر اخراجات کا انتظام اُن مہاراجوں کی ذمہ داری تھی جن کے گاماں درباری پہلوان رہے۔

گاما ں اور رحیم بخش سلطانی والا کا مقابلہ:
گاماں کی پہلوانی کی تربیت کا آغاز 5سال کی عمر میں کر دیا گیا۔8 سال کے ہوئے تو والد کا انتقال ہو گیا۔ اُنکے چچا عِد پہلوان نے اس غم کے باوجود اُنکی پہلوانی کی تربیت جاری رکھی۔ اُنکی وجہِ شہرت 19سال کی عمر میں انڈین ریسلنگ چیمپئین" رحیم بخش سلطانی والا" کو کُشتی کا چیلنج تھا۔اُن کا تعلق کی بھی کشمیری خاندان سے تھا اور گوجرانولہ میں مقیم تھے۔7 فُٹ قدکے رحیم بخش سلطانی والا کیلئے 5 فُٹ 7انچ کے قد والے گاماں پہلوان کو چیت کر دینا معمولی بات نظر آرہی تھی لیکن ایسا نہ ہوا اور مقابلہ برابری پر ختم ہوا۔ اسطرح کے دو مقابلہ اور ہوئے تو وہ بھی برابر ہی رہے۔لہذا چند سال بعد جب آ لہٰ آبا د میں دونوں پہلوانوں کاچوتھی دفعہ پھر آمنا سامنا ہوا تو اِس دفعہ بازی گاما ں لے ہی گئے ۔اس کامیابی کے باوجود گاما زندگی بھر وہ رحیم بخش سلطانی کا نام عزت و احترام سے لیتے رہے۔

گاما ں پہلوان کا انگلستان میں چیلنج اور کامیابی:
گاما ں پہلوان وقت گزرنے کے ساتھ ہندوستان کے نامورپہلوانوں بشمول پنڈت بدونک کو شکست دے چکے تھے اور اب اُنکی اگلی منزل بین الاقوامی سطح پر کامیابی حاصل کرنا تھی۔لہذا1910ء میں 30سال کی عمرمیں گاما کو اُس وقت بین الاقوامی مقابلو ں میں قدم رکھنے کا موقع میسر آگیاجب بنگال کی ایک لاکھ پتی شخصیت "شرت کمار مسرا" نے انکی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر اُنھیں لندن بھیجنے کا بندوبست کر دیا ۔ اُس سال انگلستان میں "جان بُل ورلڈ ریسلنگ چیمپئین" شپ منعقد ہوئی۔جس میں دُنیا کے تمام نامور پہلوانوں کو مدعو کیا گیا۔ گاما ں نے اپنے بھائی امام بخش اور دو ساتھیوں کے ہمراہ بذریعہ بحری جہاز سفرکر کے اُس میں شرکت کی۔ اس مقابلے کے منتظمین نے شرط رکھی تھی کی مقابلہ اُنکے درمیان ہی ہو گا جو "ہیوی ویٹ"ہوں گے۔ اسلیئے گاماں کا چھوٹا جسم دیکھ کر اُنھیں مقابلے میں شریک کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ بلکہ ہفتے کے 250پاؤنڈ سٹرلنگ پر دوسری عام سطح کی کُشتیاں لڑنے کی تجویز بھی پیش کی۔ اس پر گاماں نے چیلنج دیا کہ جو پہلوان اُن سے پانچ منٹ تک مقابلہ کر سکے گا وہ اُسکو پانچ پاؤنڈ انعام دیں گے۔شروع میں 3پہلوان میدان میں اُترے اور تینوں نے پانچ منٹ کے اندر شکست کھائی۔ پھر اگلے دن دنیا کے 12 مشہورپہلوانوں نے گاما ں سے زور آزمائی کی ،لیکن کوئی بھی دو منٹ سے زیادہ نہ ٹھہر سکا۔ یہ دیکھ کر گاماں کو مقابلے میں شریک کر لیا گیا۔

گاما ں اور پولینڈ کے زی بسکو کا مقابلہ اور رُستمِ زماں کا خطاب:
اس عالمی چیمپئین شپ میں گاما کا مقابلہ پولینڈ کے "زی بسکو" سے ہونا قرار پایا ۔ جو دُنیا کے تین نامور پہلوانوں میں سے ایک تھا۔ اس مقابلے کو صدی کی کشتی کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔ 10ستمبر1910ء کو یہ مقابلہ شام 4بجے شروع ہوا اور 2 گھنٹے34منٹ تک مسلسل جاری رہنے کے بعد ختم ہوا۔ اس دوران گاما اپنے حریف پر مکمل طور پر حاوی رہے اور زی بسکو بھی اُنکے مقابلے میں فنِ کُشتی کی کسی خاص چال کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ ان حالات میں رات پڑنے تک فیصلہ نہ ہو سکا کہ کسی کو فاتح قرار دیا جاسکے۔ حالانکہ ترازو کا جھکاؤ گاما ں کی طرف ہی متوقع کیا جا رہا تھا ۔بہرحال منتظمین نے فیصلہ کیا کہ مقابلہ اگلے ہفتے پھر شروع ہو گا۔لیکن مقررہ وقت پر زی بسکو میدان میں نہ آیااور گاما ں نے17ِ ستمبر 1910 ء کو "جون بُل بیلٹ " بمعہ 250پاؤنڈ نقد انعام جیت کر" ورلڈ چیمپئین " یعنی رُستمِ زماں "کا اعزا ز حاصل کر لیا۔کہتے ہیں گاما کی جیت پر اُس وقت کے انگلستان کے بادشاہ جارج پنجم نے فخریہ کہا تھا کہ "ہے تو ہماری ہی نو آبادی کا"۔

مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر :
جس کے ہاں گاما ں درباری پہلوان تھے نے پٹیالہ میں 1928ء میں گاماں اور زبسکو کا مقابلہ ایک بار پھر کروایا۔ تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد مقابلہ دیکھنے آئی لیکن ابھی وہ اپنی جگہوں پر ترتیب سے بیٹھے بھی نہیں تھے کہ ایک دفعہ پھر گاما ں نے زی بسکو کو اس زور آزمائی میں شکست دے دی۔ کہا جاتا ہے کہ کشتی 3سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں ختم ہو گئی۔ہر طرف سے اُنکے حق میں نعرے بازی کی گئی ۔مہاراجہ نے اُنھیں اپنے گلے سے موتیوں کا ہار اُتار کر تحفے میں اُنکو پہنا دیا۔مہاراجہ ہی کے ہاتھی پر بیٹھ کر اور کندھے پر چاندی کا گُرز اُٹھائے ہوئے وہاں ایک جلوس نکالا گیا۔انعام کے طور پرگاؤں میں زمین دی گئی اورایک مناسب سالانہ وظیفہ بھی مقرر کیا گیا۔

مہاراجہ پٹیالہ کا فرانس جاناہوا تو وہاں کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے اُنکی ملاقات سویڈن کے رُستمِ زماں" جیسی پیٹرسن" نامی ایک قوی ہیکل پہلوان سے ہوئی ۔جس نے انھیں روک کر گاماں پہلوان سے مقابلے کا چیلنج کردیا۔ مہاراجہ نے پیٹرسن کو پیشکش کی کہ مقابلے کی صورت میں اسے اخراجات کے علاوہ بیس ہزار روپے دیے جائیں گے۔ پیٹرسن پٹیالہ پہنچا ، مقابلہ ہوا لیکن وہ بھی گاماں پہلوان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا۔اسکے علاوہ گاماں نے مغربی پہلوانوں میں فرانس کے "مورس ڈیریچ"،سویز لینڈ کے رُستمِ یورپ "جوہان لیم" اور امریکہ کے" بینجمن رولر "کوبھی شکست دی۔اُس زمانے کے مشہور مغربی پہلوان "فرنک گوچ"،روس کے" جارج ہیکن شمٹ "اور جوڈو کے چیمپئین "تارو میاکے" کو بھی چیلنج کیا لیکن اُن میں سے کوئی بھی گاماں سے لڑنے پر آمادہ نہ ہوا۔

پرنس آف ویلز اور چاندی کا گُرز:
اصل میں 1910ء کے بعد گاما ں نے مہاراجہ کا درباری پہلوان بن کر اگلے 30سال بہت نام کمایا۔کامیابی اُنکے قدم چومتی رہی اور مہاراجہ اُنکا دلدادہ ہو تا چلا گیا۔ اس ہی دوران 1922ء میں انگلستان کے شاہ جارج پنجم کے بیٹے پرنس آف ویلز ہندوستان آئے تو مہاراجہ بھوپندرسے بھی ملنے کیلئے پٹیالہ گئے۔ وہاں اُنکی آؤ بھگت کے ساتھ اُنکے لیئے مختلف کھیلوں کا اہتمام بھی کیا گیا۔گاماں پہلوان کا تعارف بھی ہوا اور اُنھیں پرنس آف ویلز نے اُنکی کامیابیوں پر"چاندی کا گُرز" پیش کیا۔1936ء میں شاہ جارج پنجم کے انتقال کے بعد پرنس آف ویلز ایڈورڈ ہشتم اپنے والد کی جگہ بادشاہ بنے لیکن پھرایک " والس سمپسن "نامی خاتون کے عشق میں صرف چند ماہ بعد ہی بادشاہت چھوڑ کر جون 1937ء میں شادی کر لی ۔

پاکستان آمد:
تقسیمِ ہند کے بعد گاماں اور اُنکے خاندان کے افراد پاکستان کے شہر لاہور میں ہجرت کر کے آگئے اور دریائے راوی کے نزد فرخ آباد میں رہائش اختیار کر لی۔ایک مرتبہ لاہور کے ایک بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک دوکاندار کسی وجہ سے گاماں سے جھگڑ پڑااور گالیا ں بھی دیں۔گاماں اس پر مسکرائے تو اُس نے اُنکے سر پر ترازو دے مارا۔اُنکے سر سے خون نکل آیا ۔دوکاندار اپنے اس عمل سے خود ہی ڈر گیا تو اس پر گاماں بھی سر پر لگے زخم پر رومال باندھ کے چلے آئے۔بعدازاں اکھاڑے کے شگردوں نے پوچھا کہ آپ نے اُس دوکاندار کے خلاف ردِ عمل ظاہر کیوں نہیں کیا؟اُنھوں نے کہا کہ جو گالیاں دیتا ہے وہ کمزور ہوتا ہے۔لہذا کیا رُستمِ زماں ایک کمزور سے لڑے۔ دوسرا سر سے خون نکلنے پر غصہ آیا تھا اور دل کیا تھا کہ اُس کو اُٹھا کر بیس گز دور پھینکوں لیکن پھر اچانک خیال آیا کہ اگر غصے پر قابو نہ پایا تو رُستمِ زماں کیسا۔

گاماں پہلوان کے مداحوں کا خراجِ تحسین:
پہلوانی کی دُنیا میں ماضی سے لیکر آج تک گاماں پہلوان کی مقبولیت آسمان کی بلندیوں کو چُھو رہی ہے۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراٹے کی دُنیا کے ہیرو اور جنکی اپنی ایک داستان ہے" بروس لی" اُنکے بہت بڑے مداح تھے۔وہ گاماں سے متعلق شائع ہوئے مضامین کا مطالعہ کرتے اور اپنی جسمانی تربیت میں اُنکی پیروی کرنے کی بھی کوشش کرتے ۔ بھارت کے مشہور پہلوان دارا سنگھ بھی اُن سے بہت متاثر تھے۔بلکہ آج کل تو یہ خبر بھی عام ہوچکی ہے کہ بھارت میں گاماں پہلوان کی شخصیت اور اہم واقعات پر مبنی فلم بنانے کیلئے پیش رفت کا آغاز ہو چکا ہے اور اُنکا کرداربالی وُڈ کے مشہور ہیرو"جان ابراہم "ادا کریں گے۔اس سے پہلے بھی مغربی سطح پر گاماں پہلوان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے " سٹریٹ فائیٹر "گیم میں ڈارن ماسٹر کے کردار والا پہلوان ڈالا گیا ہے۔ایک اور ویڈیو گیم میں "شیڈو ہارٹز :کونوِ ننٹ گاماں کے روپ میں دھارا گیا۔اس کے علاوہ ایک جاپانی کومک کی کتاب "ٹائیگر ماسک"میں گاماں کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔

گاماں کی ذاتی زندگی اور تعلقات:
گاماں پہلوان جہاں اپنے مداحوں کو اپنی کامیابیوں سے مسحور کر رہے تھے وہاں اُنکی زندگی میں غم کے سائے بھی رہے۔اُنکی اولاد میں 2 بیٹے اور 4بیٹیاں تھیں ۔لیکن 2بیٹوں میں سے ایک تو بالکل چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گیا اور دوسرا بیٹا جسکا نام جلال تھا وہ بھی کم وبیش 12 کی عمر میں انتقال کر گیا تھا۔لہذا اُنھوں نے اپنے بھائی امام بخش کے بڑے بیٹے "بھولو پہلوان " کو پہلوانی کی باقاعدہ تربیت دے کر اپنے خاندان میں ایک اور بڑا پہلوان تیار کر دیا۔جنہوں نے بھی دُنیا بھر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔اُنکے تعلقات میں یہ بھی اہم ہے کہ اُنکی ایک بیٹی کی شادی ڈاکٹر حافظ بٹ صاحب سے ہوئی جنکی بیٹی (یعنی گاماں پہلوان کی نواسی) محترمہ کلثوم نواز صاحبہ ہیں جو پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی بیوی ہیں۔

ناقابلِ شکست:
گاما ں50سال سے زائد عرصہ اکھاڑے کی دُنیا پر حاوی رہے۔اس دوران وہ بارہ سو سے زائد پہلوانوں سے لڑے اور ایک بار بھی شکست نہ کھائی۔وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے برصغیر کیلئے عالمی انعام جیتا۔دوسری جنگِ عظیم کے پانچ سال بعد تک گاما نے دُنیاکے پہلوانوں چیلنج دے رکھا تھا لیکن مقابلہ کرنے والے کو پہلے اُنکے خاندان کے دوسرے پہلوانوں سے کشتی لڑنی پڑتی۔یہی وجہ ہے کہ گاما نے بین الاقوامی سطح پر زیادہ کُشتیاں نہیں لڑیں۔1959ء میں اُنھیں حکومتِ وقت کی طرف سے" پرائڈ آف پرفارمنس" کا صدارتی تمغہ اور پانچ ہزار روپے انعام ملا۔

گاماں پہلوان ایک شریف انفس انسان تھے۔مطالعے کے رسیا تھے۔لوگوں کے کام آتے تھے۔طبیعت میں درویشی تھی۔ کتاب کے مطالعے سے گاماں پہلوان، ایک انسان دوست شخصیت کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ گاماں پہلوان کی زندگی کا پیشتر حصہ رجواڑوں میں صرف ہوا تھا۔ گاماں پہلوان دو برس کراچی میں قیام پذیر رہے تھے۔ جہاں اُنھوں نے " ری فیوجی ری ہیب لیٹیشن فائنانس کارپوریشن‘‘ سے دس ہزار روپیہ قرض لے کر ٹرانسپورٹ کا کاروبار شروع کیا تھا۔یہ 1952 کی بات ہے۔ اس کاروبار کی دیکھ بھال کے لیے گاماں پہلوان نے فہیم الدین فہمی کو نگران مقرر کیا تھا۔جنہوں نے اُنکی سوانح عمری "گاماں پہلوان"تحریر کر کے 1962 میں شائع کروائی۔

بیماری و وفات:
1955 ء میں گاماں پہلوان پر دل کا پہلا دورہ پڑا اور اسی سال مزید تین شدید دورے بھی پڑے۔ اُنکے خاندان کے مطابق اُنھیں راوی دریا پر معمول کی ورزش کے دوران مختلف اوقات میں 2 دفعہ سانپ نے بھی کاٹا تھا ۔بہرحال وقت گزارنے کے ساتھ اُنکی صحت بگڑتی چلی گئی۔ اس زمانے میں صدر ایوب خان نے گاماں پہلوان سے مکمل تعاون کیا۔لیکن بالاخر 23 مئی 1960 کو گاماں پہلوان نے اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کر دی۔
نوٹ:( میں محترم جناب عابد اسلم (پہلوان) صاحب کا بہت شُکر گزار ہوں جنہوں نے میرے رابطہ کرنے پر مجھے ٹیلی فون پر میرے سوالات کا جواب دیا اور بعدازاں ای میل کے ذریعے بھی جوابات دیئے)۔
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 308943 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More