جدید ٹیکنالوجی ، جدید اطوار

کسی بھی معاشرے میں ٹیکنالوجی کا بڑھنا ترقی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے ۔لیکن جب اس ٹیکنالوجی کا استعمال بے دریغ اور بے جا ہوجا ئے تو وہ نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔موبائل فون جدیدیت کی جانب ایک کامیاب قدم ہے ۔یہ جہاں انسانی زندگی میں آسانی اور ہر وقت رابطے میں رہنے کا سبب بنے وہیں اس کے زریعے دھوکہ دہی اور جرائم بھی بڑھنے لگے۔موبائل فون کی مقبولیت میں اضافے کی بڑی وجہ ایس ایم ایس پیکج بھی ہے۔

معمولی سی رقم ادا کرنے سے کبھی 500تو کبھی ہزار ایس ایم ایس کی آفر نے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب کو دوڑ میں لگا رکھا ہے ۔ ایس ایم ایس کی اس بھرمار پر کم خرچ ، بالا نشین کی مثال لاگو ہوتی ہے ۔ جہاں ان سستے پیکجز سے لوگوں کو آسانیاں مل رہی ہیں ۔وہیں ان کا منفی اور نقصا ن دہ استعمال بھی سامنے آرہاہے ۔کیوں کہ ایس ایم ایس کے زریعے لوگ تحریری طور پر گفتگو کرتے ہیں تو یہاں دھوکہ دہی کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قومی ناخواندگی سے فائدہ اٹھانے کا ایک اور طریقہ ایس ایم ایس فراڈ کی صورت سامنے آیا ۔جہاں لوگوں کو مختلف نمبرز سے ایس ایم ایس کرکے مختلف جھانسوں میں پھسانے کی کو شش کی جا تی ہے۔جدید ٹیکنالوجی نے لوگوں کو جدید طریقے بھی سکھا دیے ہیں ۔ ایس ایم ایس کے زریعے پیسے مانگنا ،اﷲ، رسول کا واسطہ دینا یہ سب دراصل گداگری کا جدید طریقہ ہے۔

ہمارا معاشرہ ویسے تو طبقاتی نظام کا شکار ہے لیکن حیرت انگیز طور پر تمام طبقات میں ایک خصوصیت یکساں پائی جاتی ہے اور وہ ہے موبائل فون چاہے کوئی بزنس میں ہو یا خوانچہ فروش،موبائل فون دونوں کی ہی اولین ضرورت ہے۔چونکہ ہمارے معاشرے میں خواندگی کی شرح کم ہے ۔ تو لوگ با آسانی ان دھوکے بازوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ ایس ایم یاس کے ذریعے ایسے جذباتی پیغام لوگوں کو پہنچائے جاتے ہیں جو ان کے ذہن پر فوری طور سے اثر انداز ہو جاتے ہیں۔مثلاً :’’ میں اس وقت اسپتال میں ہوں،بہت مشکل میں ہوں۔

آپ کو اﷲ کا واسطہ میرے نمبر پر سو روپے کا بیلنس ڈلوا دیجئے‘‘۔ ’’آپ پانچ سو روپے کا بیلنس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس ایس ایم ایس کو فلاں نمبر پر بھیجیں اور حاصل کریں پانچ سو روپے کا مفت بیلنس‘‘۔’’ معزز صارف انعامی اسکیم میں آپ نے جیتا ہے سونے کا ایک خوبصورت لاکٹ ۔ جسے حاصل کرنے کے لئے فلاں نمبرپر سو روپے کے پانچ کارڈ ڈلوائیں ،ہمارا نمائندہ آپ کے گھر انعام پہنچا دے گا‘‘۔ اور یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ ہماری روز مرہ زندگی میں موبائل فون کے ذریعے موصول ہونے والے مقبول ترین پیغامات ہیں۔اور ان پیغامات کے جال میں پھنس کرکئی معصوم لوگ اپنی رقم سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ایس ایم ایس فراڈ کا سلسلہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ بیلنس اور رقوم کی منتقلی کے علاوہ ایک اور بڑا فراڈ جو تیزی سے ترویج پا رہا ہے ،وہ غلط معلومات کا پھیلاؤ ہے۔ احادیث اور قرانی آیات میں ردوبدل کر کے اس کا پھیلانا دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے۔آج کل یہ رجحان عام ہو گیا ہے کہ غلط احادیث اور معلومات کو بغیرتصدیق اور حوالے کے ایس ایم ایس کے ذریعے آگے بڑھا دیتے ہیں۔جب کہ دین اسلام میں کہا گیا ہے کہ ـ’’انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ خبر کو بغیر تصدیق کے ٓگے بڑھا دے‘‘۔ نئی نسل اس صورتحال کا تیزی سے شکار بن رہی ہے۔ایک سازش کے تحت غلط احادیث پھیلائی جا رہی ہیں اور عدم آگہی کی بنا پرامت مسلمہ انھیں آگے بڑھا کر خود اپنا نقصان کر رہی ہے۔اسی طرح موبائل ٹیکنالوجی میں ایک اور خاطر خواہ اضافہ کیا۔ لیکن فراڈ کا سلسلہ یہاں بھی جاری ہو گیا۔جیسے ’’آپ کے لئے آواز ایس ایم ایس مصول ہوا ہے،سننے کے لئے فلاں نمبر ملایے‘‘ اور نمبر ملانے پر معلوم ہو تا ہے کہ وہ نمبر تو دراصل بیلنس کی منتقلی کا تھا۔اس قسم کے موبائل فراڈ سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ پہلے اچھی طرح دیکھ لیا جائے کہ موبائل پر آنے والا پیغام کسی کمپنی کے کوڈ سے آیا ہے یا پھر کسی عام نمبر سے موصول ہو ا ہے۔

اگر ایسے پیغامات کسی عام نمبر سے موصول ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ فراڈ پر مبنی ہیں۔ان سب مسائل کے ساتھ ساتھ ا یک اور سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایس ایم ایس کے ذریعے لڑکے اور لڑکیاں دھوکہ دے کر اپنی اصلی شناخت چھپا کر بات بات کرتے ہیں ، جس سے معاشرے میں غیر اخلاقی حرکات اور بے راہ روی بڑھ رہی ہے ۔ اسی طرح موبائل فون پر پیغامات کے ذریعے مختلف افواہیں آئے دن گردش میں رہتی ہیں ۔اور یہ افواہیں کسی زندہ شخص کو مردہ قرار دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جتنی تیزی سے ہماری انگلیاں موبائل پر ایس ایم ایس ٹائپ کرتے ہوئے چلتی ہیں ، اتنی ہی تیزی سے موبائل فراڈ کو جانچنے اور سمجھنے کے لئے دماغ بھی چلایا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان عوامل کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جس کی وجہ سے یہ فراڈ جنم لے رہے ہیں ۔ ایس ایم ایس فراڈ میں بڑی وجوہات تفریح طبع کی کمی، بے روز گار ی اور مختلف قسم کی اخلاقی برائیوں کا ہونا شامل ہیں ۔ جن کے سد باب کے لئے نوجوانوں میں صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ پر توجہ دینی چاہیے ۔ تاکہ ان کا رخ منفی کاموں کی جانب کم سے کم ہو ۔

Arshman Naseer
About the Author: Arshman Naseer Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.