مقصود حسنی بطورِ تجزیہ نگار

 کچھ لوگوں کا وجود ہر کسی کے لئے مسعود ہوتا ہے۔ وہ ما ہ و مہر کی طرح ہر کسی کو نہ صرف نور بانٹے ہیں بلکہ ان کی ہر طرح سے رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ ان کے اندر آبِ حیات کے ایسے چشمے ابلتے ہیں کہ جو بھی ان کی قربت کا جام نوش کرتا ہے عمرِ جاوداں کا سرور پاتا ہے۔ آسمانِ علم و ادب کا ایک ایسا ہی تابندہ ستارہ مقصود حسنی کے نام سے عالمی سطح پر اپنی کرنیں بکھیر رہا ہے۔وہ راہِ ادب کے ہزاروں تشنہ لبوں کی منزلِ مقصود ہیں۔ ان کی ادبی زندگی کا سفر نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط ہے جس میں انہوں نے اپنی ذہانت کے تیشے کو فرہاد کے جذبے سے آشنا رکھ کر ادب کے کوہِ گراں سے جوئے شیر نکالنے کی بامراد سعی فرمائی ہے۔انہوں نے اردو ادب کا دامن نت نئے موضوعات اور اصناف سے بھرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے شہسوارانِ ادب کے لئے خضرِ راہ کا کام بھی کیا ۔ علاوہ ازیں انہوں نے تنقید جیسے حساس اور سائنس مزاج میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔

بلا شبہ تنقید ایک مشکل فیلڈ ہے۔ اس میں جانبداری سے اپنا دامن بچانا مشکل ہی نہیں بعض اوقات نا ممکن بھی ہو جاتا ہے۔ ـ’سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے‘ کی مصداق یہ صنفِ ادب بہت سوں کو سچ کے قریب پھٹکنے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ اور وہ کسی تعلق کے محور کے گرد ایسے گھومتے ہیں کہ تنقید بچاری ہاتھ ملتے رہ جاتی ہے۔قاضی کا عہدہ اگر انصاف کیا جائے تو سولوں کی سیج سے کسی طرح بھی کم نہیں ہوتا اور اگر نا انصافی کرنی ہو اس جیسی موج بھی کہیں نہیں ملتی۔مقصود حسنی نے پہلا رستہ اپنایا ہے۔جس میں تنقید کا اصل کردار زندہ رہتا ہے یعنی کسی چیز کو اس کی اچھائی، برائی کے ساتھ بیان کرنا۔ اگرچہ تکریمِ انسانیت ان کا مذہب ہے لیکن وہ کسی ادب پارے کی تعریف و تحسین نا مناسب انداز میں کرنے سے مکمل طور پر اجتناب برتتے ہیں۔ وہ اصول رکھتے ہیں کہ تنقید کی حیثیت امانت جیسی ہے اس میں نا جائز تعریف یا تنقیص انسان کو توازن اور اعتد ال سے کوسوں دور کر دیتی ہے۔

وہ جہاں تخلیق کے میدان میں سیمابی مزاج کے مالک ہیں وہاں تنقید میں بھی وہ کسی منزل کو آخری منزل نہیں سمجھتے۔ اگرچہ وہ بہت سی منازل طے کر چکے ہیں لیکن وہ اکتفا کہیں بھی نہیں کر رہے۔ اور کسی تخلیق یا تنقید کو اپنی آخری پیش کش نہیں گردانتے۔ کیوں کہ وہ یہ کام اس لئے نہیں کرتے کہ ان کا مزاج ادبی ہے بلکہ وہ یہ کام اس لئے کرتے ہیں کہ ان کی روح ادبی ہے جو کہیں تھک کر بیٹھ جانے کی قائل نہیں۔ان کی انتھک کاوش ہی کا ثمر ہے کہ آج ان پر کتنے ہی ایم فل اور پی ایچ۔ڈی کے مقالے ہو رہے ہیں۔ ان کا کام صرف یہ نہیں کہ مقدار میں قارون کا خزانہ لگتا ہے بلکہ تخیل اور معیار میں بھی حاتم طائی کی سخاوت سے فزوں تر ہے۔ یہ سب کرشمے ان کی بے تاب روح کے ہیں جو ان کے ذہن کو نت نئے خیالات سے لبریز رکھتی ہے اور ان کا ذہن ، ان کے قلم کو محوِ پرواز رہنے پر راضی رکھتا ہے۔ لکھنا ان کی زندگی ہے۔ وہ لکھے بغیر وقت گزارنا معیوب سمجھتے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ اس گلوبل ولیج یا عالمی گاؤں کے معیاراتِ تحقیق و تنقید سے بھی واقفیت حاصل ہو ۔ جن سے شناسائی کے بغیر بات مشرق و مغرب میں یکساں طور پر پذیرائی مشکل ہے۔آج کی سوچ اورا ادراک علاقائی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہیں۔ اس لئے آج کے شعور کو مشرق و مغرب کی تفہیم رکھنا نا گزیر ہے۔ مقصود حسنی اس حقیقت سے کئی سال پہلے ہی آگاہی حاصل کر چکے تھے۔ انہوں نے مشرق کے ساتھ ساتھ مغرب کا بھی بھرپور مطالعہ کیا ہے۔ اور اس طرح وہ صراطِ مشرقین و مغربین ہیں۔ ان کی تجزیاتی اپروچ انہی افقوں سے ابھرتی ہوئی نصف النہار تک جا پہنچتی ہے جہاں ان سے اختلاف کی گنجائش تو رہ سکتی ہے لیکن انکار کی گنجائش نہیں رہتی۔

ان کی تجزیاتی تحریریں قریباً قریباً ہر اس صنف پر ہیں جن کو ادب ایک صنف کا درجہ دیتا ہے۔ وہ شاعری اور نثر دونوں میں کمال کی مہارت اور بصیرت رکھتے ہیں۔اگرچہ کسی ایک صنف کا نقاد اس میں کہنہ مشق ہو کر ایک بہتریب رائے قائم کرتا ہے، لیکن مقصود حسنی کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر صنف میں ہی کہنہ مشق اور با کمال لگتے ہیں۔ وہ نثرپاروں کی تجزیاتی توجیح کر رہے ہوں یا شاعری کی رمز آفرینی سے حظ اٹھا رہے ہوں ان کی باریک نگاہی سے کسی عیب و ہنر کا بچ نکلنا محال ہے۔ وہ سرسری بات میں بھی گہرائی تک رسائی کی دسترس رکھتے ہیں۔ اور جب وہ کسی ادبی کاوش کو تجزیہ نگاری کی خوردبین میں دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ان کا فوکس کوئی ایک نقطہ یا مرکز نہیں ہوتا وہ اس ادب پارے کو ماضی ، حال اور مستقبل ہر زاویئے سے پرکھنے اور جانچنے کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔

ایک نقاد ایک ٹینر (tannar) کی سی حیثیت رکھتا ہے وہ اس ادب پارے کی کھال سے جیسے چاہے چمڑے تیار کر سکتا ہے ۔ وہ اس کو جیسے چاہے رنگوں میں ڈھال کر دکھا سکتا ہے۔ لیکن یہ مہارت ہر ٹینر میں نہیں ہوتی۔ مقصود حسنی کا بلا شبہ ایسا دباغ کہا جا سکتا ہے جو کسی ادب پارے کی جیسی چاہے تجزی کر کے دکھا سکتا ہے۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ وہ امانت اور دیانت کا دامن ہاتھ سے کسی قیمت پر نہیں چھوڑتے۔ وہ اپنے مخالف خیال لوگوں کی تخلیقات کو بھی انہی عدسوں کے ذریعے پرکھتے ہیں جن عدسوں سے وہ اپنے ہم خیال احباب کی تحریروں پر اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ان کے میزانِ عدل ان کو غیر معقول کرنے ہی نہیں دیتا ۔ ان کی طرف سے کہی یا لکھی جانے والی ہر بات اپنے ساتھ معقولیت اور توازن رکھتی ہے۔وہ ضرورت سے زیادہ ایک لفظ کا استعمال بھی ادبی فضول خرچی سمجھتے ہیں اوراس سے مکمل اجتناب کرتے ہیں۔وہ جو اصول و ضوابط اپنی تحریروں پر نافذ کرتے ہیں انہیں دوسروں کی تخلیقات میں بھی تلاش کرتے ہیں۔ وہ دوہرے معیار سے کام لینے کے قائل نہیں۔

ان جائزوں سے یہ بات قاری پر یوں منکشف ہوتی ہے جیسے صبح کا اجالااپنے آپ کو منوا تاہے۔ان کے جائزے حوصلہ شکنی کی ڈگر پر نہیں چلتے بلکہ وہ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے محبت کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے تنقید کا کٹھن فریضہ انجام دیتے ہیں۔ وہ ادب پرور اور ادب افزاتجزیہ نگار ہیں۔ وہ اصلاح برائے بقا نہ کہ اصلاح برائے فنا کے علمبردار ہیں۔ ان کے ادبی جائزوں نے بہت سوں میں نیا جوش و خروش لیکن پہلے سے زیادہ ہوش کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ کسی نووارد کا رستہ مسدود نہیں کرتے بلکہ اسے ایک گھنے برگد کی چھاؤں میں بیٹھ کر اپنی صلاحیتوں کو چار چاند اور اپنے تیشہء تخلیق کو نئے پیکر تراشنے کا بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں۔

ان کے تجزیئے اپنی زبان کے لحاظ سے بھی قابلِ تعریف ٹھہرتے ہیں۔ وہ زبان کو کبھی بھی قاری کا مسئلہ نہیں بننے دیتے اور نہ ہی اسے عامیانہ ہونے کی کھلی چھٹی دیتے ہیں۔ وہ ایسی نپی تلی زبان کا استعمال کرتے ہیں کہ ادب کی حلاوت بھی رہتی ہے اور ابلاغ کا فریضہ بھی ادا ہوتا ہے۔وہ پُر کاری سے بھری سادگی کا خوب استعمال کرتے ہیں کہ
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

ادب کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں ایک اور اجنبی مانوس ہوتا جا رہا ہے۔ اور اس اجنبی کا عام تعارف لسانیات کے نام سے کروایا جاتا ہے۔ مقصود حسنی کی دور رس نگاہوں نے بہت پہلے ہی اس اجنبی کے قدموں کی چاپ سن لی تھی اور اسے شیشے میں اتارنے کی بھرپور کوشش بھی کر لی تھی اور کسی حد تک اتار بھی لیا تھا۔ انہوں نے لسانیات کے میدان کو بھی اپنے فیض سے محروم نہیں رکھا۔بلکہ اس میں بہت سا کام کر دکھایا اور اپنے ہم عصروں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا کہ وہ یہ بھی کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں انہوں نے لسانیاتی تجزیئے بھی کر ڈالے اور ادب پاروں کی لسانیات پر یوں کھل کر بات کی کہ ادب کی بہت سی نام نہاد بڑی شخصیات انگشت بہ دنداں ہو گئیں۔ ان کے لسانی تجزیئے لسانیات پر کام کرنے والوں کے لئے مینارِ نور ہیں ۔

الغرض مقصود حسنی کے ادبی اور لسانی تجزیوں کے جائزے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے اندر ایک اچھے نقاد سے زیادہ ایک اچھا انسان رکھتے ہیں۔ وہ عیب چھپاتے ہیں لیکن کسی کا حق نہیں مارتے۔ وہ تجزیئے میں مروت کا دامن بھی تھامے رکھتے ہیں۔وہ اصول و ضوابط کی حرمت کو پامال نہیں کرتے لیکن انسان کو ان سے بالا تر بھی سمجھتے ہیں۔ وہ لفظ کوشخص کا تابع قرار دیتے ہیں۔وہ ادب اور انسانیت کو ایک قرار دیتے ہیں بلکہ انسانیت کو ادب پر ترجیح دیتے ہیں اور یہی اصول وہ اپنے تجزیوں میں بھی اپلائی کرتے نظر آتے ہیں۔

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 283988 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More