’بیاد جمیل الدین عالیؔ‘ بہ اہتمام ایوان اردو کی تقریب میں اظہار خیال

ڈاکٹر رئیس صمدانی اظہار خیال کرتے ہوئے، ڈاکٹر فاطمہ حسن اور معراج جامی

جمیل الدین عالیؔ اردو زبان و ادب کا نقصانِ عظیم ہے ۔ عالی ؔ جی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں انجمن اور ادارہ ، کچھ کر گزرنے کے جَذبَہ سے شرشار ، مستقل کے لیے کچھ چھوڑجانے کا ولولہ لیے ہوئے تھے ۔ علمی ، ادبی، سماجی، فکری، تہذیبی حوالوں سے عالی ؔ جی کی کاوشیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔علمی و ادبی سرمایے کے علاوہ انجمن ترقی اردو،جامعہ اردو ، رائیٹرز گلڈ ان کی زندگی کے ایسے عظیم کارنامے ہیں کہ جو انہیں مدتوں زندہ رکھیں گے۔ عالی ؔجی کے لکھے ہوئے ملی نغمے ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں۔بابائے اردو کے بعد اردو کے فروغ اور نفاذ کے لیے عالیؔ جی کی کاوشیں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ۔ انجمن ترقی اردو کے علاوہ مختلف اداروں کی جانب سے عالیؔ جی کی یاد میں تعزیتی اجلاسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے ۔ عالیؔ جی کی شخصیت اور ان کی علمی و ادبی خدمات اس بات تقاضہ کرتی ہیں کہ ان کی انہیں خراج عقیدت پیش کیا جائے اور ان کے علمی و ادبی کارناموں کو روشناس کرایا جائے۔

ایوانِ اردو ایک قدیم ادارہ ہے جس کے بانی ڈاکٹر حمید الدین شاہد مرحوم تھے۔ جب تک ڈاکٹر شاہد حیات رہے ایوانِ اردو ادبی و علمی سرگرمیوں کے حوالے سے فعال رہا۔ ڈاکٹر شاہد نے اپنے گھر 43 بلاک بی ، فرید الدین بقائی روڈ ناظم آباد کا نام ہی ’ایوانِ اردو‘ رکھ لیا تھا اورآج بھی اس گھر پر ایوانِ اردو کی تختی آویزاں ہے۔ ڈاکٹر حمید الدی شاہد کے فرزند ار ڈاکٹر خرم حمید جو ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں نے عالیؔ جی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بیادِ جمیل الدین عالی کا اہتمام اپنی رہائش گاہ پر بروز ہفتہ 26دسمبربعد مغرب کیا۔ اس تقریب کے روح رواں جناب محمود عزیز صاحب تھے۔ وہ ایوان اردو کے معتمداعزازی بھی ہیں۔تقریب کی صدارت انجمن ترقی اردو پاکستان کی معتمد اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کی۔

راقم نے بھی اس موقع پر عالیؔ جی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
کچھ دن گزرے عالی صاحب عالیؔ جی کہلاتے تھے
محفل محفل قریے قریے شعر سنانے جا تے تھے

جمیل الدین عالیؔ ایک عہد ساز شخصیت ، اپنی ذات میں انجمن اور ادارہ ، کچھ کر گزرنے کے جَذبَہ سے شرشار ، مستقل کے لیے کچھ چھوڑجانے کا ولولہ لیے ہوئے تھے ۔ علمی ، ادبی، سماجی، فکری، تہذیبی حوالوں سے عالی ؔ جی کی کاوشیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔علمی و ادبی سرمایے کے علاوہ انجمن ترقی اردو،جامعہ اردو ، رائیٹرز گلڈ ان کی زندگی کے ایسے عظیم کارنامے ہیں کہ جو انہیں مدتوں زندہ رکھیں گے۔ عالی ؔجی کے لکھے ہوئے ملی نغمے ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں۔بابائے اردو کے بعد اردو کے فروغ اور نفاذ کے لیے عالیؔ جی کی کاوشیں تاریخ کا حصہ ہیں ۔ 23نومبر کو عالیؔ جی کی سانسوں کو سفر اختتام پزیر ہوا۔اگلے روز 24نومبر کو کراچی کے آرمی قبرستان میں اپنی والدہ اور شریک حیات کے درمیان ابدی نیند سو گئے۔ عالیؔ جی سے کون واقف نہیں، کس کس کے کام عالیؔ جی نہیں آئے، کون ہے جو ان سے نہیں ملا، کس کس پر انہوں نے عنایتیں نہیں کیں۔ ایک طویل فہرست ہے ان لوگوں کی جو عالیؔ جی سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرنا چاہیتے ہیں، اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہی میں سہی انہیں خراج تحسین پیش کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ عالیؔ کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

آرمی قبرستان میں تدفین کے حوالے سے عالی ؔ جی کے فرزند ارجمند راجو جمیل صاحب نے بتا یا تھا کہ آرمی چیف آف اسٹاف مرزا اسلم بیگ تھے، اس وقت عالیؔ جی کو آرمی کی جانب سے خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ ہم آپ کو کسی اچھی جگہ کشادہ پلاٹ دینے کی خواہش رکھتے ہیں، راجو جمیل نے بتا یا کہ والد صاحب نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ مجھے دو نہیں بلکہ تین پلاٹ چاہیے، ایک اپنے لیے، ایک اپنی والدہ کے لیے اور ایک اپنی شریک حیات کے لیے اور یہ تینوں پلاٹ مجھے آرمی کے قبرستان میں چاہیے۔یقینا خط کا جواب پڑھ کر متعلقہ حکام حیران و پریشان ہوگئے ہوں گے، انہیں یہ یقین نہیں آرہا ہوگا کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ گویا عالی جی کی خواہش تھی کہ وہ آرمی کے قبرستان میں اپنی ماں اور اپنی شریک حیات کے ساتھ دنیا وی زندگی کے بعد کی زندگی ایک ساتھ آرمی کے قبرستان میں بسر کریں۔ ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں، یقینا اس جواب سے آرمی کے افسران لاجواب ہوگئے ہوں گے اور عالیؔ جی کا قد ان کی نظروں میں کس قدر بلند ہوا ہوگا اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں۔ ایسا ہی ہوا، عالی ؔ جی کو ان کی زندگی میں ہی ان کی خواہش کے مطابق تین پلاٹ آرمی کی جانب سے الاٹ کر دیئے گئے تھے، ان میں سے دو پلاٹوں پر دائیں جانب عالی ؔ جی کی والدہ ، بائیں جانب عالی ؔ جی کے شریک حیات طیبہ بانو آرام فرما ں تھیں ، درمیان کا پلاٹ 23 نومبر تک خالی تھا لیکن قبر بے تابی سے اپنے مکین کی راہ تک رہی تھی اوراپنے ہر دلعزیز مکین کے لیے اپنا سینہ واہ کیے ہوئے تھی ، 24نومبر کو اس کی گود عالیؔ جی کے جسم اطہر سے منور ہوگئی۔

عالیؔ جی کے تین کارنامے تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے جائیں گے۔ ایک بابائے اردو کے بعد طویل عرصہ انجمن ترقی اردو پاکستان کے اعزازی معتمد کی حیثیت سے خدمات انجام دینا ، دوسری جامعہ اردو کا قیام اور تیسرارائیٹرز گلڈکا قیام اور اس کی زیر سایہ پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں کو جمع کرنا ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ کہا جاتا ہے کہ عالیؔ جی انجمن اور گلڈ کے معاملات میں اس قدر فنا تھے کے ان کی اولادوں کا کہنا تھا کہ آپس میں کہا کرتے تھے کہ وہ چانچ بہن بھائی نہیں بلکہ سات بہن بھائی ہیں، یعنی پانچ وہ اور ایک بہن ’انجمن‘ اور ایک بھائی ’گلڈ‘ ہے۔ راجو جمیل رائیٹرز گلڈ دوبارہ سرگرم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ خدا کرے کہ وہ اس میں کامیاب ہوں گلڈ کے حوالے سے عالی جی ایک شعر ؂
پھر دیکھا کہ بچہ بچہ ہنستا تھا اور عالی جی
فردیں لکھتے مسلیں پڑھتے اور’’گلڈ‘‘ چلاتے تھے

عالیؔ جی جب بھارت ماتا سے پاکستان آئے تو وہ شاعر کی حیثیت سے معروف تھے۔اس فن میں اپنا اپنا سکہ بٹھا چکے تھے۔ پاکستان کے حوالے سے انہوں نے دنیا بھر میں نام روشن کیا وہ یادگار ہے۔ عالیؔ جی کے تمام کام تاریخ کاحصہ ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔بقول پروفیسر سحرؔ انصاری وہ پیش رو اور پیش بیں شخصیت تھے ۔ انہوں نے ادب کی مختلف اصناف پر بہت کچھ اور بامقصد لکھا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے کالم منفرد اور معلوماتی ہوا کرتے تھے۔ کالم نگاری میں بھی عالیؔ جی نے جدت پیدا کی۔ جس موضوع پر کالم ہوتا اس کے بارے میں ذاتی مشاہدات اور معلومات بھی جمع کردیا کرتے تھے۔ وہ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی مطمئن نہیں تھے وہ کچھ اور کرنا چاہتے تھے۔
عالی تونے اتنے برس اس دیس کی روٹی کھائی
یہ تو بتا تیری کوتارانی دیس کے کس کام آئی؟

عالی ؔ جی کی اصول پسندی کا ایک واقعہ رضوان احمد صاحب نے سنا یا تھا جسے میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔رضوان صاحب نے فرمایا کہ وہ ایک شام دیگر کے ساتھ عالیؔ جی کے گھر کسی تقریب میں مدعو تھا ۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی ، ’عالیؔ جی نے سلام دعا کی اور ایک دم گویا ہوئے کون گورنر؟ میں کسی گورنر کو نہیں جانتا، انہوں نے مجھ سے وقت لیا ؟ میں اس وقت مصروف ہوں ، ان سے نہیں مل سکتا‘۔ رضوان احمد کاکہناتھا کہ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ گورنر صاحب ہیں تو انہیں بلالیجئے، ملاقات کر لیجئے، کہنے لگے سندھ کے نئے گورنر کا پی اے کا فون تھا، کہتاتھا کہ گورنرصاحب ابھی آپ کے گھر حاضر ہونا چاہتے ہیں۔ میں انہیں آنے کی اجازت کیسے دے دوں، گورنر ہوں گے اپنے لیے، یہ تقریب پہلے سے طے ہے، اگر انہیں ملنے آنا ہے تو وقت لے کر ضرور آجائیں۔

عالیؔ جی سچے محب وطن اور کٹر پاکستانی تھے۔ اس کا ثبوت ان کے لکھے ہوئے بے شمار ملی نغمے ہیں۔انہیں پاکستان کے دولخت ہونے کا شدید دکھ تھا۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں علامہ اقبال سے اعتراف کرتے ہوئے کہا ؂
ہاں میرے بابا، ہاں میرے مرشد میں تجھ پر قربان
تو نے بنایا ، میں نے بگاڑا تیرا پاکستان
اپنے وطن کو دعا دیتے ہوئے کہتے ہیں ؂
ہم تو مٹ جائیں گے اے ارض وطن لیکن تجھ کو
زندہ رہنا ہے قیامت کی سَحر ہونے تک

عالیؔ جی اپنی تحریروں کے حوالے سے ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ محبِ وطن پاکستانی تھے۔عالیؔ جی کے لازوال قومی نغموں میں پاکستان سے محبت جھلکتی ہے ، عالیؔ جی نے ثابت کردیا کہ وہ صرف خواب نہیں دیکھتے تھے بلکہ اس کی تعبیر بھی کرتے تھے۔ عالیؔ جی کے دل میں مکمل پاکستان بساہوا تھا۔وہ پاکستان کو اپنے ساتھ لے کر چلا کرتے تھے عالی جی کے اس شعر پر بات کو ختم کروں گا ؂
اب جو میرے بغیر انجمن آرائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ تم کو میری یاد آئی ہے

ایوان اردو میں بیاد جمیل الدین عالی ؔ کی تقریب رات گئے اختتام پزیر ہوئی۔ معراج جامی نے تمام مہمانِ گرامی کا شکریہ ادا کیا ۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285978 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More