شدت پسند جماعتِ اسلامی کے جرائم

اس جماعت کے جرائم بہت سنگین ہیں۔ یہ جماعت معتدل ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن مخالفین کہتے ہیں کہ یہ شدت پسند جماعت ہے۔ ہم بھی اسی حوالے سے آج جماعت ِ اسلامی کی شدت پسندی اور انتہا پسندی کے کچھ جرائم ثبوت کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کریں گے۔
جماعت ِ اسلامی قیام پاکستان سے قبل ہی وجود میں آئی تھی۔ اس جماعت کے جرائم بہت سنگین ہیں۔ یہ جماعت معتدل ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن مخالفین کہتے ہیں کہ یہ شدت پسند جماعت ہے۔ ہم بھی اسی حوالے سے آج جماعت ِ اسلامی کی شدت پسندی اور انتہا پسندی کے کچھ جرائم ثبوت کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کریں گے۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد بانی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اس جماعت کے بانی اور پہلے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو ریڈیو پاکستان سے تقاریر کرنے کی درخواست کی، یہ درخواست اس مقصد کے لیے کی گئی کہ سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ لوگوں کو اسلامی ریاست، اس کے بنیادی خدو خال، اس کے اصول و ضوابط کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ یہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔لیکن اس جرم کے ساتھ ایک اہم بات اور بھی منسلک ہے۔ ریڈیو سے تقاریر کرنے کی درخواست قائد ِ اعظم محمد علی جناح ؒ نے کی تھی، اس کا کیا مطلب یہ ہوا کہ قائد اعظم ؒ بھی کوئی سیکولر یا لبرل پاکستان نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اب سیکولر ، لبرل طبقہ اس بات کو کتنا ہی جھٹلاتا رہے، قائد کی تقاریر کے من مانے حصے لوگوں کے سامنے پیش کرکے لوگوں کو کتنا ہی گمراہ کرنے کی کوشش کرے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قائد اعظم ؒ نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ سے سرکاری ریڈیو پر تقاریر کروائیں ہیں۔

قیام پاکستان کچھ عرصہ قبل جب فسادات شروع ہوئے ،تو اس وقت یہ شدت پسند جماعت ِ اسلامی تھی جس نے مشرقی پنجاب کے علاقے پٹھان کوٹ میں مسلمانوں کی حفاظت کے لیے پہرہ داری نظام قائم کیا، مہاجرین کے قافلوں کو بحفاظت پاکستان کی سرحدوں میں پہنچانے کا انتظام کیا۔ یہ کام بھی جماعت اسلامی کی شدت پسندی کو ظاہر کرتا ہے، بھلا کیا ضرورت تھی مسلمانوں کو بچانے کی، ان کے لٹے پٹے قافلوں کو اپنی حفاظت میں پاکستان کی حدود میں پہنچانے کی ؟ پس ثابت ہوا کہ یہ بھی جماعت ِ اسلامی کا ایک جرم ہے کہ وہ مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے تیار رہتی ہے۔

آئیے ایک اور جرم دیکھیے ۔قیام ِ پاکستان کے فوراً بعد جب مہاجرین قافلہ در قافلہ پاکستان آرہے تھے، ان کے رہن سہن کے انتظامات، اس کے علاوہ قافلوں کے ساتھ جو شہدا کی میتیں تھیں، ان کے کفن دفن کا انتظام ایک مسئلہ تھا، نوزائیدہ ریاست ابھی دیگر مسائل میں الجھی ہوئی تھی۔ اس صورتحال میں یہ جماعت اسلامی تھی جس نے پاکستان میں پہلی بار مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ، لاشوں کے کفن دفن کا انتظام کیا، اس کے ساتھ ساتھ حتی الامکان مہاجرین کی مدد کرنے کی کوشش کی۔ بھلا یہ جرم کبھی معاف ہوسکتا ہے؟

صاحب جرائم کی ایک طویل تاریخ ہے جماعت اسلامی کی۔ کون کون سا جرم گنوائوں میں؟ چلیے ماضی بعید کے جرائم چھوڑ دیجیے۔ ذرا ماضی قریب کے جرائم تو دیکھیے۔ یہ جو شہر کراچی ہے، پاکستان کا سب سے بڑاشہر۔ اس شہر کی نظامت جماعت ِ اسلامی کے ایک بوڑھے کارکن نعمت اللہ خان کے ناتواں کندھوں پر آگئی۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس بوڑھے نے شہر میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع کردیے۔ اپنے ساڑھے تین سالہ دور نظامت میں کم و بیش 32کالجز قائم کیے، جن میں بچیوں کے کالجز قابل ذکر تعداد میں ہیں۔( بھلا بتائو بچیوں کو پڑھانے کا جرم قابل ِ معافی ہوسکتا ہے؟) ہاں اس کے بعد آنے والے ناظم شہر نے کوئی نیا کالج قائم نہیں کیا۔ اس شہر میں امراض قلب کا صرف ایک ہی مرکز تھا۔ اس بوڑھے نے فیڈرل بی ایریا میں امراض قلب کا ایک نیا مرکز قائم کرکے دکھایا۔ دنیا چاہے کچھ بھی کہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2005کے اوائل میں اس ہسپتال میں پہلا آپریشن بھی ہوچکا تھا۔ اب چاہے کوئی کتنا ہی اس بات کا کریڈٹ لینا چاہے کہ یہ مرکز نعمت اللہ خان نے نہیں بلکہ ہم نے قائم کیا ہے لیکن وہ حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا۔

اسی بوڑھے بابے نے شہر میں ماحول دوست گرین بسیں متعارف کرائیں۔ اہل کراچی کے لیے گرین بسوں کے ساتھ ساتھ آرام دہ یو ٹی ایس بسوں کا تحفہ دیا، وہ اہل کراچی جو ٹوٹی پھوٹی، کھٹارا بسوں کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھے تھے، ان کے لیے یہ تحفہ ایک نعمت تھا۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ اس بابے کی نظامت ختم ہوتے ہی یہ بسیں سڑکوں سے غائب کردی گئیں، اور ایک ڈیڑھ سال کے وقفے سے وہی بسیں ، وہی روٹ اپنے نام سے جاری کردیئے گئے۔

اور تو اور یہ جو سیکرل لبرل طبقہ مذہبی تعلیم ، مدارس کے نظام کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، یہ جو بچیوں کے تعلیم کے شور مچاتا رہتا ہے، حقیقتاً اس نے بچیوں کی تعلیم اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے سوائے شور کرنے کے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا۔لیکن اس بوڑھے شخص نے سٹی گورنمنٹ کے اسکولوں میں بچیوں کی تعلیم نہ صرف مفت کردی بلکہ بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے،سٹی گورنمنٹ کی طرف سے بچیوں کے لیے ماہانہ بنیاد پر وظیفہ جاری کیا۔ یہ کام پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی نے نہیں کیا، ہاں یہ جرم بھی جماعت ِ اسلامی کا ہے کہ اس نے بچیوں کی تعلیم کے لیے عملی طور پر یہ قدم اٹھایا۔

اور سنیے یہ ہمارے ارکان اسمبلی ہوتے ہیں، ہ وزیر مشیر ہر بجٹ میں اپنی تنخواہ اور مراعات بڑھانے کی بات کرتے ہیں، نہ صرف بات کرتے ہیں بلکہ بڑھاتے بھی ہیں، ہر بجٹ میں ان کی تنخواہیں ار مراعات سو سو فیصد تک بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے ماحول میں جماعت ِ اسلامی سے تعلق رکھنے والا ایک صوبے کا وزیر خزانہ اور سینئر وزیر جب بجٹ پیش کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہماری تنخواہیں پہلے ہی زیادہ ہیں اس لیے ہم اپنی تنخواہیں نہیں بڑھائیں گے بلکہ اپنی تنخواہیں ایک ایک ہزار روپے کم کریں گے اور میں صوبے کا سینئر وزیر ہوں تو میری تنخواہ دو ہزار روپے کم کی جائے، اور یہ رقم عوام کی فلاح و بہبود ے لیے خرچ کی جائے گی۔عزیزو ! یہ تو بہت بڑا جرم ہے۔بھلا بتائو اگر وزیر ، مشیر، ارکان اسمبلی اپنی تنخواہوں میں کمی کردیں، مراعات کم کردیں تو پھر اسمبلی کا ممبر بننے کا کیا فائدہ؟ اب جو لوگ ایسی’’ غلط روایات‘‘ کی طرح ڈالیں، ایسی ’’خراب مثالیں‘‘ قائم کریں تو ان کا ’’جرم ‘‘معافی کے قابل تو نہیں ہوگا نا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کی ہر سطح پر بیخ کنی کی جائے، ان کو دہشت گرد، انتہا پسند ، شدت پسند ، بنیاد پرست قرار دیا جائے تاکہ عوام ان سے دور رہیں اور سیکولر، لبرل، قوم پرستوں کا کاروبار جاری و ساری رہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1451823 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More