پیرس حملے ۰۰۰ اسرار کے پردے

13؍ نومبر 2015کو پیرس میں حملوں کے بعد دولت اسلامیہ (داعش) نے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ساری دنیا میں فرانس کے تئیں ہمدردی اور اظہار یگانگت کیا جانے لگا۔ عالمی سطح پر دولت اسلامیہ کے خلاف سخت سے سخت کارروائیوں کیلئے مغربی ویوروپی ممالک کے سربراہان نے فیصلہ کیا اور فرانس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرار دادمتفقہ طور پر منظور کروائی جس میں تمام ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں شامل ہوں ۔اس قرار داد میں عراق اور شام میں سرگرم داعش کے خلاف کارروائیوں کو مربوط انداز میں دوگنا کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔قرار داد میں داعش کو دنیا کے امن و سیکیوریٹی کے لئے ایک غیر معمولی عالمی خطرہ قرار دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس قرار داد میں فوجی کارروائی کی قانونی بنیاد فراہم نہیں کی گئی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 7بھی شامل نہیں جس کے تحت طاقت کے استعمال کی قانونی طور پر اجازت دی جاتی ہے تاہم فرانسیسی سفارتکاروں کے مطابق اس سے دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں اہم بین الاقوامی سیاسی حمایت حاصل ہوگی۔ 13؍ نومبر کو پیرس میں جو حملے ہوئے ہیں اس سلسلہ میں بھی متضاد خبریں گشت کررہی ہیں کہ، کیا واقعی پیرس میں دولت اسلامیہ نے حملے کئے ہیں یا پھر دشمنان اسلام کی جانب سے شام اور عراق پر حملوں کے لئے ایک نئی سازش کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل عام اور ان کی معیشت کو تباہ و برباد کرنا ہے۔13؍ نومبر کے حملوں کے بعد شام میں فرانس نے جس تیزی سے فضائی کارروائی کرکے معصوم اور بے قصور بچوں و افراد کا قتل عام کیا ہے اس پر ساری دنیا کو فرانس کی اس کارروائی کے خلاف منتظم احتجاج کرنا چاہیے تھا کیونکہ دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر فضائی کارروائی کا بہانہ بناکر جس طرح معصوم انسانیت کا قتل عام کیا جارہا ہے اس پر اقوام متحدہ خاموش تماشائی کی طرح نظارہ کررہا ہے۔ کیوں نہ ہو اقوام متحدہ پر جن ممالک کی اجارہ داری ہے وہی ممالک شام، عراق اور دیگر اسلامی ممالک کو ان کی جی حضوری میں دیکھنا چاہتے ہیں اور ان ممالک پر اپنا رعب و دبدبہ برقرار رکھنے کے لئے دولت اسلامیہ کی مالی اعانت کرنے کے نام پر بعض اہم اسلامی ممالک کو مستقبل میں خطرہ کی گھنٹی دکھارہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے آج دنیا میں قتل و غارت گیری ، بم دھماکے، خودکش حملے اور دیگر کارروائیوں کی خبریں اور تصاویر انٹرنیٹ کے ذریعہ گشت کرنے لگتی ہیں لیکن سوشل میڈیا کی اتنی ترقی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پیرس میں ہونے والے حملوں کی کوئی صحیح تصویر انٹرنیٹ پر دکھائی نہیں دی ، نہ تو حملہ آوروں کی تصاویر ، نہ مرنے والوں کی اور نہ زخمیوں کی تصاویر اور انکے افراد خاندان کی جو غمزدہ ہیں۔ دیڑھ سو افراد کی ہلاکتیں اور کم و بیش تین سو زخمیوں کی تصاویر جو ہاسپتلوں میں شریک ہیں دکھائی جانی چاہیے تھی۔ دوسرے دن سے فرانس کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کی تصاویر جس طرح ذارئع ابلاغ کے ذریعہ منظر عام پر آرہی ہے اسی طرح پیرس حملوں کی تصاویر بھی سوشل میڈیاو دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ گشت کرنی چاہیے تھی۔پیرس میں حملوں کے نام پر یوروپی ممالک میں سخت چوکسی اختیار کی گئی ہے جبکہ بیلجیئم کے شہروں میں جہاں مسلم آبادی والے علاقے ہیں مشتبہ افراد کی گرفتاری کیلئے پولیس کارروائیاں جاری ہیں ،ساں ڈنی میں پیرس حملے کے اصل منصوبہ ساز عبدالحمید ابا عود کوپولیس کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک کردیئے جانے کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے ۔بیلجیئم میں واقع علاقہ مولن بیک آپریشن کا اہم مرکز رہا، بیلجیئم کے دوسرے علاقوں میں بھی جہاں مسلم آبادی ہے دولت اسلامیہ کے تار ملتے بتائے جارہے ہیں۔پیرس حملوں کے بعد اقوام متحدہ میں منظور کی گئی قرار داد سے سوپر پاور اور دیگر دشمنانِ اسلام ممالک کو اپنے ہتھیاروں کی نمائش کرنے اور ناکارہ یا اکسپائر ڈیٹ ہونے والے ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف مہم میں شامل ہونے کا بہترین جواز دستیاب ہوا ہے۔ دنیا کے سوپر پاور کہلائے جانے والے عصری اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ خطرناک ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود ایک شدت پسند تنظیم کے خلاف 65ممالک کا اتحاد سمجھ سے باہر ہے۔ دولت اسلامیہ ہو یا طالبان، النصرہ فرنٹ ہو یا القاعدہ یا کوئی اور۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دولت اسلامیہ اتنی طاقتور ، معاشی اعتبارسے مستحکم اور افرادی طاقت میں بے تحاشہ اضافہ رکھتی ہے ۔ اگر واقعی دولت اسلامیہ کی افرادی طاقت دنیا کے تمام ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اور معاشی اعتبار سے مستحکم ہے تو پھر شاید عالمی سوپر پاور ممالک اس شدت پسند تنظیم سے مقابلہ کرنے سے قاصر ہوجائیں گے۔ دولت اسلامیہ کے خلاف عالمی اتحاد تیسری جنگ عظیم کو روکنے میں ممددومعاون ثابت ہوسکتا ہے یا اتحادی ممالک کی دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی ، تیسری عالمی جنگ کا بیش بہا تو نہیں ثابت ہوسکتی۔ ہوسکتا ہیکہ اس مرتبہ تیسری عالمی جنگ عالمی اتحاد اور شدت پسند اسلامی تنظیموں کے درمیان ہو۔ دولت اسلامیہ کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متفقہ قرارداد منظور ہونے کے بعد دوشنبہ23؍ نومبر کوامریکی محکمہ خارجہ کے مطابق اتحاد میں شامل 65ممالک میں سے 59ممالک کے سفیروں نے دولت اسلامیہ کے خلاف مہم کے بارے میں بات چیت میں شرکت کی۔اس موقع پر امریکہ نے دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں میں شریک اپنے اتحادی ممالک سے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر زور دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ کے مطابق امریکہ دولت اسلامیہ کے خلاف اپنی قیادت میں جاری عالمی فوجی مہم میں ممکنہ طور پر فضائی حملوں اور تربیت اور مدد کی کارروائیوں میں اضافہ کرسکتا ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں کارگر رہی ہیں۔تاہم انہوں نے اس خیال کو رد کردیا کہ امریکہ اس جنگ کے لئے مزید نئے وسائل استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، انکا کہنا تھا کہ امریکہ اس اتحاد میں اپنی استطاعت سے زیادہ حصہ لے رہا ہے اور مزید بھی کچھ کیا جاسکتا ہے اگر دیگر ممالک مزید وسائل مہیا کریں۔ان اتحادی ممالک کے اجلاس میں دولت اسلامیہ کے مالیہ کو نشانہ بنانے اور اس میں شمولیت کے خواہشمند افراد کو شام اور عراق پہنچنے سے روکنے کی حکمت عملی پر غور و خوض کیا گیا۔برطانوی حکومت نے بھی ایک نئی حکمت عملی کے ذریعہ پانچ پانچ ہزار فوجیوں پر مشتمل دو حملہ آور فوجی دستے (اسرٹائیک بریگیڈز) تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ دستے موجودہ فوج میں سے نئے حملہ آور دستے جو دنیا میں کہیں بھی تعینات کئے جاسکیں گے اور فوج کی جدید نسل کی آئیکس بکتر بند گاڑیوں کا استعمال ہوگا۔برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے مطابق تازہ حکمت عملی اس بات کے پیش نظر ہے کہ ملک پر مبنی خطرات کی صورت میں روایتی دفاع پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا اور ان خطرات سے نمٹنے کے لئے اوراسکا جواب دینے کی صلاحیت رکھنا شامل ہے۔ ادھرامریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے شام میں فضائی حملوں میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے 238تیل بردار ٹینکرس تباہ کردیئے ہیں فوج کے مطابق الحسکہ اور دیرالزور میں ٹرمینل پر تیل بھرنے کے انتظار میں کھڑے ٹرکوں پر حملے کئے گئے، بتایا جارہا ہے کہ اس فضائی کارروائی سے قبل وارننگ شاٹ فائر کئے گئے تاکہ ڈرائیورس بھاگ جائیں اور اس کے بعد کارروائی کی گئی ،ذرائع ابلاغ کے مطابق دولت اسلامیہ تیل بیچ کر بھاری رقم حاصل کرتی ہے۔

شام ، عراق، افغانستان، پاکستان ، لیبیاء ، فلسطین وغیرہ میں بے قصور لاکھوں انسانوں بشمول معصوم بچوں وخواتین کے قتل عام کے بعد اب پیرس حملوں کے نام پر یوروپی ممالک کے مسلمان اور انکے علاقے نشانے پر ہیں۔ بیلجیئم میں دولت اسلامیہ کے تار جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کئی علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں۔مشتبہ افراد کی تلاشی کے نام پر معصوم و بے قصور لوگوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے کیونکہ عراق اور افغانستان ، لیبیاء وغیرہ کی تاریخ یہاں کے مسلم اکثریت والے علاقوں میں بھی دہرائی جاسکتی ہے۔اگر واقعی پیرس حملے حقیقت پر مبنی ہے تو انسانیت کا قتل عام ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا اسی لئے اقوامِ عالم کے مسلمان اس دہشت گردانہ کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں اور اسے انجام دینے والوں کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن بعض ہندوستانی مسلمان جو اپنے آپ کو اتنا سیکولر بتانے کی کوشش کرتے ہوئے فرانس کے ساتھ اظہارِ یگانگت کررہے ہیں جبکہ عالمی اتحاد کے ذریعہ شام، عراق، فلسطین،افغانستان، پاکستان میں مسلمانوں کاجو قتل عام ہورہا ہے اس کے خلاف ان عالمی طاقتوں کے خلاف متحدہ طور پرکوئی آواز اٹھتی دکھائی نہیں دیتی۔بعض مسلمان اپنے آپ کو اتنا سیکولر بتانے کی کوشش کرتے ہیں اسکے باوجود نہ تو انکی دشمنانِ اسلام میں قدرو منزلت دکھائی دیتی ہے اور نہ مسلمانوں میں۔پیرس حملوں کے بعد جس طرح شام اور عراق پردولت اسلامیہ کے خاتمہ کے نام پر اتحادی ممالک کی کارروائیوں میں شدت پیدا کردی گئی ہے اس سے صرف اور صرف مسلمانوں کا ہر اعتبار سے نقصان ہورہا ہے۔ ان ممالک میں شدت پسند تنظیموں کا وجود کیوں ہوا ہے اس سے دنیا واقف ہے، خطے میں ایران عراق جنگ ہو یا کویت پر عراقی فوج کی مداخلت ، افغانسان میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حوالے سے اسامہ بن لادین کو پناہ دینے کا بہانہ بناکر حملے ہو یا افغانستان پر حملے کیلئے پاکستانی فضائی حدود کا استعمال اورپاکستان میں طالبان والقاعدہ شدت پسندوں کا خاتمہ ،یا الزام کے مطابق عراق میں مخصوص طبقہ کے خلاف حکمرانوں کا جبر و استبدادیا افغانستان و دیگر ممالک میں وہاں کے حکمرانوں کی ظلم و زیادتی یہ یہاں کے پڑوسی ممالک کے درمیان یا اندرونِ ملک کے حالات تھے، اس میں عالمی طاقتوں کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں تھی ، یہی مداخلت آج دنیا میں شدت پسند تنظیموں کے وجود کا باعث بنی اوردنیا کو ڈر و خوف کے ذریعہ اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے اور ایک طویل عرصہ تک دلاتی رہے گی۔ ان مظلوم عراقی، شامی، لبیائی، افغانی، پاکستانی، فلسطینی و دیگر معصوم و بے قصور افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم (خطرناک فضائی حملوں کے ذریعہ)جو عالمی اتحاد کی جانب سے ابتداء میں الزامات عائد کرکے اوراب دہشت گردی کے خاتمہ پر نام پر کررہے ہیں وہ خود ایک کھلی دہشت گردی ہے جس کی بین الاقوامی سطح پر ہر فرد کو مذمت کرنی چاہیے کیونکہ آج عالمی اتحاد کی جانب سے شام و عراق میں حملے مستقبل میں انسانیت کے لئے مزیدڈرو خوف پیدا کرنے کا باعث بنیں گے۔ شدت پسندی یا دہشت گردی کی تاریخ گذشتہ دو دہائیوں سے عروج پر دکھائی دیتی ہے ایک طرف اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں تو دوسری جانب مسلمانوں کے قتل عام کو جائز بتانے کے لئے انہیں دہشت گرد کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ جس طرح پیرس حملوں کے بعد فرانس کی جانب سے پیش کی جانے والی قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کی ہے جس کے ذریعہ شام اور عراق اور جہاں کہیں دولت اسلامیہ کا وجود دکھائی دے گا حملے کئے جائیں گے اس طرح دشمنانِ اسلام یا مسالک کی بنیاد پر لڑنے والوں کے لئے کھلی دہشت گردی کا ماحول عام ہوجائے گا ۔ عالمِ اسلام کے اہم ممالک بھی دولت اسلامیہ کے تعاون کرنے کے نام پر دشمنانِ اسلام کا نشانہ بن سکتے ہیں لہذا عالم اسلام متحدہ طور پر دشمنانِ اسلام و عالمی اتحاد کا شکار ہونے سے قبل ہوشیار ہوجائیں ، ماضی کے حکمرانوں کا حشر انکے سامنے ہے۰۰۰
***
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209682 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.