نکلنے کو تو ہاتھی نکل جائے پھنسنے کوآئے تو دُم پھنس جائے . . . ؟؟؟

ایک خبربھارتی عدالت کا انوکھا فیصلہہاہاہا.. بھارت میں 25برس قبل 11روپے کا گھپلا کرنے والے 2سرکاری ملازمین کو ایک برس قید کی سزا...

اَب یہ بات بھارتی عدالتوں اور قانون دانوں کے لئے اچھی ہے کہ بُری مگر بات ہی کچھ ایسی ہے کہ یقینا اِس سے بھارتی عدالت اور قانون کے رکھوالے خود بھی مذاق بن کر ضرور پریشان بھی ہوگئے ہوں گے جب پچھلے دِنوں بھارتی ریاست نئی دہلی کی ایک عدالت نے ایک ایسا فیصلہ دیاکہ عدالت کا یہ فیصلہ نہ صرف بھارتی میڈیا بلکہ ساری دنیا کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بھی زینت بن گیاہے خبرہے کہ ’’بھارتی ریاست نئی دہلی کی ایک عدالت نے 25برس قبل سرکاری فنڈ میں 11روپے کا گھپلا کرنے والے ایک اسپتال کے دوملازمین کو ایک برس قید کی سزاسُنائی ، سزاپانے والوں میں ایک نرس اور ایک میڈیکل اسسٹنٹ شامل ہے یہاں حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ سزاپانے والے یہ دونوں ملازمین 10برس قبل ریٹائر بھی ہوچکے ہیں جبکہ وکیل صفائی وریندرکمار کا کہنا ہے وہ فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے اُن کاکہناہے کہ اِس مقدمے کی سماعت کے دوران میرے موکلین کے 3لاکھ سے زائد رقم خرچ ہوگئی ہے جبکہ اُنہوں نے اپنے موکلین کا موزانہ کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی بھارت میں حکمران ، سیاستدان،صنعتکار اوراداروں کے سربراہان سمیت حکومتی چیلے چپاٹے سیکڑوں، ہزاروں ، لاکھوں، کروڑوں، اربوں اور کھربوں روپے لوٹ کر بھی آزادی اور آرام گھوم رہے ہیں اور ماضی میں بھی کئی حکمران اور حواریوں کے ساتھ بھارتی خزانہ لوٹ کر چلے گئے یا مرکھپ گئے مگر آج تک اِنہیں تو پکڑنے کے لئے کوئی بھارتی قانون حرکت میں نہیں آیا مگر بھارتی عدالت نے 25برس قبل صرف 22روپے کا گھپلا کرنے والے میرے دو موکلین کو سزاسُنا کر بھارتی عدالت کی ایک ایسی تاریخ رقم کردی ہے اِن کایہ بھی کہناتھا کہ آج بھارتی عدالت کے اپنی نوعیت اِس انوکھے فیصلے سے گاندھی جی کی آتما(روح ) بھی تڑپ اٹھی ہوگی کہ اِن بھارت میں عدالتیں گیارہ روپے کا گھپلا کرنے والوں کو تو سزادے رہی مگر عدالتیں موجود وزیراعظم نریندرمودی اور ہندوطالبان اور انتہاپسندوں کو قومی خزانے سے لوٹ مارکرنے اور کرائے کے قاتلوں سے بھارت میں صدیوں سے آباد ایک ساتھ رہنے والے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں پر شب خون مارکرسیکولربھارت کا چہرہ مسخ کرنے والوں کو لگام دینے کے لئے کیوں نہیں حرکت میں آرہی ہیں..؟؟

آج اِسے دنیا بھارتی عدالت کا کوئی قابلِ قدر کارنامہ کہیں گی..؟؟ یا دنیا یہ سمجھے گی کہ بھارت میں حکمران اور بھارتی ادارے اور امیراپنے قانون کی دھجیاں اِس طرح بکھیرتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے بھارتی عدالت اِن کے ہاتھوں خود ہی لٹو بن کر غریبوں کے لئے حرکت میں رہتی ہے اور گیارہ روپے کا گھپلا کرنے والوں کو سزادے کر خود یہ ثابت کررہی ہے کہ آج بھارتی عدالت حکمرانوں، سیاستدانوں اور امیروں کی رکھیل ہے اور بس...

ایسا لگتاہے کہ جیسے ہرزمانے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے میں ایسا ہی ہوتاآیا ہے کہ قانون کی چھوٹ اور پکڑ کے معاملے میں ’’ نکلنے کو ہاتھی نکل جائے پھنسنے کو آئے تو دُم ہی پھنس جائے‘‘ آج تک یہ معاملہ اہلِ دانش اور عام اِنسانوں کی سمجھ سے باہر ہے کہ ایسا کیوں ..؟اور کیسے اور کس لئے ہوتا ہے..؟؟ ایسا کرنے والے کون سے لوگ اور عناصر ہوتے ہیں..؟؟ جو جب چاہیں اور جس طرح سے چاہیں ایسا کرکے دنیا کو حیران اور شسدر کردیتے ہیں..؟؟ بہرحال ..!! ہمیشہ سے اہلیانِ دانش اور فکروفن کا یہی خیال رہا ہے کہ ’’ کسی بھی زمانے کی کسی بھی تہذیب کے کسی بھی مُلک کے کسی بھی معاشرے کے لئے بنائے جانے والا کیسا بھی لکھا ہوا ہو وہ’’ تحریری قانون مکڑی کے جالے کی مانندہے، کمزور اِس میں پھنس جاتاہے اورطاقتورتوڑ کرنکل جاتاہے‘‘ایک اور جگہہ زمانوں کی اقوامِ کے دانشواروں کا یہ کہنا ہے کہ ’’کسی مُلک کا تحریری دستوراور قانون بظاہرکتناہی ارفع واعلیٰ ہو لیکن اگر اِس کے نافذ کرنے والے اچھے اخلاق کے مالک نہ ہوں تو اِس صُورت میں بھی دستورو قانون اپنی تمام خوبیوں ، راعنائیوں اور خصوصیات کے باوجود بھی اپنی افادیت کھودیتاہے‘‘ جبکہ اِسی نکتہ نگاہ کو سامنے رکھتے ہوئے لادرڈ ہیلی فیکس کا یہ کہنا ہے کہ ’’ اگر قانون کی زبان ہوتی تو سب سے پہلے قانون دانوں کی شکایت کرتا‘‘اور اِسی طرح ول ڈیورنٹ کا قانون سے متعلق یہ خیال ہے کہ ’’ جانور ایک دوسرے کے بغیر کسی ہچکچاہٹ یا ضمیر کی خلش کے کھاجاتے ہیں اور مہذب اِنسان ایک دوسرے کو ہڑپ کرنے کے لئے قانون کا سہارالیتے ہیں‘‘ یعنی کہ دنیا میں جتنے بھی زمانے اور زمانوں میں جتنی بھی تہذیبیں اور اِن تہذیبوں میں جتنے بھی معاشرے اور اِن معاشروں میں جتنے بھی خواہ کیسے بھی قوانین بنائے یا مرتب کئے گئے اِن قوانین کو ہمیشہ طاقتوروں نے کمزروں کو دبانے اور اپنی مرضی کی سزائیں دلوانے کے لئے ہی استعمال کیا ہے گو کہ آج کے اِس جدید اور سائنسی زمانے میں بھی قانو ن کا شعبہ ہر مُلک کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے میں ایسا ہی اندھا ہے جیسا کہ یہ زمانہ قدیم سے ہے دورِ موجودہ میں کسی مُلک کی کسی تہذیب کے کسی معاشرے میں بھی قانون اپنے دائمی اندھے پن کی وجہ سے کچھ بھی حیران کُن فیصلہ کرسکتاہے کہ جس سے عالمِ اِنسانیت شسدر ہوجائے۔

معاف کیجئے گا..!! یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ دنیا کے کسی بھی زمانے کی کسی بھی تہذیب کے کسی بھی معاشرے میں اِنسانوں کی بھلائی اور فلاح کے لئے بنایا جاناوالا کیسا بھی (تحریری یا زبانی ) قانون اُس وقت کا ٹھیک طرح سے نافذ نہیں ہوسکتاہے جب تک کہ اِسے نافذ کرکے عمل کرانے والے خود ٹھیک طرح سے نیک اور ایماندار نہ ہوں یعنی یہ کہ کسی بھی زمانے کی کسی بھی تہذیب کے کسی بھی مُلک کے کسی بھی معاشرے کے اِنسانوں کی اصلاح کے لئے دستور اور قانون کا احترام اُس وقت تک پیدانہیں کیا جاسکتاہے جب تک وہ مُلک کے ہر امیر و غریب پر مساوی اور یکساں طور پرلاگو نہ ہومثلاََ طاقت ور(حکمران ، سیاستدان ، صنعتکار،اور حکمرانوں کے چیلے دیدہ دانستہ اپنے شواہد مٹاکرقومی دولت لوٹ کھائیں اور اپنے مفادات کے خاطر) جس طرح سے چاہیں قانون کو توڑ موڑ کراستعمال کرکے اپنے سارے مفادات حاصل کرلیں تو بھی اِن پر اِس کا اطلاق نہ ہواور اگر اِن کے برعکس کئی روز سے بھوکا پیاسا کوئی غریب اپنے پیٹ میں لگی بھوک کی آگ کو بُجھا نے اور ٹھنڈاکرنے کے لئے دو روٹی چرالے تو قانون فوراََ حرکت میں َ آجاتاہے اِس لئے کہ غریب کو روٹی چراتے سب دیکھتے ہیں اور گواہ بن جاتے ہیں جبکہ کسی بھی مُلک کی قومی خزانے کو لوٹنے اور فراڈ کرنے والے بڑوں کو قومی دولت چراتے کوئی نہیں دیکھتاہے اور اگر کوئی دیکھتابھی ہے تو وہ اِن ہی جیسے بڑے چور ہوتے ہیں جو کبھی اِنہیں بچاچکے ہوتے ہیں اِس لئے کوئی اِن کی حرکت کی گواہی نہیں دیتاہے اور تب دنیا کا قانون اندھا ہوتاہے یہ دنیا کے قانون کی کسی دوآنکھی ہے کہ بڑے قانون توڑیں تو قانون کو کچھ دکھائی نہیں دیتاہے مگر جب کوئی غریب غیرقانونی حرکت کرجائے تو قانون کو سب نظر آنے لگتاہے آج تک اہلِ دانش اور عام اِنسانوں کو دنیا کے قانون کی یہ بات سمجھ نہیں آئی ہے کہ ’’ قانون کی چھوٹ اور پکڑ کے معاملے میں ’’ نکلنے کو ہاتھی نکل جائے پھنسنے کو آئے تو دُم ہی پھنس جائے‘‘۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 888184 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.