یہ اسلام اور غیر اسلام کے مابیں جنگ ہے

فرانس کی راجدھانی پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کو تقریباً بیس روز گذر گئے ہیں ، اس حملے کے بارے میں عام طور پر کہا جارہا ہے کہ یہ بمبئی کے /26ْ11حملوں سے بہت مشابہت رکھتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے یہ بات ٹھیک ہو ۔ مگر اس زمانے تک داعش جیسی غیر انسانی تنظیم کا وجود عمل میں نہیں آیا تھا ۔ لیکن خیر جس طبقے نے داعش کو بنایا ہے اسی طبقے نے ان لوگوں کو بھی تربیت دی ہوگی جنھوں نے بمبئی میں بے قصور وں کو قتل کیا تھا ۔پیرس حملہ /26 11کے مشابے ہو یانہ ہو لیکن اس حملے کاجو رد عمل عالمی سطح پر دیکھنے کو مل رہا ہے وہ 9/11کے مشابے ضرور ہے ۔۹ستمبر ۲۰۱۱ء کو امریکہ کے ٹریڈ ٹاور پر جہاز مار کے تقریباً 5ہزار لوگوں کی قتل کیاگیا تھا اور یہ واقعہ دہشت گردانہ حملوں کی تاریخ میں سب سے اندوہناک ۔ خطرناک اور نئے طریقہ کار سے انجام دیا گیا تھا ۔حملے کے فوراً بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش۔ ۲ نے اعلان کیا تھا کہ یہ حملہ امریکہ پر جنگ تھوپنے کے مترادف ہے ۔ اور اس کا جواب دیا جائے گا ۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ جہاد ہے ۔ اور اس کے فوراً بعد ساری دنیا کا جو رد عمل سامنے آیا تھا اس کے نتیجے میں ساری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر مشترکہ جنگ چھڑنے کا اعلان بھی شامل تھا ۔ بش نے ساری دنیا کو چیلنج کر کے کہا تھا کہ آپ یاتو ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف ہیں ۔ اور پھر ساری دنیا دہشت گردی کے خلاف سرگرم عمل ہوگئی۔ اس کے بعد ہی دنیا کے مختلف ممالک میں دہشت گردی سے لڑنے کے لئے الگ قوانین بنائے گئے تھے ۔ خود MCOCA, GJOCA , UAPA,ہونے کے باوجود TADA بنایا گیا اور بعد میں اسے بدل کر POTAبنایا گیا اور جب عوامی تحریکوں کے دباؤ میں آکر POTAکوہٹانا پڑا تو UAPAمیں ترمیم کرکے POTAکے سارے قوانین uapa میں ڈال دیئے گئے ۔جسکے تحت پولیس کولامحدود اختیارات دے دئے گئے امریکہ میں بھی NCTCبنایاگیا اور خود ہماری سرکار نے اپنے یہاں NCTCبنانے کی کوشش جوریاستی وزرائے اعلیٰ کے ذریعے مسترد کردی گئی تو پھر NIAکاقیام عمل میں آگیا ، گویا امریکی ٹریڈ ٹاور پر ہونے والے حملے نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کے لئے عالمی برادری کو مجبور تو کردیا مگر عاملی سطح پر دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف کرنے میں اقوام متحدہ آج تک ناکام ہے ۔ اس دہشت گردی کو عام طور پر ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں سے جوڑکر دیکھا گیا ۔ حالانکہ بار بار ہر مقام سے ہرملک سے اعلان بھی کیاگیا کہ دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے مگرنشانہ ساری دنیا میں اسلام اور مسلمان ہی رہے۔ لفظ جہادی کی اصطلاح کا اطلاق بھی دہشت گردی پرکیا گیا اور اس طرح دہشت گردی کو بلا واسطہ طور پر اسلام سے جوڑ دیا گیا ۔حملے کے فوراً بعد اسامہ بن لادن جو القاعدہ کا سربراہ تھا اور یہ گمان کیاجارہا تھا کہ وہ افغانستان میں ہے اس کا نام لے کر افغانستان پرحملہ کردیا گیا اور کہاگیا کہ اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے اور اسے قتل کرنے کے لئے حملہ کیا جار ہا ہے ۔ او ر اس نام پر ہزاروں افغانیوں کوقتل کردیا گیا اور پورے افغانستان کو ریت کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ۔ اسا مہ بن لادن تو وہاں ملا نہیں۔ القاعدہ کا بھی قلع قمع نہیں ہوا ۔طالبان آج اسی افغانستان کی سرکار میں ہیں ۔ اوپر سے داعش اور وجود میں آگیا ۔
تو پھر افغانستان پراس امریکی حملے کا افغانستان کے مسلمانوں کی بربادی کے سوا کیانتیجہ نکلا ۔ ساری دنیا میں افغانستان پر اس امریکی حملے کوجائز بھی ٹھہرایا اوردہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ بھی ہوئی مگر دہشت گردی ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔ بالکل اسی طرز پر پیرس پر ہونے والے حملے کے فوراً بعد مقام واردات سے شامی پاسپورٹ برآمد ہوگئے ۔داعش نے ذمے داری قبول کرلی اور فرانس نے بھی بش کی طرح اعلان کردیا کہ یہ فرانس پر حملہ ہے جس کا بھرپور انتقام لیا جائے گا اور اگلے ہی دن سے شام کے الرقہ شہر پر امریکی تعاون سے فرانس کے ہوائی حملے شروع ہوگئے ۔کہاگیا کہ رقہ شہر داعش کی راجدھانی ہے ۔ لہٰذا وہاں داعش کے ٹھکانوں پر حملے کرکے اس کے ہتھیاروں کے ذخائر اور مرکزی لیڈر شپ کو ختم کرنے کی غرض سے بمباری کی جارہی ہے ۔دنیانے پیرس حملوں کی شدید مذمت کی ہے ۔ یقیناً یہ مذمت کرنی بھی چاہئے کہ ایک انسان کا قتل پوری عالم انسانیت کا قتل ہے ۔ مگر دنیا بھرمیں کسی نے ابھی تک فرانس اور امریکہ سے یہ نہیں پوچھا کہ چند گھنٹے کے اندر آپ کو داعش کی راجدھانی کا ادراک کیسے ہوگیا ۔ فرانس نے اس سے قبل بھی شام کے مختلف شہروں پر حملے کئے تھے ۔ روس داعش اور دیگر جنگجوؤں کے خلاف ہوائی اور زمینی جنگوں کے ذریعے وہاں کی خانہ جنگی کے خلاف مسلح کاروائی کر رہا ہے ۔ امریکہ کے ہوائی حملے بھی جاری تھے ۔ تب کسی کو پتہ نہیں چلا کہ رقہ داعش کی راجدھانی ہے مگر پیرس حملے کے اگلے ہی دن امریکہ اور فرانس دونوں کو پتہ چل گیا اور ہوائی حملے بھی آناً فاناً ہوگئے ۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق تقریباً 400لوگ دو دن میں قتل کر دئے گئے اور حملے ابھی جاری ہیں ہزاروں ٹن بارود شام کے چھوٹے سے شہر پر برسادیا گیا اور پورا شہر ، اسپتال، ، گلیاں ، سڑکیں سب کو نشانہ بنایا گیا اور132فرانسیسی شہریوں کے انتقام میں ہزاروں بے قصور شامیوں کو ایک ہفتے کے اندر قتل کردیا گیا ۔مگر فرانس کے حملے کی مذمت کرنے والوں میں سے ایک کی بھی زبان تک نہ ہلی ان بے قصور شامیوں کے قتل عام کے خلاف ۔روس اور امریکہ کے حملے ابھی جاری ہیں ۔ ملک شام جو پہلے ہی سے داعش ۔النصرہ فرنٹ۔احرار الشام ۔ فری سیرین آرمی ۔حزب اﷲ اور بشار الاسد کی فوجوں کے ذریعے کھنڈر میں تبدیل کیا جا چکاہے جہاں سے ایک کروڑ شہریوں کو اپنے بھرے پرے مقام کاروبار او رخوشحال زندگی کو ترک کرکے جان بچانے کی خاطر فرار ہونا پڑ اہے ۔ اور جن کے مکانات ان جنگجوتنظیموں کی بربریت کا شکار ہوچکے ہیں اور جو گذشتہ پانچ سال سے اس خانہ جنگی کا بے قصور شکار ہیں ان کی داد رسی اور انکی حمایت میں دنیا بھر سے کوئی آواز نہ نکلی ، اور ستم بالائے ستم اب داعش سے انتقام کے بہانے ان بڑی عالمی طاقتوں کی فوج کشی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ یہیں یہ سوال اٹھتا ہے کہ انسانیت کا یہ کون سا معیار ہے ۔ کہ 132عیسائی فرانسیسی شہریوں کے قتل کی مذمت میں تو ساری دنیا چیخ اٹھے مگر لاکھوں شامی افغانی ،عراقی ، یمنی اور افریقی مسلمان شہریوں کے روز انہ ہونیوالے قتل عام پر سنّاٹا طاری رہے ۔یہی وہ مماثلت ہے 2011اور2015کے حملوں میں ۔

امریکی صدر باراک اوبامہ نے ترکی کے انطالیہ میں ہونے والی G.20کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے اس حملے کے پس منظر میں واضح طور پر کہا کہ دنیا بھر کے مسلمان دہشت گردی کے خلاف متحد ہوں اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے کمر بستہ ہوجائیں ۔ اوراپنے بچوں کو اس دہشت گردی میں شریک ہونے سے روکیں گویا اوبامہ صاحب نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ہے ۔ G.20سمیت اس اثناء میں ہونے والی تمام عالمی کانفرنسوں کا ایجنڈا بدل گیا اور سب دہشت گردی کے خلاف رطب اللسان ہیں تمام عالمی سربراہان مملکت جس پلیٹ فارم پر بھی اکٹھا ہوئے انھوں نے بھی اس دہشت کے خلاف متحد ہوکر اعلان جنگ کیا ہے ۔ اور مشترکہ حکمت عملی اختیا رکرنے کی وکالت کی ہے ۔ ان سر براہان مملکت کے علاوہ دنیا کی بڑی تنظیموں نے بھی دہشت کے خلاف اعلان جنگ اسی طرح کیاہے جس طرح 2011کے حملے کے بعد کیا تھا اور بہت سی مسلم تنظیمیں بھی اس مذمت میں پیچھے نہیں رہیں ۔ خود ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم نے مختلف تنظیموں کو اپنے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے دہشت گردی کی شدید مذمت کی ہے ۔ مگر ان تنظیموں کے سربراہان نے بھی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایک لفظ تک ادا کرنے کی زحمت نہیں فرمائی ۔گویا امریکی صدر کے بیان کو حکم کادرجہ دیتے ہوئے فوری اقدامات کئے اور عوامی سطح پر پیرس حملوں کی مذمت توکردی مگر شام کی بر بریت پر خاموشی اختیار کرکے یہ پیغام دے دیا کہ ہاں بس ہم ہی دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں ،نادم ہیں شرم سار ہیں اور ان دہشت گردوں کو اپنی صفوں سے باہر نکالنے کے لئے اور اپنے بچوں کو ان کے رابطے میں آنے سے روکنے کے لئے کمر بستہ ہیں ۔جمعہ کے خطبوں اور عوامی جلسوں میں یہ اظہار ندامت بخوبی کیا گیا ۔ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی خوب بحث ہوئی ہر چینل نے کہا کہ ہم دہشت گردی کو مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھتے مگر ہر چینل نے مسلم نام والی دہشت گرد تنظیموں کے ذکر پر اکتفا کرکے صاف پیغام دیا کہ مسلمان اس دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں یعنی دنیاکی تقریباً ہر ایجنسی یہ ثابت کرنے پر کامیابی سے مصر ہے کہ اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد ہیں خود مسلمان بھی یہی ثابت کرنے میں پیش پیش ہیں ۔کوئی نہیں پوچھ رہا کہ طالبان کو کس نے بنایا ،کس مقصد سے بنایا اور کس کے مفادات کو بروئے کار لایا گیا ۔ القاعدہ کا فائدہ کس کو پہنچااور نقصان کس نے اٹھا یا اسی طرح اب دو تین سال سے خلافت کے قیام کے علمبردار یہ انتہائی سفاک اور غیر انسانی تحریک داعش کس کے توسط سے عالم وجود میں آئی اور اسکا فائدہ کن طاقتوں کو پہنچ رہا ہے اور نقصان میں کون ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلم ناموں والی ان دہشت گرد تنظیموں کی وجہ سے لاکھوں مسلمان شہید ہوچکے ہیں ۔ اور لاکھوں کیمپوں میں پناہ گزیں بننے پر مجبور کئے جاچکے ہیں ۔ بڑے بڑے تاریخی شہر اور آثار اسلامی کھنڈروں میں تبدیل ہوچکے ہیں بڑے بڑے طاقت ور ملک خانہ جنگی کا شکار ہوکر ویران کئے جا چکے ہیں ۔ کوئی پوچھے کہ داعش کے پاس اتنے مہلک اور موڈرن ہتھیار، ٹینک اور ٹویٹا گاڑیا ں کہا ں سے آئیں ۔ 30ہزار لوگوں کے تنخواہ دینے کے پیسے کہاں سے آئے اور ہر قسم کے امریکی ، اسرائیلی اور روسی اسلحہ سے یہ دہشت گرد کیسے لیس ہوجاتے ہیں ۔ روس کے صدر ولادمیر پوتن نے اسی G.20کے اجلاس میں کہا کہ دنیا کے تقریباً 40ممالک داعش کی مالی سرپرستی کرتے ہیں ۔ جن میں سےG.20ممالک بھی شریک ہیں ۔ ( ہوسکتا ہے روس بھی ان ممالک میں سے ایک ہے )مگر انھوں نے ممالک کے نام نہیں بتائے ۔مگر یہ سچ ہے کہ آج دنیا کے دو تہائی ممالک خود اپنے ممالک کے اندر بھی اور عالمی سطح پر ان دہشت گردوں کی حمایت کرکے مسلم امت کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ اور ان ممالک کی قیادت واضح طور پر امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھو ں میں ہے اب یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کا سارا فائدہ غیر اسلامی دنیا کو پہنچ رہا ہے اور سارا نقصان مسلمانوں کو ہو رہا ہے ۔ اس سب کے باوجود مسلمانوں سے ہی یہ تقاضہ بھی ہے کہ دہشت گردی کی مذمت مسلمان ہی کرکے اس کا سارا الزام اپنے سر پر لیتے ہوئے اعتراف جرم کریں ۔ اب دنیا بھر میں دہشت گردی سے لڑنے کے طریقوں پر غور کیا جارہا ہے ملک کے ملک تباہ کردینے کے باوجود بھی دہشت گرد اور دہشت گردی دونوں اپنی جگہ قائم ہے دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں دہشت گردی کے خلاف نئے نئے اور انتہائی ظالمانہ قوانین بنانے کے باوجود اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ دنیا بھر کی سراغ رساں ایجنسیوں کے انتہائی خفیہ اشتراک عمل کے باوجود یہ لعنت اپنی جگہ روز افزوں ہے ۔ پویس اور فوج کی تمام بربریت سے بھر پور کارروائیاں اور جرم ثابت ہوئے بغیر بھی دنیا بھر میں مسلمان دہشت گردوں کو پھانسی دیئے جانے کا لامتناہی سلسلہ بھی جاری ہے مگر دہشت گردی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔روزانہ ٹی وی اور اخبارات اس اصطلاح کو جہادی لفظ تعبیر کرتے کرتے تھک چکے ہیں مگر مسئلہ ہے کہ منہ اٹھا ئے کھڑا ہی ہے آخر کیوں؟کیادنیا بھر کے امن پسند، مہذب انسانی ہمدردی سے لبریز اذہان کند ہوچکے ہیں کیا دنیا بھر کی سراغ رساں ایجنسیاں خفیہ ادارے ،پولیس اور فوج سب ناکارہ ہو چکے ہیں اور بس دنیا بھر میں دہشت گردوں سے سمجھ دار فعال اور طاقت ور اب کوئی باقی نہیں رہ گیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔بات بالکل واضح ہے کہ دہشت گردی اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک کہ عالمی طاقتیں خود اس کی سرپرستی سے دست کش نہیں ہوتیں۔جب تک یہ طاقتیں پردے کے پیچھے کھڑے رہ کر انسان دشمن اور اسلام دشمن طاقتوں کو دولت ، ہتھیار اور تکنیک فراہم کرکے اپنے مقاصد کیلئے ان کو استعمال کرتے رہیں گی تب تک دنیا کی ہر ایجنسی ان کی سرکوبی میں ناکام رہے گی۔دہشت گردی کی مذمت کرنا ضروری ہے مگر اس سے زیادہ ضروری آج یہ ہے کہ ان طاقتوں کو بے نقاب کیا جائے جو ان کی سرپرستی کر رہے ہیں ۔ اور ساری دنیا کے سامنے یہ حقیقت آشکار کی جائے کہ دہشت گردی کے خلاف متحدہ جنگ چھیڑ نے کا اظہار کرنے والے ہی اس کے سب سے بڑے سرپرست ہیں اور اس دہشت گردی کو پھیلانے کا ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو معاشی اقتصادی ، سماجی اور سیاسی طورپر برباد بھی کردیں اور الزام بھی انہیں کے سر رہے اس طرح اقوام عالم کے مابین امت وسط کا درجہ رکھنے والی امت درکنار ہوجائے۔ مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ اسلام اور غیر اسلام کے مابین ہے۔
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں)
 
Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 24423 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More