خیر ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے

کہا یہی جاتا ہے کہ قومیں ملک کی تقدیر بدل دیتی ہیں ،کسی بھی قوم پر جب کو ئی برُا وقت آتا ہے تو وہ اسکا سامنا کرنے کیلئے یکجاہوجاتی ہے ، کسی بھی بڑے سانحہ کارونما ہو جانا بھی قومی یکجہتی کاامتحان ہوتا ہے ۔مگرآج نہ جانے ہم بحیثیت قوم اس کے برعکس ہی کیوں ہیں ۔آج ہم اس قدر کیوں گر گئے ہیں کہ اچھے اور برے میں فرق ہی نظر نہیں آتا ۔ ہم نہ جانے کیوں آخری حدوں کے بھی آخر میں آکر یہی سوچ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے ملک کیلئے اگر کچھ نہیں کیا تو پھر کیا ہوا ہے اور بہت ہیں جو ملک پاکستان کیلئے قربانی دے سکتے ہیں ۔ پاکستان میں محض قوم کا رونا ہی نہیں کیوں کہ ہمارے درمیان کچھ ایسے سیاسی اداکار ہیں جنہیں ہر دوسرے دن الٹی کرنے کی عادت ہو گئی ہے اوروہ یہ بات جانتے ہیں کہ ان کی الٹی ہر دوسرے اخبار میں لازمی پھیلے گی اور ہوتا بھی ایسا ہی ہے کہ اگلے دن متعدد اخبارات میں یہ شہ سرخی ضرور بنتی ہے ۔ با ت صرف حکمرانوں کی الٹی پر ہی ختم نہیں ہوتی اس میں بحیثیت قوم ہم بھی شریک جرم ہیں ۔بیانات ،مسائل اور سوختہ خبرو ں کو ہم بھی مرچ مصالحہ لگا کر فیس بک اور واٹس ایپ کرتے نہیں تھکتے ۔ہمارے اندر سے احساسات ،جذبات ،خلوص اور دوسرے کی قدر وقیمت محسوس کرنا ختم سا ہو گیا ہے ۔یہ ایسی بیماری ہے جو ہم خوشی خوشی اپنے وجود میں داخل کرتے چلے جا رہے ہیں ۔قومیت سے ہٹ کر اگر ہم حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یقین جانیے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔تھوڑے سے مسائل تو ہر گھر میں ہو جاتے ہیں ملک میں ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔سانحہ صفوا میں درجنوں اقبال کے شاہین اگر اﷲ کو پیارے ہو گئے تو کیا ہوا ۔دشمن کا تقاقب تو کیا جار ہا ہے ۔درجنوں افراد کے مر جانے سے خیر ملک کے حکمرانوں کو اس وجہ سے فرق نہیں پڑتا کہ’’ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے‘‘اسی طرح ہم بات کریں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تو بیسوں گھرانوں کے چراغ گل ہو گئے ،اگر حکومت نے ریاستی جبر کیا بھی تو کیا قیامت آگئی ۔بہت سے ملکوں میں ریاستی دہشتگردی آج بھی قائم ہے۔ اگر وہ لوگ اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو اچھا ہی ہے نہ ان کے لواحقین کو فلاحی تنظیموں کی جانب سے چیک تو ملے۔ ساتھ ساتھ خادم اعلیٰ پنجاب کی طرف سے شفاف تحقیقات کا حکم بھی جاری ہو گیا کہ اس کے پیچھے جو بھیانک چہرے ہیں وہ ضرور بے نقاب ہونگے ۔ ان درجنوں گھروں کے افراد معاشر ے میں اگر زندہ ہوتے بھی تو کیا کر لیتے ، ملک کی بہتری کیلئے بھی اگر وہ کوئی اقدام کرتے بھی تو بڑا چمتکار نہیں کر سکتے تھے ۔خیر سانحہ ماڈل ٹاؤن اپنی جگہ ’’ملک تو ترقی کی راہ پر گامزن ہے‘‘ہر ملک میں کوئی نہ کوئی بڑی درگھٹنا ہو ہی جاتی ہے سانحہ ماڈل ٹاؤن اور انتخابی دھاندلی کے تناظر میں اگر ریڈ زون میں دھرنا دے بھی دیا گیا تو 30 اور 31 اگست 2014 کی شب کو وزیرداخلہ کے حکم پر ریڈ زون میں شیلنگ کے دوران نہتے لوگوں کا مر جانا بھی اسی لیے اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ جمہوریت سے نا آشنا تھے ، ان کو اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان میں نظام جمہوریت قائم ہے اور آپ کو کس نے یہ حق دے دیا کہ انصاف کیلئے اُٹھ کھڑے ہوں ۔ خیر سانحہ اسلام آبا د اپنی جگہ’’ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے ‘‘پاکستان کی ترقی اور معاشی نظام کی بہتری سے ہم ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں ۔ حکومتوں میں نشیب وفراز آتے ہی رہتے ہیں ۔وفاقی حکومت کی جانب سے لگائے گئے تینوں برقیات کے منصبوبوں میں اگر میڈیا کے اعدادوشمار کے مطابق 100 ارب سے زائد کا نقصان ہو بھی گیا تو کوئی بڑی بات نہیں ۔برقیات کے منصبوبوں میں قومی خزانے کا نقصان تو نہیں ہوا یہ تو عوام کا پیسہ تھا ضائع ہو بھی گیا تو پھر کونسی آفت آگئی ۔خیر عوامی نقصان اپنی جگہ درست ’’ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے‘‘ہمیں کسی سے کوئی گلہ نہیں ہونا چائیے ۔وفاقی وزیر مذہبی امور سرادر یوسف اگر حکومتی خرچ پر خدام کیلئے سعودیہ گئے اور وہاں خدمات سرانجام دینے کہ بجائے ٹیم کے حج اور عمرہ بھی کر لیا تو کونسا گناہ کر دیا ۔ایسی مقدس جگہ پر فرائض سے زیادہ نیکی کو ہی اہمیت دی جاتی ہے شاید اسی لیے وہ اپنی فرائض سے غافل ہوگئے ۔سانحہ منیٰ کے ہوجانے کہ بعد اگر وفاقی وزیر مذہبی امور لاپتہ پاکستانیوں کی تلاش میں مکہ مکرمہ میں وی وی آئی پی ہوٹل میں قیام پذیر ہو بھی گئے تو کیا برائی ہے وہ لاپتہ پاکستانیوں کی تلاش کیلئے ہی تو ہوٹل میں ٹھہرئے ہوئے ہیں ۔ میڈیا ذرائع کے مطابق حج کے دوران ہوٹل کا کرایہ ایک لاکھ تھا مگر اب تو اسکا کرایہ صرف 5000 ہزار یومیہ ہے سانحہ منیٰ میں لاپتہ افراد کی تعداد شاید سرکاری ٹی وی میں آنے والے دنوں میں صحیح آ ہی جائے مگر ہمیں یقین ہے کہ حکومت مسلسل محنت کر رہی ہے ۔ خیر سانحہ منیٰ کے بعدسردار یوسف کی خدمات اپنی جگہ’’ ملک تو ترقی کی راہ پر گامزن ہے ‘‘آخر میں تمام قائدین سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں خود تعین کرنا ہو گا کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے یا ہم بحیثیت قوم تنزلی کا شکار ہیں ۔
ایم اے دوشی‎
About the Author: ایم اے دوشی‎ Read More Articles by ایم اے دوشی‎: 20 Articles with 17513 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.