سوا بتیس روپے مہر ظلم ہے!

شریعت کی متعین کردہ کم سے کم مہر کی حد سے کم مہر دینا ناجائز اور ظلم ہے۔۔۔
وہ میرے پاس شادی کارڈ لے کر آیاتھا... بتیس سال کی عمر میں بالآخر اس کے سہرے کے پھول کھل ہی گئے تھے... اس کی آنکھیں مسرت سے چمک رہی تھیں...شادی کی پرزور مبارکباد دی تو اس کے گلگوں رخساروں پر مزید سرخی دوڑ گئی اور وہ محجوب سے انداز میں مسکرا دیا... دیکھ کر خوشی ہوئی اور بے اختیار اس کو دعا دی... وہ باریش تھا اور ابھی سالانہ چلہ لگا کر جماعت سے واپس آیا تھا... کچھ دیر بیٹھنے کے بعد جب انتظامات پوچھے تو یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ بہت سادگی سے شادی کی جا رہی ہے ... پھر اس نے بتایا کہ فلاں مشہور مسجد میں نکاح ہے... اور مہر سادگی کی وجہ سے ایک ہزار روپے رکھنے کا ارادہ کیا ہے!
یہ سن کر میں چونک گیا... اتنا کم مہر ؟... وہ کیوں؟

تو اس نے فوراًایک مشہور حدیث مبارکہ سنا دی کہ وہ عورت بابرکت ہے جس کا مہر کم سے کم ہو...!

میں نے کہا کہ ڈئیر! بے شک یہ حدیث ہے مگر اکثر لوگ اس کا غلط مفہوم لیتے ہیں... تم سمیت تقریباً ہر دین دار اس حدیث سے آج یہ غلط مفہوم لیتا ہے کہ مہر کی زیادہ مقدار تو ناپسندیدہ ہے اور کم کی تاکید کی گئی ہے تو اس کم کی اب کوئی حد نہیں ہے... اس لیے برکت حاصل کرنے کے واسطے 1000،500 روپے سے لے کر101 روپے بلکہ 32.25 روپے بھی متعین کیے جا سکتے ہیں اور کیے جاتے ہیں! ... یہ الگ بات ہے کہ یہ برکت صرف مہر مقرر کرتے وقت یاد آتی ہے، لاکھوں کا جہیز اور لاکھوں خرافات میں اڑاتے ہوئے یہ بالکل یاد نہیں رہتا کہ وہ شادی بھی بابرکت کہی گئی ہے جس میں خرچ کم سے کم ہو... خیر یہ ضمنی بات تھی... بات ہو رہی تھی حدیث مبارکہ کی غلط تفہیم کی... تو جناب من!

حقیقت تو یہ ہے کہ بات اس کے بالکل برعکس ہے...زیادہ سے زیادہ مہر کی مقدار شرعا متعین نہیں، سہولت و استطاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے زوجین کی رضامندی سے جتنا مقرر کر لیا جائے، درست ہے، البتہ اوسط مقدار پسندیدہ ہے، مگر مہر کی کم ازکم مقدار شرعا متعین ہے ، جسے ادا کرنا لازم ہے... اور وہ ہے دس درہم چاندی!

جی ہاں 10 درہم چاندی جس کا وزن موجودہ حساب سے 34.02 چاندی بنتا ہے... جو آج کے چاندی کے ریٹ کے مطابق 2086 روپے بنتی ہے... اس سے کم مہر مقرر کر بھی لیا تو یہ مقدار پھر بھی لازم ہو گی!

لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کم سے کم شرعی مقدار ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کےمبارک زمانہ میں عام نہیں ملتی...اس حوالے سے ایک پوسٹ چار پانچ ماہ پہلے بھی کی تھی، مگر آج موقع کی مناسبت سے دوبارہ عرض کیے دیتے ہیں۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو جو مہر ادا کیے یا بنات طیبات کے مقرر فرمائے وہ اکثر 126 یا 131 تولے چاندی بنتی ہے... آج715روپے تولہ چاندی کے حساب سے خود اندازہ کر لیجیے کہ یہ کتنا روپیہ ہوا؟... جی ہاں 93665 روپے!

اسی طرح زیادہ مہر کی ایک حیرت انگیز مثال خودازواج مطہرات میں ام المؤمنین ام حبیبہ رملہ رضی اللہ عنہا کے مہر کی مقدار ملتی ہے... ان کا مہر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے شاہِ حبشہ نے محض حصول سعادت کے لیے اپنی طرف سے چار سو دینار مقرر کیا جس کا مجموعہ تقریباً ایک سو چار تولے سونے سے کچھ زائد بنتا ہے۔ ایک تولے میں گیارہ گرام اور چھ سو چونسٹھ ملی گرام (11.664) ہوتے ہے... آج01نومبر 2015 میں اگر حساب کیا جائے تو (47100 فی تولے سے) ایک سو چار تولے سونے کی قیمت (4872400) اڑتالیس لاکھ،بہتر ہزار چار سو تقریباً بنتی ہے!

اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی کروڑ پتی آدمی لاکھوں روپے مہر دینے پر قادر ہے تو کسی کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے، لیکن پھر وہی شرط آجاتی ہے کہ پھر ادائیگی بھی لازم ہے!
زیادہ مہر جائز ہونے کا اشارہ قرآن مجید سے بھی ملتا ہے مثلاً:
’’اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری لانا چاہو اور اگر تم نے اُسے سونے کے ڈھیر بھی دیے ہوں تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو، بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لوگے؟ ‘‘ (النساء)
بہرحال یہ صرف حدود بتائی ہیں ... ورنہ مہر بہرحال اوسط ہی پسندیدہ ہے!

اچھاچلیے چھوڑئیے یہ بتائیے کہ آپ میں سے کون کون ہے جو "سوا بتیس روپے" مہر پر ایک مظلومہ کو بیاہ کر لایا ہے!؟
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174053 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More