روح کی ورزش!

اللہ رب العزت سے کسی حال میں مایوس نہ ہونا چاہیے۔۔۔ اس کی بارگاہ میں رونا، گڑگڑانا بڑی نعمت ہے۔
تین دن قبل ہمارے میگزین خواتین کا اسلام کے دفتر میں ایک محترمہ کا فون آیا ۔حج کے خاص شمارے پر بات کرتے ہوئے فرمانے لگیں کہ ایک وسوسے نے مجھے بہت پریشان کر رکھا ہے۔ ہمارے استفسار پر کہنے لگیں کہ میری اکثر دعائیں قبول ہوتی ہیں، مگر ایک دعا عرصہ دراز سے مانگ رہی ہوں، رو رہی ہوں، مگر وہ کیوں قبول نہیں ہو رہی مدیر صاحب؟ جب ’’اُس ‘‘کے بس میں سب کچھ ہے تو وہ آخر قبول کیوں نہیں کرتا؟

ہم نے وہی جواب دیا جو ایسے موقع پر عموما دیا جاتا ہے کہ آپ کو کیا معلوم کہ وہ چیز جو آپ مانگ رہی ہیں، وہ آپ کے لیے بہتر بھی ہے کہ نہیں؟ اللہ رب العزت کے علم میں آپ کے لیے وہ چیز دنیا آخرت کے اعتبار سے ٹھیک نہیں ہو گی، اس لیے قبول نہیں فرما رہے، مگر چونکہ آپ کو اس کا علم نہیں، اس لیے آپ خیر و عافیت کے ساتھ اسے مانگتے رہیے، مقصود ملے نہ ملے، اجر تو کہیں گیا نہیں، جو اصل مطلوب ہے!

اس کے بعد انہوں نے جو کہا، وہ سن کر میں کچھ لاجواب سا ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ میںکوئی دنیاوی چیز تو نہیں مانگ رہی، میں تو اس کے در پر حاضری مانگ رہی ہوں۔ بھلا یہ کیسے میرے حق میں برا ہو سکتا ہے؟میں ایک نیکی کی توفیق ہی تو مانگ رہی ہوں!

ہم نے انہیں دعا میں مزید شدت کی تاکید کی کہ شایدمانگنے میں، تڑپنے میں ابھی کمی ہے۔تو کہنے لگیں کہ ہم تو مخلوق ہیں، ہمارے مانگنے میں تو ہمیشہ کمی ہی رہے گی، وہ تو خالق ہے، اسے تو خالی ہاتھ نہیں لٹانا چاہیے !یہ کہہ کر رونے لگیں۔

ہمیں ان کے جذبے پر رشک آیا اور خیال آیا کہ یہ شکوہ بھی سراسر محبت ہے مگر پھر بھی ابلیس لعین کب اس وسوسے کو بڑھا کر اعتقاد خراب کر دے اس لیے اپنی طرف سےجو ہو سکا، نصیب کی بات کرتے ہوئے تسلی دی اور فون بند ہو گیا لیکن مجھے لگا کہ میرے جواب میں اک تشنگی سی ہے!

خیر بات ختم ہوئی... اگلے ہی دن کی بات ہے کہ میں گھر پر کھانا کھا رہا تھا کہ اچانک میری دو ماہ کی بیٹی جمانہ رونے لگی... میں معمول کے مطابق کھانے میں مصروف رہا کہ اب کوئی نہ کوئی اسے اٹھا کر چپ کروائے گا... مگر اس کی ماں کہیں دور تھی شاید...میں لپک کر کمرے میں گیاتو دیکھا کہ ہماری امی قریب ہی تشریف فرما تھیں... اور اس کی تیز ہاتھوں سے تیل کی مالش کر رہی تھیں۔

جمانہ کا رونا چند ہی لمحوں میں نچلے سروں سے اٹھ کر اونچے سروں کی طرف ارتقاء کر گیا تھا... ساؤنڈ ٹریک جب بہت بڑھ گیا... تو میں بچوں کے معاملے میں ہمیشہ کا حساس، کچھ بے چین ہوگیا جسے امی جان نےفورا بھانپ لیا اور مسکرا کر کہا:
پاگل! بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ بچوں کو کچھ دیر اچھی طرح رونے بھی دینا چاہیے کہ اس سے ان کی ورزش ہوتی ہے، پھیپھڑے مضبوط ہوتے ہیں...اور سینہ، سانس کی نالی سب صاف ہو جاتی ہے!

ان کی بات سن کر مجھے بھی بچوں کے ڈاکٹر کی بات یاد آ گئی... انہوں نے بھی یہی بات کہی تھی ایک بار!
اسی پل مجھےان خاتون کا خیال آگیا اور دماغ میں گویا جھماکا سا ہوا کہ یہ جو لوگ اللہ رب العزت کے سامنے رو رو کر اپنا مقصود مانگتے ہیںمگر پھر چند ہی دنوں میں مایوس ہو کر شکوہ کر بیٹھتے ہیں کہ ہمارا رونا بلکنا سب بے کار ہے ... وہ تو ہماری سنتا ہی نہیں... اس کو (نعوذباللہ) ہمارے رونے سے کیا حاصل؟

تو وہ بے چارےنہیں جانتے کہ ان کے رونے کی مالک حقیقی کوواقعی کوئی ضرورت نہیں... یہ رونا تو خود رونے والے کی روحانی صحت کے لیے ضروری ہے... یہ اس کی روحانی ورزش ہے!

میں نے سوچا کہ وہ خاتون سنتیں تو انہیں بتاتا کہ یہ رونا تو آپ کی روحانی ورزش ہے... تا کہ اس ورزش سے آپ کی روح کی کثافت صاف ہو جائے، روحانی پھیپھڑے مضبوط ہو جائیں، اتنے کہ وہ حرمین کی پاکیزہ فضائیں اپنے اندر جیسا کہ حق ہے، ویسے سما سکیں!

اللہ رب العزت نے رونے میں کچھ ایسی تاثیر رکھی ہے کہ چند آنسوروح و قلب کو پھول کی طرح ہلکا کر دیتے ہیں... رونا انسان کے بدن کو ہی نہیں، روح کو بھی صحت مند، ہلکا اور سرشار کر دیتا ہے... جسمانی طور پر ایسے کہ بڑے بڑے غم جو دل و دماغ پر بھاری سلوں کی طرح ایسے آن پڑتے ہیں کہ اگر نہ ہٹیں تو آدمی ان کے بوجھ سے دنوں میں مر جائے مگر... قدرت انسان کی مدد کرتی ہے... وہ فطری طور پر پھوٹ پھوٹ کر روتا ہے اور دل و دماغ پر غموں کا منوں بوجھ دو آنسو بہانے سے یوں ہلکا ہو جاتا ہے جیسے پگھل کر آنکھوں کے راستے بہہ گیا ہو...!

بالکل اسی طرح کبھی جب روح پر کثافت طاری ہو جائے... مسجد میں دو پل رکنا بھی ایسا لگے جیسے معاذاللہ زنداں میں ہے ... نہ نمازمیں لطف ہو نہ تلاوت میں ... دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا پہاڑ اٹھانے کے مترادف لگنے لگے تو سمجھ لیجیے اس وقت آپ کو خالق کائنات کے سامنے بلک بلک کر رونے کی ضرورت ہے... یہ ندامت کے آنسو ہی روح پر چڑھا گناہوں کا میل دھو کر اسے بالکل ہلکا پھلکا کر یں گے ... مختصر یہ کہ رونا ہی ہے جو انسان کو مادیت سے روحانیت کے قریب کر دیتا ہے جیسے بچے جب اس دنیا میں آتے ہیں تو روتے چیختے آتے ہیں، جوایک نارمل بات ہے... جو بچہ مگر پیدا ہو کر روئے نہیں، تو یہ بڑی خطرے کی بات سمجھی جاتی ہے... تب ننھی سی جان کورلانے کے لیے نرس اور لیڈی ڈاکٹر اسے ہلکے ہاتھوں سے تھپڑ بھی مارتی ہیں کہ بچہ روئے گا، توہی اس دنیا میں پہلی سانس لے گا!

پھر ان تھپڑوں کی ضرب سے بچہ چیخ چیخ کر روتا ہے اور ڈاکٹر ہی نہیں ماں بھی خوشی سے مسکراتی ہے... !

بالکل اسی طرح بندہ جب اپنے اعمال کی وجہ سے اپنی روح کو بیمار کر بیٹھتا ہے... توگویا اس کی روح جنتی فضا میں سانس لینے کی حقدار نہیں رہتی... پھر اللہ کا فضل ہوتا ہے، بندے کو ہلکے ہلکے تھپیڑے لگائے جاتے ہیں... بندہ ان تھپیڑوں سے گھبرا کر رجوع کرتا ہے ، اللہ کے سامنے آنسو بہاتا ہے ... یوں اس کی روحانی ورزش ہوتی ہے ، جس سے روح صحت مند ہو کر جنت کی فضا میں سانس لینے کی حقدار بنتی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے دیکھ دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں، ویسے ہی جیسے نوزائیدہ بچے کو روتا دیکھ کر ماں خوش ہوتی ہے!
 
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174682 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More