اللہ آپ سے بھی پوچھے گا

کرنے والوں کیلئے سو راستے اور نہ کرنے والوں کیلئے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہم نے اپنی زندگی میں بارہا مشاہدہ کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پربے حیائی پر مبنی مواد چلے تو کہا جاتا ہے کہ جس کو پسند نہیں وہ نہ دیکھے یا وہ ٹی وی بند کردے ، یا چینل تبدیل کرلے۔ لیکن اس کے برعکس جب کسی سیاسی جماعت کے لیڈر خطاب فرمائیں تو رویہ تبدیل ہوجاتا ہے اور ان کو یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ جس نے سننا ہے سنے اور جس نے نہیں سننا وہ اپنا چینل تبدیل کرلے۔

حال ہی میں سپریم کورٹ نے سودی نظام کے خلاف یہ کہہ کر درخواست مسترد کر دی کہ جو سود نہیں لینا چاہتے نہ لیں، لینے والوں کو اﷲ پوچھے گا۔ میرا سوال ہے محترم جج صاحب سے کہ کیا اﷲ آپ سے نہیں پوچھے گا کہ کلمہ توحید پڑھ کر آپ نے اﷲ کا حلف اٹھایا تھا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کے دستور کا آپ نے حلف اٹھایا تھا۔کیا کسی غلط کام کرنے والے کو یہ کہہ کر اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ کرے اﷲ اس سے پوچھے گا۔ تو پھر آپ نے شراب پر پابندی کیوں لگا رکھی ہے؟ یہ اس کا اپنا فعل ہے ۔

حکومت الہیہ سے مراد وہ نظام حکومت ہے جس میں اللہ کی حاکمیت اور اس کے نازل کردہ احکام و قوانین کی فوقیت کو من و عن تسلیم کیا جائے۔ اورانھی کے مطابق ہدایات اور فروعی قوانین وضع کیے جائیں۔ جس مملکت کی بنیاد اس نظریہ پر قائم ہوگی اس کے لیے قانون کے لانے والے اور اس پر عمل کرکے دکھانے والے کے نقش قدم پر چلنا ناگزیر ہوگا۔

”خلیفہ اللہ فی الارض“ ہونے کی وجہ سے انسان مجبور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے سرموانحراف نہ کرے۔ آپ کے معاملات ہوں یا عبادات انھیں اسی طرح کر دکھائے جیسا کہ قانون کے لانے والے نے اپنی زندگی میں نمونہ کرکے دکھایا۔ عدل و انصاف کے صرف وہی اصول مملکت میں نافذ کرے جو اللہ کی طرف سے پہنچے ہوں۔ نیز زندگی کو ایسے ڈھب پر گامزن کرنے کی کوشش کرے جس کے ہر خط و خال سے آخرت کی جواب دہی کا تاثر پیدا ہو۔ اللہ کو ”ملک الناس“ جان کر دنیاوی زندگی کے تمام شعبوں میں قوانین الہیہ کی پابندی عملاً لازم کر دینا ہی حکومت الہیہ کے قیام کر دینے کے مترادف ہے۔ تکوینی حیثیت سے عملاً حکومت الہیہ قائم ہے۔ چاند ، سورج ، زمین ، ملائکہ جن و انس سب وہی کچھ کرتے ہیں جو ان سب کا پیدا کرنے والا چاہتا ہے۔ فقط جن و انس ایسی مخلوق ہے جنھیں چند معاملات میں آزادءرائے بخشی گئی ہے۔ اور اسی آزادءرائے کی بنا پر انسان اور جنات جزا و سزا کے مستحق گردانے گئے ہیں۔ چنانچہ خلیفة اللہ فی الارض کے منصب و مقام کو پہچان کر اس پر عمل پیرا ہونا ہی منشا الہی کو پورا کرنا ہے۔ اس کے برعکس آزاد منش ہونا۔ منشاءالہی کے خلاف اور حکومت الہیہ کے منافی ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت واضح طور پر سمجھادیا ہے کہ وہ خلیفة اللہ فی الارض ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اطاعت ، فرمانبرداری کو اپنا شعار بنائے۔ چنانچہ کہا گیا ہے کہ ترجمہ” ہم نے جن و انس کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ ہماری اطاعت و فرمانبرداری کریں۔جو ریاست حکومت الہیہ کی شرائط پوری کرتی ہے وہی اصل میں اسلامی ریاست کہلاتی ہے۔

سود سے متعلق احکامات قرآن پاک میں واضح درج کر دیئے گئے ہیں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اﷲ سے جنگ قرار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل کہ اﷲ کا عذاب ہم سب پر نازل ہو برائے کرم اپنے فیصلوں پر خود ہی غور فرمائیں ۔آپ نے اس سے قبل کئی اچھے فیصلے کیے ہیں۔ چاہے وہ سرکاری زبان اردو پر عمل کرنے کا فیصلہ ہو یا 62، 63پر عمل کا فیصلہ .... آپ نے دستور کی ہر شق کی پاسداری کی ہے۔ آپ کا فرض ہے کہ قانون کے مطابق فیصلہ دیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پر آپ کو متوجہ کریں ۔ کل جب روز محشر جب اﷲ سب سے سوال کرے گا تو ہم یہ کہہ سکیں گے کہ یا اﷲ ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق آگاہ کر دیا۔ جو اہل اختیار ہیں اب یہ ان کا کام ہے کہ وہ اس معاملہ کوکس طرح دیکھتے ہیں؟ اﷲ آپ سے بھی پوچھے گا!!....

Mir Shahid
About the Author: Mir Shahid Read More Articles by Mir Shahid: 49 Articles with 39274 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.