پاکستانی ہونے کا برملا اظہار

بائیس سال پہلے سری نگر میں بھارت مخالف جماعتوں نے جموںوکشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دلوانے کے نام پر ایک سیاسی اتحاد قائم کیا تھا۔7 مارچ 1993 کو سری نگر میں اس نئے سیاسی اتحاد کانام کل جماعتی حریت کانفرنس رکھا گیا تھااس میں شامل جماعتوں نے متفقہ طور پر میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق کو نئے سیاسی اتحاد کا کا بانی چیرمین منتخب کیا تھا۔ ریاست پاکستان کی ایما پر، اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور دوسرے فورمز پر اسی اتحاد کو کشمیریوں کی نمائندگی کا حق حاصل رہاہے۔ کشمیر کے اس نئے وسیع تر بھارت مخالف سیاسی اتحاد نے 31جولائی 1993کو حق خودارادیت کے حصول کے سفر میں اپنے لیے ایک راستے کا تعین کیا تھا اس راستے کو حریت کا آئین قرار دے کر کہا گیا تھا کہ یہ اتحاد میں جموںوکشمیر کے سیاسی ، سماجی اور مذہبی جماعتوں کا ایک مجموعہ ہوگا جس کا صدر دفتر سرینگر میںہوگا۔ اس اتحاد کا کام ایک پر امن جدوجہد کے ذریعے جموںوکشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دلوانا ہوگا ۔اتحاد مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا ایک ایسا مستقل حل تلاش کرے گا جو مسئلہ کے تینوں فریق، ہندوستان، پاکستان اورجموںو کشمیر کے عوام کو قبول ہو، شرط یہ ہوگی کہ مجوزہ حل جموںوکشمیر کے عوام کی خواہشات کی عکاسی کرتا ہو۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے اپنے ائین میں کشمیری عوام سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ اقوام عالم اور دنیا کی حکومتوں کو کشمیر کے مقدمے سے آگاہ کیا جائے گا۔ کہا گیا تھا کہ رواں جدوجہد ہندوستان سے جموںوکشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دلوانے کی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جموںوکشمیر میں مسلم اکثریتی کردار اورتشخص کو تحفظ دیا جائے گا اور ایک ایسے سماج کی تشکیل کی کوشش کی جائے گی جو انصاف و مساوات ، تحمل و برداشت اور ایک دوسرے کے لیے عز ت و احترام پر مبنی ہو۔ آج بائیس سال بعد ضرورت پیش آگئی ہے کہ دیکھا جائے کہ حق خودارادیت کے حصول کے سفر کی جو ترجیحات طے کی گئی تھیں ان کا کیا بنا، بائیس سال بعد یہ انکشاف کشمیریوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے کہ حریت اپنے وعدے میں ناکام رہی ہے ۔ کشمیریوں کو حق خودارادیت دلوانے کا دعویدار سیاسی فورم 4 ٹکڑوں میں تقسیم ہے جبکہ جماعت اسلامی اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ جیسے سیاسی گروپ ان میں شامل نہیں ہیں ۔ جموں و کشمیر فریڈم پارٹی کے سربرہ شبیر احمد شاہ ، اتحاد المسلمین کے سربراہ آغا حسن اب سید علی گیلانی والی حریت میں شامل ہوگئے ہیں ،سید علی گیلانی والی حریت میں شامل جماعتوں کی تعدا 24 ہوگئی ہے جبکہ میر واعظ والی حریت میں نصف درجن کے قریب جماعتیں رہ گئی ہیں۔ حکومت پاکستان تاحال میر واعظ والی حریت کو ہی تسلیم کرتا ہے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وزن حکومت کی اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔4 اکتوبر 2015 کو سری نگر میں سید علی گیلانی والی حریت میں شامل تنظیم ماس موومنٹ کی سربرہ فریدہ بہن جی نے پریس کانفرنس کی ۔ اس موقع پرفریدہ بہن جی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ سید علی گیلانی والی حریت کو ہی تسلیم کیا جائے اور اسلام آباد میں اسے دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں حریت کانفرنس کا دفتر قائم ہے تاہم اس کا کنٹرول میر واعظ والی حریت کے پاس ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کشمیریوں کا ایک ہی سیاسی فورم ہوتا۔ بلاشبہ کشمیری عوام نے حریت کانفرنس کو اپنا تعاون دیا مگر کیا رہنمائی کے فریضے سے حریت بھی انصاف کر پائی ہے ؟ میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا اب بھی حریت کانفرنس کی حمایت کوئی دینی اور شرعی تقاضاہے ؟ حریت کانفرنس کشمیری عوام کے جذبات کی ایک علامت کے طور پر سامنے آنے والے گروپ کا نام تھا تاہم اس گر وپ کے رہنمائوں کی غلطیوں کے باعث اب یہ کشمیریوں کے جذبات کی ایک علامت نہیں بلکہ کشمیری سماج کو تقسیم کرنے کا ایک فورم ہے۔ پاکستان میں اپنے بچوں کو ڈاکٹر اور انجنیر بنانا بھی اس گروپ کا مشن ہے ۔ پاکستان کے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلوں سے محروم مقبوضہ کشمیر کے ہونہار طلبہ و طالبات کی کہا نیاں حریت کانفرنس کو کٹہرے میں کھڑا کرتی نظر آتی ہیں ۔ کشمیری جماعتوں میں کانفرنسیں کرانا فیشن بن گیا ہے ۔ گزشتہ روز بھی کشمیر ہاوس میں ایک کانفرنس میں یہ انکشاف ہوا کہ آزاد کشمیر میں پاکستان کے خلاف کوئی تحریک جاری ہے ۔ اس کانفرنس کی طرح کشمیریوں کے ہر فورم میں مطالبہ دہرایا جاتا ہے کہ پاکستان بھارت جامع مذاکرات میں کشمیری قیادت کو بھی شامل کیا جائے اگر پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بات چیت کے عمل میں کشمیریوں کو ساتھ بٹھانے پر امادہ ہو بھی جائیں تو کشمیری قیادت کا حق کون استعمال کرے گا۔ پاکستان تحریک آزادی کشمیر کے تناظر میں کل جماعتی حریت کانفرنس( میرواعظ )کو کشمیریوں کا نمائندہ فورم تسلیم کرتا ہے ۔ پاکستان کی اسی حمایت کے نتیجہ میں او آئی سی رابطہ گروپ برائے کشمیر اور دوسرے فورم میں کشمیریوں کی نمائندگی کا فریضہ حریت کانفرنس کو سونپا جاتا ہے۔ اگر بات ماضی کی ہوتی تو ہم یہ تسلیم کر لیتے کہ حریت کانفرنس کشمیریوں کا نمائندہ فورم ہے اور اس کی قیادت کشمیریوں کی وکالت کر سکتی ہے ،بد قسمتی سے حریت کانفرنس میں غلطیوں اور کوتاہیوں کے لیے احتساب کی کوئی رویات ، حالات سے سبق سیکھنے ، حالات کے مطابق قوم کو تیار کرنے اور اسکی رہنمائی کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے ۔ حریت تقسیم درتقسیم کے مرحلے سے گزررہی ہے۔ جنرل پر ویز مشرف کے دور میں سید علی گیلانی نے ناراض ہو کر اپنا الگ گروپ تشکیل دے دیا جبکہ جنرل پر ویز مشر ف کی انتظامیہ نے میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والے گروپ کو سرکاری حریت کا درجہ دے دیا۔دوسال پہلے شبیر احمد شاہ بھی ناراض ہو گئے اور انہوں نے ایک تیسری حریت کی بنیاد رکھی اب کی بار ظفر اکبر بٹ سمیت چھ حریت رہنمائوں نے میر واعظ عمر فاروق کا ساتھ چھوڑ دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چھ رہنمااب کی بار چوتھی حریت کی تشکیل کا فریضہ سر انجام دیںگے۔ اس بار میر واعظ گروپ سے الگ ہونے والے رہنمائوں کا دعوی ہے کہ وہ وسیع تر اتحاد کی کو شش کریں گے۔ یہ تو تھا حریت کانفرنس کی تقسیم در تقسیم کا عمل اہم بات یہ ہے کہ کشمیریوں کے اس فورم میں جموں ، لداخ، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی نمائندگی موجود نہیں ہے۔ اگر ریاست پاکستان وادی کے اس فورم کو کشمیریوں کا فورم تقسیم کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ مسئلہ کشمیر صرف وادی کے لوگوں کا مسئلہ ہے ریاست کی باقی اکائیوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔چناچہ کسی مر حلہ پر اگر چاروں حریت اکائیاں یکجا بھی ہو جاتی ہیں تو بھی کشمیریوں کی حقیقی نمائندگی کا فریضہ سر انجام نہیں دیا جاسکتا اس لیے کہ جموں ، لداخ، آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کو نظر انداز کر کے کوئی مذاکراتی میز پر پورے کشمیر کی نمائندگی کا دعوے دار کیسے ہو سکتا ہے؟۔ جنرل پر ویز مشرف کے دور میں حریت کے نام پر لندن، واشنگٹن اور برسلز میں کشمیر سینٹرز قائم کیے گئے تھے۔ سوالات اٹھنے شروع ہوئے تو ان سینٹر کے بساط ہی لپیٹ دی گئی ہے۔ جنرل پر ویز مشرف نے چار نکاتی فارمولے کے زریعے تقسیم کشمیر کی تجویز دی تو حریت رہنماوں نے سب سے آگئے بڑھ کر مشرف کی وکالت شروع کر دی تھی۔ حریت میر واعظ سمیت کشمیری رہنمائوں کی غالب اکثریت نے چار نکاتی فارمولے کونہ صرف قبول کر لیا تھا بلکہ اس کی حمایت میں راہ عامہ منظم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مر د قلندر سید علی گیلانی نے چار نکاتی فارمولے کو تقسیم کشمیر کی سازش قرار دے کر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا چنانچے مشر ف انتظامیہ نے سید علی گیلانی کو نظر انداز کر کے میر واعظ عمر فاروق والی حریت کی سرپرستی کا فریضہ انجام دیا تھا۔آج بھی یہی صورت حال ہے ۔ بوڑھا لیکن جواں جذبوں والا علی گیلانی اس وقت بھی پاکستانی تھااور 15 اپریل کو نئی دہلی سے سری نگر واپسی کے موقع پر پاکستانی کہلایا جب اس کے جانشین مسرت عالم بٹ نے پاکستانی پرچم لہرا کر پاکستانی ہونے کا برملا اظہار کیا تھا۔ بات ہورہی ہے حریت کی ، بلاشبہ کشمیر میں حقیقی سیاسی قیادت کا فقدان نظر آرہا ہے ، حریت ناکام ہوگئی ہے، اب حریت والوں کو نئے حالات کے تحت نیا راستہ تلاش کرنا پڑھے گا ایسا راستہ جس میں جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کو بھی چلنے میں آسانی ہو ،جس پر ریاست کے اکثریتی عوام کا اتفاق ہو۔ موجودہ صورتحال بظاہر تعطل کی نشاندھی کرتی ہے ۔ حریت کو دیکھنا ہوگا اس اہم موڑپر کشمیری رائے عامہ کیا نقطہ نظر رکھتی ہے۔ حق خود ارادیت کے مطالبے کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام اپنے مسائل کو کس طرح حل کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ کشمیری رائے عامہ کو وسیع تر سیاسی سمجھوتے کے پس منظر میں متحرک کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50736 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More