سنگھ پریوار کی گوریلا جنگ!

جھوٹ پر تنازعوں کا محل کھڑا کرنے کے ماہر

پورا سنگھ پریوار دادری کے دہشت گردوں کی پشت پر کھڑا ہے ۔نہ کسی کوندامت ہے نہ پچھتاوا ۔ سب ایک تنہا گوشت خور کو قتل کر کے سورما بنے ہوئے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ اب بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جانا چاہیے جو کنگ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کی امت نے 1498میں اسپین میں اوربرطانیہ کی یہودی ایسٹ انڈیا کمپنی نےWASPیعنی سفید فام اینگلو سیکسن نسل کے پرو ٹسٹنٹ عیسائیوں کے ساتھ مل کر 1857میں بھارت میں کیاتھا۔ سنگیت سوم ،سادھوی پراچی اور مہیش شرما سمیت سنگھ پریوار کے ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر یہی ہے کہ ۔۔جو بیف کھاتے ہیں ان کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے ۔۔ادھر دیو بند کے پولیس سر براہ نے جب اخبار نویسوں کے ایک سوال کے جواب میں یہ کہ دیا کہ بسہڑا جیسی وارداتوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے جبھی اس دیش میں بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کی فضا قائم رہ سکتی ہے تو اے بی پی نیوز سمیت الکٹرانک میڈیا کے انہی سنگھ پریوار کے embeddedصحافیوں نے اسے ۔۔بھڑکاؤ بیان ۔۔قرار دیکر اسکی مذمت شروع کردی ۔
چونکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے مَون برت رکھا ہوا ہے اور انہیں غیر ممالک میں جاکر پچھلی بھارتی حکومتوں میں کیڑے نکالنے اور بھارت کی غیر ملکی بہؤوں اور ان کے غیر ہندو دامادوں کے ۔۔گُن گان ۔۔سے فرصت نہیں ہے لہذا وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے بیا ن ہی کو موجودہ حکومت ہند کا سرکاری مؤقف سمجھا جا نا چاہیے کہ ۔۔یہ (محمد اخلاق کا ) قتل کوئی فرقہ وارانہcommunalمعاملہ نہیں ہے اسے سیاسی نہیں بنانا چاہیے it should not be politicizedبی جے پی کے ممبر اسمبلی (مظفر نگر یوپی)سنگیت سوم جو مظفر نگر فساد کے ملزموں میں سے ہیں جنہیں پھانسی یا عمر قید نہ سہی تو کم از کم جیل میں چکی کی طویل مشقت کی سزا تو ضرور ہونا چاہیے ،کہتے ہیں کہ..۔۔یو پی حکومت کو مسلمانوں کی حمایت کی قیمت چکا نی پڑے گی ۔۔!وہ (اکھلیش حکومت کے لوگ) پہلے مظفر نگر کے فسادی کو ہوائی جہاز میں اپنے ساتھ لے گئے تھے اب وہ اسی طرح گائے کر قاتلوں کو ہوائی جہاز میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے ہیں ۔۔(بسہڑا) گاؤوں کا واقعہ(یعنی محمد اخلاق کا دہشت گردانہ قتل ا ور اسکے گھر کی تباہی اور گھر والوں کی بہیمانہ پٹائی و غیرہ ) اکھلیش حکومت کے خلاف گاؤوں والوں کا غصہ تھا کیونکہ پولیس گؤ کشی کے معاملوں میں کوئی کارروائی کرتی ہی نہیں ۔لہذا میں یو پی حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بسہڑا کے ۔۔بے گناہ ۔۔گاؤوں والوں کے خلاف کارروائی بند کرے ۔۔وغیرہ ۔

سنگھ پریوار کاشرمناک پروپیگنڈا یہ ہے کہ بسہڑا واقعہ ہندؤوں کے زخمی جذبات کا نتیجہ تھے وہ (سارے حملہ آور دہشت گرد )۔۔گاؤوں کے معصوم بچے ۔۔ تھے ! اور اخلاق تو ہارٹ اٹیک سے مرا کیونکہ کسی نے اس سے کہہ دیا تھا کہ اس کا بیٹا مر گیا ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔۔نوئیڈا کی ضلع انتظامیہ اور پولیس ریاست میں سماجوادی پارٹی حکومت ہونے کے باوجود بسہڑا گاؤوں میں بی جے پی سمیت سنگھ پریوار کے لیڈران، اخلاق کے قاتلوں سے ملاقات کرتے ، انکی ہمت بندھاتے گھوم رہے ہیں اور علی ا لا علان دھمکی دے رہے ہیں کہ گؤ کشی کرنے اور بیف کھانے والوں کے ساتھ اب یہی ہوگا ۔یوں تو دہلی کے وزیر اعلی کجری وال اور ایم آئی ایم کے سربراہ بیرسٹر اسد ا لدین اویسی نے بھی بسہڑا کا دورہ کیا لیکن انہیں بہت دیر انتظار کرانے اور گاؤں کے باہر گھنٹوں روکے رکھنے کے بعد اجازت ملی اور بعد میں سنگیت سوم نے علانیہ دھمکی دی کہ ۔۔اس معاملے میں بیان بازی نہ کی جائے ورنہ ہندو جانتے ہیں کہ انہیں کس طرح کے رد عمل کا اظہار کرنا چاہیے ! ہندو رکشا دل کے صدر بھوپندر چودھری نے کہا کہ ۔۔اب گؤ کشی کے معاملوں سے اسی طرح نپٹا جائے گا جس طرح بسہڑا کے ہندوؤوں نے اس کا جواب دیا ہے ! بھو پندر سنگھ نے کہا کہ ۔۔اب ہندو اپنی گؤ ماتا پر حملہ برداشت نہیں کریں گے ۔۔دادری کے سابق بی جے پی ایم ایل اے نواب سنگھ ناگر نے فرمایا کہ ۔۔غلطی تو اخلاق اور اس کے گھر والوں ہی کی تھی ۔۔ انہوں نے بسہڑا کے دہشت گردوں کے بارے میں یہ انکشاف فرمایا کہ ۔۔وہ تو سب دس دس پندرہ پندرہ سال کے معصوم اور بے گناہ بچے ہیں ۔۔! ایک اور آر ایس ایس لیڈر ترون وجے نے تو اپنے بیان میں اس صدی سارے فاشسٹوں اور دہشت گردوں کو شرمندہ کر دیا کہ ۔۔امن اور قانوں کی ذمہ داری ہندوؤں پر نہیں ڈالی جا سکتی ۔مسلم متاثرین کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں ۔۔سیما مصظفے نے ان کا جو انگریزی جملہ نقل کیا ہے ،ہم اسے بھی مِن وَ عَن لکھے دے رہے ہیں ،تاکہ اگر ہم سے ترسیل مفہوم میں کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو قارئین خود اسے درست کر لیں ۔ویب سائٹ thecitizen.inپر سیما مصطفے نے اپنی 5اکتوبر کی پوسٹ میں ترون وجے کا بیان ان الفاظ میں درج کیا ہے Hindus should not be responsible for peace and order . Muslim victims should remain mute.ترون وجے نے دراصل اپنے ٹویٹر میسج میں لکھا ہے کہ امن قائم رکھنے کی ذمہداری ہمیشہ ہندوؤں ہی کے سر کیوں ڈال دی جاتی ہے ؟Be a victim and maintain silence in face of assault

اعجاز ذکا سید نے عرب نیوز میں شایع اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ مودی کی خاموشی ا س دہشت گردی کی ہمت افزائی کے مترادف ہے۔ یہ خاموشی ایک طرح سے قتل کرنے کا لائی سنس ہے ظاہر ہے کہ جیسا راجہ ویسی پرجا ! تو ہم بھارت کو کہاں لیے جا رہے ہیں ؟ سدھارت وردا راجن کے لفظوں میں (جسے ہم دو روز قبل اپنے اسی کالم میں نقل بھی کر چکے ہیں کہ )ہم اس مرحلے سے اب بہت زیادہ دور نہیں ہیں کہ جب ہمیں یہ پتہ چلے گا کہ انسانی گوشت کا رنگ بھی وہی ہے جسے مودی نہایت معصومیت سے یا (منافقت سے )مٹن کہتے ہیں !

انڈین امریکن مسلم کونسل www.iamc.comنے 3اکتوبر کو اس واردات کی سخت مذمت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ واردات کسی بی جے پی کی حکومت والی ریاست میں نہیں سماجوادی پارٹی کی قیادت والے صوبے اتر پردیش میں ہوئی ہے اور اب، اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا کہ مظفر نگر (یو پی ) کے مسلم کش فسادکی جانچ کرنے والی سہائے کمیٹی نے مذکورہ قتل عام کے لیے ایس پی اور بی جے پی دونوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے جس میں ایک سو سے زائد لوگ ہلاک اور 50 ہزار سے زائد بے گھر ہو گئے تھے ۔یو پی میں صرف گزشتہ ایک سال کے دوران چھوٹے بڑے 130 فرقہ وارانہ فسادات میں 25 لوگ مارے جا چکے ہیں ۔بدھ 7اکتوبر 2015 کو صبح دس بجے دہلی کے جنتر منتر پر دادری دہشت گردی کے خلاف ایک احتجاجی پروگرام ۔۔دیش بچاؤ دویش ہٹاؤ۔۔کے نام سے ہونے جا رہا ہے،جسے بہر قیمت کامیاب ہونا چاہیے ۔تاہم خوش امیدی کے ساتھ صرف یہ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اس روز دہلی پولیس جو دہلی کے وزیر اعلی کجریوال کے بجائے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے کنٹرول میں ہے سنگھ پریوار کی سینا کی طرح نہیں امن و قانون کے محافظ کے طور پر اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے گی اور بھارت کے لیے کسی مزید شرمندگی کا سبب نہیں بنے گی ۔

ڈھائی ہزار اراکین والے ایک سوشل میڈیا گوگل گروپ ۔این آر آئی انڈین۔ کے اَیڈمِن جناب پاشا پٹیل نے 5اکتوبر کو یہ کہتے ہوئے گروپ کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا تھا کہ دادری سانحے پر کسی نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ۔ حالانکہ اعجاز ذکا سید کا بہت اچھا فکر انگیز مضمون توخود ہم نے پڑھا اور اور اس کے ایک اقتباس کو اپنے کالم میں نقل بھی کیا ۔ دراصل ، جب اس طرح کا کوئی بڑا سانحہ رونما ہوتا ہے، تو سننے والوں کا پہلا تا ثر سکتے کا ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی یہ وقت سر جوڑ کر بیٹھنے اور ہر سطح پر قلیل مدتی ،وسط مدتی اور طویل مدتی حکمت عملی اور لائحہ عمل مقرر کرنے اور اپنی تمام ترجیحات کو نئے سرے سے معین کرنے اور اس پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کا ہے ۔ محض مذمت کرنے اور بے فیض شور مچانے سے کچھ حاصل نہیں ہو نے والا ۔ پہلا مرحلہ تو دشمن اور اسکے افکار و استعداد کو بخوبی پہچاننے کا ہے ۔بد قسمتی سے ہماری صفوں میں ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے جو ہندتوا اور سنگھ پریوار کی تاریخ اور حقیقی عزائم سے باخبر ہیں ۔موجودہ نازک حالات کی ذمہ دار ہماری یہی بے خبری اور احمقانہ خوش فہمی ہے جس کا ہم پچھلے سو سال سے شکار ہیں ۔اب ہمارے بہت سے کاموں میں سے ایک اہم کام یہ بھی ہے تاکہ ہم دشمن کی چالوں کا قبل از وقت اندازہ لگا کر اس کا پیش بندانہ تدارک کر سکیں ۔دنیا پندرہ سال سے امکانی خطرہpotential threat اورpre emptive strike پیش بندانہ حملے کی رَٹ لگائے ہوئے ہے لیکن ہم نے کبھی دین کے دشمنوں کو کما حقہ پہچاننے ان کے امکانی خطروں کو بھانپنے اور ان کے پیش بندانہ تدارک کی سبیل کرنیکی کوئی سنجیدہ ،عملی اور اجتماعی کوشش کبھی نہیں کی۔ہماری غفلتوں اور قائدین کی غلط پالیسیوں کا پہلا نتیجہ 1857کا قتل عا م ،د وسرا 1947 کی دربدری اور عدیم ا لنظیر خونریزی تیسرا آزاد بھارت کے بدترین مسلم کش فسادات،چوتھا گجرات تجربہ ،اور پانچواں مودی سرکار کے تسلط کے بعد اٹالی اور دادری ہیں ۔اور اگر اب بھی نہ جاگے تو 1498کا ہسپانیہ اور اکیسویں صدی کے افغانستان ،عراق ،سیریا ،لیبیا ،مصر اور یمن کے تجربات بھارت میں دہرائے جانے کی تیاریاں مکمل ہیں ۔لیکن ، علم ،لا علمی سے اور تیاری ،غفلت سے ہمیشہ اور ہر حال میں بہتر ،مفید ، مطلوب اور مقصود ہے اورنتیجہ ہر عمل کا اﷲ سبحانہ تعالی کے اختیار میں ہے اور وہ ہر شے پر قادر بھی ہے اور مسبب ا لا سباب بھی ۔لیکن اپنے ہر پروگرام ،حکمت عملی اور تیاری کا عمومی اعلان ہرگز ضروری نہیں بلکہ تزویری اعتبار سے نقصان دہ بھی ہے ۔

لہذا ﷲ اور فی اﷲ فکر و عمل کے قرآنی اور نبوی paradigmکے اندر اپنی بساط و استطاعت کے مطابق حصول قوت کے عملی میدان میں اتر پڑیں اور جب ہم ایسا کریں گے تو یہ اﷲ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں پر جو اس کے نام لیواؤوں کے یعنی ہمارے بھی دشمن ہیں اور خود ہمارے سبھی ڈھکے اور چھپے ،ظاہری اور باطنی دشمنوں پر ہماری ہیبت قائم کر دے گا اور ہمیں یون ہی نہیں چھوڑ دے گا بلکہ ہم حصول قوت کی راہ میں جسے اﷲ جل شانہ نے اپنی راہ قرار دیا ہے ،جو کچھ خرچ کریں گے وہ ہمیں لَوٹا دے گا ۔۔اور تم لوگ ،جہاں تک تمہارا بس چلے ،زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ،ااُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو ۔ تاکہ اس کے ذریعے سے اﷲ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعدا کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اﷲ جانتا ہے (کہ وہ تمہارے دشمن ہیں )تم اﷲ کی راہ میں جو کچھ خرچ کروگے اُس کا پورا پورتا بَدَل تمہاری طرف پلٹا دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا ۔ (سورہ انفال آیت 60) ۔(ختم)
Aalim Naqvi
About the Author: Aalim Naqvi Read More Articles by Aalim Naqvi: 4 Articles with 4615 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.