برصغیر کی نامکمل تقسیم۔۔برطانیہ ذمہ دارہے

جنوبی ایشیا کا امن پاک بھارت تعلقات سے وابستہ ہے۔ان دونوں ملکوں کے تعلقات کی نوعیت اس خطے کے عوام پر اثرا نداز ہوتی ہے۔کئی ایک چھوٹی بڑی جنگیں ان دونوں ملکوں کے درمیان ہو چکی ہیں۔سرحدی خلاف ورزیاں معمول بن چکی ہیں۔ اب دونوں ملک ایٹمی قوت کے حامل ہیں دونوں کو ہی اس قوت پر ناز ہے اور یہ اکثر اس قوت کے استعمال کی بات بھی کرتے رہتے ہیں۔ دونوں ملک ایک دوسرے پر دہشت گردی اور دراندازی کے الزامات بھی لگاتے رہتے ہیں۔ اس گشیدگی نے دونوں ملکوں کے 1.5ارب سے زائد لوگوں کی زندگیوں کو نہ صرف داؤ پر لگا رکھا ہے بلکہ ان کے نصف سے زیادہ وسائل اسی کشیدگی کی نظر ہو رہے ہیں ۔ناخواندگی اور غربت کی بدولت اس خطے کے لوگ جرائم اور دہشت گردی کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں اور پھر عالمی امن کے لیے خطرہ بھی بن جاتے ہیں۔اس سارے مسلے کی بنیادی وجہ ان دو ملکوں کے درمیان پایا جانے ولا تنازعہِ کشمیر ہے۔

بظاہر یہ مسلہ دو ملکوں کے درمیان ہے مگر ایک تیسری قوت برطانیہ اس معاملے سے الگ تھلگ نظر آتی ہے اور یہ مسلہ اسی ملک کا پیدا کردہ ہے۔برطانیہ نے تقریباً سو سال برصغیر پر حکومت کی اور جاتے وقت اس خطے کو تقسیم کر کے گئے۔اگر وہ یہ تقسیم مساویانہ اور اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کے تحت دیانتداری کے ساتھ کرتے تو مسلہ کشمیر جنم ہی نہ لیتا اور اس خطے کے عوام پر سکون زندگیاں گزار رہے ہوتے۔ تاجِ برطانیہ نے ریاستوں کے عوام کے حقِ خود ارادیت کو فوقیت دی تھی مگر جلد ہی اپنے اس موقف کو اس نے پسِ پشت ڈال دیا تھا۔ اس وقت کے کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے ایک دستاویزلکھ کر دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دیا جائے تو برطانیہ نے اسے فوری طور پر قبول کیا جبکہ دوسری طرف ریاست جونا گڑھ کے والی محبت خان نے بھی لکھ کر دیا تھا کہ ان کی ریاست کو پاکستان کے ساتھ شامل کیا جائے مگر یہاں تاجِ برطانیہ نے چشم پوشی سے کام لیا ۔ شاہنواز بھٹو اس وقت اس ریاست کے وزیر اعظم تھے انہیں نے پاکستانی فوج سے مدد بھی مانگی تھی مگر بھارتی فوج نے اس سے پہلے ہی جونا گڑھ کا محاصرہ کر لیا تھا اور شاہ نواز بمشکل جان بچا کر پاکستان پہنچے تھے۔

1935کے ایکٹ کے تحت تمام ریاستیں تاجِ برطانیہ کے ماتحت تھیں ۔ان ریاستوں میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے ریفرنڈم کروانے کی ذمہ داری بھی تاجِ برطانیہ ہی کی تھی۔اگر اس وقت کے برطانوی راج کا یہ موقف تسلیم کر لیا جائے کہ دونوں ملکوں میں سے کسی بھی ملک کے ساتھ ریاست کے الحاق کے لیے اس کے والی کی رائے کافی ہے تو پھر محبت خان کی دستاویز کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا اور جونا گڑھ کو پاکستان کے حوالے کرنا ہو گا۔حکومتِ پاکستان نے کبھی بھی اس معاملے کو عالمی سطح پر اجاگر نہیں کیا ہے۔ بھارت دنیا کے سامنے یہ کہتا ہے کہ والیِ کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا اور پاکستان نے اس اعلان کے بعد 1948میں اپنی افواج کشمیر میں بھیجی تھیں۔دنیا بھارت کے اس موقف کو درست تسلیم کرتی ہے۔ مسلہ کشمیر کسی صورت بھی فوجی انداز میں حل نہیں ہو سکتا ہے یہ صرف قانونی انداز میں ہی حل ہو سکتا ہے قائداعظم نے بھی پاکستان کا مقدمہ قانون کے دائرے کے اند رہی رہ کر لڑا تھا ۔آج پاکستان کو ایک بار پھر قائد کے انداز میں ہی کشمیر کا مقدمہ لڑنا ہو گا۔مسلہِ کشمیر کو عالمی فورمز میں جونا گڑھ کے ساتھ ملا کر پیش کرنا ہو گا۔دنیا کو یہ باور کرانا ہو گا کہ برصغیر کی تقسیم تاحال نامکمل ہے۔برطانیہ کو اپنی ذمہ داری یاد کروانا ہو گی۔پاکستان کو سفارت کاری کے ذریعے دنیا کے تمام ممالک کے سامنے اس مسلے کی بنیادی وجوہات کو اجاگر کرنا ہو گا۔حکومت برطانیہ کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے کراؤن کی عزت کا خیال رکھے۔جو غلطی تاجِ برطانیہ سے ہوئی ہے اس کا ازالہ کرے۔تاریخ میں اس خطے میں خلفشار کا ذمہ دار برطانیہ ہی تصور ہو تا ہے۔ آزادی،مساوات اور انصاف کے علمبرادر اس ملک کی اس سنگین غلطی کو تاریخ کے اوراق میں نظر انداز کرناناممکن ہے۔دنیا کی قدیم ترین جمہوریت کے حامل اس ملک کو اپنے اوپر لگے اس داغ کو صاف کرنا ہو گا۔ برصغیر کی تقسیم کو مکمل کرنے کے لیے برطانیہ کو نہ صرف عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا بلکہ بھارت پر بھی ان مسائل کو حل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہو گا۔ یہ خطہ امن کی منزل اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب اس کی تقسیم کا عمل مکمل ہو گا۔
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 55761 views i am columnist and write on national and international issues... View More