وزیراعظم کا امریکی دورہ:اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

وزیر اعظم نریندر مودی پھر ایک بار امریکہ کے دورے پر روانہ ہورہے ہیں ۔ گزشتہ مرتبہ کی طرح وہ پہلے اقوام متحدہ کے عمومی اجلاس سے خطاب کریں گے ۔ اس کے بعد واشنگٹن کے بجائے سیلیکون ویلی جائیں گے ۔ پچھلی مرتبہ میڈیسن اسکوائر نیویارک میں انہوں نے ایک ناچ رنگ کے پروگرام میں شرکت کی تھی لیکن اس بار وہ سان جونس میں واقع سیپ سینٹرکے اندر پروقار انداز میں ہندوستانی عوام سے خطاب کریں گے۔ ایک سال بعد سہی وزیراعظم کو اپنے ملک کی عزت ووقار کا خیال آگیا یہ خوش آئند بات ہے۔ حسبِ سابق صنعتکاروں سے ملاقات اور اس کے علاوہ وہ فیس بک کے دفتر دورہ بھی ہوگا۔ پچھلے سال صرف سکھوں نےمظاہر کیا تھا لیکن اس بار گجرات کے رہنے والےپٹیل سماج کا غم و غصہ بھی ان کا منتظر ہو گا۔

گجرات میں جب سے ریزرویشن کی تحریک کا آغاز ہواہےوزیراعظم نے اپنا رخ بہار اور وارانسی کی جانب کرلیا۔ گجراتی عوام کے دلوں کی بادشاہت کا دعویٰ کرنے والے اس خودساختہ شہنشاہ نے گزشتہ تین ماہ میں ایک بار بھی گجرات کے اندر قدم رکھنے کی جرأت نہیں کی مگر گجرات کی آگ ان کے آگے امریکہ پہنچ گئی۔ گجرات اگرمودی جی کا میکہ ہے تو سسرال دہلی ہے۔ فی الحال جہاں ایک طرف گجرات سے لے کر امریکہ تک پٹیل سماج آگ بگولا ہے وہیں خود مودی جی نے ملک کوفسطائیت کی آگ میں جھونک رکھا ہے ۔امریکہ میں مودی کا انتظار کرنے والی پٹیل برادری کے دل میں پھپھولے پھوٹ رہے ہیں ۔ بقول شاعر؎
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

امریکہ کے اندر پٹیل سماج نے بیرونِ ملک پٹیل امانت سوسائٹی (اوپاس) قائم کرکےوزیراعظم نریندر مودی کی آمد کے موقع پر امریکی انتظامیہ سے احتجاجی جلوس نکالنے کی اجازت بھی حاصل کرلی ہے۔ ۔ اوپاس کے کنونیر تیجس پٹیل کے مطابق وہ لوگ کالے کپڑے پہن کر سیاہ جھنڈوں کے ساتھ مظاہرہ کریں گے۔ اوپاس کے رہنما بلدیو پٹیل کاکہنا ہے کہ پچھلی مرتبہ ہم نے وزیراعظم کیلئے سرخ قالین بچھایا تھا اس مرتبہ ہم سیاہ پرچم لہرائیں گے۔ ایک اور رہنما ستیش پٹیل نے کہا کہ ہم نے بھارت وکاس ایسو سی ایشن کے ناظم بھارت برائی سے اپنا چندہ لوٹانے کا مطالبہ کیا ہے گزشتہ سال دیا تھا۔ اس مطالبے کے جواب میں بھارت برائی نے میڈیسن اسکوائرمیں کئے گئے تماشے کی قلعی بھری بزم میں کھول دی۔ انہوں نے اپنی معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کیلئے جملہ ایک ہزار بیس کروڈ روپئے جمع کئے گئے تھے جس میں سے ایک ہزار کروڈ تو پروگرام کے انتظام وانصرام پر صرف ہوگئے اور باقی رقم سوچھّ بھارت مشن کو سونپ دی گئی گویا اس پربی جے پی نے ہاتھ صاف کرلیا ۔اس سے ظاہر ہے کہ وہ دیش بھکتی کا مظاہرہ نہیں بلکہ ایک ہزار کروڈ کے اصراف سے منعقد کردہ ایک تفریحی کھیلتا ۔

پٹیل سماج اقوام متحدہ کے دفتر سے لے کر ہندوستانی سفارتخانےتک کے علاوہ سان جوس میں بھی احتجاج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں بھی مظاہرے ہوں گے ۔ اس کے سبب سرکاری ایجنسیاں پٹیلوں کو مودی جی کے پروگراموں میں لانے کے بجائے دور رکھنے میں جٹی ہوئی ہیں۔ امریکہ میں موجود مودی بھکتوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے داخلی مسائل کو ہندوستان کےحدود سے باہر نہیں لانا چاہئے مگر خود وزیراعظم جب سابقہ حکومت پر فرانس، کینیڈا، چین اور دبئی میں کھلے عام تنقید فرماتے ہیں تو یہ مودی بھکت انہیں حق بجانب ٹھہراتے ہوئے بغلیں بجاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی بیرونِ ہندان پر تنقید کرے تو دیش بھکتی جاگ اٹھتی ہے اور وہ اس پر لعنت ملامت کرنے لگتے ہیں۔
مودی جی آج کل سبھاش چندر بوس پر دل و جان سے فدا ہیں۔ پچھلے ایک ہفتہ میں ان کے دفتر سے بوس کے اہل خانہ کو ۸ مرتبہ فون کیا گیا گجرات کے مرد آہن اور سنگھ پریوار کے منظور نظر ولبھ بھائی پٹیل کے احتجاج کرنے والےخاندان کو کوئی نہیں پوچھتا ۔سردار پٹیل کا پڑپوتا (بھتیجا)کیول پٹیل فی الحال امریکہ میں مقیم ہےاس کا کہنا یہ ہے کہ ریزرویشنکے سبب وہ انجینیرنگ کالج میں داخلہ سے محروم رہا اور ترک ِوطن پر مجبور ہوا ۔ ایک اور رہنما دکشیش پٹیل بی جے پی حکومت کے ذریعہ گجرات کے اندرپٹیل مظاہرین پر مظالم سے ناراض ہیں۔ ان کا شکایت ہے کہ ہماپنے حقوق انسانی کی پامالی سے مودی جی کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ اساحتجاج میں پٹیل برادری کے ساتھ گجرات کے براہمن بھی شامل ہو گئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر مودی جی نےگجرات براہمنوں کا سیاسی اثرو ورسوخ ختم کردیا یہی وجہ ہے امریکی خلاء باز سنیتا ولیم کے والد دیپک پنڈیا نےکہاکہ وہ اپنے گاوں کی پٹیل برادری کی حمایت کررہے ہیں۔ سارے سیاسی دانشور حیرت و استعجاب کے عالم میں گجراتیوں کے ذریعہ مودی جی کی مخالفت اور براہمنوں کے اندر بی جے پی حکومت سے ناراضگی کا چمتکار دیکھ رہے ہیں۔

ملک کے اندر فی الحال بے شمار مسائل ہیں۔ان کو نظر انداز کرکےوزیر اعظم نریندر مودی اس قدر غیر ملکی دورے کیوں کرتے ہیں ؟ اس سوال کا سہل ترین جواب یہ ہے کہ ایوان پارلیمان میں جا کر مباحث میں حصہ لینے کی نہ ان میں صلاحیت ہے اور نہ جرأت ۔ اندرون ملک ان کی باتوں پرنہ کوئی توجہ دیتا ہےنہ اعتماد کرتا ہے اس لئے خبر نہیں بنتی ۔اس لئےخبروں میں رہنے کا سب سے آسان طریقہ بیرونِ ملک دورہ ہے لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ خبروں میں رہنا کیوں ضروری ہے؟ جمہوریت کی مجبوری یہ ہے کہ یا تو عوام کے کام کرو یا کم ازکم شور کرو؟مودی جی نے دوسرا متبادل پسند فرمایا ہے۔ مودی جی نہایت ذہین آدمی ہیں وہ اپنی خوبیوں اور کمزوریوں سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کون سا کام وہ بحسن و خوبی کرسکتے ہیں اور کیاان کے بس کا روگ نہیں ہے اس لئے حسبِ استطاعت وہ قوم کی خدمت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اب یہ خدمت عوام کیلئے رحمت ہے زحمت اس سے ان کو کوئی غرض نہیں ہے ۔ وہ تو اسے اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھتے ہیں نیز نارسیسس کی مانند خود ہی اپنے سیلفی کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔

ذرائع ابلاغ میں آج کل منموہن سنگھ اور نریندر مودی کے غیر ملکی دوروں کا موازنہ کیا جارہا ہے۔منموہن نے ۱۰ سالوں میں ۴۰ ممالک کا دورہ کیا مودی جی ایک سال میں ۲۰ممالک گھوم آئے۔ اس طرح اگر پانچ سال کا موقع انہیں مل جائے تو سیکڑہ پورا ہوجائیگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے مودی جی پر گزشتہ امریکی دورے کے دوران ۳۱ مضامین لکھے گئے جبکہ منموہن جی کے دورے پر صرف ۸ مضامین لکھے گئے تھے ۔ ان مضامین میں لکھا کیا گیا تھاَ؟مودی جی کی مخالفت اور منموہن کی کس قدر تعریف کی گئی تھی وہ ایک تحقیق کا موضوع ہے۔ان مضامین میں کتنے اپنے طور پر لکھے گئے تھے اور کتنے لکھوائے گئے تھے اس کی تفصیل بھی دلچسپ ہوسکتی ہے۔مودی جی کے ٹی وی پر نظر آنے کا شوق صدراوبامہ کے دورے پر نظر آیا۔ مودی جی کے ساتھ وہ ۲۵۵ گھنٹوں تک ٹی وی کے پردے دکھائی دئیے جبکہ منموہن کے زمانے میں صرف۸۲ گھنٹوں تک عوام کواوبامہ کا دیدار نصیب ہوا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سرکاری اشتہاربازی سے مودی جی اور اوبامہ کو تو خوب بھلا ہوا لیکن عوام کو تفریح کے علاوہ کیا ملا؟

یہ عوامی تفریح مفت نہیں تھی بلکہ ان کی فلاح وبہبود پرخرچ ہونے والے ٹیکس میں سے ایک خطیر رقم وزیراعظم کےدوروں کی نذر ہوگئی ۔ آسٹریلیا میں مودی جی کے وفد کو ٹھہرانے پر ۶ء۵ کروڈ روپئے خرچ ہوئے تھے اور ٹیکسی کا بل ۴ء۲ کروڈ روپئے تھا۔ مودی جیبھوٹان کےدورے پر بھی۴۱ لاکھ سے زیادہ پھونک آئے۔ امریکہ میں انہوں نےرہنے سہنے پر ۶ کروڈ سے زیادہ خرچ کئے۔ پچھلی مرتبہ مودی جی نیویارک پیلس میں رکے تھے اور قصر ابیض بھی تشریف لے گئے تھے۔ اس بار اوبامہ نے مودی جی کے بجائے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو قصر ابیض کا مہمان بنا لیا تو ممکن نے مودی جی کے حواریوں نے سوچا ہو کہ کیوں نہ مودی جی کو اوبامہ کے ساتھ والڈروف اسٹوریہ نامی ہوٹل میں ٹھہرا دیا جائے جہاں پچھلی مرتبہ اوبامہ کا قیام تھا ممکن ہے ایک آدھ سیلفی کا موقع ہاتھ آجائےلیکن بدقسمتی سے اوبامہ نے اپنا اراددہ بدل دیا اور وہ خود نیویارک پیلس میں منتقل ہو گئے جہاں مودی ٹھہرے تھے۔ اس بات کاقوی امکان ہے کہ سان جوس سے واپسی کے بعد مودی اور اوبامہ کی باہمی گفتگو والڈروف اسٹوریہ میں منعقد ہو ۔

ڈرامہ بازی سےلوگ بہت جلداوب جاتے ہیں اس لئے اسے ایک ہی انداز میں بار بار دوہرایا نہیں جاسکتا ہے ۔ فلمی دنیا کے لوگ اسی لئےاپنے فارمولوں کو باری باری سے ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ مودی بھکتوں نے بھی سوچا بار بار ناچ رنگ کا کھیل نہیں چلے گا اس لئے اب کی بار صنعتکاروں کی ملاقات کے علاوہ اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں خطاب رکھوادیا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ یونیورسٹی کے اندر مودی جی زبردست تقریر پڑھ کر سنائیں گے اس لئے کہ ایم جے اکبر جیسے لکھنے والوں کی خدمات انہوں نے حاصل کررکھی ہیں لیکن اگر وہاں کسی طالبعلم نے مودی جی سے ان کی تعلیمی لیاقت دریافت کر لی تو مسئلہ ہو جائیگا۔ گجرات کے ایک آر ٹی آئی رضا کار نے حقِ معلومات کے تحت مودی جی کی ۱۰ ویں ، ۱۲ ویں اور ایم اے کی مارک شیٹ طلب کرلی تو اس کو وزیراعظم کے دفتر اور الیکشن کمیشن سے دلچسپ جوابات موصول ہوئے۔

وزیراعظم کے دفتر نے اسے وزیراعظم کی ویب سائٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا لیکن اس سےقبل وہاں سے ایم اے (پولیٹیکل سائنس) والا جملہ ہذف کردیا گیا تھاجس سے پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ وہ وزیراعظم کے حلف نامہ کو دیکھے ۔وہ رضا کار عدالت میں پہنچ گیا تو وہاں پر موجود جج ایس ای رضوی صاحب نے فیصلہ سنایا’’ عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریکارڈ میں موجود معلومات فراہم کریں لیکن اس بابت چونکہ دفتری ریکارڈ میں معلومات موجود نہیں ہے اس لئے وزیراعظم کے دفتر وہ فراہم نہیں کرسکتا‘‘۔ عدالت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اجازت دی تھی اس لئے وہ بھی کردی گئی تو جواب ملا وہ پھر سے آرٹی آئی کے تحت درخواست دے گویا یہ ثابت کردیا گیا کہ دنیا گول ہے اور مودی جی تعلیمی لیاقت میں کہیں نہ کہیں جھول ہے۔ ان کے بھکت آج کل کالی داس ، سور داس اور کبیرداس کی مثالیں دے رہے ہیں کہ ان کے پاس کون سی ڈگری تھی لیکن وہ بھول جاتے ہیں ڈگری کا نہ ہونا مسئلہ نہیں ہے مگر اس کا جھوٹا دعویٰ کردینا ایک سنگین جرم ہے جس کا ارتکاب کرنے والے سنگھ داس (سمرتی ایرانی ,ونود تاوڑےاور نریندر مودی ) کھلے عام گھوم رہے ہیں مگر عآپ کےسابق وزیرقانون جتیندرسنگھ تومر جیل میں چکی پیس رہے ہیں ۔

اس سال مودی جی کی سالگرہ کے موقع پر ان کے اساتذہ اور طلباء کے تاثرات اخبارات کی زینت بنے ۔ اتفاق سے سارے اساتذہ اسکول کے تھے حالانکہ مودی جی کے کالج کے کسی نہ کسی پروفیسر کو پکڑ کر اس سے ان کی تعریف کروالینا کوئی مشکل کام نہیں تھا بشرطیکہ ایسا کوئی فردِ بشر موجود ہوتا۔ ان کے ساتھ پڑھنے والے ایک طالبعلم نے کالج کے پہلے سال کا ذکر کیا ہے لیکن ایم اے کرنے کیلئے مزید ۵ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اس لئے کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان کےکالج کا کوئی ہم جماعت طالبعلم تعریف و توصیف کرنے کیلئے آگے نہیں آیا۔ مودی جی کے ساتھ پڑھنے والوں نے ڈراموں میں ان کی اداکاری کا ذکر کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جراثیم ان کے اندر بچپن ہی سے پائے جاتے ہیں۔ ویسے مودی جی نے ابھینیتا بننے کے بجائے نیتا بن جانے کا اچھا فیصلہ کیا ورنہ یہ عیش و عشرت اور ایسی شہرت انہیں کیونکر میسر آتی؟

سان فرانسسکو کے علاقہ میں مودی جی ۳۳ سال بعد جانے والے پہلے وزیراعظم ضرور ہیں لیکن ان سے قبل ۳ ہندوستانی وزرائے اعظم اس خطے کا دورہ کرچکے ہیں ۔ ؁۱۹۴۹ میں جبکہ سیلیکون کی وادی کا وجود نہیں تھا پنڈت جواہر لال نہرو نے یو سی برکلی یونانی مرکز میں خطاب کیا ۔ ان کے بعد؁۱۹۷۸ میں مرارجی دیسائی اور پھر ؁۱۹۸۲ میں اندرا گاندھی لاس اینجلس کا دورہ کرچکی ہیں ۔ ؁۲۰۰۰ میں اٹل جی بھی وہاں جانا چاہتے تھے مگر نہیں جاسکے ۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ مرارجی دیسائی کے دورے کی بھی وہاں کے تعلیم یافتہ حضرات نے مخالفت کی تھی اور انہیں ہندوستانی عوام کا قصائی قرار دیا تھا اور اب وہ مودی جی کے خلاف کمر بستہ ہیں ۔ ذرائع کے مطابق، امریکی یونیورسٹیوں میں جنوبی ایشیا کے امور پر گہری نظر رکھنے والے ۱۲۴پروفیسروں نے ایک بیان جاری کر کے حقوق انسانی اور شہری حقوق کو پامال کرنے والی مودی حکومت سے محتاط رہنے کی اپیل کی ہے۔ ان حضرات نےمودی کے دورۂ امریکہ اور سلیکون ویلی کے ساتھ ہندستان کے کاروباری امکان کا حق تسلیم کرتے ہوئے گجرات فسادات کو یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔

کھاڑی کے اس علاقہ میں ۲لاکھ ۷۰ ہزار ہندوستانی نسل کے لوگ آباد ہیں جن میں سے دوتہائی کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ اہم عہدوں پر فائز ہیں مثلاً گوگل کے سربراہ سندر پچائی اور اڈوب سسٹم کے سی ای او شنتانو نارائن۔ مودی جی سیپ سینٹر میںساڑھے ۱۸ہزار ہندوستانیوں سے خطاب کرنے کے علاوہ ان صنعتکاروں سے بھی گفت و شنید کریں گے۔ مودی جی سرمایہ کاروں سے بات تو بہت کرتے ہیں لیکن اس کی اثر پذیری کا اندازہ مندرجہ ذیل اعدادو شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ امریکہ اور ہندوستان کے درمیان ۵۰۰ بلین ڈالر کا کاروبار متوقع تھا مگر صرف ۱۰۰ بلین ڈالر ہوا جبکہ اس کے مقابلے خاموش طبع چین نے امریکہ کے ساتھ ۶۰۰ بلین ڈالر کا کاروبار کیا اور اس میں سے چین کی برآمدات ۴۵۰ بلین ڈالر ہے اور برآمد صرف ۱۵۰ بلین ڈالر ہے ۔ مثل مشہور ہے جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔

اس دورے پر مودی جی فیس بک کے دفتر میں جاکر ذوکربرگ سے بھی ملیں گے۔ اس ملاقات کودورے کی غیر معمولی کامیابی قرار دیا جارہا ہے حالانکہ گزشتہ دنوں گھڑی بنانے کی پاداش میں گرفتار ہونے والے سوڈانی طالبعلم احمد کی حمایت کرتے ہوئے فیس بک کے مارک ذوکربرگ نے کہا تھا ’’کسی چیز کو بنانے کی صلاحیت اور خواہش قابلِ تعریف ہےنہ کہ قابلِ گرفت ۔ مستقبل احمد جیسے بچوں کا ہے‘‘۔ اس کے بعد ہونہار احمد کو ذوکربرگ نے اپنے دفتر میں آنے کی دعوت بھی دی ۔ صدر اوبامہ نے بھی احمد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا تھا۔ ’’شاندار گھڑی احمد۔ کیا تم اسے قصر ابیض میں لانا چاہوگے؟ تم سےدوسرے بچوں کو بھی سائنس میں دلچسپی لینے کا حوصلہ ملاہے۔ اسی وجہ سے امریکہ عظیم ہے‘‘۔ یہ واقعہایک طرف توامریکی معاشرے میں موجود قابلِ مذمت اسلامو فوبیاکا پتہ دیتا ہے وہیں یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ جہاں سیاستداں جھوٹی شہرت کیلئے پاپڑ بیلتے پھرتے ہیں وہیں شہرت کی دیوی ازخود آکر احمد جیسے بے نیاز لوگوں کے قدم چومتی ہے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223274 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.