پان - بہت کھا لیا

“ کھائی کے پان بنارس والا٬ کھل جائے بند عقل کا تالہ “ یہ الفاظ سنتے ہی آپ کے ذہن میں یہ خیال آیا ہوگا کہ پان کھانے سے غالباً دماغ تیز ہوتا ہے- مگر حقیقت اس کے برعکس ہے- ایک لمبے عرصے سے پان ہماری زندگی کا اہم جز ہے- اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ الفاظ کا تانا بانا پان کی افادیت سے جڑا ہے تو آپ کو پان تیار کرنے کا ایک عام طریقہ بتاتے ہیں-

سب سے پہلے پان کا پتہ لیجیے اور اس پر تھوڑا کھتا٬ چھالیہ٬ سونف٬ سپاری٬ تمباکو لگائیے اور لپیٹ کر تکون شکل میں پان بنائیے- منہ کھولیے اور پان کے روایتی مزے میں کھو جائیے- کافی صحت بخش اجزاﺀ سے تیار ہوا ہے نہ؟ پان کی کھانے کی روایت قدیم زمانے سے جاملتی ہے جب راجہ٬ مہاراجہ اور مغل شہشاہوں کو کھانے کے بعد پان پیش کیا جاتا تھا- برسوں سے چلی آ رہی پان کی کھانے کی روایت کی جڑیں ہمارے معاشرے میں آج بھی مضبوط ہیں-
 

image


حقیقت تو یہ ہے کہ ہر چیز جو ہمارے آباؤ اجداد سے ہمیں ملی ضروری نہیں کہ فائدہ مند بھی ہو- اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پان کی خوشبو اور ذائقہ لاکھوں لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے جو اس سے جڑے صحت کے خطرات کو یکسر نظر انداز کیے ہوئے ہیں- اس آرٹیکل کے ذریعے ہم پاکستان میں موجود پان کھانے کی روایت اور ان سے جڑے صحت کے خطرات پر روشنی ڈالیں گے-

پاکستان میں پان کلچر:
بچے نہیں بلکہ ہمارے بڑے پان کھانے کے بارے میں سب پر سبقت لے گئے ہیں- اگر شک ہے تو اپنی نانی ماں یا دادی ماں کے کمرے میں موجود چاندی کا پان کا ڈبہ دیکھیں جو وہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتی ہیں- پاکستان میں پان کے کاروبار کی باگ دوڑ میمن تاجروں نے سنبھالی ہوئی ہے- اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میمن اور مہاجر خاندان پان کھانے کے معاملے میں سب پر بازی لے گئے ہیں جبکہ ایسے کئی لوگ ہیں جو اکثر موقعوں پر پان دکان سے خرید کر کھانا پسند کرتے ہیں- پان کھانے کا کلچر پنجاب میں بھی پھیل گیا ہے جہاں ہر گلی محلے میں پان کی دکان نظر آتی ہے- لاہور کے مشہور انارکلی بازار میں “ پان گلی “ کے نام سے ایک سڑک موجود ہے جہاں پان کے شوقین کھنچے چلے آتے ہیں- اور اسلام آباد کے علاقے ایف 8 میں موجود مشہور پان کی دکان کو کون بھول سکتا ہے- دکان میں داخل ہوتے ہی آپ کو مغل طرز کے برتن٬ پینٹنگ٬ پھول اور پان فروش روایتی لباس زیب تن کیے نظر آتے ہیں- ایسا لگتا ہے ابھی شاہجہان اندر سے نمودار ہوگا اور آپ کو پان پیش کرے گا-
 

image

پان تھوکنا - معاشرے کا ناسور:
آپ نے اکثر سڑک پر٬ بس اسٹاپ پر٬ سرکاری اسپتالوں میں٬ دیواروں پر غرض ہر جگہ پان کی پیک تھوکی ہوئی ضرور دیکھی ہوگی- اس میں کوئی شک نہیں کہ عوامی مقامات پر پان تھوکنے سے ہمارا ملک آلودہ ہو رہا ہے- سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ اس میں پیش پیش ہے- گلی محلے پان کی پیک سے لال دیکھ اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری اس عادت نے ناسور کی شکل اختیار کر لی ہے- افسوس ہے کہ آج تک متعلقہ اداروں نے اس کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے ہیں- اور یہی وجہ ہے کہ یہ عوام کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے-
 

image

پان کھانے کے صحت پر مضر اثرات:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پان ہماری زندگی کو آلودہ کر رہا ہے- تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر افراد پان کھانے سے ہونے والی خطرناک بیماریوں سے بالکل لاعلم ہیں- انٹرنیشنل ایجنسی فور ریسرچ آف کینسر (IARC) اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کی رپورٹ کے مطابق اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ پان کھانا کینسر کا باعث بنتا ہے- پان٬ گٹکا اور چھالیہ کھانے سے منہ کے کینسر میں مبتلا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے- لہٰذا جو لوگ پان کھانے کے عادی ہیں ان کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد اس سے چھٹکارا حاصل کریں-
YOU MAY ALSO LIKE:

“Khayi k Paan Banaras Wala Khul Jaye Band Akal ka Tala”! As these lines depicts, Paan has something to do with sharpening of mind, but this is not the case. Paan has been an essential part of our cuisine since a long time. In case you are wondering how these lyrics fit to the effectiveness of Pan let us tell you how it is prepared.