ہاردک مل گیا مودی کو بھی مہسانے سے

گجرات زلزلوں کی سرزمین ہے ۔ گاندھی کے اس دیس میں تقریباً ۳۰ سال تک(۳ سال کے استثناء کے ساتھ) کانگریس کی حکومت رہی ۔ ابتدائی دس سال اس نے پٹیل برادری کی خوب ناز برداری کی لیکن اس کے بعد شتریوں ، ہریجنوں ،ادیباسیوں اور مسلمانوں کو ملاکر اپنا ووٹ بنک قائم کیا۔ اس کے خلاف پٹیل برادری نے ؁۱۹۸۱ میں نونرمان نام کی زبردست تحریک چلائی اور کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔ یہ تحریک بظاہر ریزویشن کے خلاف تھی لیکن اس کے نتیجے میں حکومت جنتا پریوار کی چمن بھائی پٹیل کے ہاتھوں میں آگئی جب وہ ابن الوقتی اور بدعنوانی کے دلدل میں جادھنسےتو پٹیل برادری نے بی جے پی کا رخ کیا اورکیشو بھائی پٹیل کے سر پر اقتدار کا تاج رکھ دیا۔ کیشو بھائی کو بھوج کا زلزلہ لے ڈوبا اور نریندر مودی کے بھاگ کھل گئے انہوں نے فرقہ واریت کی آگ کو ایسے ہوا دی کہ پٹیل سماج ذات پات کا فرق بھلا کر ان کا ہمنوا بن گیا ۔ یہ جادو گزشتہ سال تک سر چڑ ھ کے بولتا رہا ۔

مودی جی کو اس خطرے کا اندازہ تھا اس لئے وہ دہلی جاتے ہوئے آنندی بین پٹیل کو وزیراعلیٰ کی کرسی سونپ گئے تاکہ پٹیل برادری بھی خوش رہے اور اپنی کرم بھومی پر ان کی سیاسی پکڑ بھی بنی رہے لیکن ہاردک پٹیل نے ۵۰ دن کے اندر نریندر مودی کے۵۰ سال کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ اپنے دورِ اقتدار میں بھی مودی جی ۹ لاکھ لوگوں کی کوئی ریلی نہیں کرسکے جبکہ ہاردک پٹیل نے ان کےگڑھ احمدآباد میں یہ کارنامہ کردکھایا۔ اس پٹیل برادری نے جو نیویارک سے لے کر دبئی تک مودی کی تال پر کتھک کرتی تھی دن دہاڑےان کو تارے دکھلا دئیے۔ اکتوبر میں جب مودی جی امریکہ جائیں گے تو پٹیل سماج کالے جھنڈوں کے ساتھ انکا استقبال کرے گا۔ گجراتی زبان میں ہاردک کے معنی ٰ ’دل سے ‘ کے ہوتے ہیں اور ہاردک نے اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے احمدآباد کے جلسے میں مودی جی کو ایسی ہاردک خواری کی کہ نتیش اور لالو تو کجاکیجریوال اور راہل گاندھی بھی پیچھےر ہ گئے۔

مختلف ا قسام کے زہر کو ملا کر اگر مرکب بنا یا جائے تو اس کا تریاق مشکل ہوجاتا ہے۔۲۲ سالہ ہاردک پٹیل ایکایسا ہیایک چھلاوہہے جس کے آگے مودی جی بے بس ہیں اور اس سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کررہے ہیں تشدد سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا۔ امن قائم رکھیں۔ مودی جی کے منھ سے یہ اپدیش اچھے نہیں لگتےاس لئے کہ تشدد سے خود انہوں نے جتنا فائدہ اٹھایا ہے شاید ہی کسی اور نے اٹھایا ہوگا۔ہاردک کے والد بی جے پی کے رکن ہیں۔ وہ خود کسی زمانے میں کانگریس سیوادل میں تھا ۔ وہاں سے بغاوت کرکے اس نےولبھ بھائی پٹیل سیوا دل قائم کرلی۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں وہ کیجریوال کی عآپ کا ہمنوا بن گیا اور اب ریزرویش کی حمایت میں ایک عوامی تحریک برپا کرکے مودی جی کو چیلنج کردیا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو ؁۲۰۱۷ کے اندر گجرات میں کمل نہیں کھلے گا ۔ ہاردک نے کہا تو نہیں لیکن اس بات کا امکان ہے کہ آئندہ انتخاب میں گجرات کے اندر بھی دہلی کی طرح جھاڑو چلے گا اور بی جے پی کا سپڑا صاف ہو جائیگا۔ اس لئے کہ ہاردک کے بقول پٹیل سماج حکومت بنانا توجانتا ہے مگرسرکار گرانا بھی جانتا ہے۔

گزشتہ دوماہ سے جاری اس احتجاج میں ۸۰ مظاہرے ہوئے لیکن سب کے سب پرامن تھے۔ احمدآباد میں آنے کے بعدہاردک کو حراست میں لیا گیا اور اسی کے ساتھ یہ پر تشدد ہوگیا ہے۔ حکومت نے اقدام کیوں کیا اس کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ آتش زنی کے بعد لا ٹھی چارج ہوا اور کرفیو لگا دیا گیا۔ اس سے قبل ہاردک پٹیل کو بہلانے پھسلانے کیلئے وزراء کی ایک مجلس سے بات چیت کیلئے بلایا گیا اور مظاہرہ رد کرنے کی اپیل کی گئی مگر وہ اس جھانسے میں نہیں آیا۔ اس کے بعد پولس نے اس سے کہا کہ وہ ڈی ایم کو اپنا میمورنڈم دے کر مظاہرہ ختم کرے ۔ ہاردک جب ڈی ایم کے دفتر کی جانب چلا تو ۶۰ ہزار لوگ اس کے ساتھ ہولیے۔ انتظامیہ کو توقع تھی کہ ہاردک میمورنڈم دینے کے بعد اپنے گھر جاکر سوجائیگا لیکن ہاردک وہیں دھرنے پر بیٹھ گیا اور ایک ایسا مطالبہ کرڈالا جس نے سرکار کی نیند اڑا دی۔ اس نے کہا کہ وزیراعلی ٰ آنندی بین پٹیل خود ۴۸ گھنٹے کے اندر آکر میمورنڈم وصول کریں ورنہ وہ غیر میعادی بھوک ہڑتال پر چلا جائے گا۔ آنندی بین اسے اپنے پاس بلانے کے بجائے ڈی ایم کے پاس روانہ کرنے کی غلطی تو پہلے ہی کرچکی تھیں اب ایک نئے جال میں پھنس گئیں۔ میمورنڈم لینے کیلئے جانے سے ناک کٹتی تھی اور نہیں جانے کے نتیجے میں تشدد کا خطرہ تھا۔

نریندرمودی کے اشارے پر چلنے والی آنندی بین نے وہی کیا جس کی توقع تھی ۔ انہوں نے مصالحت کے بجائے مزاحمت کا راستہ چنا اور اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلی ۔یہ ایک تحقیق کا موضوع ہے کہ ۵۰ دنوں تک پرامن چلنے والا احتجاج اچانک پرتشدد کیسے ہوگیا؟ کوئی بعید نہیں کے یہ اسے بدنام کرکے اس پر پولس ایکشن کو جائز قرار دینے کی سازش کا نتیجہ ہو۔ برما کے مسلمانوں کی خاطر ممبئی میں ہونے والے مسلمانوں کے مظاہرے کو بدنام کرنے کیلئے مٹھی بھر شرپسندوں کی مدد سے جو کھیل کانگریس نے کھیلا وہ بی جے پی بھی کھیل سکتی۔مہاراشٹر میں کانگریس مسلمانوں کی اسی طرح احسانمندتھی جیسے کہ گجرات میں بی جے پی والے پٹیل سماج کے ہیں اور جس سیاست میں احسان فراموشی نہ ہو اسے جمہوری کہلانے کاحق ہی نہیں ہے۔ اب یہ حال ہے کہ ہاردک حراست میں ہے۔ بڑودہ اور احمدآباد میں انٹر نیٹ تو کجا فون لائن تک بند ہے ۔

گجرات پھر ایک بار جل اٹھا ہے۔ یہ آگ کہاں تک پھیلے گی یہ کوئی نہیں جانتا۔ گجرات کی راجدھانی سمیت ۱۲ سے زیادہ شہر تشدد کا شکار ہیں ۔ ۱۲۵ گاڑیوں کے جلائے جانے کی خبر ہے۔ ۱۶ پولس تھانوں کو آگ لگائی جاچکی ہے۔ مہسانہ ضلع جہاں سےمودی ، امیت شاہ اور آنندی بین کا تعلق ہے سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ یہاں پر وزیر مملکت امورِ داخلہ رجنی پٹیل کے گھر کو لوگوں نے پھونک دیا اور کئی وزراء کے گھر اور دفاتر جل کر راکھ ہوچکے ہیں۔ مودی کے حلقۂ انتخاب بڑودہ کے بی جے پی رکن اسمبلی اور رکن پارلیمان دونوں کو جلا کر ان کو آئینہ دکھلا دیا گیا ہے۔ گاندھی نگر سمیت کئی شہروں میں کلکٹر اور ایس پی کے دفتر کو آگ لگا دی گئی ہے۔ ان مقامات پر آگ زنی سے قبل آگ بجھانے والے دستوں کے دفاتر کو بھیڑ نے گھیر لیا تاکہ وہ اپنا کام نہ کرسکیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی جی کی فراہم کردہ تربیت کا استعمال پٹیل سماجبڑی خوش اسلوبی کے ساتھ خود ان کی حکومت کے خلاف کررہا ہے۔ کئی شہروں میں ریل گاڑی کی پٹریوں کو اکھاڑ دیا گیا ہے۔ پٹیل نوجوان ہاردک کے اس دعویٰ کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں کہ اگر ہمیں اپنا حق نہیں دیا گیا تو ہم اسے چھین لیں گے۔ ہاردک نے یہ بھی کہا کہ ہم گاندھی اور پٹیل کے وارث ہیں لیکن اگر بھگت سنگھ بن گئے تو راون کی لنکا کو آگ لگا دیں گے اور سچ تو یہ ہے مودی جی بھی راون کی مانند بے یارومددگار اپنی لنکا کو جلتا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔

ہاردک کے مطابق پٹیلوں کی آبادی گجرات میں تو دوکروڑ سے کم ہے مگر ملک بھر میں وہ ۲۷ کروڑ ہیں ۔ اس کے مطابق ایوانِ پارلیمان میں ۱۷۰ارکان کا تعلق پٹیل سماج سے ہے۔ اس نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ نائیڈو اور نتیش بھی پٹیل ہیں ۔این ڈی اے کے اندر فی الحال پٹیلوں کی دو سیاسی جماعتیں اپنا دل اورراشٹریہ سمتا پارٹی شامل ہیں لیکن اس نے ان کا حوالہ نہیں دیا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے ہاردک پٹیل اپنےمہا کرانتی مظاہرے میں بندوق کے ساتھ آیا تھا اور اس نے اعلان کیا کہ اگر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کیلئے نوجوان سڑکوں پر آجائے اور پھر اسے اپنے حقوق نہ ملیں تو ان میں سے کچھ نکسلوادی اور کچھ دہشت گرد بن جائیں گے۔ نکسلواد اور دہشت گردی کو اس طرح ببانگ دہل وجۂجواز فراہم کرنے کیلئےہاردک پٹیل مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ بابری مسجد سے لے کر گجرات کے فسادات تک ہر دہشت گردی کوسنگھ پریوار عوامی جذبات کا بےساختہ اظہار قرار دے کر جائز قراردیتا رہاہے لیکن اب ہاردک پٹیل نے کانٹے سے کانٹا نکالا ہے۔

ہاردک پٹیل کے مطالبات کو منظور کرلینا بی جے پی کیلئے بہت آسان نہیں ہے۔ گجرات میں سرگرمِ عمل شتریہ ٹھاکور سینا نے اس مطالبے کی مذمت ہوئے کہا کہ اگر پٹیل ۱۲ فیصد ہیں تو ہم ۷۸ فیصد ہیں اگر حکومت نے پٹیلوں کو ایک فیصد ریزرویشن بھی دیا تو ؁۲۰۱۷ دور کی بات ہے ہم اسی سال حکومت کو اکھاڑ دیں گے۔ حکومت کی نیت پر شک کرتے ہوئے الپیش ٹھاکور نے کہا ممکن ہے حکومت اس بہانے سے ریزرویشن ختم کرنا چاہتی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان عمومی ذات (یعنی نام نہاد اعلیٰ ذات) کے لوگوں نے مسلمانوں کو ہمارا دشمن بنا کر پیش کیا اور پسماندہ سماج کو ان سے لڑا دیا لیکن اب ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ مسلمان بھی پسماندہ ہیں۔ وہ ہم میں سے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ ہمارے اصل دشمن وہ لوگ ہیں جو ہم سے اپنا ریزرویشن کا حق چھین لینا چاہتے ہیں ۔

ہاردک پٹیل ایک حقیقت پسند نوجوان ہے ۔ اسے پتہ ہے کہ ریزرویش کے خلاف چلنے والی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی اس لئے کہ ہندومعاشرے کی بنیاد ذات پات پر ہے اورتمام سیاسی جماعتیں ذات پات کی سیاست کھیلتی ہیں ۔ ایسے میں دوسروں کو ریزرویشن سے محروم کرنے کیلئے ہاتھ پیر مارنے کے بجائے خود بھی اس سے فائدہ اٹھانا بہتر متبادل ہے۔ پٹیل برادی کی جانب سے ریزرویشن کے مطالبے نے مودی جی کے گجرات ماڈل کی قلعی کھول دی ہے۔ اگر پٹیل بھی پسماندہ ہیں تو آخر گجرات میں ترقی کس نے کی ہے؟ کیا صرف اڈانی ، امبانی ، ٹاٹا اور برلا کی خوشحالی پورے گجرات کے ترقی یافتہ ہونے کی علامت ہے۔ پٹیل سماج اگر واقعی میں خوشحال ہوتا تو اس تحریک کو ایسی پذیرائی نہیں ملتی ۔ یہ تو اندر ہی اندر پکنے والے آتش فشاں کا اچانک پھٹ جانا ہے۔ اس لاوے کو طویل عرصے تک پروپگنڈا کے فریب سے مودی جی نے ڈھانپے رکھا ۔

پٹیل بنیادی طور پر کاشتکار لوگ ہیں ۔ ان لوگوں نے زراعت سے جو کچھ کمایا اسے چھوٹے اور اوسط درجے کی صنعتوں میں لگایا لیکن مودی جی کے ترقی پذیر گجرات نے جب اپنی توجہات بڑی بڑی صنعتوں کی جانب مرکوز کردی تو یہ لوگ نظر انداز ہوگئے۔ ریزرو بنک کے اعدادو شمار کے مطابق گجرات کے چھوٹے اور اوسط درجے کی کل دولاکھ ۶۱ ہزار اکائیوں میں سے ۴۸ ہزار بیمار ہیں ۔ اس کے باوجود مودی جی کو بہار تو بیمارو نظر آتا ہے گجرات نہیں۔ ان صنعتوں میں ۲۱ لاکھ لوگ ملازمت کرتے ہیں جن میں بڑی تعداد پٹیل برادی کی ہے اور ان میں سے اکثر بے روزگار ہو چکے ہیں ۔ سورت میں ہیروں کا کاروبار پٹیل برادی کے ہاتھ میں ہے لیکن پچھلے ۶ ماہ سے وہاں مندی چھائی ہوئی ہے اس لئے تقریبا ً ۱۵۰ کارخانے بند ہوگئے جس کے سبب ۱۰ ہزار لوگوں کو ملازمت گنوانی پڑی۔ سورت میں ہاردک پٹیل کی ریلی میں جو ۵ لاکھ افراد شریک ہوئے تھے اس کے پیچھے یہی عوامل کارفرما تھے۔ ہاردک کے مطابق اب تک گجرات میں ۶۰۰۰ ہزار کسان خودکشی کرچکے ہیں مگر اب اگر ایک بھی کسان مرے گا تو سارا ملک اس کی قیمت چکائےگا۔ یہ زمینی صورتحال ہےجس نے پٹیل سماج کو سڑکوں پر اترنے کیلئے مجبور کردیا ہے۔

سیلفی ماسٹرمودی جی اور ان کےبھکتوں کو کریڈٹ لینے کا خبط سوار ہے اس لئے گزشتہ ہفتے تک کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ آنندی بین پٹیل کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی خاطر یہ مودی کی سازش ہے۔ اگر آنندی بین بھی شیوراج چوہان یا وجئے راجے سندھیا کی طرح مضبوط رہنما ہوتیں جنھوں نے دو مرتبہ اپنے بل بوتے پر غیر معمولی انتخابی کامیابی درج کروائی تو یہ بات معقول لگتی لیکن آنندی بین کے نامزد کئے جانے تک کسی ان کا نام بھی نہیں سنا تھا اور پھراس گجرات میں جہاں مودی جی نےاپنے وفادارایک سے ایک خطرناک پولس افسر کو جیل سے نکال کر اہم عہدوں فائز کررکھا ہے نیز سنجیو بھٹ جیسے افسران کو ٹھکانے لگا دیا ہے کسی بھی رہنما کوہرین پنڈیا کے انجام سے دوچار کردینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پہلے کم ازکم سی بی آئی کی تفتیش میں کچھ حقائق سامنے آجاتے تھے لیکن اب تو اس کا امکان بھی مفقود ہوچکا ہے اس لئے آنندی بین کو گھر بھیجنے کیلئےکسی تحریک کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ ایک ہلکا سا اشارہ کافی ہے۔

کائنات ہستی میں گمراہ انسان پرجب مشیت کی نوازشیں ہوتی ہیں تواس کے اندر جذبۂ تشکرکے بجائے کبر ونخوت جنم لیتا ہے۔ حکمرانوں کا ظلم طغیان جب اپنی حدوں سے گزر جاتا ہے تو مشیت اپنے انوکھے انداز میں اس سے انتقام لیتی ہے۔ اپنے دور کے سب بڑے بت ساز و بت پرست کے گہوارے میں عالمِ انسانیت کا سب سے بڑا بت شکن ابراہیم ؑ خلیل اللہ پیدا ہوتے ہیں ۔ فرعون کی فرعونیت کے خاتمے کیلئے اٹھنے والے موسیؑ کلیم اللہ کی پرورش کا انتظام فرعون کے محل میں کردیا جاتا ہے۔ شاید ایسا ہی کچھ ہمارے ملک میں ہونے جارہا ہے مودی جی کا توڑ پیدا کرنے میں جب ساری ریاستیں ناکام ہوگئیں تو خود ان کے اپنے گجرات میں ہاردک پٹیل نے جنم لیا اور ان کے گورکھ دھندے کو ملیا میٹ کردیا ۔ یہی بات قرآنِ عظیم میں کچھ اس طرح سے بیان ہوئی ہے کہ ’’اور اگر خدا ایک گروہ کا دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفاع نہ کرے تو زمین تباہ و برباد ہو جائے۔ مگر خدا تمام جہانوں پر بڑا لطف و کرم کرنے والا ہے۔ ‘‘(البقرہ ۲۵۱)
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223697 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.