بھارتی دانشوروں کی کامیابیاں - پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ

بھارتی سی ای اوز نے کامیابیوں کی تاریخ رقم کی:
کامیابی ان کے قدم چومتی ہے جو جدوجہد کرنے پر یقین رکھتے ہین- صلاحیتوں اور ذہانت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی- یہ جملہ 43 سالہ بھارتی سندر پچائی پر بالکل ٹھیک بیٹھتا ہے جن کو حال ہی میں دنیا کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک گوگل کا سی ای او نامزد کیا گیا ہے-اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر انہیں کس وجہ سے اتنے بڑے عہدے سے نوازا گیا ہے تو پھر جان لیجیے کہ اس سب کی وجہ ان کی گوگل کی ترقی میں انتھک محنت اور لگن ہے- 11 سال کے قلیل عرصے میں سندر پچائی نے گوگل کروم کو دنیا کا سب سے طاقتور اور قابلِ اعتماد براؤزر بنا دیا اور یہی نہیں بلکہ کمپنی کے اینڈرائیڈ ڈویژن کی باگ دوڑ بھی سنبھالی اور بطورِ پروڈکٹ چیف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا-
 

image


متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سندر پچائی نے عام سی زندگی گزاری- وہ دو کمروں کے اپارٹمنٹ میں قیام کرتے تھے- تاہم ٹیکنالوجی کے جنون نے ان کی بھارت کے بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی- سندر کی کامیابیوں کی داستان کئی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بھارتیوں سے ملتی جلتی ہے جنہوں نے اپنی محنت اور جنون سے بھارت کے بہترین تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی اور پھر امریکہ یا یورپ میں اپنے شاندار کیریر کا آغاز کیا-

گوگل کے علاوہ مائیکرو سوقٹ٬ پیپسی کو٬ ماسٹر کارڈ٬ ایڈوب اور ہرمن جیسی بڑی کمپنیوں میں ایک چیز منفرد ہے اور وہ ہے بھارتی سی ای اوز-
 

image

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غربت کے شکار بھارت میں آخر اتنے اعلیٰ آئی ٹی پروفیشنلز کیسے پروان چڑھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ان کے کامیاب تعلیمی نظام میں ہے- بھارت میں دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی نظام موجود ہے جس میں 1.4 ملین اسکول اور 35 ہزار سے زائد ہائر ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ شامل ہیں- انڈیا برانڈ انکیوٹی فاؤنڈیشن کے مطابق بھارت نے اس سال 2015 میں ٹیکنالوجی اور بی پی ایم سیکٹر سے لگ بھگ 146 بلین امریکی ڈالر کا منافع کمایا جو کہ 2014 کے 118 بلین ڈالر سے کہیں زیادہ ہے اور اضافے کی شرح 23.72 فیصد رہی- انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں سب سے بڑے ذرائع کا اعزاز بھارت کے پاس ہے جو امریکی مارکیٹ کے 124-130 بلین ڈالر مارکیٹ کا 52 فیصد ہے-

ان اعداد و شمار کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بھارتیوں میں دنیا کو چونکا دینے والی ساری خصوصیات موجود ہیں-
 

image

بھارت اور پاکستان- نہ ختم ہونے والے تنازعات:
تقسیمِ ہند کے وقت سے بھارت اور پاکستان کے درمیان بےشمار تنازعات ہیں- ایک طویل عرصے تک بھارت پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا- اسی ذہنیت کے پیشِ نظر دونوں ممالک کے درمیان 4 جنگیں ہوئیں جس میں دونوں ممالک کی فتح کے بگل بجتے رہے- مگر کیا ہم صرف جنگ کے اعداد و شمار میں ہی مقابلہ کرتے ہیں- نہیں٬ اور بھی کئی محاذ ہیں جن پر ہمیں بھارت سے نبرد آزما ہونا چاہیے- دونوں ممالک نے ایک ساتھ آزادی حاصل کی٬ مگر افسوس پاکستان بھارت کی معاشی ترقی کے ساتھ مقابلہ نہ کرسکا- دوسری جانب بھارت نے انگریز سرکار سے وراثت میں ملے تعلیمی نظام کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور نظام میں بہتری کے لیے اقدام کیے- دوسری طرف پاکستان اپنے تعلیمی نظام کی تعمیرِ نو کرنے اور معیار کو بہتر بنانے میں ناکام رہا- ہم عالمی معیار کب یونیورسٹیاں اور آئی ٹی کے ادارے بنانے میں ناکام رہے جبکہ بھارت اب تک 82 انجنئیرنگ اور ٹیکنالوجی کی یونیورسٹیاں اور ادارے قائم کر کے اپنی برتری ثابت کر چکا ہے-

پاکستان کا تعلیمی نظام:
ایک مکمل تعلیمی نظام کی کمی کے باعث پاکستان ایسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین پیدا کرنے میں ناکام رہا جس سے ملک اور دنیا کو فائدہ پہنچ سکے- پہلے پاکستانی تعلیمی نظام مناسب منصوبہ بندی٬ سماجی رکاوٹوں٬ صنفی فرق٬ تعلیمی اخراجات٬ دہشت گردی کے خلاف جنگ٬ تعلیم کے لیے فنڈ اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لیے فنڈ کی کمی ایسے بڑے مسائل ہیں جن کی وجہ سے تعلیمی نظام متاثر ہوا-
 

image

حکومتِ پاکستان نے بالآخر اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ دنیا میں اپنی موجودگی محسوس کروانے کے لیے تعلیمی نظام کی تعمیرِ نو بےحد ضروری ہے- سال 2015 اس حوالے سے بےحد اہم ہے- حکومتِ پاکستان نے اپنی توجہ تعلیم کی ایم ڈی جی٬ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے وژن 2030 پر مبذول ککی ہوئی ہے-

حتمی رائے:
نیشنل ایجوکیشن پالیسی اور تعلیم کے وژن 2030 پر ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنے کی اشد ضرورت ہے- تعلیمی نظام میں کرپشن تعلیمی شرح خواندگی میں کمی کا باعث بنی جس کے پیشِ نظر ایک کارآمد مانیٹرنگ سسٹم کی بے حد ضرورت ہے جو ایسی کالی بھیڑوں کو پکڑ کے سزا دے سکے- حکومت کو جلد از جلد اسکول کی بلڈنگ پر ناجائز قبضہ کرنے والے جاگیرداروں سے خالی کروانی چاہیے- ملک میں ٹیکنیکل تعلیم کے فروغ کے لیے مناسب اقدام اٹھانے کی شدید ضرورت ہے-
YOU MAY ALSO LIKE:

Glory becomes the destiny of those who believes in struggle. Talent and intelligence has no boundaries. This statement is proven valid for 43 years old Indian Sundar Pichai, who has been recently appointed the new CEO of one of the biggest conglomerate, Google.