متحدہ عرب امارات کی اخوان دشمنی سے ہندؤ دوستی تک

 عرب دنیا سے آج کل ایسی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ کانوں پر یقین کر لینا مشکل ہو جاتا ہے ۔عالمِ عرب کا نام زبان پر آتے ہی ذہن آپ سے آپ اسلام کی جانب منتقل ہوتا ہے اس لئے کہ عرب سر زمین کی جڑوں میں جن بزرگوں نے اپنا گرم گرم لہو نچھاور کیا ہے ان کی پہچان صرف ’’اسلام ‘‘ہے بقول اقبالؒ’’اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے‘‘۔متحدہ عرب امارات کے آج کے حدودِ اربعہ میں نبی کریمﷺ کے دورِمبارک میں ہی اسلام پہنچا ہے اور یہ خطہ اسلام کے دامن ِ رحمت میں شامل ہوا ہے ۔تیل کی دریافت سے قبل یہاں کے لوگوں کا نظم و نسق بدستور قبائلی طرز پر رہا ہے۔جوں ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دولت سے ’’عرب ممالک‘‘میں تیل دریافت ہوا تو ان کی زندگی کا ہر پہلو یکسر تبدیل ہو گیا یہاں تک کہ ان میں ’’دین بیزار‘‘جراثیم بھی داخل ہو گئے ۔خدا جانے یہ نحوست ’’کالے سرمایہ ‘‘کی ہے یا قرآنی تصورمیں بے ضمیر اور سنگدل حکمرانوں کی ’’اپنے ہاتھوں کی کمائی اور بد اعمالیوں کی سزا‘‘ہے۔

دولت اپنی ذات میں گرچہ بری نہیں ہے اور نبی کریمﷺ نے خود بھی بحیثیت ’’تاجرِ صادق‘‘ہمارے لئے ایک عظیم نمونہ چھوڑا ہے ۔خلیفہ اول اور سوم خود بھی تاجر تھے ۔نبی کریم وﷺ کے محبوب صحابی اور عشرہ مبشرہ میں شامل حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ بے مثال تاجر تھے۔مگر خدا جانے تیل کی دریافت سے عربوں میں ایسی کیا برائی پیدا ہوئی کہ وہ سب کچھ تو برداشت کر سکتے ہیں مگر اسلام پسندی نہیں، جس کی سب سے بڑی مثال اخوان المسلمون پر تمام عرب دنیا کا کریک ڈاؤن اور ناقابل یقین ظلم و جبر کی دی جا سکتی ہے ۔

اخوان المسلمون کوئی عجمی تحریک نہیں ہے نہ ہی ان میں کسی طرح کے عجمی اثرات پائے جاتے ہیں مگر عرب دنیا نے نبی پاک ﷺ کی اس پیشن گوئی کو جز بجز درست ثابت کردیا کہ ’’تم اہل کتاب کے نقش قدم پر‘‘من و عن چلو گے حتیٰ کہ اگر ان میں سے کوئی سوسمار(ایک طرح کا جنگلی جانورجس کی رہنے کی جگہ زمین کے اندر ہوتی ہے اور وہ بہت ہی تنگ ہوتی ہے)کے بِل کے اندر بھی داخل ہوا ہے تو تم بھی اس میں داخل ہو جاؤ گے(مفہوم حدیث۔متفق علیہ)بنی اسرائیل کی ایک بدترین صفت خود قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ وہ پیغمبروں کی موجودگی اور اطاعت میں کفار سے جہاد کے لئے تیار تو نہیں ہوتے تھے مگر اپنے بھائیوں کو قتل کرنے میں بڑے جری ثابت ہو تے تھے حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے انھیں اس گناہ سے بچنے کی سخت تلقین فرمائی تھی ۔اسی طرح یہ لوگ مسلمانوں کو قید کرنے اورانھیں ان کے گھروں سے بے گھر کرنے میں بہت جری ثابت ہو رہے تھے اور اہلِ عرب آج کل یہی کچھ اپنے بھائیوں کے ساتھ کر رہے ہیں اور حیرت یہ کہ انھیں اس پر کوئی شرمندگی یا ندامت کے برعکس خوشی اور فرحت محسوس ہو رہی ہے۔
اس حوالے سے عالمِ عرب میں متحدہ عرب امارات ،سعودی عرب ،کویت اور مصر کا رول بہت ہی شرمناک ثابت ہو ا ہے ۔اگر چہ اکثر عرب ممالک کی پالیسی ہی یہی ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے دوست ہو سکتے ہیں مگر کسی اسلام پسند فرد یا جماعت کے نہیں اور اسی پالیسی کا یہ شاخسانہ ہے کہ پوری فلسطینی قوم اسرائیل کے لئے نرم چارہ ثابت ہو رہی ہے ۔عرب ممالک کے دروازے ہر دم امریکیوں کے لئے کھلے ہیں وہ جہاں ،جیسے اور جس طرح چاہیں رہیں مگر اسلام پسندوں کے لئے عالم عربی نے ایسی صورتحال قائم کی ہے کہ اب انھیں غیر مسلم ممالک میں پناہ ملنی آسان محسوس ہو رہی ہے مگر کسی عرب ملک میں نہیں ۔
متحدہ عرب امارات کا رول ان سب میں زیادہ شرمناک اور حد درجہ گٹھیارہا ہے ۔مصر میں جب ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت فوجی بغاوت کے نتیجے میں ختم ہوئی تو ساری عرب دنیا اخوان کو ختم کرنے پر متحد ہوگئی اور انھوں نے ایک لمحہ دیر کئے بغیرانھیں دہشت گرد قرار دیدیا ،ان کی املاک ضبط کر لی گئی ،ان کے بینک کھاتوں کو سیز کر دیا گیا ، بیرونی ملک سفرپر پابندی عائد کی گئی اور انھیں گرفتار کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنا دیا گیا ،بعض کو پھانسیوں پر چڑھا دیا گیا اور بعض پھانسیوں کے منتظر ہیں اور اسی بیچ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے متحدہ عرب امارات کا 17اگست2015ء کو دورہ کر کے وہاں کے دلالوں کے دل جیتنے کے لئے ایک ہزار کروڑ ڈالر کی تجارت کرنے کا اعلان کردیا جو کسی بھی طرح غلط تو قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اس لئے کہ کسی مسلمان ملک کا غیر مسلم ممالک کے ساتھ تجارت سے اسلام نے منع نہیں کیا ہے مگر اس دورے کی سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی۔متحدہ عرب امارات کے سلطان نے متحدہ عرب امارات میں ’’مندر کی تعمیر کے لئے‘‘زمین فراہم کرنے کا اعلان کیا۔

بی ،بی،سی اردو ڈاٹ کام کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا متحدہ عرب امارات کا دورہ جن دو وجوہات سے بھارت کے عام عوام میں کافی دنوں تک بحث میں رہے گا، ان میں سے ایک ہے شیخ زاید مسجد میں ان کا جانا اور دوسرا ابوظہبی میں مندر کی تعمیر کے لیے زمین کا دیا جانا۔وزیر اعظم بننے کے بعد وہ نیپال، بنگلہ دیش، چین اور جاپان کے سفر کے دوران کئی ہندو اور بدھ مندروں میں گئے۔ اس لیے ان کے شیخ زاید مسجد میں جانے کے حوالے سے طرح طرح کے نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں۔کچھ لوگ اسے بہار انتخابات سے بھی منسلک کر کے دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہاں کے مسلم ووٹ بینک کو پیغام دینے کی نریندر مودی کی کوشش ہے۔ حالانکہ ایسے نتائج سراسر بے تکے ہیں۔اسی طرح، مندر کی بات کو مودی بھکتوں کی ایک قسم یہ کہہ کر تشہیر کر رہی ہے کہ یہ نریندر مودی کی ہی عظمت ہے کہ وہاں کی حکومت مندر کے لیے زمین دینے کے لیے تیار ہو گئی۔

بات جو بھی ہو متحدہ عرب امارات کا مندر کے لئے جگہ دینا خود اس بات کی دلیل ہے کہ انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس سرزمین میں جہاں صحابہ کرامؓ نے شرک کے استیصال کے لئے خونِ جگر نچھاور کیاتھا وہ آج اسی سرِ زمین پر ایک متشدد ہندؤ لیڈر کی نہ صرف آہو بھگت کرنے پر فخر و فرحت کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ اب باضابط وہاں شرک جیسی نحوست اور عقائد اسلام کے لئے کینسر سے بھی مہلک مرض کے لئے کھلے عام اظہار کی گنجائش بھی نکال لی گئی ہے حالانکہ عربوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اسلام کی اولین جمعیت کے عظیم سپہ سالار اور خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ نے اس درخت کو بھی کٹوا دیا جہاں بیعتِ رضوان ہوئی تھی اور لوگوں میں اس درخت کے تئیں محبت ،لگاؤ اور جھکاؤ پیدا ہونے لگا تھا ۔

بعض حضرات متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کو ان کی وسعت قلبی اور ظرافت طبع کے خانے میں جمع کرنے پر بضد نظر آتے ہیں حالانکہ یہ دل کو خوش کرنے کاعجیب تصور ہے حقیقت نہیں ،اس لئے کہ یہی عرب اپنے ہم مذہب بھائیوں کے لئے سنگدل ثابت ہو رہے ہیں !کیا اسلام پسندی ایسا جرم ہے جسکو مسلمان حاکم بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔پھر نریندر مودی کا معاملہ ہر پہلوسے خوفناک اور متضاد نظر آتا ہے ۔اس شخص کو india todayنے اپنے ماہوار میگزین میں گجرات کے قتلِ عام کے بعد ’’وِلن‘‘لکھا تھا اور یہ شخص آج تک ہزاروں مسلمانوں کے قتلِ عام پرمعافی تو درکنار ’’ندامت‘‘کا ایک لفظ بھی زبان پر لانے سے ہچکچا رہا ہے ۔عرب دنیا نے اگر صرف نریندر مودی کے دوروں سے قبل انہیں گجرات کے قتلِ عام پر وضاحت دینے کی بات کی ہوتی تو آج معاملہ مختلف ہوتا ویسے بھی عربوں سے اس کی امید نہیں کیوں؟

گجراتی مسلمان عربوں کے لئے کسی بھی طرح اپنے اور قابل کشش قرار نہیں دیئے جا سکتے ہیں سوائے مذہب کے !جس کا لحاظ عرب صرف اس وقت کرتے ہیں جب ان کے عجمی نوکر چاکر ان کے بغل میں کھڑے ہو کر نماز ان کے ساتھ پڑھنے کی جسارت کرتے ہیں ۔ورنہ وہ فلسطینی جو ان کے ہم مذہب بھی ہیں اور ہم زبان بھی ،ہم رنگ بھی ہیں ہم نام بھی ،ہم تہذیب بھی ہیں اور ہم مزاج بھی گذشتہ سات دہائیوں سے عربوں کے بدترین اور خوفناک دشمن یہود کے ہاتھوں انتہائی ذلتناک طریقوں سے قتل کئے جا رہے ہیں مگر عرب ہیں کہ ان کی رگِ حمیت کبھی نہیں پھڑکی !ورنہ کون نہیں جانتا ہے کہ مسلمانان ہند کو شرمناک طریقوں سے موت کے منہ میں دھکیلنے والی آر ایس ایس ہی نریندر مودی کی پشت پر کھڑی ہے ۔

بابری مسجد کی شہادت کا گھاؤ اب تک مسلمانانِ ہند کے سینوں میں ہرا ہے اور ’’سنگھ پریوار‘‘کے لاکھ ساحرانہ طریقوں کے باوصف مسلمانانِ ہند ’’حقِ مسجد‘‘سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں اس لئے کہ یہ زمین کے ایک ٹکڑے کے تبادلے کا معاملہ نہیں بلکہ تیس کروڑ مسلمانوں کی عزتِ نفس ،حرمتِ بیتُ اﷲ اور شعائر اﷲ کی حلت و حرمت کا وہ ناقابلِ تنسیخ متفق علیہ مسئلہ ہے جس کے مسائل عجمیوں نے بلاشبہ عربوں سے سیکھے تو ہیں مگر ان پر گردنیں جھکانے کے برعکس کٹانے کا تصور نبی کریم ﷺ کے سچے جانثاروں سے سیکھا ہے جس کی مثال سید صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس کے تحفظ کرتے ہو ئے اور محمد بن قاسمؒ نے سندھ میں ایک بیٹی کی عصمت کی حفاظت کرتے ہوئی پیش کی ہے ۔
 

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83919 views writer
journalist
political analyst
.. View More