اِک ذرا سکردو تک۔۔۔ ( سفرنامہ)

ایک عرصے تک گلگت اور بلتستان کے عوام کے درمیان سماجی دوریاں پائی جاتی تھیں لیکن اب یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان دوریوں کا خاتمہ ہورہا ہے۔اب جہاں دونوں طرف فاصلے کم ہو رہے ہیں وہاں گلگت اوربلتستان کے اہلِ قلم کے مابین قربتیں بھی بڑھ رہی ہیں ۔گلگت اور بلتستان کے اہلِ قلم کے درمیان محبت و بھائی چارگی کی فضا قائم کرنے میں حلقہ ارباب ذوق اور بزمِ و علم و فَن سکردو کا نہایت اہم کردار ہے خصوصاََ بزمِ علم و فَن سکردو کے صدر اسلم حسین سحرؔ کی کاوشیں نہایت قابلِ ستائش ہیں کہ جس میں وہ محافل کا انعقاد کرکے گلگت اور بلتستان کے اہلِ قلم کو مِل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔حال ہی میں حلقہ ارباب ِذوق گلگت کے شعرا ء نے بزمِ علم و فَن سکردو کے صدر اسلم حسین سحرؔ کی دعوت پر بلتستان کا دورہ کیا۔جس کی روداد پیشِ خدمت ہے ۔

۱۹ مارچ ۲۰۱۴ ء کا جمعرات نہایت خوشگوار تھا۔بس سٹینڈجٹیال گلگت لکھنو کے کسی چوراہے کا منظرپیش کر رہا تھا کیونکہ چار سُو حلقہ اربابِ ذوق اور انجمن فکر و سخن نگر کے شعراء نظر آرہے تھے ۔اور رختِ سفر باندھے تیار تھے۔حلقہ اربابِ ذوق کے سینئر نائب صدر عبد الخالق تاج ؔکے ہمراہ نوجوان شاعر آصف علی آصفؔ اور راقم جب بس سٹینڈ پہنچے تو حلقہ اربابِ ذوق کے نائب صدر خوشی محمد طارقؔ‘جنرل سیکریٹری جمشید خان دکھیؔ‘غلام، عباس نسیم‘ؔاسماعیل ناشاد‘ شاہ جہان مضطرؔ‘فاروق قیصر اور امجد علی ساغر ؔکو منتظر پایا۔لیکن حیرت کی بات تو یہ تھی کہ تاحال کسی گاڑی کا انتظام نہیں کیاگیا ۔تاجؔ‘دکھیؔاور نسیم ؔصاحب گاڑی کا بندو بست کرنے کے لیے نیٹکو بکنگ آفس چلے گئے ۔آدھے گھنٹے کا وقت گزر گیا جبکہ نوجوان شعراء بے چینی سے سینئر شعراء کا انتظار کر رہے تھے ۔کوئی اخبار پڑھنے میں مگن توکوئی موبائیل فون پر محوِگفتگو تھااور کچھ شعراء سگر یٹ سلگا کر اپنی بے چینی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے اتنے میں سینئر شعراء نے آکر خطیبانہ انداز میں گاڑی کے انتظام ہونے کا مژدہ سنا دیا۔

تھوڑی دیر بعدحلقہ ارباب ِذوق کا قافلہ سینئر نائب صدر کی سربراہی میں سکردو روانہ ہوا۔تاجؔ صاحب ہاتھ میں ستار لیے فرنٹ سِیٹ پر جلوہ افروز تھے۔تاجؔ صاحب کے ساتھ سفر کرنے کا تجربہ پہلے بھی تھا اور ان کے ساتھ سفر نہایت خوشگوار گزرتا ہے کیونکہ تاجؔ صاحب کو گلگت بلتستان خصوصاََ حلقہ اربابِ ذوق کے زیرِاہتمام ہونے والی محافل کی رونق تصور کیا جاتا ہے اور موصوف محافل میں طنزومزاح کی ایک ایسی روح پھونک دیتے ہیں کہ محفل میں شرکت کرنے والا سنجیدہ سے سنجیدہ شخص بھی کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
بقول تاج
ہم نہ ہونگے تو پھر ہمارے بعد
محفلیں خوشگوار کون کرے
 

image


سفر پر روانگی کے آدھے گھنٹے کے گزرنے تک ہر شاعر نے چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا اور گاڑی میں شہرِ خموشاں سی خاموشی چھائی تھی۔آکرکار جب عالم برج پر پہنچے تو دکھیؔ نے چپ کا روزہ توڑتے ہوئے گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر تبصرے کا آغاز کیا اور اس موضوع پر خوشی محمد طارق ‘غلام عباس نسیم اور نوجوان شعراء کے مابین بحث ومباحثہ ہوتا رہا۔کچھ دیر بعد گاڑی میں پھر سے خاموشی طاری ہو گئی اور شعراء باہر کے مناظر سے محظوظ ہو نے لگے۔گاڑی جب حراموش کے مقام پر پہنچی تو غلام عباس نسیم ؔ نے ماضی میں اپنے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران حراموش میں گزارے دنوں کی یادوں پر جمی گرد کو جھاڑتے ہوئے طنزومزاح سے بھرپور قصے سنائے۔جس کے بعد گاڑی میں طنزومزاح کاایک خوبصورت ماحول پیداہوا جبکہ قافلے کے روح ِرواں تاجؔ صاحب ہاتھ میں سِتار لیے سرگوشیوں میں کوئی دُھن گنگنارہے تھے جیسے کسی ویرانے میں ندی بہہ رہی ہو۔

ہماری گاڑی سکردو روڑ کی پُر خطر گھاٹیوں سے گزرتی ہوئی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی جبکہ شعراء خاموشی سے سے باہر کے مناظر سے محظوظ ہو رہے تھے۔دریائے سندھ اپنی سمت خاموشی سے گزر رہا تھا جیسے انسانی رگوں میں خون گردش کر رہا ہو۔آسمان کو چھوتے ہوئے بلند وبالاپہاڑ برف کی چادر اوڑھے قدرتی مناظر میں مزید دلکشی پیدا کر رہے تھے جبکہ آبشار اپنے اپنے گیت گا رہے تھے اور شگوفے جھوم رہے تھے ۔اس طلسمی منظر کو دیکھ کر نگاہ پہاڑوں کے پیچ وخم میں مقید ہوکر رہ جاتی تھی ۔

تین گھنٹے کی صبر آزما سفر کے بعد ہمارا قافلہ استک نالہ پہنچا جہاں دکھی ؔ‘طارقؔاور نسیم ؔ نے گاڑی سے اترکر ہی نماز پڑھنے کے لیے پانی کی تلاش شروع کر دی جبکہ صلوٰۃ گریز شعراء جن کے سرپرست اعلٰی بھی تاجؔ صاجب ہی تھے ہوٹل کے باغیچے میں ٹہلنے لگے ۔استک نالہ ہوٹل میں کھانے کے برتن جتنے چھوٹے تھے اُن میں دال کے دانوں کی تعداد بھی اتنی ہی کم تھی اور با آسانی گنے جا سکتے تھے بہر حال شعراء نے پیٹ پوجا کی خاطر خوب شکم سیر ہوکر کھایا اور دوبارہ سفر پر روانہ ہوئے ۔ڈیڑھ گھنٹے کے اعصاب شکن سفر کے بعدجب فاریسٹ فارم ہاوس ڈموداس پہنچے تو ادارے کی طرف سے قافلہ عشق کے لیے چائے پانی کا انتظام کیا تھا ۔خیر ادارہ جنگلات کے عہدیداران نے خوب خاطر وتواضح کیا ۔کچھ سفر طے کرنے کے بعد جب ہمارا قافلہ ایوب پُل سے گزرا جو خوبصورت انداز میں دریائے سکردو کے آر پار جھولے کی طرح جھول رہا تھاتو تاجؔ صاحب کے موبائیل فون پر ایک کال موصول ہوئی اور تاجؔ کا چہرہ مسکراہٹ سے کھلکھلااٹھا۔فون سکردو کے نامور شاعر احسان علی دانش ؔ کا تھا جو ہمارے جائے سفر دریافت کر رہے تھے جس پر تاجؔ اور دانش کے مابین طنزومزاح سے بھرپور مکالموں کا تبادلہ ہوا لیکن وہ کلمات بیان کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

ہمارا قافلہ سکردو شہر کے حدود میں داخل ہو چکا تھا اور باہر کے مناظر اپنے اندر ایک طلسمی کشش رکھتے تھے۔دور دور تک وسیع و عریض مگر ویران میدان پھیلے ہوئے تھے جو کسی نخلستان کے ٹکڑے کا منظر پیش کر رہے تھے جبکہ روڑ کے دونوں جانب بلند و بالا درخت ایستادہ تھے اور درخت کی سر سبز ٹہنیاں زمین کی جانب ایسے جُھکی ہوئی تھیں جیسے آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہی ہوں اور کچھ درخت جواں سالہ بیوہ کاوجود دکھ رہے تھے۔

کیڈٹ کالج سکردو پہنچ کر ایک دفعہ پھر رُکے چونکہ تاج ؔ صاحب کے پوتے اَمر تاج اورگلگت کے طلباء جو کیڈٹ کالج میں زیرِ تعلیم تھے سے ملاقات کرکے جانا تھا۔طلباء سے ملاقات کے بعد ہم اپنی منزل یعنی بلترو ریسٹ ہاوس کی جانب روانہ ہوئے۔تھوڑی دیر بعدجب بلترو ریسٹ ہاوس پہنچے تواحسان علی دانش پریشان چوک پرؔیشان کھڑے تھے جبکہ فرمان علی خیال ؔبھی ان کے ہمراہ تھے۔ریسٹ ہاوس میں ہمارے کمروں کا پہلے ہی انتظام ہو چکا تھا لٰہذا شعراء اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔بلترو ریسٹ ہاوس میں رات کھانے کے بعدایوانِ اقبال میں محفلِ مشاعرے میں شرکت کے لیے جانا تھا ۔اتنی طویل صبر آزما اور کھٹن سفرکے بعد بغیر آرام کے محفلِ مشاعری میں شرکت کرنا نہایت مشکل لگ رہا تھا لیکن ایوانِ اقبال پہنچے توجشنِ نوروز و محفلِ مشاعرے کے حوالے سے سخن شناس اہلیانِ سکردو کا جوش و جذبہ اور محفل کی دلکشی دیکھ کرتھکاوٹ کافور ہوگئی۔اس محفل میں مہمانوں کی یومِ نوروز کی مناسبت سے تیار کردہ انڈے جن پرمختلف رنگوں سے خوبصورت انداز میں مختلف نقوش نقش کیے گیے تھے پیش کیے گئے اور بلتستان کے دیگر روایتی کھانوں سے خاطر تواضح کیا گیا۔محفل نہایت شاندار تھی اور گلگت و بلتستان بھر سے آئے ہوئے شعراء نے بلتی اور اردو میں اپنا کلام پیش کرکے سامعین سے خوب داد حاصل کیا۔اس محفل کے مہمان خصوصی وزیر اعلٰی سید مہدی شاہ تھے اور محفلِ مشاعرے کے اختتام پر بلتی سٹیج ڈرامہ پیش کیا گیامحفل کے اختتام پر ہمارا قافلہ دوبارہ بلترو ریسٹ ہاوس پہنچا اور شعرا ء آرام کی غرض سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔

صبح دس بجے کے قریب نوجوان شاعر فاروق قیصرؔکے کمرے کے دروازے پر دستک کی آواز پرراقم کی آنکھ کھلی۔اور ناشتے کے لیے چلے گئے۔ناشتے کی میز پرہمارے ساتھ سکردو کے نامور شعراء بھی موجود تھے جو ہمارے ساتھ ملاقات کے لیے آئے تھے جن میں اسلم حسیں سحرؔ‘ عاشق حسین عاشق ؔ‘رضا بیگ گھا ئل ؔ‘عباس جراء ت اور دیگر شامل تھے اور یہ سکردو کے شعراء کے ساتھ ایک اچھی نشست رہی۔
ناشتے کے بعد تاجؔ صاحب اپنے پوتے سے ملنے کیڈٹ کالج چلے گئے ۔چونکہ جمعے کا دن تھا دکھی ؔ ؔ‘طارق ؔاورنسیم ؔصاحب نماز کی تیاری کرنے لگے جبکہ نمازوں کے ڈیفالٹر شعراء نے احسان علی دانش ؔ کے ہمراہ شوقِ آوارگی سے مجبور شہر کے بازار میں گھومنے پھرنے کے لیے جانے کا ارادہ کیاجن میں آصف علی آصفؔ‘فاروق قیصر اور راقم شامل تھے۔تاہم دانش ؔنے سفرِآوارگی کی شروعات میں ہی صرف اوقات ِنماز کے شروع ہونے تک ہی ہم سفر رہنے کا برملا اظہار کیا۔سکردوشہر کے بازار کی تھوڑی سی خاک چھاننے کے بعددانش ؔمعذرت کے رسمی کلمات کے ساتھ نمازِ جمعہ پڑھنے کے لیے چلے گئے جبکہ ہمارے حلقہ آوارگان نے بلترو ریسٹ ہاوس واپس جانے کو ہی عافیت جانا۔ریسٹ ہاوس پہنچ کرکچھ دیر گزرنے کے بعدبانمازی شعراء کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔نسیم ؔ صاحب سب سے پہلے پہنچے اُن کے بعد دکھی ؔاور طارق ؔ جبکہ آخر میں دانش ؔپہنچے جبکہ ہم ایک ایک کر کے اُن کو ایسے خوش آمدید کہہ رہے تھے جیسے کچھ ججاج کرام جج کافریضہ ادا کر کے آئے ہوں۔اتنے میں تاج ؔ صاحب بھی پہنچے قارئین کے ذہن کے کسے گوشے میں یہ خوش فہمی پیدا ہو کہ شاید تاج ؔبھی نماز پڑھ کر واپس آئے ہوں لیکن مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ آپ کی خوش فہمی سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔
دوپہر کے کھانے کی میز پر شعراء اپنے اپنے لائمہ عمل کااظہار کر رہے تھے نسیم ؔ‘دکھی ؔاور طارق صاحب کا آرام کرنے کا ارادہ تھا۔اس سفر میں طارق ؔصاحب کی ذات کے حوالے سے ہمارے اوپر یہ حقائق آشکار ہوئی کہ موصوف کرکٹ کھیل کے جنونی مدّاح ہیں جبکہ جدید ٹیکنالوجی خصوصاََ موبائیل فون اور انٹرنیٹ کی دنیا کے حوالے سے اُن کی معلومات کا ذخیرہ دیکھ کر راقم دنگ رہ گیا۔چونکہ اس دن پاکستان بمقابلہ انڈیا میچ تھا تو طارق صاحب تھوڑی سی آرام کے بعد میچ دیکھنے کا ارادہ رکھتے تھے۔کھانے کے بعد سارے شعراء اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔

شام کا سمے تھا۔اندھیرا اپنے پرَ کھول رہا تھا راقم نے اپنی قوتِ سماعت پرتھوڑا سا زور دیا توبلترو ریسٹ ہاوس کی فضاؤں میں ایک سحر انگیزدُھن گونج رہی تھی۔جیسے کسی پرستان کا طلسمی منظرہو۔راقم نے جب اس دُھن کا تعاقب کیا تو میرے قدم تاج ؔ صاحب کے کمرے کے دروازے پر جاکر رک گئے۔کسی سفر میں تاج ؔصاحب کا ساتھ ہو اور قبیلہ عشق کی محفلیں نہ جمیں یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے۔راقم جب تاج ؔکے کمرے میں داخل ہواتوموصوف بغل میں سِتار لیے ایسے بیٹھے تھے جیسے مرغی اپنے بچوں کو اپنے پَروں میں چھپا لیتی ہیں اور جب تاج کی انگلیوں کی پوریں سِتار کے تاروں کو چھوتی تھیں تو فضاؤں میں ایک سحرانگیزلَے تیرتی تھی۔محفل میں تازگی و سرور کی لہر رواں دواں تھی اور نوجوان شعراء امجد علی ساغر اورفاروق قیصر اِن سحر انگیز دُھنوں پر جھوم رہے تھے جیسے کسی پیر کے مریداپنی دُھن میں محوِرقصاں ہوں اس محفل کا اختتام مغرب کی اذان پر ہوا۔
 

image

رات کے کھانے کے بعد شعراء اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔جب آصف ؔ اور راقم اپنے کمرے میں پہنچے تو نہایت تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے لٰہذا جلد آرام کر نے کو ہی غنیمت جانا۔صبح نو بجے آنکھ کھلی جب ناشتے کے ٹیبل پر پہنچے تو دکھی صاحب موجود نہیں تھے تاجؔ صاحب سے پوچھنے پر پتا چلا کہ جنگلات کے عالمی دن کے حوالے سے سٹی پارک میں ادارہ جنگلات نے ایک پروگرام کا انعقاد کیا ہے ۔ دکھیؔ صاحب اسی ادارے سے منسلک ہونے کی وجہ سے عٰلی الصبح ہی چلے گئے ہیں جبکہ حلقہ اربابِ ذوق کے مہمان شعراء کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ناشتے کے بعد پروگرام میں شرکت کے لیے سٹی پارک سکردو روانہ ہوئے جب ہمارے احباب پارک پہنچے تو تقریب کا با قائدہ آغاز ہو چکا تھا جنگلات ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری جنگلات کی اہمیت اور ادارے کی کارکردگی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کر رہے تھے اور اس تقریب کے مہمانِ خصوصی بھی وزیر اعلٰی سید مہدی شاہ تھے جبکہ تقریب کو کامیا ب بنانے کے لیے خاطرخواہ انتظامات کیے گئے تھے۔تقریب کے اختتام پر سینئر شعراء بلترو ریسٹ ہا وس کی جانب روانہ ہوئے جبکہ نوجوان شعراء جن میں راقم بھی شامل تھانے پیدل ہی جانے کا ارادہ کیاسٹی پارک کے احاطے سے نکل کرہم جب مین روڑ پر پہنچے توایک گاڑی پاس آکر رُکی جب غور سے دیکھا تونظیم دیاؔ صاحب تھے جو اردو اور شناء زبان کے اعلٰی پائے کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین گلوکار و ادا کار بھی ہیں ۔دیا ؔ صاحب کی گاڑی میں بیٹھ کر بلترو ریسٹ ہاوس پہنچے جہاں ہمارے سینئر شعراء کے ساتھ ساتھ سکردو کے شعراء بھی موجود تھے۔دوپہر کے کھانے کے بعد اسلم حسین سحر ؔنے اگلے دن شگر میں منعقد ہونے والے محفل ِمشاعرے کے حوالے سے آگاہ کیااور اگلے دن دوپہر کھانے کے بعد شگر روانہ ہونے کا برملا اظہار کیا۔کھانے کے بعد سکردو کے شعراء کے ہمراہ بلتستان کے ابھرنے ہوئے ہوئے شاعر عباس جرئات کی والدہ کی فوتگی پر تعزیت کے لیے چلے گئے۔

شام کا وقت تھا تاج ؔ صاحب کے کمرے میں محفل جمی ہوئی تھی تاج ؔصاحب ہاتھ میں سِتار لیے کوئی دُھن گنگنارہے تھے جبکہ نوجوان شاعر عاشق حسین عاشقؔ ٹیبل بجاتے ہوئے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے محفل میں سکردو اور گلگت کے شعراء موجودتھے ۔تاج صاحب کے ساتھ ساتھ عاشق نے بھی سحر انگیز دُھن میں اپنے کلام کو گا کر آواز کا جادو جگایا۔

اتوار کا دن تھا ۔صبح نو بجے آنکھ کھلی ۔ناشتے کے بعددیکھا تو کچھ شعراء ریسٹ ہاوس کے باغیچے میں محوِگفتگوتھے جبکہ کچھ شعراء شگر جانے کے لیے تیاریوں میں مصروف تھے۔دوپہر کے ۱۲ بجے سحر ؔصاحب تشریف لائے اور بتایا کہ دوپہر کے کھانے کا انتظام دیوانِ خاص میں کیا گیا ہے جس کے بعد شگر روانہ ہونے کا ارادہ ہے۔دیوانِ خاص میں کھانے کے بعدتاج‘ دکھی اور طارق نظیم دیا صاحب کی گاڑی میں شگر کی طرف روانہ ہوئے جبکہ آصف‘فاروق‘ساغر‘ناشاد اور راقم بلتستان کے سیاستدان اور شاعر امجد علی زیدی کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ہمارا قافلہ سکردو شہرا ور اس کے گرد ونواح کے علاقوں سے گزرتے ہوتے ہوئے ایک گھنٹے کے مختصر سفر کے بعدشگر پہنچا جبکہ تا حال سینئر شعراء نہیں پہنچے تھے۔فون کرنے پر پتا چلا کہ حسین آباد میں یوسف حسین آبادی کے عجائب گھرکا دورہ کرکے آنے کی وجہ سے پہنچنے میں تاخیر ہوئی ہے لٰہذا ہمارا حلقہ یاراں امجد علی زیدی کے ہمرا ہ وزیرمنصوبہ بندی راجہ اعظم اور اُن کے والد راجہ صبا شگری جو بلتستان کے اعلٰی پائے کے شاعر ہیں کے گھر پہنچے۔تھوڑی دیر بعدسینئر شعراء بھی پہنچے۔راجہ صاحبان نے شاہانہ انداز میں اہلِ قلم کی خاطر و توضح کی۔

راجہ صاحبان سے رخصت ہو کرہمارا قافلہ شگر فورٹ پہنچاجہاں ہمیں قدیم راجگانہ نظام اور اُن کی طرزِزندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔شگر فورٹ کی سیر کے بعدریسٹ ہاوس شگر پہنچے کیونکہ محفلِ مشاعرے کا اہتمام رات کو کیا گیا تھا۔شگر ریسٹ ہاوس میں تاجؔ اور دانش ؔکے مابین طنزومزاح سے بھرپور جملوں کے تبادلے کو سن کراہلِ قلم کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور ہوئے۔تاج اور دانش جہاں بہت اچھے اور بے تکلّف دوست ہیں وہاں ایک دوسری کو مزاقاََ نیچا دکھانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے ضائع جانے نہیں دیتے ۔تاج صاحب دانش کو ـــ’’یَا ایھاالکٰفرون‘‘یا’’ہندو شاعر‘‘ کے القاب سے جبکہ دانش تاج کو ’’کافرمطلق رندی شاعر‘‘کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔تاج اور دانش جس محفل میں بھی موجود ہوں وہاں ایک دوسرے پر طنزومزاح میں بھرپور ایسے فقرے کَستے ہیں کہ سننے والا سنجیدہ سے سنجیدہ ہر شخص جس نے زندگی میں کبھی کُھل کر ہنسنے کی زحمت گوارا نہ کی ہو وہ بھی فضا میں قہقہے اچھالنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

رات کا کھانا ریسٹ ہاوس شگرمیں وزیرمنصوبہ بندی راجہ اعظم کے ساتھ تناول کیااور لائبریری ہال روانہ ہوئے جہاں محفلِ مشاعرے کا انعقاد کیا گیا تھا ۔محفل میں پہنچ کر ہال میں نظر دوڑائی توسامعین کی تعداد اِتنی زیادہ تو نہیں تھی لیکن وہاں پر موجود ہر شخص علم وادب کے ساتھ شغف رکھنے کے ساتھ ساتھ سخن شناس بھی تھا۔اس محفل میں اسسٹنٹ کمشنر شگر بھی موجود تھے جبکہ محفلِ مشاعرے کے صدرِ محفل وزیرمنصوبہ بندی راجہ اعظم تھے۔شگر کے شعراء کو سُن کر ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سرزمینِ شگر شعر و سخن کے حوالے سے نہایت زرخیز ہے اور یہاں کے شعراء خصوصاََ بلتی زبان میں نہایت خوبصورت اشعار کہتے ہیں۔محفلِ مشاعرے میں شعراء نے اردو اور بلتی زبان میں کلام سنا کر سامعین کو خوب محظوظ کیااوراہلیانِ شگرسے خوب داد حاصل کیا۔خصوصاََبلتی زبان کے شعراء نے محفل کا مزا دوبالا کیا۔ہمارے گلگتی شعراء میں کوئی بھی بلتی زبان بولنے اور سمجھنے سے قاصر تھا۔لیکن دیاؔصاحب جو پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے سلسلے میں سکردو شہر میں رہائش پذیر ہیں بلتی زبان سے کسی حد تک شناسا تھے موصوف بلتی زبان کے شعراء کو مسلسل داد دے رہے تھے۔ہمارے گلگتی شعراء سامعین کے دادکی گونج سے نتیجہ اخذ کرتے تھے کہ کلام سنانے والے شاعرکا تخیّل کس حد تک بلند ہے اور سامعین کے ساتھ ساتھ گلگتی شعراء بھی بلتی زبان کے شعراء کو خوب داددے رہے تھے۔رات کے تقریباََ۳۰:۱۲بجے محفل اختتام پذیر ہوئی۔میزبانوں سے رخصتی کے بعد ہمارا قافلہ بلترو ریسٹ ہاوس سکردو کی جانب روانہ ہوا۔رات مسلسل پھیل چکی تھی ۔چاند پہاڑوں سے سر نکال کر ڈھول رہا تھااور آسمان پر چاندنی میں بادل کے ٹکڑے آوارہ گھوم رہے تھے۔گھنٹے کی مسافت طے کرنے بعدجب بلترو رریسٹ ہاوس پہنچے تو رات کے ۲ بج رہے تھے اور بد قسمتی سے مرکزی دروازہ بند تھا۔موسم سرد تھا اور شعراء سرد ہوا کے جھونکوں سے ٹھٹھر رہے تھے۔شعراء نے شگر مشاعرے اپنے اشعار میں جس طرح شیخ وملّا کو آڑے ہاتھوں لیا تھا شاید اُسی کی سزاتھی کہ شعراء آدھی رات کو سخت سردی میں آسماں تلے بے یا رومدگار کھڑے تھے۔شعراء ریسٹ ہاوس کے مرکزی دروازے سے اندر کی جانب ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کوئی عاشق اپنی محبوبہ کو آخری ملاقات میں حسرت بھری نگاہوں سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھتا ہے۔آخرکار شعراء کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور فضا میں اردو ‘شنا اور بلتی زبانوں کے امتزاج کے بعد وجود میں آنے والی شور کی آواز گونجنے لگی لیکن ریسٹ ہاوس کے ملازمین بھی شاید گھوڑے بیچ کر سوئے تھے کہ اس حد تک شور مچانے کے باوجود بھی اُن کو جگانے کی تمام کوششیں رائگاں ہی گئی۔راقم کو بھی بلتی زبان کے کچھ جملے یاد تھے موقعے کی نزاکت کو جانچتے ہوئے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور مرکزی دروازہ کھٹکھٹا کر ملازمیں کو جگانے کی کوشش کی تاہم کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔آخر کا ر سارے شعراء مل کردروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے ملازمین کو جگانے کی کو شش کر رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ کسی پرانی مندر میں ناقوس بج رہے ہوں اور کچھ پُجاری مندر کے دروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے اپنے پاپوں کی تلافی کے لیے ’’پراتنا‘‘کر رہے ہوں شاید ’’پراتنا ‘‘قبول ہو گئی اور ملازمین نے معذرت کے رسمی کلمات کے ساتھ دروازہ کھول دیا۔سارے شعراء جلدی جلدی اپنے کمروں میں گُھس گئے۔آصف اور راقم بھی اپنے کمرے میں پہنچ گئے ۔بہت تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے لیکن نیند نہیں آرہی تھی اور کافی دیر تک محوِ گفتگو رہے ۔آج تاج صاحب کے کمرے سے بھی دھنوں کی آواز نہیں آرہی تھی شاید تاج صاحب نے مندر کے دروازے پر اپنی ’’پراتنا ‘‘میں واقعی اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگی تھی۔

صبح ۹ بجے بیدار ہوئے اور ناشتے کے لیے چلے گئے تو سکردو کے شعراء بھی ہمارے ساتھ موجود تھے۔ واپسی کا انتظام کیا گیا تھا۔اور ہماری گاڑی بلترو ریسٹ ہاوس کے باہر ہی کھڑی تھی ۔اہلیان بلتستان خصوصاََ سکردو کے شعراء کے خلوص ‘محبت اور مہمان نوازی کا حق ادا کرنا نہایت مشکل تھا لیکن ہمارے احباب ڈھیر ساری دعاؤں اور حَسیں یادوں کے ساتھ شعراء بلتستان سے رخصت ہو ئے اور اپنی منزل یعنی ’’سونی گیلت‘‘ کی طرف روانہ ہوئے۔حبیب جالبؔ نے کیا خوب کہا ہے
محبت کی رنگینیاں چھو ڑ آئے
تیرے شہر میں اِک جہاں چھو ڑ آئے
پہاڑوں کی وہ مست شاداب وادی
جہاں ہم دلِ نغمہ خواں چھوڑ آئے
وہ سبزہ‘وہ دریا‘وہ پریوں کے سائے
وہ گیتوں بھری بستیاں چھو ڑ آئے
یہ اعجاز حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے
چلے آئے ہیں ان رہگزاروں سے جالبؔ
مگر ہم وہاں قلب وجاں چھڑ آئے
TEHZEEB HUSSAIN BERCHA
About the Author: TEHZEEB HUSSAIN BERCHA Read More Articles by TEHZEEB HUSSAIN BERCHA: 19 Articles with 21467 views

                                                                        
.. View More