قومی زبان، لباس، کھیل سے ہمارارویہ اور گزارشات

سپریم کورٹ نے تمام وفاقی اداروں کواپنی پالیسیاں اورقوانین کااردوترجمعہ شائع اورآویزاں کرنے کاحکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کواردوکوسرکاری زبان کادرجہ دینے اورعلاقائی زبانوں کی ترویج سے متعلق مقدمہ میں وفاقی سیکرٹری اطلاعات ونشریات نے حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ صدرمملکت،وزیراعظم، وفاقی وزراء اورتمام حکومتی وسرکاری عہدیداران اندرون وبیرون ملک تقاریب میں اردوزبان میں تقاریرکیاکریں گے۔اس حوالہ سے وزیراعظم محمدنوازشریف نے انتظامی حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ جس کے مطابق وفاقی حکومت کے تمام ادارے اپنی ویب سائٹس تین ماہ میں اردومیں منتقل کردیں گے۔ اس کے ساتھ ہی تمام سرکاری ونیم سرکاری ادارے تین ماہ کے اندراندراپنی پالیسیوں اورقوانین کااردوترجمعہ شائع کردیں گے۔جسٹس جوادایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعیداورجسٹس مقبول باقرپرمشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔جسٹس جوادایس خواجہ نے جائزہ لینے کے بعدرپورٹ کوتسلی بخش قراردیا اورکہا کہ بلوچستان حکومت نے اپنے صوبہ میں بلوچی اوردیگرزبانوں کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان بھی رائج کردی ہے۔لیکن پنجاب حکومت نے پنجابی زبان کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔پنجابی زبان کولاوارث نہ کیاجائے۔یادرہے کہ وفاقی حکومت کی رپورٹ کے مطابق فوری اورقلیل المدتی اقدامات کے طورپرتمام سرکاری ونیم سرکاری ادارے تین ماہ کے اندراندراپنی پالیسیوں اورقوانین کااردوترجمعہ شائع کردیں گے۔مختلف شعبوں کے حوالے سے ہرطرح کے فارم انگریزی کے ساتھ ساتھ اردومیں بھی شائع کیے جائیں گے۔اورعدالتوں، تھانوں، ہسپتالوں،تعلیمی اداروں اوربینکوں سمیت عوامی اہمیت کی حامل تما م جگہوں میں راہنمائی کے لیے نصب بورڈ انگریزی کے ساتھ ساتھ اردومیں بھی لکھے جائیں گے۔پاسپورٹ آفس، انکم ٹیکس، اے جی پی آر، آدیٹرجنرل آف پاکستان، واپڈا، سوئی گیس، الیکشن کمیشن،ڈرائیونگ لائسنسنگ اتھارٹی کے فارم اوریوٹیلٹی بلوں سمیت اس نوع کی تمام تردستاویزات کی تین ماہ کے اندراندراردومیں فراہمی شروع کی جائے گی۔پاسپورٹ کے مندرجات بھی انگریزی کے ساتھ ساتھ اردومیں شائع کیے جائیں گے۔سرکاری تقریبات یااستقبالیہ جیسی تقاریب مرحلہ واراردومیں منعقدہوں گی۔
بھلاہوعدالت عظمیٰ کاکہ اس نے اردوکوسرکاری زبان کادرجہ دینے کے مقدمہ میں وفاقی حکومت کے تمام اداروں کواپنی پالیسیاں اورقوانین اردوزبان میں شائع اورآویزان کرنے کاحکم دیا ہے۔اطمینان بخش بات یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے انتظامی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ تمام وفاقی ادارے اپنی دستاویزات، پالیسیوں اورقوانین کاتین ماہ کے اندراندراردوزبان میں ترجمعہ شائع کریں۔وزیراعظم کے اس انتظامی حکم نامہ پربروقت عمل ہوجائے توتین ماہ کے بعدسب کچھ تونہیں تاہم بہت کچھ انگریزی سے اردومیں منتقل ہوچکا ہوگا۔ملک کابچہ بچہ جانتاہے کہ اردوہماری قومی زبان ہے۔اس کے ساتھ ہم نے بحیثیت قوم جوسلوک روارکھا ہے۔ اس کوکون نہیں جانتا۔صرف اردوہی نہیں جس لفظ، کام، پالیسی یاشعبہ کے ساتھ قومی کاسابقہ لگ جائے لگتا ہے ہمیں وہ لفظ،کام، وہ پالیسی، وہ شعبہ اچھا نہیں لگتا۔ہم نے صرف اردوکوہی قومی زبان کادرجہ دے کراسے لاوارث نہیں کردیابلکہ اوربھی بہت کچھ ایساہے جس کوہم نے قومی کے منصب پرفائزکرکے لاوارث کردیا ہے۔ویسے توہمارابچہ بچہ جانتا ہے کہ ہم نے کس کس چیزکوکس کس حالت میں قومی کادرجہ دے کراس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہواہے۔تاہم اگرکوئی بھول بھی گیا ہوکہ کیا کیاقومی کے منصب پرفائز ہوکرفریادکناں ہے توہم انہیں یاددہانی کرادیتے ہیں۔توآئیے پڑھیے اوراچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے۔اردوہماری قومی زبان ہے،شلوارقمیض ہماراقومی لباس ہے، ہاکی ہماراقومی کھیل ہے، چنبیلی ہماراقومی پھول ہے۔آئیے باری باری سب کاجائزہ لیتے ہیں کہ ہم نے کس کس کوقومی کے منصب پرفائز کرکے ا س کے ساتھ کیا سلوک روارکھا ہواہے۔اردوہماری قومی زبان ہے تاہم ہم نے ابھی تک اس کوسرکاری زبان کادرجہ دینے کی زحمت گوارانہیں کی۔اخباری رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے اس حوالہ سے جوانتظامی حکم نامہ جاری کیا گیاہے اس میں تمام وفاقی اداروں کواپنی دستاویزات،پالیسیوں اورقوانین کااردومیں ترجمعہ شائع کرنے کاتوحکم دیا گیا ہے تاہم اس حکم نامہ میں اردوکوسرکاری زبان کادرجہ بھی دینے کاحکم بھی شامل ہے یانہیں اس بارے کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔اردوکوسرکاری زبان کادرجہ دینے کاحکم اس حکم نامہ میں شامل ہوتاتواخباری رپورٹس میں ضرورلکھاجاتا۔اردوہماری قومی زبان ہے تاہم ہم انگریزی میں بات کرنے پرفخرمحسوس کرتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں انگریزی کواردوپرترجیح دیتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں جتنی توجہ انگریزی زبان پردی جاتی ہے اتنی توجہ اردواورعربی زبان پربھی دی جاتی توفیل ہونے کاتناسب نہ ہونے کابرابررہ جاتا۔ تعلیمی اداروں میں انگریزی کی لازمی حیثیت ختم کرکے اختیاری کردی جائے کہ جس کاجی چاہے انگریزی پڑھے جس کاجی نہ چاہے وہ انگریزی نہ پڑھے توتعلیمی اداروں میں طلباء فیل ہی نہیں ہوں گے۔طلباء اگرسکول کالج میں صرف کیے گئے وقت کے بعد روزانہ دن رات میں تین گھنٹے ہی پڑھائی پرصرف کرتے ہیں توان تین گھنٹوں میں دوگھنٹے بیس منٹ وہ صرف انگریزی کولکھنے اوریادکرنے میں صرف کرتے ہیں ۔ یوں وہ پڑھائی پرصرف کیے گئے ایک سواسی منٹس میں سے ایک سوچالیس منٹس کوصرف انگریزی کولکھنے اوریادکرنے پرصرف کردیتے ہیں جبکہ وہ صرف چالیس منٹس وہ اردو، اسلامیات،ریاضی سمیت دیگرمضامین پرصرف کرتے ہیں۔ویسے تواردوہماری قومی زبان ہے تاہم ہمارے حکمران،سیاستدان، صدر، وزیراعظم، وفاقی وزراء اورتمام حکومتی وسرکاری عہدیداران اندرون وبیرون ملک تقاریرانگریزی زبان میں کرنے پرفخرمحسوس کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں جس میں دنیا کی تمام اہم زبانوں میں کی گئی تقاریرکاتمام دیگرزبانوں میں براہ راست ترجمعہ کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ وہاں پرشرکت کرنے والے تمام ممالک سربراہان اپنااپنا خطاب اپنی اپنی قومی زبان میں کرتے ہیں جبکہ پاکستان سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے قومی سربراہان اپنی قومی زبان اردومیں نہیں انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کولے کربیٹھ گئے۔ یہ توکچھ بھی نہیں ادھرپڑھیئے اورسردھنئے کہ پاکستان میں ایسے سربراہان حکومت بھی ہوگزرے ہیں جوقوم سے خطاب بھی اردومیں نہیں انگریزی میں کرتے رہے ہیں۔اب وزیراعظم نے انتظامی حکم نامہ میں صدرمملکت، وزیراعظم، وفاقی وزراء اورتمام حکومتی وسرکاری عہدیداران کے لیے لازمی قراردیاہے کہ وہ اندرون وبیرون ملک تقاریراردومیں کیاکریں گے ۔اس حکم نامہ پرکتنا عمل ہوتا ہے یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آجائے گا۔اقوام متحدہ کاسالانہ اجلاس بھی قریب ہے دیکھتے ہیں اورانتظارکرتے ہیں کہ خودنوازشریف اس اجلاس سے اردومیں خطاب کرتے ہیں یاانگریزی میں۔وزیراعظم کی طرف سے جاری کیے گئے حکم نامہ میں تمام وفاقی اداروں کی دستاویزات، پالیسیوں اورقوانین کابھی اردوزبان میں ترجمعہ کرنے اورشائع کرنے کاحکم دیا گیا ہے۔اس سے پہلے واپڈا، ڈومی سائل،پاسپورٹ اوردیگرفارم انگریزی زبان میں دستیاب ہیں۔ہم نے واپڈااورڈومی سائل کے فارموں اورفائلزکودیکھا ہے جوکہ انگریزی زبان میں ہیں۔یہ تمام فارمزاوران پرلکھی گئی شرائط وضوابط انگریزی زبان میں ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی باریک لکھی ہوئی ہیں کہ انہیں صرف دوربین سے ہی پڑھاجاسکتا ہے۔اگرکوئی ہمت کرکے پڑھ بھی لے تواکثرکویہ سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ یہ کیالکھاہواہے۔ایک واپٖڈاملازم نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایا کہ عوام الناس اگربجلی کامیٹرلگوانے کی فائل اورفارم غورکرکے پڑھ لیں کہ ان فارموں میں کیاکچھ لکھا ہواہے توکوئی بھی بجلی کامیٹرنہیں لگوائے گا۔اس نے صرف اتنابتایا کہ عوام بجلی کامیٹرلگوانے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں اس کے باوجودبجلی کامیٹرصارف کی نہیں واپڈاکی ملکیت میں رہتا ہے۔واپڈافائل اورڈومی سائل فائل کابیان حلفی بھی انگریزی میں لکھا ہوا ہے۔شاید واپڈااورڈومی سائل فائلزمکمل کرنے والے وثیقہ نویس وغیرہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ ان میں کیالکھا ہواہے۔ وہ صرف خالی خانوں کے بارے میں ہی جانتے ہوں گے کہ کس خانے میں کیالکھنا ہے۔ نام ولدیت کہاں لکھنا ہے اورپتہ وغیرہ کہاں لکھنا ہے۔ شلوارقمیض ہماراقومی لباس ہے ہم تنگ سے تنگ پینٹ شرٹ پہننے پرفخرمحسوس کرتے ہیں۔تعلیمی اداروں ، کمپنیوں اوردیگراداروں کی یونیفارمزپینٹ شرٹس میں ہیں۔سب کے رنگ توالگ الگ ہیں تاہم سب اپنے طلباء اورملازمین کوپینٹ شرٹس ہی پہناتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں بچوں کوشلوارقمیض کی بجائے پینٹ شرٹس پہننے کی ترغیب دلائی جاتی ہے۔قومی زبان ولباس کولاوارث کرنے میں نجی تعلیمی اداروں کابہت بڑاہاتھ ہے۔ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے ہی سب سے پہلے پینٹ شرٹس کویونیفارمز کادرجہ دے کربچہ بچہ کوپینٹ شرٹ پہنادی ہے اورانگریزی کوترجیح دے کرشلوارقمیض کے ساتھ ساتھ اردوکوبھی لاوارث کردیا ہے۔اب تویہ حالت ہوگئی ہے کہ پینٹ شرٹ پہننے والے کوپڑھالکھا، سلجھاہوااورسمجھدارسمجھاجاتا ہے جبکہ شلوارقمیض پہننے والے کوسادہ لوح،کم عقل اورپرانے خیالات کاحامل تصورکیاجاتا ہے۔حالانکہ شلوارقمیض میں انسان پینٹ شرٹس کی نسبت زیادہ باوقارلگتا ہے۔ہماراقومی کھیل ہاکی ہے۔ اس کے ساتھ بھی ہم نے جوسلوک روارکھا ہواہے۔ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ہاکی ہماراقومی کھیل ہے تاہم کرکٹ کھیلنے میں فخرمحسوس کرتے ہیں۔کرکٹ جووقت، پیسہ اورصلاحیتیں بربادکرنے کا تیربہدف نسخہ ہے۔قومی کھیل ہاکی توشایدہی کہیں کھیلی جاتی ہوجبکہ کرکٹ گلی گلی کھیلی جارہی ہے۔کرکٹ پرجتنی توجہ دی جاتی ہے ہاکی پراس کاپانچ فیصدبھی توجہ نہیں دی جاتی۔ہاکی کی حالت تویہ رہ گئی ہے کہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ ہاکی چیمپئن شپ میں پاکستان کی ہاکی ٹیم کوشامل ہی نہیں کیاگیا۔چنبیلی ہماراقومی پھول ہے۔یہ پھول بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔اب توآپ مان گئے ہوں گے کہ جس چیزکے ساتھ قومی کاسابقہ لگ جائے وہ ہمیں اچھی نہیں لگتی۔زبان کوئی بھی ہواس کی اہمیت سے انکارنہیں کیاجاسکتا تاہم اپنی قومی زبان کوچھوڑکرانگریزی پرتوجہ دینابھی مناسب نہیں ۔جب سے انگریزی پہلی جماعت میں گھس آئی ہے تب سے اردواوربھی زیادہ لاوارث ہوگئی ہے۔اب بچے انگریزی میں بات توسمجھتے ہیں اردومیں نہیں۔کہتے ہیں ہمیں سمجھ نہیں آتی انگلش میں بتاؤ۔وزیراعظم نوازشریف نے انتظامی حکم نامہ میں تمام وفاقی اداروں کی دستاویزات، پالیسیوں اورقوانین کااردومیں ترجمعہ شائع کرنے کاحکم جاری کرکے اردوکومزیدلاوارث ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کا آغازکردیا ہے۔عدالت کی طرف سے قانون کی کتابوں کااردومیں ترجمعہ کرنے کاحکم پہلے ہی سنایاجاچکا ہے۔توقع ہے کہ مستقبل قریب میں قانون کی کتابیں بھی اردومیں دستیاب ہوں گی۔تعلیمی اداروں میں ایساماحول فراہم کیاجاناچاہیے کہ بچے اردوبولنے میں فخرمحسوس کریں۔ہم اردوکوسرکاری زبان کادرجہ دینے کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے معززبنچ اوروزیراعظم نوازشریف سے استدعا کرتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے قومی زبان کولاوارث ہونے سے بچانے کے اقدامات کاآغازکردیا ہے اسی طرح قومی لباس، قومی کھیل اورقومی پھول کی طرف بھی توجہ دیں۔ان کوبھی مزیدلاوارث ہونے سے بچالیں۔قومی زبان کے ساتھ ساتھ قومی لباس، قومی کھیل کوبھی فروغ دیاجائے۔تمام تعلیمی اداروں اورکمپنیوں وغیرہ کوحکم دیاجائے کہ وہ پینٹ شرٹ ختم کرکے شلوارقمیض میں اپنے اپنے پسندکے رنگوں میں اپنی اپنی وردی کاانتخاب کریں۔ایسا ماحول فراہم کیاجائے کہ پڑھالکھاجوان شلوارقمیض پہننے پرفخرمحسوس کرے۔اسے کسی بھی کمپنی یادفترمیں شلوارقمیض پہن کرشرمندگی محسوس نہ کرنی پڑے۔ صدرمملکت، وزیراعظم، وفاقی وزراء، وزراء اعلیٰ، صوبائی وزراء اورحکومتی افسران، عہدیداران بھی شلوارقمیض پہناکریں پینٹ شرٹس پہننا چھوڑدیں۔قومی زبان کی طرح قومی لباس، قومی کھیل اورقومی پھول کوبھی سرکاری لباس، سرکاری کھیل اورسرکاری پھول کادرجہ دیاجائے ۔ ان کولاوارث نہ رہنے دیاجائے ۔ ان کی فریادکوسنابھی جائے اورانہیں بچایابھی جائے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 301403 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.