اور انصاف کو پھانسی دے دی گئی…!

پھانسی سے دوگھنٹہ قبل تک چلے ہائی وولٹیج ڈرامہ کے بعدوہی ہواجوپہلے سے طے تھااور یعقوب میمن کوترپن سال کی عمرمیں سالگرہ پرتختہ دارپرلٹکادیاگیا۔عدالت عظمیٰ نے اس اسی دن فیصلے کیے جس سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کے لیے الگ قانون اور ہندوئوں کے لیے الگ انصاف ہے،جہاں یعقوب کی پھانسی پر عدالت عالیہ نے مہر ثبت کی وہیں راجیو گاندھی کے قاتلوں کے عمر قید کی سزا کو برقر ار رکھی۔دوسری طرف جب دوبارہ را ت پانچ بجے تک سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی اوریعقوب کے وکلاء نے یہ دلیل دی کہ صدرجمہوریہ کے یہاں سے درخواست مستردکرنے کے بعداصولاََکم ازکم چودہ دنوں کاموقعہ دیناچاہئے،تومعززجج نے اس دلیل کو’’پرانی بات‘‘کہہ کرمستردکردیا،انصاف پسندطبقہ یہ سوال کررہاہے کہ یہ کون سی پرانی دلیل تھی،پھرجب کورٹ سے کہاگیاکہ راجیوگاندھی کے قاتلوں کے ساتھ بائیس سال جیل میں گذارنے کے بعدذہنی کوفت کوبنیادبناکراس نے سزائے موت کوتبدیل کیاہے تویعقوب بھی بائیس سال جیل میں گذارچکاہے اوروہ اس رعایت کامستحق کیوں نہیں ہے توانصاف کے مندرکے پجاریوں کے پاس کوئی مناسب جواب نہیں تھالیکن چونکہ سب کچھ پہلے سے طے تھا،اب کسی دلیل اورحجت کی ضرورت ہی نہیں تھی،ممکنہ طورپرپی ایم اوسے فیصلہ لکھاکرآچکاتھا،اس لئے کہاگیاکہ آپ پھروہی گھِسی پٹی باتیں کررہے ہیں۔اس سے کیاہندودہشت گردی کی حوصلہ افزائی نہیں ہورہی ہے؟۔عدالت کے پاس اس کابھی کیابتاسکتی ہے کہ وہ سادھوی پرگیہ سنگھ اور اسیمانندکوکب تختہ دارپرلٹکائے گی؟۔ راجیوگاندھی اوراننت سنگھ کی روح کوکب شانتی ملے گی ؟۔257افرادکے قتل کے الزام میں پھانسی دینے والاسپریم کورٹ ممبئی فسادات میں مقتول900افرادکے ساتھ انصاف کب کرے گا؟۔ یہ بھی مطمح نظررہے کہ مہاراشٹرکے گورنرنے ریاست کی آرایس ایس حکومت سے مشورہ کیاتھا،اسی طرح پرنب مکھرجی نے مودی حکومت سے صلاح ومشورہ کے بعدرحم کی درخواست مستردکی،اس سے آئینی عہدوں پرفائزخودمختارشخصیت کاربراسٹامپ ہوناثابت ہوجاتاہے ۔جب کہ سابق صدرجمہوریہ اے پی جے عبدالکلام نے مرکز کی مخالفت کے باوجودپچاس مجرموں کی سزائے موت معاف کی تھی۔کیاحکومت نے اے پی جے عبدالکلام کوخراج عقیدت پیش کیاہے؟۔یاان کے ساتھ گھنائونا مذاق کیاہے؟۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ صبح سات بجے انصاف کوسولی دے گئی ،اورگیارہ بجے پی ایم نے سابق صدرکوخراج عقیدت پیش کرکے اصل میں آرایس ایس لیڈروںکے ضمیرکومطمئن کیاہے ۔کانگریسی لیڈردگ وجے سنگھ،ششی تھرور،پرشانت بھوشن اورجسٹس کاٹجونے اس فیصلہ کومجرمانہ بتایاہے،اورحکومت وعدالت کی نیت اورمعتبریت پرنہایت سخت سوال بھی اٹھائے ہیں کہ اب عدالت پرعوام کااعتمادکیسے رہے گاجب کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ سب کچھ کیاگیا۔یہ بھی واضح رہے کہ یعقوب کی اہلیہ نے بھی اپنے شوہرکے ساتھ سولہ سال جیل میں گذارے ہیں اورجب وہ جیل گئی تھیں تووہ حاملہ تھیں،یعقوب کی بیٹی کی پیدائش جیل میں ہی ہوئی ہے۔دوسری طرف کانگریس نے بھی مگرمچھ کے آنسوبہائے ہیں جس کے دامن پراس سے بھی بدنماداغ ہی نہیں بلکہ پوراچہرہ فرقہ پرستی اوراستحصال واستعمال کی سیاست سے مکروہ ہے ،ایک طرف منی شنکرایئر،دگ وجے سنگھ،راج ببراورششی تھرورنے عدالت کے فیصلہ اورحکومت کی پلاننگ کی مخالفت کی ہے دوسری طرف کل سپریم کورٹ کے فیصلہ کاکانگریس نے خیرمقدم کیاہے۔دراصل کانگریس کااصل چہرہ تووہی ہے جو’’خیرمقدم‘‘ کی صورت میں نظرآیاہے باقی مسلمانوں کوایک بارپھراندھیرے میں رکھنے کے لئے دگ وجے سنگھ وغیرہ نے یہ بیانات دیئے ہیں ،کانگریس نے اپنے ان لیڈروں کواسی مصرف کے لئے رکھ رکھاہے۔

مسلمانوں کا اعتماد اب عدالت عظمیٰ پر سے اٹھ گیا ہے کیوں کہ پے درپے اس نے ایسے فیصلے کیے ہیں جس سے سیکولر ذہن سوچنے پر مجبور ہے اور وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہاہے کہ وطن عزیز میں مسلمانوںکے خلاف کس طرح کاانصاف کیاجارہا ہے… اگریعقوب میمن گناہ گار تھا توامت شاہ بھی انکائونٹرکامجرم اور مودی پربھی سنگین الزامات ہیں، کرنل پروہت ، اسیمانند، سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکروغیرہ پر تو جرم ثابت بھی ہوچکا لیکن وہ اب بھی آزادگھوم رہے ہیں… اور یعقوب کو تو 20سال پہلے قید کی سزا ہوئی پھر پھانسی پر لٹکادیاگیا… کیا یہی عدالت کا انصاف ہے کہ مسلمان تو جیلوں میں رہیں پھانسیاں پائیں اور جو مسلمان نہیں ہیں وہ مسلمانوں کو قتل بھی کریں اور انعام پائیں ،مظفر نگر کے قاتلوں کو انعام واکرام سے نوازا جائے اور وہیں ممبئی بم دھماکوں میں مسلمانوں کی عزت وناموس کی حفاظت کرنے کی خاطر اپنی جان جوکھم میں ڈال کر انہیں بچانے کی خاطر کچھ کرنے والوں کو پھانسی کی سزا دی جائے۔ کیا یہی عدالت کا انصاف ہے ۔ اویسی نے صحیح کہا کہ تمہارے گناہوں کی سزا نہ ہوتی اگر تم یعقوب نہ ہوتے؟ ورنہ گناہ گاروں کو تو وزیر اعظم بنتے دیکھا ہے‘‘۔ اب ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے مستقبل کے تئیں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ حالات وقرائن اب وہ نہیں رہ گئے ہیں جو وہ سمجھ رہے ہیں بلکہ حالات اب بدل چکے ہیں۔ مودی حکومت پورے شباب کے ساتھ ہندوستان کو ہندواستھان (ہندوراشٹر)بنانے کی کوشش میں ہے۔اور مسلمان خواب خرگوش میں مدہوش ہیں۔

افسوس ہمیں اپنی ان مرکزی تنظیموں پر ہورہا ہے جو مصلحتاً خاموش ہیں۔ اور بے غیرتی کو صبر کا نام دے رہی ہیں،کیا قاسم ومحمود وحسین کے جیالوں کے لیے یہ زیب دیتاہے کہ وہ ظلم پر خاموش رہیں؟ ہمارا یہ شیوہ نہیں رہا ہے۔ ہمیں اب اُٹھنا پڑے گا ان باطل قوتوں کے مقابلے میں جو ہندوستان کو عراق بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا چاہئے، لیکن ہم خاموش ہی رہے اور ہماری خاموشی نے ایک بیٹی سے اس کا باپ چھین لیا ایک بیوی سے اس کا شوہر چھین لیا۔ کیا ہم تصور کرسکتے ہیں اگر ہم خود 21سالوں سے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہمارے گھروالوں کے درد کیا ہوتے ہیں وہ بچی جیل میں ہی پیدا ہوئی اور جب وہ 22سال کی ہوئی تو اس کے باپ کے یوم پیدائش کو یوم وفات بنادیا۔ کیا ہم اپنی خاموشی سے اس پر راضی ہوچکے ہیں … اگر ہوچکے ہیں تو اب ہردن کسی نہ کسی یعقوب کے لیے پھانسی کا پھندہ تیار رہے گا اور ہردن کسی نہ کسی ناہید کی سسکیاں قوم سے سوال کریںگی؟۔

لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بار بار اُٹھ رہا ہے کہ وہ حکومت جو کرپشن اور دیگر الزامات میں بری طرح گھری ہوئی تھی اورکئی صوبوں کے وزرائے پراعلیٰ رشوت کا الزام تھا قومی میڈیا ان خبروں کو بار بار اچھا ل رہی تھی رائے عامہ حکومت کے بالکل خلاف ہوتی جارہی تھی ،عوامی ذہن موجودہ حکومت سے بدظن ہوچکاتھا اور بہار اور دیگر ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے تھے جس سے بی جے پی کوخطرہ محسوس ہورہا تھا کہ اچانک قومی میڈیا کا رخ موڑدیاجاتاہے اور گردواس پور میں دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے… اور جھارکھنڈ میں عبدالکلام کی موت سے پہلے اس کی تصویر پر مالا چڑھائی جاتی ہے اور اس کے کل ہوکر ہی سابق صدرجمہوریہ ہند اے پی جے عبدالکلام کواچانک دل کا دورہ پڑتا ہے اور وہ داعی اجل کو لبیک کہہ دیتے ہیں … وہیں 21سال قیدوبندکی صعوبت برداشت کیے ہوئے شخص کو پھانسی کے پھندہ پر جھولنے کے لیے مجبور کردیاجاتا ہے کیا یہ محض اتفاق ہے یا پھر سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کو ایمرجنسی کی طرف لے جانے کی کوشش ہے اور ہندو راشٹر کے لیے راہیں ہموار کرنے کی پیش قدمی ہے۔ ایک بہن جو کہ سیاسی رموز ونکات سے کافی واقف ہیں انہوں نے آج سے تین دن پہلے یہ خدشہ ظاہر کیاتھا اور مغموم لہجے میں کہا تھا کہ ہمیں اب ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے…! اگر واقعی یہ سوچی سمجھی سازش ہے تو پھر ہمیں کیا کرناچاہئے… ؟ کیا ہمارے خاموش رہنے سے مسائل کا تصفیہ ہوجائے گا؟ کیا ہم اسی طرح اپنے مستقبل کاسودا ہوتا ہوا دیکھناچاہتے ہیں؟ ۔کیا ہم ہندوستان کو اندلس بننے کے لیے چھوڑ دیں؟ ۔ اگر اسی طرح ہم خاموش رہیں گے تو پھر کوئی نہیں ہے جو ہندوستان کو ہندو راشٹر بننے سے بچاپائے؟۔ ہماری وہ تنظیمیں جو حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہنر جانتی ہیں ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یعقوب کی پھانسی پر سرد مہری کے مظاہرہ اور مصلحتاً خاموشی سے باہرنکلیں، ایک بیوی اور بیٹی کی دنیا اجڑ گئی ہے … اوریہ مسئلہ ایک بیوی اورایک بیٹی کانہیں ہندوستان میں سیکولرزم کی سالمیت کاہے ۔جو شکوہ خدارا اب آپ تو خاموشی توڑ دیں کہ آگے کسی یعقوب کی بیوی اور بیٹی کی سسکیاں آپ کے کانوں میں نہ آئیں… ! خدا کے لیے اب تو مسلمانوں کے ضمیر کے سودا کرنا بند کرکے ان کی حقیقی رہنمائی کریں تاکہ وہ کھلے عام زندگی گزار سکے اور فخر سے ہندوستانی مرسکے نہیں تو اسی طرح روزانہ یعقوب عقوبت خانے کی بھینٹ چڑھتا رہے گا اور وطن پرست ہوتے ہوئے بھی غدار بنا کر انہیں پھندے سے لٹکایاجاتا رہے گا۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69084 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.