نگلیریا ایک ایسا خطرناک جرثومہ ہے جو پانی میں شامل ہو
کر ناک کے ذریعے دماغ تک جا پہنچتا ہے جس سے انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے-
گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان میں بھی کئی افراد اس جرثومے کا شکار بن
چکے ہیں جس کی بڑی وجہ نگلیریا مرض کا لاعلاج ہونا تھا-
تاہم اب پاکستانی ڈاکٹر اس وائرس کا علاج دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں
اور انہیں یہ کامیابی پانچ سالوں کی محنت کے بعد حاصل ہوئی ہے-
|
|
نگلیریا کے وائرس کی دوا دریافت کرنے والے ڈاکٹروں کا تعلق آغاز خان
یونیورسٹی سے ہے اور انہوں نے یہ دوا اپنے پانچ سالہ تجربات کے بعد سامنے
آئی ہے۔
اس جان لیوا وائرس کی یہ دوا آغا خان یونیورسٹی کے بائیوجیکل اور
بائیوجیکل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے سینئر ڈاکٹر نوید احمد خان اور ڈاکٹر
عبدالمنان بیگ کی سربراہی میں کام کرنے والی ریسرچ ٹیم نے دریافت کی ہے-
ڈاکٹر نوید کے مطابق اس وائرس کے علاج کے لیے مختلف کھانوں اور دواؤں کا
استعمال کیا گیا تاہم میں ان میں سے صرف تین دوائیں ایسی تھیں جو کہ اس
وائرس کے خلاف کارگر ثابت ہوئیں-
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ نگلیریا میں سب سے مشکل مرحلہ دوا کو تیزی کے ساتھ
دماغ تک پہنچانا ہوتا ہے- لیکن اب یہ طریقہ بھی دریافت کرلیا گیا ہے-
دریافت کردہ دوا کا استعمال آئندہ سال سے اس بیماری کے خلاف کیا جائے گا-
|
|
انھوں ںے کہا کہ اس بیماری میں سب سے بڑی دشواری دوا کا فوری طور پر دماغ
تک پہنچانا تھا جس کا طریقہ کار اب دریافت کرلیا گیا ہے۔
ڈاکٹر نوید کے مطابق یہ دریافت شدہ ادویات پہلے پاکستان میں کئی بیماریوں
کے خلاف استعمال کی جارہی ہیں تاہم لاعلمی کی وجہ سے نگلیریا کے خلاف
استعمال نہیں کی جاسکیں-
واضح رہے کہ نگلیریا کا وائرس پانی میں کلورین کی مقدار کم ہونے کے باعث
پیدا ہوتا ہے اور سوئمنگ پول میں تیراکی یا پھر ناک میں پانی چڑھاتے وقت
جسم میں داخل ہوجاتا ہے اور دماغ تک جا پہنچتا ہے- |