شاباش پنجاب فوڈ اتھارٹی

ہم میں سے ہر شخص پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک اور پاکستانیوں کو ایک مہذب قوم دیکھنا چاہتاہے ۔تاجر ،وکیل، سیاستدان، صحافی ، ڈاکٹرز ، انجینیئر،مزدور ۔۔۔الغرض ہرکوئی یہ خواہش رکھتا ہے کہ اسے اور اس کے اہل و عیال کو پاکستان میں بیرون ملک جیسی اعلیٰ سہولیا ت میسر آجائیں۔۔۔ لیکن۔۔۔ المیہ یہ ہے ۔۔۔کہ یہ پاک سر زمین اور یہ دھرتی ماں ہر گزرتے دن کے ساتھ آگے کی بجائے پیچھے کی جانب محو سفر ہے اور وجہ یہ کہ میں ۔۔۔آپ ۔۔۔ہم سب ترقی تو چاہتے ہیں لیکن کوئی بھی اپنے پیشے کے ساتھ مخلص نہیں ہے ۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اسکے دفتر کا سربراہ پابندی وقت کا قائل ہو ۔کوئی بھی سخت نظم وضبط کو برداشت نہیں کرنا چاہتا ، ہرکوئی چاہتاہے کہ اسکا اپنا کاروبار ، اس کی اپنی جاب دونمبر طریقے سے چلتی رہے ۔کوئی تاجر یہ نہیں چاہتا کہ کوئی سخت افسر اسے ذخیرہ اندوزی ، کرپشن اور ملاوٹ سے روک دے لیکن ہر تاجر یہ چاہتا ہے کہ وہ جب ہسپتال جائے تو اسے بہتر طبی سہولیات میسر آئیں اور ڈاکٹر ڈیوٹی پہ ملے ۔کوئی ڈاکٹر یہ ہضم نہیں کرتا کہ اس کا پروفیسر صبح 8سے دوپہر 2بجے تک وارڈ میں موجودگی لازمی قرار دے اور مریضوں کے علاج معالجے کے بارے میں سختی کرے لیکن ہر ڈاکٹر یہ چاہتا ہے کہ جب اس کے بچے کسی ریستوران پہ جائیں تو انہیں ملاوٹ سے پاک صاف ستھری خوراک مہیا کی جائے۔ ہرکوئی چاہتا ہے کہ سڑکوں پر ٹریفک کا نظام بہتر ہوجائے لیکن جب اشارہ توڑنے پر چالان ہوجائے تو ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وارڈن یا تو رشوت لے کر مان جائے یا پھر وہ کسی اعلیٰ افسر کی سفارش پر جان چھوڑ دے۔یہ تو چند مثالیں ہیں آپ ایسی منافقتوں کو ہرروز محسوس کرسکتے ہیں، گویا ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے اپنے محکمے کے افسر کے علاوہ باقی ہر شخص کے محکمے کا افسر وقت کا پابند ، نظم و ضبط کا پابند، دیانت داراور سخت طبیعت کا مالک آدمی ہونا چاہیے۔تو جناب یہ معاشرہ ترقی کیسے کرسکتاہے ۔۔۔؟؟

ایسی ہی ایک مثال حالیہ دنوں میں سامنے آئی ہے ۔۔پنجاب فوڈ اتھارٹی ۔۔۔ایک دبنگ افسر عائشہ ممتاز کی قیادت میں اس ادارے نے لاہور شہر کے بے شمار مافیاز پر ہاتھ ڈالا ہے، بہت سے ریستوران ، ہوٹلز، کیفے ۔۔ناقص اشیائے خوردونوش ، ملاوٹ ، صفائی کے ناقص انتظامات ، ورکرز کی گندگی ، استعمال شدہ اشیاء کی فروخت ۔۔۔پر یا تو سیل کیے گئے ہیں یا بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ ایک اور زبر دست کام یہ ہے کہ ہرکارروائی کی روداد تصاویر اور ثبوتوں کے ساتھ فیس بک پہ اپ لوڈ کی جاتی ہے ۔اس فیس بک پیج کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ہم سب تو زہر کھارہے ہیں اور وہ بھی مہنگے داموں ۔آج کل تو نوجوان ویسے ہی برانڈ مافیا کا شکار ہیں ہرکوئی خود کو سب سے زیادہ ماڈرن ظاہر کرنا چاہتا ہے ،نوجوانوں کی اس کمزوری کو دیکھتے ہوئے عجیب و غریب کیفے اور ریستوران کھل گئے ہیں جہاں سوال و جواب کاکوئی رواج بھی نہیں ہے ۔اگر کوئی کسی کیفے میں کچھ پوچھ گچھ کرے بھی ۔۔۔تو احساس کمتری کے مارے لوگ اسے ’’پینڈو‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس لوٹ مار کی روک تھام میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کاکردار بہت قابل تحسین ہے ۔

اونچی دکان ۔۔۔پھیکا پکوان۔۔۔محاورہ سنا تو تھا۔۔۔لیکن اگر آپ اس کی عملی شکل دیکھنا چاہتے ہیں تو پنجاب فوڈ اتھارٹی کا فیس بک پیج وزٹ کریں،آپ کو اندازہ ہو گا کہ شہر میں ایسی کئی جگہیں موجود ہیں جہاں بیٹھ کر کھانا تناول کرنے کو سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا ہے لیکن در حقیقت وہ سب کو ’’ماموں‘‘ بنا رہے ہیں۔۔بہت سے ریستوراں خراب کیچپ بیچ رہے ہیں۔جو کھانا بچ جاتا ہے وہی گرم کر کے نئے لوگوں کو فروخت کردیتے ہیں اور ہم یہ زہر کھانے کے بعد۔۔واپس آ کر فیس بک پر خوشی سے سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہیں کہ ہم فلاں جگہ سے کھانا کھا کر آئے ہیں۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کی اس بہترین کارکردگی پر تمام عملہ شاباش کا مستحق ہے،اور میں یہاں پنجاب حکومت کا بھی شکریہ ادا کروں گاجس نے اس اتھارٹی کے کام میں تا دم تحریرکوئی رکاوٹ حائل نہیں کی،ورنہ ہمارے ہاں تو افسر بے چارے کام کرنا بھی چاہیں توانہیں ۔۔۔یا تو سفارش کے تحت روک دیا جاتا ہے یا خوف کے دباؤ سے، سیاسی اختلافات اپنی جگہ۔۔۔ہمیں حکومت کے ہر اچھے کام کی داد دینی چاہئے۔اچھے کام پہ داد اور برے کام پہ تنقید۔۔۔یہی گڈ گورننس کا بنیادی اصول ہے۔وزیر اعلی پنجاب کا حالیہ فیصلہ اور بھی حوصلہ افزا ء اور لائق تعریف ہے کہ وہ شہر کے تمام ریستورانوں کی کارکردگی کی بنیاد پر درجہ بندی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

حالیہ چندد نوں میں پنجاب فوڈ اتھارٹی اور اس کی سربراہ عائشہ ممتاز۔۔۔بھی اس رویے کا شکار ہیں جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا۔وہ مافیا جس کے مفاد کو زد پہنچی ہے وہ اب اس ادارے کے خلاف سرگرم ہے،ادارے کو بدنام کرنے کے لیے کالم لکھے جا رہے ہیں،طرح طرح کے الزام لگائے جا رہے ہیں۔میں اس ادارے کے کسی افسر سے کبھی نہیں ملا،لیکن یاد رکھیں ہم سب اس معاشرے کا حصہ ہیں۔اگر ہم خود ’’دو نمبر‘‘ کام کرتے رہیں گے اور دوسروں سے توقع کریں گے کہ وہ ہمارے لیے اس معاشرے کو جنت بنا دیں تو ایسا کبھی نہیں ہو گا۔میں وزیر اعلی پنجاب سے گزارش کروں گا کہ وہ کسی دباؤ میں آئے بغیر اس ادارے کا دائرہ کار دوسرے شہروں تک بھی بڑھائیں۔اگر کوئی افسر اختیارات کا نا جائز استعمال کرتا ہے تو اسے میرٹ کی بنیاد پر پرکھا جائے یا وہ شخص عدالت سے رجوع کرے لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں کہ ادارے کی کردار کشی کی جائے اور الزامات کی وجہ سے احسن کام کو بھی روک دیا جائے۔
Dr.Abdul Basit
About the Author: Dr.Abdul Basit Read More Articles by Dr.Abdul Basit: 8 Articles with 6067 views MBBS(Gold Medalist),columnist
>EXECUTIVE MEMBER OLD RAVIANS UNION
>DEMONSTRATOR AKHTAR SAEED MEDICAL COLLEGE
>MEMBER PAKISTAN FEDERAL UNION OF COLU
.. View More