’’آم ‘‘ رمضان کے بعد کھائیں گے

 ابوجہان بن حذیفہ نے ایسا ناقابلِ فراموش واقعہ سنایا کہ رہتی دنیاتک یہ انسانیت وہمدردی کی عظیم مثال بن کرقائم رہے گا۔یرموک کی جنگ میں ابوجہان بن حذیفہ اپنے چچیرے بھائی کی تلاش میں نکلے جو اگلی صفوں پرلڑرہے تھے۔سپاہیوں کوجنگ میں پانی پلانے والے ابوجہان نے عم زاد بھائی کو شدید زخمی حالت میں پایا۔وہ قریب المرگ تھے۔جونہی ابوجہان نے پانی کاپیالہ اپنے چچازاد بھائی کوپیش کیا ‘اسی اثناء میں ایک اور زخمی مجاہد ہشام بن ابیل کی درد میں ڈوبی ہوئی آواز گونجی ’’العطش‘‘(پانی )‘ان کے عم زاد نے پانی کاپیالہ ہشام کودینے کا کہا۔جب وہ ہشام کے قریب پہنچے تو انہوں نے ایک تیسرے مجاہد کی تشنگی سے لبریز آواز سنی۔ہشام بن ابیل نے شدید پیاس کے باوجود ابوسے کہا کہ پانی اس مجاہد کو دے دیاجائے‘لیکن جب ابوجہان تیسرے مجاہد کے پاس پہنچے تو وہ درون وبرون کی خواہشات سے بے نیاز ہوکر اپنے خالق ِ حقیقی کے پاس جاپہنچا۔ابوجہان پھرتی سے ہشام کی جانب پلٹے لیکن ہشام بھی اﷲ کوپیارے ہوچکے تھے۔پھرابومزید تیزی سے اپنے چچاکے فرزندکے پاس پہنچے تووہ بھی اﷲ کی راہ میں جان دے کرشہادت کے رتبے پرفائز ہوچکے تھے۔
یہ تھا وہ عمل ‘وہ جذبہ جس کے بارے شاعر نے کہا تھا
وہ زمانے میں معززتھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

آج کیا ہم اصحاب رسول ﷺکے اس واقعہ کے تناظرمیں اپنی زندگیوں کاجائزہ لیں توہم کس حد تک وہ جذبہ ایثارلیئے ہوئے ہیں جوکہ ایک صاحب ِ ایمان کی نشانی ہے؟کیاہم اپنی خواہشات پر اپنے بھائیوں کی خواہشات کومقدم ٹھہراتے ہیں ؟ہرگزنہیں ۔عام دن تو کجاہماری فروترطبیعت ہمیں اس مبارک ماہِ صیام میں بھی شتربے مہاربنائے ہوئے ہے۔رمضان آتے ہی ہمارے گردوپیش میں اشیائے خورودونوش کی قیمتیں آسمان کوچھونے لگتی ہیں ۔ہم کیسے مسلمان ہیں کہ رمضان جیسے مبارک ماہ میں جو درحقیقت ہمیں محروم لوگوں کااحساس دلانے کیلئے ہے ‘ہم اس قدرگرچکے کہ گوشت‘سبزی اورپھلوں تک کو عام آدمی کی پہنچ سے دورکردیتے ہیں۔

رمضان بازاراورسستابازارمیں اکثرجاتارہتاہوں ‘وہاں بسااوقات ایسے دلدوزمناظردیکھنے اورسننے کوملتے ہیں کہ اپنے مسلماں ہونے پربھی شرمسارہوجاتاہوں۔اس مرتبہ بھی گیااوروہی رونادھوناسنا‘ہمیں منڈی سے اسی نرخ پرمال ملاہے‘منڈی جائیے تووہ بھی یہی بپتاسناتے ہیں ‘مان لیا کہ اصل مجرم ذخیرہ اندوز سرمایہ کارہے مگر کیا ہم اپنے حصے کی مہنگائی کو کم نہیں کرسکتے ؟؟کوئی ہے ایسا جواس ماہ میں کم منافع لے ؟ ۔ایک پھلوں کی دکان پر باپ ‘بیٹامختلف پھلوں کے نرخ پوچھ رہے تھے‘دکان دار نے بتایا آڑو ایک سوپچاس روپے‘ ۔بیٹے نے باپ سے کہا امی نے کافی عرصہ بعدآڑوکہے ہیں ‘لے لوں ؟باپ نے اجازت دی اورآڑوخرید لیئے گئے ۔چلتے ہوئے بیٹے نے باپ سے کہا:’’ابو!آپ نے کہاتھاکہ تنخواہ پرآم لے آناتووہ بھی لے لیتے ہیں ۔‘‘باپ نے کہا:’’بیٹا!مہنگے ہوں گے ۔‘‘بیٹے نے دکان دار سے نرخ پوچھے توجواب سن کروہ خاموش ہوگیا۔نرخ تھاایک سودس روپے۔اورپھر اس فرزند نے اپنے باپ کے قریب ہوکرالتجائیہ وشرمسار لہجے میں ایک ایسافقرہ کہاکہ جسے اداکرتے ہوئے بھی تکلیف ہورہی ہے ‘جوہماری معاشرتی زندگی اورمسلمان کہلائے جانے پرایک طمانچہ رسید کرتاہے۔اس نے کہا۔’’ابو!آم بہت مہنگے ہیں ‘پہلے آڑوخرید چکاہوں ‘جیسے رمضان ختم ہوگاپھرخوب آم کھائیں گے۔‘‘

دوسری جانب جہاں رمضان کے تقدس میں افطار پارٹیاں منعقد کی جارہی ہیں ‘اگران کابغور جائزہ لیاجائے تووہ بھی تعلق بنانے ‘اثرورسوخ اورنمائش کاآلہ بنی ہوئی ہیں ۔ایساتونہیں کہ معاشرے میں اچھے لوگ ختم ہوگئے ۔ایسے لوگ بھی موجود ہیں جوافطارکاسامان روزہ افطارہوتے تک تقسیم کرتے رہتے ہیں لیکن بحثیت مجموعی ہماری کارکردگی منفی ہے۔ہمارا ہمسایہ پانی سے روزہ افطارکررہاہے اورہم انواع واقسام کے کھانوں اورپھلوں سے اپنے دسترخوان کوسجائے بیٹھے ہیں ‘کیا روزہ یہی سبق دیتاہے؟ جولوگ مخلوق کی خدمت سے روگردانی اختیارکرتے ہیں انکے بارے اﷲ سورہ مدثرمیں فرماتے ہیں ۔اہل دوزخ ‘دوزخ میں جانے کاایک سبب یہ بتائیں گے کہ ’’ہم مسکینوں کو کھانانہیں کھلایا کرتے تھے۔‘‘مدثر۔44/74۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے قرب وجوارمیں رہنے والے انسانوں کی اﷲ کی ذات کی خاطر دلجوئی کریں ‘مددکریں ۔عیدقریب ہے اپنے قرب وجوارمیں دکھیاری ماؤں ‘بیوہ بہنوں کے بچوں کیلئے بھی کپڑے خریدیں تاکہ ان کی عید بھی اچھی گزرے ‘ان کے بچے احساس ِ محرومی کاشکارنہ ہوں۔سرکارِ دوجہان ‘رحمت اللعالمین کافرمان ہے۔مجھے رمضان بھر کے روزے رکھنے اور اس مہینے میں مسجد حرام میں اعتکاف پر بیٹھنے سے یہ زیادہ عزیز ہے کہ میں اپنے بھائی کی بوقت ضرورت مدد کروں ۔ایک اور جگہ سرکار کافرمان ہے کہ سب مومن فرد واحد کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ بیمار ہو تو سارا جسم بیمار ہوجاتاہے ۔اگر اس کاسربیمار ہو تو جسم بیمارہوجاتاہے ۔
شاعر نے سچ کہا تھا
مبتلائے درد کوئی عضو ہو ‘روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

ہمیں سوچناچاہیئے کہ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ سندھ کے تھرمیں بھوک سے مرتے بچوں سے لے کر بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں تک‘کراچی میں ٹارگٹ کلنگ سے لے کرڈرون حملوں سے شہید ہوتے بچوں تک کی خبریں سن کرہماری سماعت تک متاثرنہیں ہوتی ‘ہمیں ٹیکنالوجی کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی‘کوئی یمنیوں کے قتل ِ عام کو جہاد کہتاہے توکوئی ایران کی ہرپالیسی کوراہ مستقیم قراردیتاہے۔ میں سوچ رہاہوں کہ کہیں ہم اپنے مفادات ‘نام نہاد نظریات کی دنیا میں غرقاب ہو کر اندھے ‘گونگے ‘بہرے تو نہیں ہوگئے ؟اگر واقعی ایساہے توپھر ہم معاشرہ کی صورت نہیں گروہ کی صورت رہ رہے ہیں ‘کیونکہ زندہ معاشرہ توتب ہی تشکیل پاتاہے جب ایک دوسرے کی ضروریات پوری کی جائیں‘ہربات کو بلاتفریق انصاف کے ترازو میں تولاجائے۔جس معاشرے کا حکمران رات کو گلیوں میں گھوم کر لوگوں کی ضروریات پوری کرتاہو‘ جس معاشرے کا فرد حکمران بننے کے بعد کاروبار ترک کر دیتاہو‘جس معاشرے میں زخموں سے چوراورتشنگی سے نڈھال انسان اپنے ہونٹوں کے قریب آئے پانی کے پیالے کو اپنے بھائی کی جانب روانہ کردیں‘بس وہی زندہ معاشرے ہواکرتے ہیں۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174496 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.