ترک خاتونِ اول کاہیروں کا ہاراور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی

بات ہے پانچ سال پہلے 2010کی ، پاکستان پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی جو ایک بڑی گدی کے سجادہ نشین بھی ہیں ہمارے ملک کے چوبیسویں وزیر اعظم تھے۔اس سال بھی پاکستان میں شدید بارشوں کے بعد سیلاب نے تباہی مچادی، بے شمار لوگ لقمہ اجل بن گئے، بے شمار گھرانے بے گھر ہوگئے۔ قدرتی آفات کے سامنے کسی کا کیا زور، یہ تو ہمارے اعمال ہیں، جن کی سزا وقتاً فوقتاً ہمیں ملتی رہتی ہے۔ ایسی ہی قدرتی آفت آجکل کراچی میں شدید گرمی اور لو کی صورت میں آئی ہوئی ہے جس میں 1200سے زیادہ افراد گرمی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ درست کہتے ہیں ہمارے حکمراں کہ یہ ایک قدرتی آفت ہے اس میں حکومت کا کیا لینا دینا، یہ تو گرمی کے باعث مرے ہیں لوڈ شیڈنگ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ لوڈ شیڈنگ کوئی آج تو نہیں ہورہی یہ تو برس ہا برس سے چلی آرہی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کا دور بھی قدتی آفات کے ساتھ ساتھ انسانی آفات سے لبریز تھا۔ جس میں کرپشن اپنے عروج پر تھی، بیڈ گورنس مثالی تھی، ٹارگٹ کلنگ جیسی آج ہے ایسی ہی تھی، الغرض غربت، بے روزگاری، مہنگائی ، پریشانی ، دکھو اور تکلیفوں سے عام انسان پریشان تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جنرل پرویز مشرف کے زمانے کے قرضے جو 34لاکھ ڈالر تھے بڑھ کر دگنے ہوگئے، ڈالر جو 62کا تھا 100کو کراس کرگیا تھا۔ جنابِ یوسف رضا گیلانی جو جنرل ضیاء الحق کے دور کی پیداوار تھے 1988میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور سیاست کی سیڑھی پر سفر کرتے ہوئے صرف 20سال کے عرصے میں وزارت اعظمی کے منصب پر فائز ہوگئے۔ بے شمار پی پی کے رہنما ء جوذوالفقار علی بھٹو کے دور سے پارٹی میں مستقل مزاجی سے چلے آرہے تھے زرداری صاحب کے اس انتخاب پر ہاتھ ملتے رہ گئے۔ ان رہنماؤں میں صلاحیتیں بھی تھیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھے، تجربہ بھی خوب رکھتے تھے، بہترین مقرر، نرم مزاج، سبک گفتار بھی لیکن گیلانی صاحب نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا اور وزارت اعظمی کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ یہ دوسری بات کہ ملک کی سپریم کورٹ نے انہیں چند سیکنڈ کی سزا سنانے کے بعد نہ صرف وزارت اعظمیٰ بلکہ پانچ سال کے لیے الیکشن لڑنے سے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔

بات ترکی کی خاتون اول امینے اردگان جو موجودہ صدر طیب اردگان کی شریک حیات ہیں ، اس وقت طیب اردگان ترکی کے وزیر اعظم تھے ۔ سیلاب زدگان سے اظہار ہمدردی کے لیے پاکستان تشریف لائیں۔ انہوں نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا وہ ہمدرداور نرم دل واقع ہوئی ہیں سیلاب کی تباہ کاریوں سے وہ بہت زیادہ دکھی ہوئیں اورانہوں نے ترکی کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ، نقد امداد کے بجائے اپنے گلے کا ہیروں اور موتیوں کا ہار اتار کر حکام متعلقہ کو دے دیا ، ساتھ ہی یہ بھی فرمائش کی کہ اس ہار کو فروخت کرکے اس رقم کو سیلاب زدگان کی بحالی اور امداد کے طور پر کام میں لے آیا جائے۔اس موقع پر انہوں نے یہ پیغام بھی دیا تھا کہ اگر ترکی کے مشکل وقت میں مسلمان خواتین اپنے ذیورات دینے کا حوصلہ رکھتی ہیں تو ترکی کی خواتین بھی مشکل کی اس گھڑی میں پاکستانی سیلاب زدگان کے لیے اپنے ذیورات اتار کر دے سکتی ہیں۔ خواتین کا اپنے زیورات عطیہ کرنے کی روایت مسلمانوں میں قدیم زمانے سے پائی جاتی ہے، شاید اس وقت بنکوں کا نظام اس قدر عام نہیں تھا، ساتھ ہی یہ عمل کہ خواتین جو ذیورات پہنے ہوتی ہیں انہیں فوری طور پر اتار کر دیدنے سے لوگ بھی زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، دوسروں کو بھی ترغیب ہوتی ہے کہ وہ بھی مدد اور خیر کے کام میں شامل ہوں۔ اس طرح کے واقعات سیاسی رہنماؤں کے سامنے بہت ہوتے رہے ہیں۔ کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے قائد نے ایک مرتبہ اپنے خواتین و حضرات کارکنوں کے بڑے مجمعے میں مدد کی اپیل کی تو دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف لاکھوں روپے جمع ہوگئے بلکہ خواتین نے وہ تمام ذیوارت جو وہ اس وقت پہنے ہوئے تھیں اسی وقت اتار کر قائد تحریک کو عطیہ کردیے۔

ترک خاتون اول نے اس عمل سے فوری طور پر یہ ثابت کردیا تھا کہ انہیں اور ترکی کے عوام کو پاکستانی عوام سے بے پناہ ہمدری اور محبت ہیں وہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کے ساتھ ہیں۔ وہ چاہتی تو لاکھوں ڈالر کا چیک امداد کے طور پر دے سکتی تھیں لیکن اپنے گلے سے قیمتی ہار اتار کردینے سے جو تاثر قائم ہوا وہ لاکھوں کے چیک سے کہی زیادہ تھا۔ خاتون اول مطمئن ہوکروطن لوٹ گئیں۔ اب حکومت وقت کی ذمہ داری تھی کہ وہ خاتون اول کے دیے ہوئے ہار کو ایمانداری اور سچائی کے ساتھ فروخت کرتے اور اس رقم کو ان کے کہنے کے مطابق استعمال کرتے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے کس طرح نمٹا گیا یہ الگ داستان ہے۔ ہار کہاں گیا؟ کس نے رکھا ؟ کس کو دیا گیا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں، لوگ اس کو بھول بھی گئے۔ اس واقع کوپانچواں سال ہے۔ ہار بظاہر گم شدہ تھا۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اس ہار کا کیا بنا۔ اگر ملک میں پیپلز پارٹی کے حکومت 2008۔2113کے بعد دوبارہ بھی بر سرِ اقتدار آجاتی تو اس گمشدگی پر پردہ ہی پڑا رہتا۔ ہمارے ملک میں کیونکہ مخالف کی باتوں پر کڑی نظر رکھنے کی روایت ہے جو بسا اوقات مثبت ثابت ہوتی ہے۔پانچ سال بعد پی پی کے بجائے نواز لیگ بر سرِ اقتدار آئی، وزارت داخلہ کا قلم دان چودھری نثار کو سونپا گیا۔ نہیں معلوم کہ انہیں کسی نے اس واقعہ کی نشاندھی کی یا وہ خود ہی تاک میں تھے، انہیں یاد تھا کہ ہیروں کا ہار ترکی کی خاتون اول نے دیا تھا۔ چودھری نثار نے اس ہار کے بارے میں کھوج لگانے کی سعی کی تو اس ہار کو لاپتہ پایا ، اس پر انہوں نے ہار کی گم شدگی کی تحقیقات کا حکم صادر فرمادیا، کھوجی تو قبر سے بھی چیز نکال لاتے ہیں ۔ یہ ہیروں کاہار تو ملتان شہر کے ایک شاہی گھرانے کی ذینت بنا ہوا تھا۔ ایف آئی اے کو ہار کی تلاش کا ٹاسک دیا گیا ۔ تحقیقی ادارے کو معلوم ہوگیا کہ یہ ہار اب ترک خاتون اول کے گلے کے بعد پاکستان کے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی بیگم صاحبہ کے گلے کی ذینت بنا ہوا ہے۔چاہ یوسف نے اپنے دورِ عظمیٰ میں شاہی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس ہار کو ذاتی کسٹڈی میں رکھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اسے کہتے ہیں اختیارات کا استعمال ۔ایف آئی اے نے وزارت داخلہ کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں صاف صاف بتا دیا کہ یہ ہیروں کا ہار اب کہاہے۔ چودھری صاحب کی بہادری کو سلام ، انہوں نے قانونی کاروائی کا حکم دیا جس کے مطابق ایف آئی اے نے سید صاحب کو قانونی نوٹس دیتے ہوئے یاد دلا یا کہ اگر انہوں نے یہ ہیروں کا ہار واپس نہ کیا تو قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس عمل سے وہ امانت میں خیانت کے الزام کے مرتکب قرار پائیں گے۔اس کا مقدمہ بھی درج کیا جائے گا۔ یوسف رضا گیلانی جو اب پی پی سے کچھ کچھ نہ خوش دکھائی دیتے ہیں ، اپنے جواں سال بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا کے واقع سے پریشان حال بھی ہیں۔ کسی بھی قسم کی دلیل ، حیلہ ، بہانے اور عُذر پیش کرنے کے بجائے خاموشی سے ہیروں کا وہ ہار نادرا کے حوالے کردیا۔ نادرا کا اس ہار سے کیا تعلق ؟ لیکن یوسف رضا گیلانی نے وہ ہار نادرا کو دیا اس کا مطلب ہے کہ نادرا کا یقینا اس سے کوئی تعلق رہا ہوگا۔ جب ہی تو سید صاحب نے اس ہار کو ایف آئی اے کے بجائے نادرا کے سپرد کیا۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس وقت یہ ہار نادرا نے خرید لیاتھا اور کثیر رقم سیلاب زدگان کے فنڈمیں جمع کرادی تھی۔ ہار اس فکر اور ڈر سے کہ کہیں یہ نادرا کے چیرٔمین کی ملکیت نہ بن جائے حکام بالا نے یوسف رضا گیلانے صاحب کو خوش کرنے کے لیے ہار اپنے پاس رکھنے کی درخواست کی ۔ بیوروکریسی نے خوش نودی حاصل کی وزیر اعظم کی ، پھر وزیر اعظم نے خوشنودی حاصل کی اپنی بیگم صاحبہ کی۔ قانون ، اخلاق، امانت ، دیانت سب ایک طرف ۔گیلانی صاحب اس ہار کو غیر قانونی طور پر پانچ سال سے اپنے قبضے میں رکھے رہے۔ کوئی جواز ہے ان کے پاس، قانون کیا کہتا ہے، امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے یا نہیں؟

یوسف رضا گیلانی صاحب کا دور بطور وزیراعظم پاکستان کوئی قابل ستائش دور نہیں تھا۔ وہ اپنی صلاحیت کی بنیاد پر، میرٹ پر اس منصب پر نہیں پہنچے، مذہبی خاندان سے تعلق، بڑی گدی کے سجادہ نشین جو انہیں وراثت میں ملی ، سیاسی اعتبار دوسرے گدی نشین کی ٹکر پر پورا اتر تے تھے۔ شہید بے نظیر بھٹو نے بھی انہیں اپنی کابینہ میں رکھا، بے نظیر کے بعد وہ آصف علی زرداری کے قریبی اور اعتماد یوں میں شامل ہوگئے۔ جب وزیر اعظمیٰ کے لیے کسی شخص کی تلاش ہوئی تو زرداری صاحب کی فہم و فراصت نے گیلانی صاحب کا انتخاب کیا، جب سپریم کورٹ نے انہیں وزارت اعظمیٰ کے منصب سے نکال باہر کیا تو زرداری صاحب کی نظر ایک اورپی پی کے رہنما پرویز اشرف جن کا تعلق بھی پنجاب ہی سے تھا پر پڑی اور انہیں وزیر اعظم بنادیا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ انہیں پارٹی کے سینئر اور بہ صلاحیت رہنما اس منصب کے لیے نظر نہیں آئے، چودھری اعتزاز احسن ،مخدوم امین فہیم اور کئی ایسے بہ صلاحیت لوگ تھے جن کا انتخاب اس منصب کے لیے کیا جاسکتا تھا لیکن حسن انتخاب ہے زرداری صاحب کا انہیں جس میں بھی صلاحیتیں نظر آجائیں۔ اب سناؤنی ہے کہ دونوں وزیراعظم گیلانی اور پرویز اشرف زرداری صاحب سے دور دور ہیں۔ تب ہی تو ہیرو کا ہار پہلی فرصت میں خاموشی کے ساتھ واپس کردیا تھا۔

ہار واپس مل گیا۔ سیلاب زدگان پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرچکے، ہار کی قانونی رکھ والی کس کی ہے ۔ اس کا تعین قانونی ماہرین کی آراء کی روشنی میں کیا جائے۔ ہار کو ترک خاتون اول جو ابھی حیات ہیں اور موجودہ صدر کی اہلیہ ہونے کے ناتے اب بھی خاتون اول ہیں کو یہ ہار شکریے کے ساتھ واپس کردیا جائے ، یا ان کی ہدایت کے مطابق ہار کو فروخت کرکے رقم قومی خزانے میں جمع کردی جائے، اس ہار کو جو اب ایک تاریخی اہمیت حاصل کرچکا ہے، پاکستان کے کسی بھی عجائب گھر میں نادر و نایاب اشیاء کے طور پر محفوظ کر لیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ مستقبل میں کوئی اور وزیر اعظم پاکستان کو ملنے والے ہیروں کے ہار یا قیمتی اشیاء کو اپنی ذاتی ملکیت تصور نہ کرے۔ ضروری ہے کہ یوسف رضا گیلانی صاحب کے اس غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل پر تحقیق کی جائے اس بات کا تعین کیا جائے کہ انہوں نے کس قانون کے تحت یہ عمل کیا، کیا وہ امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ؟ اگر ہوئے تو اس کیا سزا قانون میں موجود ہے۔ اگر اس معاملے کو خاموشی کے ساتھ دبا دیا گیا تو مستقبل میں کوئی اور وزیراعظم ایسا ہی کرے گا اس کی پیش بندی بہت ضروری ہے تاکہ آئندہ کسی اور وزیراعظم کو ایسا کرنے کی جرت نہ ہو۔اس عمل سے ترکی کی خاتون اول امینے اردگان جنہوں سیلاب زدگان سے ہمدری کرتے ہوئے اپنے گلے کا ہیروں کا ہار ہمدردی اور ایثار کے جزبہ سے سرشار ہوکر دیا جب انہیں یہ خبر ہوئی ہوگی کہ یہ پانچ سال سے پاکستان کے سابق وزیر اعظم کے گھر کی ملکیت بنا ہوا ہے ۔ ان کی بیگم کے گلے کا ہار بنا ہوا ہے تو ان پر کیا گزری ہوگی، پاکستان اور پاکستانی عوام کے بارے میں کیا تاثر قائم ہوا ہوگا۔اﷲ ہمارے حکمرانوں کو پاکستان کی عزت کا احساس عزیز رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(2جون 2015)

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280623 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More