مٹھائی

گذشتہ پانچ برسوں میں شاید ہی کوئی جمعرات ایسی گذری ہوگی جب فہیم نے اپنی ماں کیلئے اپنی ہفتہ بھر کی تنخواہ ملنے پر رات کو مٹھائی نہ لائی ہو۔باپ کے انتقال کے بعدماں نے بھی تو امیرپڑوسیوں کے گھر کپڑے برتن دھوکرفہیم اور گھر کی ضرورتوں کو پورا کیا تھا۔اب عمرکا بھی تقاضہ تھااور فہیم بھی اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ مزدوری کرتے جوان ہو چکا تھا،ماں کو راحت تھی لیکن ساتھ ہی اسے بیٹے کی محنت کا احساس بھی تھا۔زیادہ محنت اور کم تنخواہ اس کی آنکھوں کے سامنے تب بھی تھے جب اسکا شوہر حیات تھا اور آج بھی جب بیٹا اسی راہ پر تھا۔ماں نے اپنے ارمان بھی کہ میری حیات ہی میں بہو آجائے پورے کرلئے۔بہو گھر میں آئے ابھی چند ہی ہفتے گذرے تھے۔آج بھی جمعرات تھی اور ماں منتظر تھی کہ بیٹا میرے لئے مٹھائی لائے گا۔اور اس نے دل ہی دل میں کہا آج بیٹا مجھے مٹھائی دیگا تو میں ایک چھوٹاسا ٹکڑا لے کر باقی اس کو دے کراس سے کہوں گی ’’بیٹا یہ بہو کو کھلادینا‘‘۔

فہیم گھر میں داخل ہوا ، ماں نے حسرت بھری نگاہوں سے اسکی طرف دیکھالیکن اسکے ہاتھ تو خالی تھے۔لیکن اس کی پتلون کی جیب کسی وزن سے جھکی جارہی تھی۔ماں نے نظر انداز کرنے کے لئے چھت کی طرف دیکھنا شروع کردیا ،فہیم اپنے کمرے میں چلا گیا لیکن اسکی ماں کی آنکھوں میں پانی کی پرت صاف نظر آرہی تھی۔اتنے پر بھی وہ بیٹے کے بارے میں یہی سوچتی رہی کہ اتنی کم تنخواہ میں بیچارہ مٹھائی لائے تو کس کس کو دے؟ ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔دلہن کو ان سب چیزوں کی زیادہ ضرورت ہے۔

دو کمروں کے اس چھوٹے سے گھر میں آدھی رات کو مٹھائی کی خوشبو نے ماں کو آخر جگا ہی دیا۔دوسرے کمرے میں مٹھائی کھاتے ہوئے دونوں اس بات سے بالکل بے خبر تھے کہ گھر میں کوئی اور بھی موجود ہے جسے نظر انداز کیا جارہا ہے۔بات صرف چند سکوں سے خریدی گئی اس مٹھائی کی نہیں تھی،بلکہ دل کو ٹھیس پہنچانے کی تھی جس کا احساس انہیں نہیں تھا۔نئی نویلی دلہن کے آنے سے ویسے بھی اس دنیا میں بہتوں کا احساس مر جاتا ہے،پھر رشتے ناطے سب دھرے رہ جاتے ہیں۔بہن بھائی ماں باپ انکی وقعت دلہن کے مقابلے گھٹ جاتی ہے۔

دوسرے دن صبح جب ماں نے گھرمیں جھاڑو لگانا شروع کیا اور دوسرے کمرے کی صفائی شروع کی تو ایک کنارے پڑا مٹھائی کا کاغذ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ فہیم کام پر جا چکا تھا،ماں نے صفائی مکمل کی، دلہن جوابھی تک سو رہی تھی اسے جگایا اور دوسرے کام میں جٹ گئی۔

اسے حیرت تب ہوئی جب روزانہ ان کے کمرے میں مٹھائی کا کاغذ پڑا ہوا دیکھتی۔جیسے بیٹا بڑا ہوا تھا اس کا غصہ بھی بڑھ گیا تھا اسی لئے ماں اسے کچھ کہنے سے ڈرتی تھی۔مہینوں گذر گئے تھے لیکن ماں اس بات کو ترس گئی تھی لیکن اسے آج بھی امید ہے کہ میرا بیٹا ایک نا ایک دن مٹھائی لاکر میرے ہاتھوں میں رکھے گا اور تب بھی میں ایک چھوٹاسا ٹکڑا لے کر باقی اس کو دے کراس سے کہوں گی ’’بیٹا یہ بہو کو کھلادینا‘‘۔
Ansari Nafees
About the Author: Ansari Nafees Read More Articles by Ansari Nafees: 27 Articles with 22280 views اردو کا ایک ادنیٰ خادم.. View More