سورج کی کہانی

 سردی کے موسم میں کپکپاتے انسان دھوپ کی تلاش میں گھر کی چھتوں ،دفاتر کیء گیلری اور جہاں جہاں دھوپ میسر آجائے تلاش میں ہوتے ہیں۔کہیں بس دھوپ میسر آجائے ۔پھر تاریک رات میں انسان بے تابی سے کروٹ پہ کروٹ لے رہاہوتاہے ۔کب روشنی ہوکب روشنی ہو۔

یہ دھوپ اور یہ روشنی بیک وقت قدر ت کے بنائے ہوئے شاہکار ''سورج ''سے ہی میسر آتی ہیں۔سردیوں اسی دھوپ کے لیے انسان مارا مارا پھر رہاہوتاہے۔دوسری جانب یہی سورج کی تپش زمین کے پیٹ سے اگلنے والی فصل کے لیے بہت حد ضروری ہوتی ہے ۔جس کی بدولت فصل پک کر انسان کی خوراک اور جانوروں کا چارہ بنتی ہے ۔خیر!!

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آج ہم آپ کو سورج کے متعلق تفصیل سے بتائیں گئے کہ سورج ہے کیا؟اس کی حقیقت کیاہے ؟جدید سائنس نے ہمیں اس کے متعلق کیا معلومات فراہم کی ہیں ۔

سورج نظام شمسی کے مرکز میں واقع ستارہ ہے۔ زمین، دیگر سیارے، سیارچے اور دوسرے اجسام سورج ہی کے گرد گردش کرتے ہیں۔ سورج کی کمیت نظام شمسی کی کل کمیت کا تقریباً 99.86% ہے۔ سورج کا زمین سے اوسط فاصلہ تقریباً 14,95,98,000 کلومیٹر ہے اور اس کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 8 منٹ 19 سیکنڈ لگتے ہیں۔ تاہم یہ فاصلہ سال بھر یکساں نہیں رہتا۔ 3 جنوری کو یہ فاصلہ سب سے کم تقریباً 14,71,00,000 کلومیٹر اور 4 جولائی کو سب سے زیادہ تقریباً 15,21,00,000 کلومیٹر ہوتا ہے۔ دھوپ کی شکل میں سورج سے آنے والی توانائی ضیائی تالیف کے ذریعے زمین پر تمام حیات کو خوراک فراہم کرتی ہے اور زمین پر موسموں کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔

سورج کی سطح بنیادی طور پر ہائیڈروجن اور ہیسلیم سے بنی ہے۔ اس میں ہائیڈروجن کا تناسب تقریباً 74% بلحاظ کمیت یا 92% بلحاظ حجم اور ہیلیم کا تناسب تقریباً %24 بلحاظ کمیت یا %7 بلحاظ حجم ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے عناصر جیسے لوہا، نکل، آکسیجن، سیلیکان، سلفر، میگنیشیم، کاربن، نیون، کیلشیم اور کرومیم معمولی مقدار میں موجود ہیں۔

نجمی جماعت بندی میں سورج کا درجہ G2V ہے۔ G2 کا مطلب ہے کہ اس کی سطح کا درجہ حرارت تقریباً 5,780 کیلون (5,510 درجہ صد)ہے۔ سورج کا رنگ سفید ہے جو بالائی فضاء میں روشنی کے انتشار کے باعث زمین سے اکثر زردی مائل نظر آتا ہے۔ یہ روشنی کی کچھ طول موجوں کو منہا کرنے والا اثر ہے جس کے تحت روشنی میں سے چھوٹی طول موجیں، جن میں نیلی اور بنفشی روشنی شامل ہیں، نکل جاتی ہیں۔ باقی ماندہ طول موجیں انسانی آنکھ کو زردی مائل دکھائی دیتی ہیں۔ آسمان کا نیلا رنگ اسی الگ ہونے والی نیلی روشنی کے باعث ہے۔ سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت جب سورج آسمان پر نیچا ہوتا ہے، تو روشنی کو ہم تک پہنچنے کا لئے اور زیادہ ہوا سے گزرنا پڑتا ہے جس کے باعث یہ سورج کہکشاں جادہ شیر کے مرکز کے گرد تقریباً 24,00026,000 نوری سال کے فاصلے پر گردش کرتا ہے۔ یہ Cygnus جھرمٹ کی سمت میں گردش کر رہا ہے اور 22.525.0 کروڑ سالوں میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ اس دورانیے کو ایک کہکشائی سال کہتے ہیں۔ اس کی دوری رفتار (orbital speed) تقریباً 22020 کلومیٹر فی سیکنڈ خیال کی جاتی تھی لیکن ایک نئے اندازے کے مطابق 251 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ اس طرح سورج تقریباً ہر 1,190 سالوں میں ایک نوری سال یا ہر 7 دنوں میں ایک فلکیاتی اکائی( (astronomical unit کا فاصلہ طے کرتا ہے۔

سورج ابھی جادہ شیر کے جس حصے سے گزر رہا ہے اس میں ہم سے قریب ترین 50 ستاروں میں، جو زمین سے 17 نوری سال (1.6E+14 کلومیٹر) کے فاصلے تک واقع ہیں، کمیت کے لحاظ سے اس کا نمبر چوتھا ہے(10)۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کو سورج کی سطح پر غیر معمولی سکون یا ٹھہراؤ کا سامنا ہے یا آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ سورج سو رہا ہے۔

سائنسدانوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی حیران کن ہے اور وہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ سورج پر آنے والے شمسی طوفانوں میں کمی کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ماضی کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ جب کبھی بھی سورج پر شمسی طوفان آنا بند یا کم ہو جاتے ہیں دنیا سردی کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔اس مرتبہ سورج کی سطح پر شمسی طوفانوں میں کمی کا زمین کی سطح یا گلوبل وارمنگ پر کیا اثر ہو گا اس کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔سورج پر ہونے والی حرکت یا ایک مستقل طوفان کی سی کیفیت کی بہت مختلف نوعیتیں ہوتی ہیں۔ سورج پر پائے جانے والے دھبے بہت زیادہ مقناطیسیت کے حامل ہوتے ہیں جو زمین سے دیکھیں۔ تو سیاہ دھبوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔سورج کی شعائیں یا بنفشی شعاعیں زمین کی طرف منعکس ہوتی ہیں اور سورج کی سطح سے اٹھنے والے شعلے اربوں ٹن چارج پارٹیکلز یا برقی ذرات خلاء میں بکھیر دیتے ہیں۔سورج پر ہونے والا یہ ارتعاش ہر گیارہ برس میں کم اور زیادہ ہوتا ہے۔ یہ سورج پر ارتعاش کی انتہا یا عروج کا زمانہ ہے جسے سائنسی اصطلاح میں سولر میکسیمم کہا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت سورج پر غیر معمولی ٹھراؤ ہے اور وہ سرگرمی نہیں ہے جو عام طور پر ہونی چاہیے تھی۔سورج پر سرگرمی میں کمی کا مطلب ہے آنے والی کئی دہائیوں میں زمین انتہائی سرد ہو سکتی ہے۔...

انسانی جسم پر سورج کی روشنی پڑنے سے جسمانی ضرورت کا نوے فیصد وٹامن ڈی حاصل ہوتا ہے۔مشاہدے سے پتہ چلا ہےکہ 11 تا 13 سال کی بچیوں اور 14 تا 17 سال کے بچوں میں وٹامن ڈی کی کمی ہوتی ہے۔ برطانوی طبی ماہرین کے مطابق جن بچوں کے والدین انہیں کھلی فضاء میں کھیلنے کی ترغیب دیتے ہیں، وقت کے ساتھ ان میں گھر پر بیٹھ کر ٹیلی وژن دیکھنے یا کمپیوٹر کے سامنے وقت گزارنے کے رجحانات دیگر بچوں کے مقابلے میں خاصے کم ہوجاتے ہیں اور یوں وہ کھلی فضاء میں رہ کر زیادہ بہتر نشونما پاتے ہیں۔(موسم سرما کے دوران سورج کی الٹرا وائلٹ بی شعاوں کے اخراج میں کمی ہوجاتی ہے)۔موسم سرما کے دوران سورج کی الٹرا وائلٹ بی شعاوں کے اخراج میں کمی ہوجاتی ہے۔

محترم قارئین!صرف سورج کی بناوٹ ہی پر بات کریں تو اس پر گھنٹوں بات کی جاسکتی ہے ۔لیکن چونکہ یہ ہمارا مقصود سورج کو ایک نعمت کے طور پر پیش کرناہے ۔چنانچہ اس اعتبار سے ہم نے آ پ تک اہم معلومات پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔یہ وہی آفتاب ہے جس کے تذکرے شعراء کے دیوانوں میں ملتے ہیںجسے عربی میں شمس اور اردو میں سورج کے نام سے موسوم کیا جاتاہے ۔وہی جس سے چاند روشنی مستعار لیتاہے۔
قران مجید فرقانِ حمیدسورج کے متعلق بارہا ذکر ملتاہے ۔
وَسَخَّرَلَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَیْنِ وَسَخَّرَلَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ(ابراہیم ۔۔۔۔۔۔)
اور تمہارے لئے سورج اور چاند مسخّر کئے جو برابر چل رہے ہیںاور تمہارے لئے رات اور دن مسخّر کئے ۔
ایک اور مقام پر ذکر ہے :
وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالْنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌ بِاَمْرِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (النحل۔۔۔پ١٤)
اور اس نے تمہارے لئے مسخّر کئے رات اور دن اور سورج اور چاند اور ستارے اس کے حکم کے باندھے ہیں بیشک اس آیت میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کو ۔
ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآء ً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ()
وہی ہے جس نے سورج کو جگمگاتا بنایا اور چاند چمکتا اور اس کے لئے منزلیں ٹھہرائیں کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب جانو اللّٰہ نے اسے نہ بنایا مگر حق نشانیاں مفصل بیان فرماتا ہے علم والوں کے لئے ۔
محترم قارئین :اللہ عزوجل ہمیں ان نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین

اپنے جذبات ،خیالات سے ہمیں ضرور آگاہ کیجیے گا۔کہ آپ کس حد تک ہماری تحریر و خیالات سے اتفاق یا احتراض کرتے ہیں ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544671 views i am scholar.serve the humainbeing... View More