ہالینڈ میں بھی حجاب پر پابندی !

ہالینڈ میں عوامی مقامات پرحجاب پر لگائی گئی پابندی سے واضح ہوتا ہے کہ متعصب اہل مغرب امن و آشتی کے مذہب اسلام کی دائمی تعلیمات کی اثر پذیری سے انتہائی خوفزدہ ہیں۔ ہالینڈ کی کابینہ نے عوامی مقامات پر نقاب پر پابندی لگانے کی منظوری دی ہے، جس کے تحت ملک میں عوامی ٹرانسپورٹ، اسکولوں، ہسپتالوں اور سرکاری دفاتر میں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی ہوگی اور اس میں نقاب کے علاوہ سکینگ کے لیے پہنے جانے والے ماسک اور ہیلمٹ بھی شامل ہوں گے۔ خلاف ورزی کرنے والی خواتین کو تین سو پاﺅنڈ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ بل کی حتمی منظوری پارلیمنٹ ہی دے گی۔ حجاب کرنا مسلم خواتین کا مذہبی معاملہ ہے، جس کے دفاع کا ان کو مکمل حق حاصل ہے اور وہ اس پر کوئی سمجھوتا بھی نہیں کر سکتیں، یہ جانتے ہوئے بھی ہالینڈ کابینہ کا نقاب پر پابندی لگانے کی منظوری دینا اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت سے بوکھلاہٹ کا کھلا اظہار ہے۔ ہالینڈ کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اس پابندی کا مقصد کسی مذہب سے امتیازی سلوک برتنا نہیں ہے، لیکن یورپ میں مجموعی طور پر مسلم خواتین کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ وزیر اعظم کے بیان کی توثیق نہیں کرتا۔ یورپ کے متعدد ممالک میں ایک عرصے سے حجاب پر پابندی کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں، جبکہ بیلجیم اور فرانس میں تو حجاب پر پابندی عاید بھی کی جاچکی ہے اور مغربی یورپ میں اٹلی اور سوئٹزر لینڈ میں بھی برقعہ پر پابندی کے حوالے سے بھرپور تحریک چلائی گئی ہے۔ یورپ کے متعدد ممالک میں وقتاً فوقتاً خواتین کے حجاب کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ یورپ خواتین کی آزادی کا سب سے بڑا علمبردار بنا پھرتا ہے، لیکن اسلام دشمنی کے سمندر میں غرق حجاب کے مخالفین کو خواتین کی آزادی کے خود سے بنائے فارمولے بھی یاد نہیں رہے۔ نقاب پر پابندی عاید کر کے خواتین کو آزادی دینے کی بجائے معاشرتی زندگی سے ہی نکال باہر کر دیا گیا ہے اور آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں نے ہی آزادی سلب کر لی ہے۔ ماضی میں ہالینڈ کی حکومت کی جانب سے حجاب پر پابندی عاید کرنے کی کوشش کو ملک کے آئین میں مذہبی آزادی کی شقوں سے متصادم قرار دیا جا چکا ہے اور یہ پابندی یورپ کے انسانی حقوق کے معیارات اور خاص طور پر کسی کی نجی زندگی اور ذاتی شناخت کے احترام کے بھی منافی ہے، لیکن اس کے باوجود تعصب کی بھٹی میں جلنے والوں نے حجاب پر پابندی لگا کر اپنے ہی بنائے گئے تمام قوانین کو بری طرح روند ڈالا ہے۔

مغربی ممالک میں طویل عرصے سے اسلامی شعار کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ درحقیقت اسلام دشمنوں کی طرف سے اٹھائے گئے اسلام مخالف اقدامات مغرب میں اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ روکنے کی ناکام کوششیں ہیں۔ مغرب میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، جس سے اسلام دشمنوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ مسلمانوں کی بڑھوتری کا یہی خوف بیمار ذہنوں کو اسلام دشمنی پر اکساتا ہے، لیکن دشمنوں کی تمام تر کوششیں ماضی میں بھی نامراد لوٹی ہیں اور مستقبل میں بھی انہیں رسوائی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ ایک زمانہ تھا جب مسلمان یورپ میں اجنبی تھے، لیکن آج اسلام پورے یورپ میں بڑے جوش وخروش سے پھیل رہا ہے، اسلامی لٹریچر تقسیم ہو رہا ہے۔ لوگ قرآنی تعلیمات، حقائق، سچائی اور دلائل پر مبنی ریسرچ اور تحقیق کے بعد جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد صرف برطانیہ میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ لوگ اپنا پرانا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور رپورٹ کے مطابق ہر سال 5200 افراد دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں، جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ قابل ذکر وقت گزارا اور ان سے متاثر ہوئے۔

یورپ میں اچھی خاصی تعداد ان نو مسلموں کی بھی ہے، جو مسلمان تو ہو چکے ہیں، مگر انگریزی رسم و رواج کی وجہ سے انھوں نے اپنے آپ کو چھپا رکھا ہے، کیونکہ انگریزی سماج آج بھی اسلام قبول کرنے والوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ انتہا پسند اور متعصب مغربی افراد کی سرپرستی میں میڈیا چند افراد کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈاکرتا نہیں تھکتا۔ مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کا تعصب برتا جاتا ہے، لیکن ان تمام سختیوں اور پروپیگنڈے کے باوجود اسلام یورپ میں بڑی تیزی کے ساتھ اپنا راستہ بناتا جا رہا ہے۔ اسلام کی اس مقبولیت سے اہل مغرب خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں، اسی لیے آئے روز اسلام دشمن باولے لوگ یورپ میں اسلام کی توہین پر اتر آتے ہیں۔ کبھی نعوذ باللہ دنیا کی مقدس ترین کتاب قرآن مجید کو آگ لگا کر اپنے بغض کا اظہار کیا جاتا ہے اور کبھی خانہ کعبہ و مدینہ منورہ پر حملے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ کبھی مساجد کے مینار گرانے، مساجد کو مسمارکرنے اور مساجدکی تعمیر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی حجاب پر پابندی لگا کر مسلمانوں کو ستایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں مسلم برادری کے خلاف حملوں کا بڑھتا ہوا رجحان بھی یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے پیدا ہونے والے خوف کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔

اسلام امن و آشتی اور انسانیت کی بھلائی کا درس دیتا ہے، اسی عالمگیر سچائی کی جانچ پڑتال کے بعد یورپ میں اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لینے والوں کی اکثریت مشہور و معروف اور پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ دو سال قبل اسلام قبول کرنے والے بین الااقوامی شہرت رکھنے والے فلپائن کے شہرہ آفاق گلوکار فریڈی ایگوئلر، عرب ٹیلنٹ ایوارڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی امریکی پاپ گلوکارہ 23 سالہ جنیفر گراوٹ، جرمنی کی طرف سے تھائی لینڈ میں بطور سفیر کام کرنے والی یاسمین، فرانس کی معروف گلوکارہ میلنئی جارجیا دیس المعروف دیام، فتنہ فلم کے پروڈیوسر ارناﺅڈفانڈورن نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام کے مکمل مطالعہ کے بعد ہم نے اسلام قبول کیا۔ یورپ میں ہی باکسر محمدعلی، ایوان ریڈلی مریم، محمد یوسف مبلغ یورپ، سمیرا نامی معروف عیسائی رہنما، ماہر تعلیم پروفیسرکارل مارکس، ڈاکٹر ولیمز، برطانوی ماڈل کارلے واٹس اور معروف پاپ سنگر مائیکل جیکسن کے ایک بھائی اور بہن سمیت سیکڑوں معروف افراد نے مختلف ادوار میں اسلام کی ابدی صداقت اور حقانیت کے سامنے سر تسلیمِ خم کیا، لیکن پھر بھی یورپ کے عیار و شاطر قسم کے لوگ زبردستی اسلام قبول کروانے کا الزام لگا کر مختلف حیلوں سے مسلمانوں کو تنگ کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف قوانین منظور کروانے کے لیے سر گرم رہتے ہیں، لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام دشمنوں کے مقدر میں ذلت لکھ دی گئی ہے۔ وہ جب جب اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کر کے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تب تب قدرت لوگوں کو اسلام کے مزید قریب کر دیتی ہے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبادیں گے
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631332 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.