مسائل زندگی اورغصہ

معاشرہ میں گالیاں دینا اور ایک دوسرے سے پرخاش رکھنے کا رواج کیوں ہوگیا ہے؟

کیا یہ مسائل معاشی مشکلات کی وجہ سے ہیں؟ اس غصہ اور سختی کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟ برابھلا کہنے اور گالیاں دینے سے بچنے کیلئے کیا جائے؟

آجکل جب ہم سڑکوں اور شاہراہوں پر ٹیکسی، بس، موٹر سائیکل پر یا پیدل چل رہے ہوتے ہیں بہت سے ایسے افراد نظر آتے ہیں جو بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔

مطلوبہ موضوع پر کچھ عرصے پہلے کسی خبر میں اس کی وجہ معاشی سختیاں بتائی گئیں تھیں۔ بے روزگاری اور کساد بازاری عوام کو اس کیفیت میں متبلا کرتی ہے۔

بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اکثر ایک ہارن یا لاشعوری اوور ٹیک گلیوں اور سڑکوں پر گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک لے جاتی ہے جس کا نتیجہ سوائے پشیمانی اور اور سکون کی رخصتی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
گھروں کے اندر بھی چھوٹا سا مسئلہ چیخم دھاڑ اور مار دھاڑ میں تبدیل ہوجاتا ہے ، ہم ان مسئلوں کو یہاں تجزیہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ ایک چھوٹاسا غیر اہم مسئلہ کیوں صبر اور درگذر کو ہاتھ سے گنوا بیٹھتا ہے۔

بجائے اس کے کہ ہم غصہ اور جھگڑے کی جڑ کو رفع کرنے کی کوشش کریں، صرف اور صرف دوسروں کے کندھوں پر تمام غلطیوں کا بار ڈال دیتے ہیں اور حکومت اور میڈیا وغیرہ کو اس جھگڑے اور سختیوں کا قصور وار گردانتے ہیں۔

یہ نہیں کہتا کہ یہ ادارے ان سختیوں اور مشکلات میں قصور وار نہیں ہیں، البتہ وہ اگر کچھ نہیں کررہے اور اپنی ذمہ داری ادا نہیں کررہے تو کیوں ہم خود اپنی زندگی کو محبتوں اور خوشیوں اور مسکراہٹوں سے محروم کریں اور بجائے پیار اور میٹی زبان اور گفتگو کے ننگی گالیاں دے کر، برا بھلا کہہ کراور جھگڑا کرکے اپنی زندگی کو جہنم بنا لیں؟

جاپانیوں نے پانی پر ایک تجربہ کیا ہے اور دیکھا کہ کس طرح ایک منفی احساس، ایک برا جملہ یا لفظ، ایک بری نظر پانی کے مولیکیول پر اثر انداز ہوتی ہے اور اُس مولیکول کو گندا اور بدنما بنا دیتی ہے جبکہ اس کے برعکس میٹھی زبان، پُر امیدی اور شادابی، روحانیت اور دعا پانی کے مولیکول کو خوبصورتی میں تبدیل کردیتی ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہم انسانوں کے جسم میں تقریباََ 70 فیصد پانی ہے، تھوڑا غور کیجیے کہ ہر لفظ، ہمارے کردار اور ہمارے احساسات پر کیا تاثیر چھوڑتا ہوگا؟

اگر معاشرہ میں پارٹی بازی کی وجہ سے تھک چکے ہیں اور آپ کے اعصاب جواب دے چکے ہیں تو قرآن کے اس پیغام کو ہر روز دہرایا کیجیے«إِنِّی تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّهِ رَبِّی وَرَبِّکُم مَّا مِن دَآبَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِهَا إِنَّ رَبِّی عَلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ»(هود،56)بے شک میں نے اللہ پر جو میرا اور تمھارا پروردگار ہے پر اعتماد کرلیا ہے۔ کوئی حرکت دینے والا نہیں ہے مگر یہ کہ اُس کی مہار اُس اللہ کے ہاتھ میں ہے، مجھے یقین ہے کہ میرا پروردگار مدد کرنے والا ہے۔ اس کے علاوہ حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ (173 / آل عمران)بے شک ہمارے لئے خدا ہی کافی ہے اور وہ سب بڑھ کر ساتھی ہے۔

شاید آپ کہیں: بہت اچھا مگر کبھی ہمارے اعصاب اور غصہ ہمارے کنٹرول میں نہیں رہتا ، کیا کریں؟ عرض ہے کہ ہم پیدائشی غصہ کرنے والے نہیں ہیں، نہ ہمارے دوست ایسے ہیں نہ ہی سکون اور آرام ذاتی ہے بلکہ یہ صفات اکتسابی ہیں، ماحول سے لی جاتی ہیں سیکھی جاتی ہیں۔

ہمیں اپنے اعصاب کو کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ غصہ اور سختی ہم نے اپنے گھر سے، اپنے ماحول سے سیکھی ہیں اور اُس کو معاشی مشکلات تک لے گئے ہیں،آپ کے پاس غصہ کے لئے کوئی بھی دلیل ہو مگر یہ صفت قرآنی اخلاق اور ایک مسلمان کیلئے اچھی نہیں ہے۔

ہم کو بھولنا نہیں چاہیے ہے کہ بہت سادہ سا گناہ گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا ہے جو عشق و محبت و مہربانی کے رشتوں کو ایک دوسرے سے ختم کرکے نفرت اور کینہ میں بدل دیتا ہے۔

چند آسان حل
اگر ہماری نفرت اور غصہ بے روزگاری کی وجہ سے ہے تو ہم خود سے کام کیوں نہیں شروع کردیتے اور خود سے کوئی مشغلہ یا کام ایجاد کرلیں، اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کام وجود رکھتا ہے مگر ہم کیوں کہ اپنے من پسند کام حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کسی میز کی پشت پر گھومنے والی کرسی اور اے سی کمرے میں بیٹھ کر کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہم بے روزگار رہتے ہیں۔

اگر شادی نہ ہونا اور ہمسفر نہ ملنے کی وجہ سے غصہ ہے تو سب سے پہلے خدا سے دعا کریں(اس مورد میں بہت دعا اور اذکار موجود ہیں) اور ساتھ ہی ساتھ مناسب ہمسفر کی تلاش کرتے رہیں۔

کامیابی اور سکون کیلئے ہم کو بھولنا نہیں چاہیے کہ ان زرق و برق زمانے میں ہم فکر بھی ہیں اور بے دست و پا کردیتے والے بھی، عفت و پاکدامنی کو ہمیں اپنا معیار قرار دینا چاہیے کیونکہ قرآن مجید کی صریح آیت ہے: وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ اور جو لوگ نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ عفت اور ضبط نفس سے کام لیں یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔(سورہ نور /33) اگر ہم پاک اور نیک ہمسفر چاہتے ہیں تو قرآن مجید کے مطابق ہم کو خود بھی پاک اور دیانت دار ہونا چاہیے۔ الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔(سورہ نور/26)

کساد بازاری کے دور میں شاید بظاہر ہمار ے ہاتھ بندھے ہوتےہیں اور ملکی سطح پرحقیقی ذمہ داری معاشی اور اقتصادی ماہروں کی ہو مگر ہم اپنے طرز اور طریقوں سے اپنی معاشی حالت کو اپنے ہاتھوں درست کرسکتے ہیں اور اپنی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں۔ کسطرح؟

کفایت شعاری کرن سے ، ہر خواہش کو پورا کیے جانے سے روک کر، آنکھوں کی ہر پسند پر مر مٹنا چھوڑ کر اور دوسرے بہت سے راستے کہ جو آپ خود بہتر جانتےہیں

گالیاں منہ سے اُسی وقت نکلتی ہیں جب غصہ کی آگ عروج پر پہنچ چکی ہوتی ہے۔ غصہ ور انسان اپنے غصہ کو روکنے میں کمزوری کی دلیل پر اوچھی حرکت کرتاور گالیوں میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اس عادت کی تکرار سے یہ انسان کی عادت اور مستقل صفت بن جاتی ہے۔

اگر ہم اس طرح اپنے اندرونی کیفیات پر نگاہ ڈالیں تو ہم اپنی خوشی اور کامیابی کو صرف مادیات کے حصول یا مصرف میں ہی نہیں سںھ ما گے، خدا کواپنی زندگی کے ساتھ جانیں ، ہماری کوشش روحانیت کے ساتھ ہو۔ اس طرح ہماری زندگی میں سکون و آرام زیادہ اور پائیداری کے ساتھ ہوگا۔

شاید آپ کہیں: صرف معنویت اور روحانیت کے ساتھ گھر کا راشن اور گھر کا کرایہ نہیں دے سکتے وغیرہ
میں کہتا ہوں کہ کوشش اور محنت، اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں دینی فرائض/واجبات اور حرام و محرمات اور روحانیت کا بھی خیال رکھیں۔

آج کے زرق برق مادّی دور میں جتنا دین مبین اسلام کے اصول اور معیارات کی ضرورت ہے اتنا پہلے نہیں تھی، اگر ہم اپنے تمام وجود اور اپنے خلوص دل اور قلبی عقیدہ کے ساتھ دینی قوانین پر نظر ڈالیں اور دینی ماہرین کی راہنمائی میں کوشش کریں کہ ان قوانین کو زندگی میں جاری کریں گے تو یقیناََ ہم آرام و اطمینان کی زندگی شروع کردیں گے، اور یہ تو خدواند تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ بے شک خدا کی یاد سچے دلوں کے آرام و اطمینان کا باعث ہے۔
تحریر: زهرا اجلال
ترجمہ: سید جہانزیب عابدی
 
سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 58079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.