صفائی نصف ایمان- ہر مسئلے کا حل

رب کائنات نے اس عالم جہاں میں بے شمار مخلوق تخلیق کی ہے ان میں صرف اور صرف انسان کو اشرف المخلوقات کے عظیم عہدے پر فائز کیاہے۔ اسے عقل دی ، فہم دیا اور سوجھ بوجھ ۔ اس کی جسمانی ، ذہنی ، نفسیاتی اور معاشرتی نشوونما کا ایک مناسب بندوبست کیاہے ۔ اسی نشوونما کے مرحلہ میں انسان پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہیں ۔ گوشت پوست کے اس ڈھانچے کی دیکھ بھال اور اس کی صفائی لازمی قرار دی ہے۔ حتیٰ کہ شعور سے عاری جانور اور پرندے بھی اپنے جسم کی مناسب صفائی کرتے ہیں۔ دنیا کے تقریباََ تمام مذاہب جسم و روح کی پاکیزگی کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ میڈیکل سائنس کا بھی یہی کہنا ہے کہ ایک صحت مند جسم کے اندر ہی ایک صحت مند ذہن پر ورش پا سکتا ہے۔ معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے بھی اپنے گھر اور گردونواح کی صفائی ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔ علم نفسیات بھی صاف ستھرے ماحول میں ذہنی سکون کی یقین دہائی کراتاہے۔ مذہب اسلام کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس نے صفائی کو نصف ایمان قرار دے کر اسکی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔

طبعی نقطہ نظر سے گندگی جراثیم اور وائرس کی آماجگاہ اور پرورش گاہ ہوتی ہے اور تقریباََ 70فی صد سے زائد انسانی اور حیوانی بیماریوں کی وجہ گندگی ہے ۔ کوڑا کرکٹ ، غلاظت اور جانوروں کے گوبر جہاں جمع ہوجاتے ہیں وہاں مچھر ،جراثیم اور وائرس کی نشوونما شروع ہوجاتی ہے۔ اپنے ارد گرد کی صفائی ناصرف ہماری انفرادی ذمہ داری ہے بلکہ اجتماعی ذمہ داری بھی ہے ۔ بچے معصوم پھول ہوتے ہیں اور ان پر بیماری کے حملے جلد ہوتے ہیں ان پھولوں کو کملانے سے بچانے کے لیے ہمیں صفائی کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔

غذا کے معاملہ میں صفائی کا خیال رکھنا صحت کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ صاف ستھری اور حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق غذا ہی ہماری صحت کی ضامن ہے۔ غیر معیاری اور گندی خوراک سے ایسی پیچیدہ بیماریاں پیدا ہورہی ہیں جو علاج دریافت ہونے سے پہلے سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کی جان لے رہی ہیں ۔ محکمہ صحت کی بارھا کوششوں کے باوجود ہرسال کوئی نہ کوئی سمچھ سے بالا تر بیماری منظرعام پر آجاتی ہے ۔

پچھلے دوسال سے ڈینگی مچھر نے پورے ملک میں عموماََ اور پنجاب میں خصوصاََ کہرام مچا رکھا ہے اور حکومت پنجاب کی تقریباََ پوری مشینری اس مچھر کے خاتمے پر لگی ہوئی ہے اور سری لنکن ماہرین کی ٹیم بلوائی گئی تو ان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس مچھر کے پرورش پانے کی بہت زیادہ جگہیں موجود ہیں۔ پرانے ٹائروں اور گملوں میں رہ جانے والے پانی کے علاوہ تالاب اور کیچڑ میں یہ مچھر نہ صرف پرورش پاتاہے بلکہ افزائش نسل کرتاہے ۔ ماہرین کے مطابق اس بیماری کا واحد حل صفائی ہے اور صرف صفائی ۔ اب تک ایک محتاط انداز ے کے مطابق اس بیماری سے ہلاکتوں کی تعداد 6000سے تجاوز کرچکی ہے اور یقیناًہم نے دیکھا کہ صرف صفائی سے ہم نے اس مسئلے کا حل تلاش کر لیاہے۔اب ایک نیا جرثوما ایبولا وائرس کے نام سے ملک میں تباہیاں مچا رہا ہے اور آئے روز ہلاکتوں میں اضافہ ہورہاہے اور مجھے امید قوی ہے کہ مستقبل قریب میں ہونے والی تحقیق اس بیماری کا حل صرف اور صرف صفائی تجویز کرے گی۔

مغرب میں ادنیٰ سے لیکر اعلیٰ افسران تک تمام لوگ اپنے ارد گرد صفائی کی اہمیت سے باخبر ہیں اور وہ راستے میں پڑے کوڑا کرکٹ کو ڈسٹ بن میں ڈالنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ جب کہ ہمارے ہاں استعمال شدہ چیزوں کو سڑکوں اور عوامی جگہوں پر پھینکنے کا رواج عام ہے اور حتیٰ کہ اسے باعث افتخار سمجھا جاتاہے۔ گاڑیوں کے شیشے کھول کر شاپر اور دیگر ڈسپوزبل مواد کو اس طرح پھینکا جاتاہے جیسا کہ یہ سڑکیں ان کی جائیدادِ منقولہ ہو اور آس پاس گزرنے والے لوگ ان کے زرخرید غلام ہوں ۔ ایسے تکبرانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویے کسی مہذب قوم کا شیوہ نہیں ہوا کرتے ۔

مذہب اسلام ایک جامع مذہب ہے اور آنیوالے دنوں میں اس کو نہ ماننے والے بھی اس کے احکامات کو تسلیم کرنے لگیں گے ۔چودہ صدیاں پہلے ہی ہمیں آگاہ کردیا گیا تھا کہ اگر ہم نے پرسکوں زندگی گزارنی ہے ،بیماریوں سے محفوظ رہنا ہے اور صحت مند زندگی کے لطف اٹھانے ہیں تو ہمیں صفائی کو ایمان کا لازمی جزو بنانا ہوگا۔ نصف ایمان قراردے کرتو مذہب اسلام نے مسئلہ ہی حل کردیاہے کیونکہ صفائی کے بغیر صحت ممکن نہیں اور صحت کے بغیر زندگی کی کوئی بھی سرگرمی سرانجام دینا ممکن نہیں۔ ایک بیمار جسم انسانی ذہن کو ناکارہ بنادیتاہے اور ناکارہ ذہن کوئی بھی مسئلہ حل کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اور اگر ہمیں چست وتوانا رہنا ہے اور اپنے مسائل بروقت حل کرنے ہیں توہمیں بحیثیت مجموعی قوم صفائی کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ یہ صرف محکمہ صحت ، بلدیہ یا ٹاؤن کمیٹی کی ذمہ نہیں بلکہ ہم سب کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ اگر نبی آخری صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات خود جھاڑو لگا سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں ؟ اگر سرور کائنات کی لخت جگر فاطمۃالزہرہ اپنے گھر میں صفائی کے کام خود سرانجام دے سکتی ہیں تو ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ایسا کیوں نہیں کرسکتیں۔ دین اسلام میں پانچ وقت کا وضو صفائی کی واضح مثال ہے اور پانچ وقت وضوکرنے والا شخص کبھی بیمار نہیں ہوسکتا ۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہرمسئلے کا حل ہے۔
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105554 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More