اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو

امریکی مصنف نوم چو مسکی اپنی کتاب Hegemony or Survival: America's quest for global dominance میں لکھتا ہے کہ" میں آج دنیا میں دو طاقتوں کی بات کرتا ہوں ، ایک امریکہ جو جارحانہ طریقے سے دنیا پر اپنی حکمرانی مسلط کرنا چاہتا ہے اور دوسری عالمی رائے عامہ ہے۔"
دو صدیوں سے اس کرہ نصف پر بولیور کا فلسفہ Bolivar Doctrine اور مونرو کا فلسفہ Moonroe کے مابین تصادم ہے ، امریکا کا فلسفی کامونرو کاماننا ہے کہ تما م دوسری جمہوریاؤں پر امریکا کی بالادستی ہونی چاہے اور Simon Bolivar کا فلسفہ ہے کہ’ توازن کو برقرار رکھنے کیلئے ایک عظیم جنوب امریکی جمہوری کا تصور ہونا چاہیے‘۔امریکی صدر جارج بش نے پورے عالم پر کامونرو کیفلسفے کی ترویج کی ۔امریکا کیلئے اس کا جارحانہ رویہ یہ رہا کہ " اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو ۔ "جبکہ عالمی رائے یہ رہی ہے کہ امریکا کو اپنی توسیع پسندانہ خیالات و منصوبہ بندی کے بجائے اقوام کے مابین مساوات خودمختاری اور طاقت کے توازن پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے تھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 61ویں اجلاس میں ایرانی صدر احمد نژاد نے جب امریکا کا دورہ کیا تھا تو اس موقع پر واشنگٹن پوسٹ کو نیو یارک میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے امریکہ کے بارے میں اپنی رائے دی کہ"مجھے امید ہے تھی کہ صدر بش اپنا طرز عمل اور رویہ بدلیں گے اس سے ہم خوش نہیں ہوتے جب دنیا کے چاروں طرف لوگوں کے جذبات میں روز اضافہ ہوتا ہے اس کو الٹا پھیرا جا سکتا ہے ۔یہ بعض امریکی سیاستدانوں کا رویہ اور سوچ ہے جو چیزوں کو برباد کر رہی ہے۔"

یہودی مذہبی پیشوایسروئیل ویس Yisroel Weiss کا تعلق یہود کے اسوپ سے ہے جو " صہیونت "کے خلاف مصروف [ جہد وپیکار ‘ ہے موصوف نے امریکن انا یونسر کارووٹو Neil Cavutoکا اس امریکن نیوز چینل نے نشر کیا جو اپنی اسلام دشمنی کی بنا پر خصوصی شہرت رکھتا ہے۔یسروئیل ویس نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ" صہیونی ڈھانچے کے قیام نے واضح طور اور نہایت واشگاف انداز میں اس شیطانی فراڈ کا پردہ فاش کیا ہے جس نے ایک مدت سے دنیا کے نیک نیت افراد کو دھوکے میں ڈالے رکھا اور اطمینان سے اس مذموم اور بد باطن وجود کی حمایت کرتے رہے جو اپنے آپ کو "یہودی مملکتـ"کے نام سے موسوم کرتا ہے۔"وہ مزید کہتے ہیں کہ" اسرائیل نے تمام لوگوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے خواہ وہ یہودی ہوں یا دیگر "۔

ڈاکٹر ولی رضا نصر مشرق وسطی اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ، خارجہ امور پر امریکی حکومت مشیر ہیں جبکہ امریکا کے معروف ادارے ’ کونسل آن فارن افیئر ‘ کے تاحیات رکن ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی امریکی خارجہ کے پالیسی بورڈ کے بھی رکن ہیں۔ان کی رائے کے مطابقـ" پاکستان میں سیاست اور مذہب ایک دوسرے سے جڑے رہے ہیں ، قیام پاکستان کے بعد ایک وقت ایسا آیا تھا کہ جب آپ اس نئے وطن کیلئے سیکولر شناخت کا انتخاب کرسکتے تھے لیکن ایسا ہونے سے قبل1949ء میں قرار دادِ مقاصد آگئی کہ جس نے واضح کردیا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اور جب آپ نے یہ کہہ دیا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اب اس ملک میں سیاست اسلام کے مطابق ہوگی اور یہیں سے یہ مسئلہ سیاسی ہوجاتا ہے۔ یہ ایک اہم نقطے کی نشان دہی ہے کہ پاکستان کا وجود اسلامی سیاست سے جڑنے کے کئی اسباب ہیں جس میں ایک یہ ہے کہ پاکستان میں کون سا اسلام نافذ کیا جائے ، کس کی شریعت نافذ کی جائے ، حنفی ،مالکی ، شافعی ، حنبلی یا جعفری ؟ پانچ مکاتب فکر موجود ہیں ۔ اس اہم معاملے میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب جنرل ضیا الحق نے اعلان کیا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے ، لہذا مسلمان اپنی زکوۃ ریاست کو دیا کریں گے کیونکہ جنرل ضیا الحق کے مطابق تاریخ میں یہی ہوتا رہا ہے کہ مسلمان اپنی اسلامی ریاست کو زکوۃ دیتے آئے ہیں جس کی مثال عباسی اور موی خلفا ء کی دی جاتی رہی ہے ، لیکن پاکستان میں رہنے والی شیعہ اقلیت نے اس پر شدید اعتراض اٹھایا کہ پاکستان کو مسلم سنی اسٹیٹ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان اپنی نظریاتی اساس کی بنیاد پر ہمیشہ حساس رہا ہے ، حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان دو قومی نظریئے کی بنیاد پر جب حاصل کیا گیا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو پاکستان کے پہلے وزیر قانون پاکستانی تحریک کے ہندو رہنمابنے لیکن ان پر اتنی شدت سے اعتراض نہیں ہوا جتنا 1953میں پاکستان میں قادیانی مسئلہ پر کھڑا ہوا تھا جب ایک قادیانی وزیر خارجہ کو نامزد کیا گیا تو اس پر مخصوص مکتبہ فکر کے علما نے اعتراض کیا حالاں کہ اس وزیر نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا وہ پنجاب میں پیدا ہوئے اور خود کو پاکستانی بھی کہلاتے تھے لیکن مخصوص مکتبہ فکر کا اصرار تھا کہ جب تک سنی العقیدہ نہ ہو اس وقت تک ایک اسلامی ریاست میں اہم عہدہ نہیں دیا جا سکتا ، اس کے بعد پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی تحریک شروع ہوئی اور اس وقت تک جاری رہی جب تک آئین پاکستان میں باقاعدہ اس قانون کو منظور نہیں کرلیا گیا۔دلچسپ امر ہے کہ مخصوص مکتبہ فکر کے بڑے بڑے جید علما پاکستان کے قیام کے مخالف تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد نہ صرف اس کے شہری بن گئے بلکہ رہنما بھی قرار پائے ، چونکہ سنی العقیدہ تھے اس لئے پاکستان کو سنی اسٹیٹ تصور کرالیا گیا ۔حالاں کہ قائد اعظم کی کسی بھی ایک تقریر کے کسی بھی اقتباس میں کوئی بھی یہ نہیں ثابت کرسکتا کہ پاکستان کسی خاص مسلک یا عقیدے کے تحت بنایا جائے گا۔انھوں نے ہمیشہ پاکستان کا آئین قرآن کریم اور اسلام ملت واحدہ کے طور پر افکار اقبال کے مطابق رکھا ۔

پاکستان آج بھی صوبائیت ، علاقائی ، لسانی فرقہ واریت’ اَدھر ہم اُدھر تم والے‘ فارمولے پر گامزن ہے اور اس بات کے قوی امکانات اور عالمی رائے عامہ بھی یہی ہے کہ پاکستانیوں کی یہ روش انتہائیتباہ کن ہے۔پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ، پھر پاکستان نے اسلامی ممالک میں سب سے پہلے ایٹمی طاقت حاصل کی ، پاکستان کی فوج دنیا کی پانچ بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے ، پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی دنیا کی نمبر ون ایجنسی کے درجے پر ہے ، کہا جاتا ہے کہ اسلامی دنیا میں تمام تر وسائل سے مالا مال اس ملک میں ایک عالمی سازش کے تحت سعودی عرب اور ایران نے پاکستان میں اپنی پہلی "پراکسی"لڑائی 1983ء میں لڑی تھی ، سعودی عرب فاتح رہا تھا پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی میں دونوں ممالک کی سرمایہ کاری نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔ کوئی دو رائے نہیں فروعی و خود ساختہ نظریات کے تحت بعض مدارس اور تنظیموں کے قیام اور نظریات کو فروغ دینے کیلئے وہی کردارا دا کر رہے ہیں جو اس سے قبل عراق ، لبنان اور شام بھگت چکے ہیں۔ایران اس وقت عرب ممالک کے چار دارالحکومتوں پر اپنی سیاسی حکمت عملی ے عسکری تعاون کے نام پر ایک نئی طاقت بنا ہوا ہے۔ چین ایک نئی عسکری قوت اور معاشی طور غیر مستحکم ممالک میں سرمایہ کاری میں مصروف ہے ، بھارت استعماری قوت بننے کیلئے چین کے راستے میں حائل کردیا گیاہے اور آزاد ہوتی افغان حکومت پر معاشی و سیاسی طور پر قابض ہونا چاہتا ہے ۔ پاکستان کئی عشروں کی جنگوں کے بعد افغانستان کو کسی حلوے کے طور پر کسی دوسرے ملک کو پلیٹ میں رکھ کر دینے کے موڈمیں نظر نہیں آتا ۔ مملکت کی تینوں سرحدوں پر دشمن کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ، اندرونی صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان کی عسکری قوت کو کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے ۔ ملکی سیاسی قیادت میں فہم و بصیرت کا فقدان بتدریج بڑھتا جا رہا ہے قومی سیاسی جماعتوں نے علاقائی سیاست کو اپنا لیا ہے ۔ قومی سیاست کے بجائے ، لسانی ، نسلی اور فرقہ وارنہ سیاست کو فروغ دیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مختلف عناصروں نے اپنی مضبوطی کیلئے ایسے ممالک کی پشت پناہی حاصل کرلی ہے جو براہ راست مداخلت کرکے اپنے مقاصد کو کامیاب بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔جس طرح امریکا نے ایک پیغام دیا تھا کہ " اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو ۔ " ایسی طرح یہی منطق ہر ملک نے اپنانی شروع کردی ہے۔امریکا اپنا طرز عمل تبدیل کر رہا ہے لیکن اب امریکی طرز عمل دوسرے ممالک اپنا رہے ہیں اور ان ممالک میں سیاسی قوت کی حامل جماعتیں ایسی منطق کو اپنا رہی ہیں اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنان نے بھی یہی روش اختیار کرلی ہے کہ " اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو ۔ " امریکہ ، اسرائیل ، بھارت کے چہرے بدل بدل کر سامنے آرہے ہیں کبھی کسی صورت میں کبھی کسی صورت میں ۔پالیسی یہی ہے کہ " اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو پھر ہمارے خلاف ہو ۔ "۔۔۔۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 660031 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.