آئی ڈی پیز کی طویل مہاجرت....حکومت واپسی ممکن نہ بنا سکی

جون 2014 میں وزیرستان میں شروع کیے گئے آپریشن ”ضرب عضب“ کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 10 لاکھ سے زاید افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے، حکومت نے جن کے قیام کے لیے بنوں میں بڑے پیمانے پر کیمپ لگائے تھے، جبکہ حکومت کی جانب سے عدم توجہ اور ضروریات زندگی فراہم نہ کرنے کی وجہ سے متاثرین آپریشن کی بڑی تعداد ملک کے مختلف علاقوں میں بھی چلی گئی۔ اپنے علاقے سے نکالے جانے کے بعد تمام افراد کو بہت سے مسائل جھیلنا پڑے اور ایک سال سے مسلسل مصائب جھیل رہے ہیں۔ ایک سال کے دوران حکومت کی جانب سے نہ تو ان کی باعزت واپسی کو یقینی بنایا جاسکا ہے اور نہ ہی انہیں کیمپوں میں ڈھنگ سے سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ حالانکہ آپریشن شروع کرنے سے پہلے حکومت نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپریشن کو 2014 میں ہی رمضان المبارک کے دوران مکمل کر کے عید الفطر تک تمام آئی ڈی پیز کی واپسی کو یقینی بنایا جائے گا، لیکن ابھی تک یہ واپسی یقینی نہ بنائی جا سکی۔ گزشتہ سال شدید اور جان لیوا گرمی کا موسم متاثرین آپریشن کو کھلے آسمان تلے گزارنا پڑا۔ سخت گرمی کے باعث متاثرین میں خواتین و بچوں کو بیماریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا اور گزشتہ سال سخت گرمی میں رمضان المبارک کا مہینہ بھی در بدر اور بے گھر گزارنا پڑا تھا، اس دوران حکومت آئی ڈی پیز کی جلد واپسی کے وعدے کرتی رہے، لیکن واپسی کا سامان نہ کیا گیا اور موسم سرما شروع ہو گیا۔ بنوں اور پنجاب میں موسم سرما میں ناقابل برداشت سردی پڑتی ہے، لیکن آئی ڈی پیز کو مجبوراً یہ سخت سردی بھی کھلے آسمان تلے گزارنا پڑی، لیکن حکومت ان کی واپسی کا انتظام نہ کر سکی۔ اس دوران متعدد بار آئی ڈی پیز کی جانب سے اپنی باعزت واپسی کے لیے احتجاج کے دوران یہ کہا گیا کہ ہم با عزت طریقے سے فوری واپسی چاہتے ہیں۔ اپنے گھر بار چھوڑ کر آج آئی ڈی پیز کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ہمارے مسائل بہت زیادہ ہیں، حکومت کی جانب سے آئی ڈی پیز پر توجہ نہیں دی جارہی۔ آئی ڈی پیز نے بارہا یہ بھی کہا کہ مہاجرت کی زندگی کی وجہ سے ہمارے بچوں کی تعلیم ختم ہو چکی ہے، ہم پاکستان کی بقا کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہیں۔ لہٰذا جلد از جلد واپسی ممکن بنائی جائے۔ اس دوران آپریشن سے متاثرہ متعدد قبائل بھی حکومت سے آئی ڈی پیز کی باعزت واپسی کا مطالبہ کرتے رہے اور مطالبہ منظور نہ کرنے کی صورت میں ریڈ زون میں دھرنے کی دھمکی دیتے رہے، لیکن ہر بار انہیں نظر انداز کر دیا گیا۔ گزشتہ ہفتے بھی مہاجرت کی زندگی کی وجہ سے بہت سے مسائل سے تنگ آکر آئی ڈی پیز کی ایک بڑی تعداد افغانستان ہجرت کر گئی ہے۔ ذرایع کے مطابق آپریشن شروع ہونے سے اب تک اندازاً 30 ہزار افراد افغانستان ہجرت کر گئے ہیں۔
بار بار احتجاج کے بعد حکومت کی جانب سے 31مارچ سے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی مرحلہ وار اپنے علاقوں کو واپسی کا عمل شروع کیا گیا۔ گزشتہ ماہ تک دوسرے مرحلے میں تین مختلف قبائل کے17 ہزار خاندان واپس اپنے علاقوں کو روانہ کیے گئے تھے۔ جبکہ پہلے مرحلے میں 40 ہزار 500 خاندانوں کو جنوبی وزیرستان، خیبرایجنسی اور شمالی وزیرستان اپنے گھروں کو پہنچایا گیا تھا۔ گورنر خیبر پختونخواہ سردار مہتاب احمد خان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے جن علاقوں میں امن قائم ہو چکا، وہاں پر آئی ڈی پیز کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ 16 مارچ سے شروع ہونے والا متاثرین کی واپسی کا عمل جولائی تک جاری رہے گا۔ سرکاری ذرایع کا کہنا ہے کہ آئی ڈی پیز کی دیرپا بحالی اور تعمیر نو کے لیے فاٹا سیکرٹریٹ میں بحالی اور تعمیر نو یونٹ قائم کیا گیا، جس کے ذریعے جنگ سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اسسمنٹ کی تیاری کا کام جاری ہے۔ وفاقی حکومت نے تعمیر نو کے کاموں کے لیے 6 سو ملین کی خصوصی گرانٹ مختص کی ہے، اس کے علاوہ ہر خاندان کو یکشمت ایک بار 25 ہزار روپے، جبکہ ماہانہ 12 ہزار روپے کیش امداد کی فراہمی کی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی چار مراحل میں مکمل ہو گی، جس کی تکمیل کے لیے حکومت نے ایک سال کا وقت مقرر کیا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔ واپسی کا یہ عمل قبائلیوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت شروع کیا گیا، جس میں مختلف قبائل اپنے اپنے علاقوں میں علاقائی ذمہ داری کے قانون کے تحت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وہ اپنے علاقے میں کسی ملکی و غیر ملکی شدت پسند کو پناہ نہیں دیں گے اور پاکستان مخالف کسی بھی سرگرمی کو روکیں گے۔

دوسری جانب حکومت کی طرف سے شمالی وزیرستان کے تمام متاثرین کی واپسی کا عمل ایک سال کے طویل عرصے میں مکمل کرنے کے اعلان پر مختلف حلقوں کی جانب سے حکومت پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔ وزیرستان کے نمائندہ جرگہ کے ایک قبائلی مشر کا کہنا تھا کہ متاثرین کی واپسی قبائل کا سب سے پہلا اور بڑا مطالبہ تھا۔حکومت کو چاہیے کہ واپسی کے عمل کو زیادہ طویل عرصہ تک جاری نہ رکھا جائے، ورنہ اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی جس سے حکومت ہی کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کا کام اس وقت تک بہتر طریقے سے نہیں ہو سکتا جب تک وہاں مقامی افراد موجود نہ ہوں۔ کیمپوں میں مقیم آئی ڈی پیز کا کہنا ہے کہ حکومت کو بہت پہلے آئی ڈی پیز کی واپسی کا منصوبہ تیار کرنا چاہیے تھا، لیکن حکومت نے بہت دیر کی ہے۔ آئی ڈی پیز کے مسائل انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرچکے ہیں اور ہر نکلتے سورج کے ساتھ ان کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی سست روی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آئی ڈی پیز کو گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی رمضان المبارک شدید گرمی کے موسم میں کیمپوں میں ہی گزارنا پڑے گا، کیونکہ آئی ڈی پیز کی واپسی کے حکومتی منصوبے کے تحت رمضان المبارک تک آئی ڈی پیز کی کم تعداد ہی اپنے علاقوں تک پہنچ پائے گی۔ گزشتہ روز فاٹا کے ارکان قومی اسمبلی نے متاثرین آپریشن کی واپسی کے لیے 30 مئی تک کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت نے 30مئی تک آئی ڈی پیز کی باعزت واپسی یقینی نہ بنائی تو لاکھوں قبائلی احتجاج کریں گے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو آئی ڈی پیز پر جو توجہ دینی چاہیے تھی، وہ نہیں دی گئی۔ حکومت شمالی وزیرستان کے متاثرین کے مسائل سے غافل رہی ہے اور میڈیا نے بھی آئی ڈی پیز کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند اور ہونٹ سی لیے ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.