بس ہوسٹس اور اخلاقی زوال

اقبال کے دور سے اب تک اقبال کے دیس میں مغرب کی تقلید کا رجحان بڑھتا ہی چلا جارہاہے۔ نام نہاد ترقی کے نام پر ہم نے اپنی اعلیٰ روایتوں کو قربان کرڈالا ہے۔ مغرب کی بے حیائی اور بے پردگی کو جدت کا نام دے کر ہم نے کئی شعبہ ہائے زندگی میں اخلاقی زوال کی آخری حدوں کو چھولیاہے۔ ہم اپنے افراد کی ذہنی اور عقلی سطح کو تو بلند نہ کرسکے مگر ان کو جہاز کی سفری سہولیات زمینی سفر کے دوران دینے لگ گئے۔ ہم نے تعلیم کو اتنا عام نہ کیا کہ ہماری بسوں پر سفر کرنے والے سوفیصد افراد ہی تعلیم یافتہ اور باشعور ہوں مگر ان کیلئے بس ہوسٹس کی سہولت لے آئے۔

مغرب کی نقالی اور اعلیٰ معیار کی علامت کو مدنظر رکھتے ہوئے چند ملٹی نیشنل بس سروسز نے بس ہوسٹس کے نئے تصور کو پاکستان میں متعارف کروایا اور انکی سروس لاہور سے اسلام آباد کے بعد اب تقریباََ ملک کے تمام بڑے شہروں میں شروع ہوچکی ہے۔ جدت کی اس دوڑ میں چند لوکل کمپنیوں نے بھی بس ہوسٹس کی سروس شروع کردی۔ اہل احساس اور اہل شعور لوگوں کے لیے تویہ نظارہ انتہائی دردناک اور شرمناک ہوتاہے جب ایک تنگ سیٹوں والی بس میں وطن کی بیٹی اور حیا کی علامت غیر محرم اور غیر مردوں کی خدمت میں محو نظر آتی ہے۔ سیٹوں کے درمیاں فاصلہ اتنا کم ہوتاہے کہ اس نوجوان، نوکری کے لیے مجبور لڑکی، کا جسم بس میں سوار تمام لوگوں سے ٹکرا رہا ہوتاہے اور چند حضرات کے انداز کا میں نے خود مشاہدہ کیاہے جو جان بوجھ کر اسے بار بار بلا رہے ہوتے ہیں کبھی ہیڈ فون کے بہانے تو کبھی کولڈ ڈرنک کی طلب پر۔ کبھی کبھی ایسا اتفاق بھی ہوتاہے کہ اس اکیلی لڑکے سوا پوری بس میں کوئی خاتون سواری نہیں ہوتی ۔ صرف اور صرف انے گھر میں بیٹھے باغیرت مردوں اور اپنے جیسی مجبور عورتوں کے پیٹ کے جہنم کو پورا کرنے کے لیے وہ خود جہنم کی طر ف لے جانے والے (بے پردگی ) کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر کوئی اچھی سروس میہا کرنا ضروری بھی ہے تو کیا اس سروس کیلئے کسی مرد کا انتخاب نہیں ہوسکتا؟ کیا ہم اخلاقی طور پر اس قدر پست ہوگئے ہیں کہ ہم نے اپنے ہر کاروبار زندگی میں گاہکوں اور سواریوں کو کشش کرنے کیلئے عورت کی نمائش کا سہارا لینا شروع کردیاہے۔ ہماری گھر میں نظر آنیوالی مردانگی اور غیرت کہاں مرجاتی ہے، اپنی اور دوسروں کی بیٹیوں کے لیے ہم نے عزت اور شرم وحیا کے پیمانے کیوں بدل دیے ہیں۔ یاتوہم اس حد تک چلے جائیں کہ اپنی بیٹیوں کے لیے بھی اسی طرح کی جاب میں کوئی عار محسوس نہ کریں یا پھر اس طرح کی سروسز دینے اور لینے سے گریز کریں جہاں ہمارے دوہرے معیار ہوں۔ سفر زندگی کا کٹھن اور آزمائش سے بھرا ہوامرحلہ ہوتاہے۔ اسے اتنا پرتعیش نہ بنائیے کہ ہمارا اپنی تہذیب کی طرف واپس لوٹنا مشکل ہوجائے ۔

حکومت وقت اور خلیفہ وقت کی یہ ذمہ دار ی ہواکرتی ہے کہ وہ نظر رکھے کہ اس کی سلطنت میں اسلام مخالف سرگرمیاں کس حد تک بڑھ گئی ہیں ۔ مگر یہاں تو شہنشاہ وقت اور شہنشاہ اختلاف دونوں ایسی پرتعیش چیزوں کے عادی ہوچکے ہیں کہ اب ان کو کوئی بری چیز بری نظر نہیں آتی۔ ان کے زیر سایہ پلنے والے نورتن اور گیارہ شاہی وزراء کی اشیر باد سے تو وطن عزیز میں ایسی رونقیں بحال ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی شریعت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ۔ یہاں جمہور بس کی ٹکٹ پر جہاز کے لطف حاصل کرنے کا عادی ہورہاہے۔ اور وہ وقت دور نہیں جب نئی نسل یہ سوال کریگی کہ یہ "اعلیٰ اخلاقی قدریں" کیاہوتی ہیں اور جدید ترقی کی دشمن ان " اعلیٰ اخلاقی قدروں " کی کیا معاشرہ میں کوئی جگہ ہے بھی سہی۔
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105047 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More