ہم بوجھ نہیں

پاکستانی عوام کی حالت کافی مخدوش ہوچکی ہے۔انہوں نے ناامیدی کو اپنے ذہن پر سوار کرلیاہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی ناانصافیوں نے انہیں ذہنی مریض بنا دیا ہے، منفی سوچ عادت بن چکی ہے، وہ جانوروں کی طرح زندگی گزارنے کو اپنا مقدر سمجھ چکے ہیں۔ جنہوں نے عوام کو اس چنگل سے نکالنا تھا ،وہ بکاؤ مال بن چکے ہیں۔د شمن ممالک انہیں اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لئے بہت سستی قیمت پر خرید لیتے ہیں ،ان نام نہاد دانشوروں کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور تجزیوں سے ملکی حالات کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں ، جیسے اب یہ ملک کبھی بھی درست سمت پر چلنے کے قابل نہیں ہوگا،کیونکہ اسے چلانے والے تمام لوگ کرپٹ ہیں،لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ ملک کلمہ حق پر وجود میں آیا تھا،ابھی بہت سے ایسے محب وطن، عوام دوست،درد دل رکھنے والے لوگ موجودہیں ،جواپنی نیک نیتی اور صدق دل کے ساتھ ملک وقوم سے حق وفاداری نبھا رہے ہیں۔ اس کا اندازہ گذشتہ روز حافظ محمد اکرم سے گفتگو کے دوران ہوا۔ وہ سوشل ویلفیئر کے ڈائریکٹر ہیں، دیگر ویلفیئرپراجیکٹس کے ساتھ نابینا افراد کی بہتری کی ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی ہے۔ یہ ان افسران میں سے ہیں، جن کی وجہ سے یہ ملک چل رہا ہے۔ وہ اپنے فرائض صرف نوکری سمجھ کرادا نہیں کررہے ،بلکہ ملک وقوم کی بقاء اور مظلوم لوگوں کی فلاح کے لئے نیک نیتی سے اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ صرف اکیلے ہی نہیں، ان جیسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ ان میں صلاحیتیں بھی ہیں،ان کے پاس پلان بھی ہے اور ایمانداری بھی،مگر پھر بھی یہ اپنے پراجیکٹس کو ’’گندی مچھلیوں ‘‘ کی وجہ سے کامیاب نہیں کرپاتے،ان ناکامیوں کی وجوہات جاننے کے لئے میں نے کئی فرض شناس لوگوں سے گفتگو کی، جس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ حکومت کے بہت سے اچھے پروجیکٹ ناکام کیوں ہوجاتے ہیں۔ ا س کی مثال معذور افراد کی فلاح کے پراجیکٹس سے لے لیتے ہیں۔

معذور افراد کے لئے جہاں انسانیت کے ناطے ہمارے کچھ فرائض ہیں، وہاں مذہبی طور پربھی ان پر خصوصی توجہ دینے کا حکم دیا گیا ہے…… قرآن مجید میں سورۂ عبس کی ابتدائی سولہ آیات حضرت عبداﷲ ؓ بن ام مکتوم کے واقعے سے متعلق ہے ۔ایک بار نبی کریم ﷺ کی دعوت پر سرداران مکّہ عتبہ بن ربیعہ،ابوجہل،امیہ بن خلف،ولیدبن مغیرہ وغیرہ حضور پُرنورﷺ سے ملنے آئے،نبی کریم ﷺ کی دلی تمنا تھی کہ یہ سردار اسلام لے آئیں، یوں سرزمین عرب میں خونریزی کے بغیر اسلام کا نور پھیلنے کی راہ ہموار ہوجاتی ۔حضوراکرمﷺ تبلیغ اسلام فرما رہے تھے کہ اسی دوران عبداﷲؓ بن ام مکتوم وہاں تشریف لے آئے۔ حضرت عبداﷲؓ پیدائشی نابینا تھے۔ وہ آپﷺکی خدمت میں قرآن مجید حفظ کرنے کے سلسلے میں موجود تھے۔ حضوراکرمﷺ کو صحابی کی مداخلت بار خاطر گزری۔ آپ ﷺ نے عبداﷲ ؓ کو ذرا خفگی کی نظر سے دیکھا ، پھر سرداران مکہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ جیسے ہی سرداران مکہ رخصت ہوئے تو وحی نازل ہوئی اور سورۂ عبس کی ابتدائی سولہ آیات نازل ہوئیں۔ ان کے ذریعے رب کائنات نے اپنے پیارے نبیﷺ کو دو یاد دہانیاں کروائیں ……اوّل یہ کہ آپ ﷺ کے پاس کوئی غیر اہم انسان بھی کچھ سیکھنے یا جاننے کے لئے آئے، تو اس سے منہ نہ موڑیئے،دوسرے یہ کہ معذور افراد پر خصوصی توجہ دیجیے ۔

اس واقعہ کے بعد حضور اکرمﷺ اپنے اس صحابی پر خاص شفقت فرمانے لگے حتیٰ کہ آپﷺ نے اپنی عدم موجودگی میں کئی بار مدینہ منورہ میں انہیں اپنا نائب مقرر فرمایا، یہ واقعہ اس امر کی شہادت ہے کہ نبی کریمﷺ کے نزدیک حضرت عبداﷲ ؓ بن ام مکتوم کا نابینا پن فرائض ادا کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتا تھا۔
وہ زمانہ جہالت کا دور تھا جب معذور انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ انسانی معاشروں میں ان کے حقوق کا نام ونشان تک نہیں تھا۔ زمانہ قدیم میں بعض یورپی معاشروں میں رواج تھا کہ کوئی معذور بچہ جنم لیتا تو والدین اسے قتل کرڈالتے تاکہ وہ ان پر بوجھ نہ بنے، تب صحرائے عرب میں اسلام کا نور پھوٹا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب چاروں طرف روشنیاں پھیلاتا چلا گیا ۔ اسلام نے انسانیت کی فلاح و بہبود اور بہتری کی تعلیم کو ہی انسانیت کی تعمیر سے تعبیر کیا ہے ،اپنی تعلیمات میں ذہنی وجسمانی طور پر معذور مرد وزن کے لئے بھی امید وخوشی کا پیغام موجود تھا، مگر بدقسمتی سے ہم مسلمانوں نے معذور افراد کے متعلق اسلام کے احکامات کو فراموش کردیا ، جبکہ یورپی ممالک نے ہمارے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنے لئے چراغ راہ بنا لیا ہے۔ آج مغربی ممالک کے علاوہ بیشتر ترقی پذیر ممالک میں بھی خصوصی افراد کو کئی حقوق حاصل ہیں۔ دنیا میں چھ کروڑ سے زائد جسمانی طور پر معذور افراد بستے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مغرب میں ان معذور افراد کے لئے 1983ء میں قوانین بنائے گئے اور اس پر فوراً عمل درآمدبھی شروع کردیا گیا،جبکہ پاکستان میں 1981ء میں معذور افراد کے لئے باقاعدہ قوانین بنائے گئے، لیکن ان پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اوّل تو یہ قوانین انتہائی ناقص ہیں،انہیں بہتر کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ نابینا افرادکی نوکریوں کے لئے پہلے ایک فیصد کوٹہ مختص کیا گیا تھا جو بعد میں 3 فیصد کردیا گیا ہے۔ہمیں ابھی تک اندازہ نہیں کہ ہمارے ہاں معذور افراد کی تعداد کتنی ہے؟

یہ معذور افراد ناکارہ نہیں ہے۔ معذوری کوئی مجبوری یا رکاوٹ نہیں ۔یہ ضرور ہے کہ ذہنی اور جسمانی معذوری انسان کی زندگی کو مشکل بنا دیتی ہے،اسی وجہ سے معاشرے اور حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ معذوروں کی فلاح وبہبود کے لئے تمام ضروری اقدامات کرے،لیکن نہ توماضی میں اور نہ ہی اب حکومت اس مسئلے پر کوئی توجہ دے رہی ہے۔ یہ لوگ حکومت کی تھوڑی سی توجہ سے عام لوگوں کی طرح فعال زندگی گزار سکتے ہیں۔ حکومت کسی بھی سکیم کے تحت انہیں ہر ماہ ایک ہزار روپے کی رقم ادا کرتی ہے ،اس میں سے بھی زیادہ تر رقم سیاسی بنیادوں پر بانٹ دی جاتی ہے اور حق دار کو نہیں ملتی ، جنہیں مل بھی جاتی ہے، وہ اس دور میں ہزار روپے سے کتنے دن گزار سکے گا۔ اس کے لواحقین بھی اسے بوجھ سمجھتے ہیں۔ پنجاب بھر میں صرف ایک انسٹی ٹیوٹ ’’نشیمن ‘‘ کے نام سے ماڈل ٹاؤن لاہور میں کچھ عملی کام کر رہا ہے ،جو معذور افراد کی اتنی کثیر تعداد پر توجہ نہیں دے سکتا، یہ انتہائی زیادتی ہے۔

آج سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے کہ 80 فیصد نابینا افراد کا علاج ممکن ہے۔ گونگے بہروں کو کان کے آلے لگا کر انہیں ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ ایسے معذور افراد جو اپنے کسی عضو سے محروم ہیں ، انہیں مصنوعی اعضاء لگا کر کام کرنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے،پھر یہ معاشرے پر بوجھ نہیں رہیں گے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ انہیں ناکارہ اور بوجھ سمجھنے کے بجائے کارآمد بنایا جائے۔آج نابینا افراد نے دنیا کو باور کروادیا ہے کہ ہم کسی طرح بھی کسی سے کم نہیں۔ پیٹ ایکٹ انڈسٹریل ڈیزائننگ کاماہر تھا۔ مارلارینی سن نے اتھلیٹکس میں 1992ء پارا اولمپکس میں چار گولڈ میڈل اور 1996ء اولمپکس میں سلور میڈل حاصل کیا۔جون بریم لیٹ 30سال کی عمر میں آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور مصوری کرنا شروع کردی ،بالآخر اسے اپنے بہترین کام کی بدولت صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ چائنیزکرسٹن ہا نے بہترین شیف ہونے کا ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ تمام لوگ بینائی سے محروم تھے، لیکن انہوں نے اپنی معذوری کو اپنی صلاحیتوں پر حاوی نہیں ہونے دیا اور آج نارمل انسانوں کی طرح کامیاب زندگی گزار رہے ہیں ۔اس کے برعکس ہمارے معاشرے نے ان معذور انسانوں کو ایک قابل رحم چیز بنا کر دکھ دیا ہے اور وہ بھی صرف دوسروں سے صرف چند الفاظ سن کر مطمئن ہو جاتے ہیں ، اگر معاشرہ ان کی ہمت بندھائے تو وہ بھی مغربی معاشروں کے معذور انسانوں کی طرح اپنی صلاحیتوں سے خود کوکار آمد انسان بنا سکتے ہیں ، لیکن ہمارے معاشرے اور ذمہ داروں نے ان کو انسان سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔انہیں ماہانہ ایک ہزار روپے کی مدد تک محدود کر کے رکھ دیا ہے ، جبکہ موجودہ حالات میں ہم سب جانتے ہیں کہ ایک ہزار روپے کی حیثیت ہی کتنی ہے۔ کیا ہمارے حکمران ،ذمہ دارادارے اور مخیر حضرات ان کا مکمل علاج معالجہ کرا کر اور انہیں ہنر مند بنا کر اس معاشرے کا کارآمد انسان نہیں بنا سکتے کہ وہ نہ صرف یہ کہ خود اپنی محنت سے زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں، بلکہ معاشرے اور ملک و قوم کی ترقی میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔

حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ان کے لئے مخصوص سرکاری نوکریوں پر بھی پابندی نہ لگائے۔ بہت سے مخیر حضرات ہیں جو حکومت کی مدد کرسکتے ہیں۔ پرائیویٹ اداروں کو خصوصی ہدایت دی جائے کہ معذور افراد کو ملازمت دی جائے۔ انہیں ہنرمند بنایا جاسکتا ہے، لیکن شائد حکومت کی ترجیحات میں ایسی کوئی بات ہی شامل نہیں،یوں تو معذور افراد کی فلاح وبہبود کے لئے سوشل ویلفیئر کا ادارہ موجود ہے، لیکن نہ اس ادارے میں کوئی معقول سٹاف ہے اور نہ ہی فنڈز…… یہ ضرور ہے کہ وہاں موجود کچھ درد دل رکھنے والے اور مخلص افراد کام کرنا چاہتے ہیں،مگر انہیں حکومت کی طرف سے کوئی تعاون حاصل نہیں ہے ۔ اگر کسی فرد واحد کو پنجاب بھر کے نابینا افراد کی بہتری کے لئے ایک پلان پر عمل درآمد کی اسائنمنٹ دیں گے اور اس کے پاس ایک کلرک ہوگا اور پورے پنجاب میں کہیں بھی سوشل ویلفیئر کا کوئی دفتر نہیں ہوگا ،کوئی خاص بجٹ بھی نہیں ہوگا۔ انہیں یہ بھی اندازہ نہیں پنجاب بھر میں کتنے نابینا افراد موجود ہیں تو ایسے پراجیکٹ کی ناکامی تو اظہر من الشمس ہے۔

اس تمام تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ حالات کتنے بھی خراب کیوں نہ ہوں ،ہمیں ان معذور افراد کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کے لئے تمام اضلاع میں سوشل ویلفیئر کے دفاتر بنائے جائیں۔ ٹریننگ سنٹر بنائیں تاکہ یہ ہنر مند بن کر روزگار حاصل کر سکیں ۔پنجاب میں کام کرنے والے باصلاحیت افسران کی کمی نہیں،پنجاب حکومت ان سے کام لینے کے لئے انہیں ضروری سہولیات کے ساتھ بجٹ دیے تاکہ وہ ایسے تمام پراجیکٹس کو آسانی سے مکمل کرسکیں اور عوام الناس کو اس کا فائدہ ہو۔ اسی سے حکومت اور حکمرانوں کی ’’گڈ وِل ‘‘بنے گی۔
 
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95317 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.