آہ۔۔۔ دائرہ نما GB الیکشن - حصہ 1

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا دوسرا اور مجموعی طور پر گیارہواں الیکشن بروز دوشنبہ ۸ جون ۲۰۱۵ء کو ہو گا۔ اطلاعات کے مطابق ۴۵۶ امیدوار ’’ میدان جنگ‘‘ میں کود پڑے تھے ۔ ۱۷ مئی کو ’’کھلاڑیوں‘‘ کی فائنل لسٹ جاری کر دی گئی ہے البتہ حتمی تعداد جلد سامنے آئے گی۔ ۶ لاکھ ۱۸ ہزار کے لگ بھگ ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لئے مستعد ہیں۔ ووٹنگ کا مقررہ وقت جوں جوں قریب آتا جا رہا ہے توں توں سیاسی گہما گہمی نقطۂ عروج کو پہنچتی جا رہی ہے ۔ موسم اور سیاست دونوں کی گرمی شدت اختیار کر رہی ہے اور نصف جون تک جا کر دم توڑے گی۔ اپنی اپنی پارٹیوں کے فلک شگاف دلوں کو موہ لینے والے ’’معنی خیز‘‘ نعروں کے ورد سے صبح ومسا، شام وسحر ہر شخص رطب اللسان ہیں۔ آسمان سے باتیں کرتے ہوئے بلند وبالا قوی ہیکل پہاڑ بھی مختلف سیاسی نغموں سے گونج رہے ہیں۔ الیکشن کے فورا بعد علاقے میں ’’فرضی اور خوابوں‘‘ میں ہونے والے Development Schemesکی List کی تفصیل اتنی لمبی ہے کہ اگر اسے کھڑی کر دی جائے تو K2 کی ہمسر ٹھہر جائے گی۔ بلکہ یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ مفت میں K2 سر کرنے کا سہرا بھی ہمارے سر بندھ جائے گا۔ Maintenance of Democratic Government کا خوبصورت ڈرامہ رچانا اور اسے Political Slogan بنا کر عوام کو بے وقوف بنانا ہماری اشرافیہ کی سرشت بن چکی ہے۔

جوڑ توڑ اور دھڑا دھڑے کے سلسلے میں سیاسی لوٹوں کی آمدو رفت شش جہت اور آٹھ پہر بے دریغ In Party & Out Party Process کی شکل میں جاری وساری ہے۔ موقر ومعزز لیڈروں، ورکروں، وفاداروں، وڈیروں اور ووٹروں کو پارٹی بدلنے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی جتنی دیر گرگٹ کو رنگ بدلنے میں لگتی ہے۔ جس طرف مصلحت اور مفادات کی ہوا چلتی ہے اسی ہوا کے ہمدوش چلنا بصد حیف میری ’’عظیم اور غیور قوم‘‘ کا طرۂ امتیاز ہے۔ پیسوں، کرسیوں، منصبوں، نوکریوں کے عوض ’’قیمتی ووٹ‘‘ دے کر ’’فلاحِ دارین‘‘ حاصل کرنے کی تگ ودو میں "اللہ اللہ" کرتی رہتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو ’’صراطِ مستقیم‘‘ پر گامزن وتیزگام سمجھتا ہے اور اپنے مخالف کو گمراہ، ناقصِ دین وعقل ومنطق بلکہ ’’بدعتی‘‘ و’’کافر‘‘ تک کا ٹھپہ لگاتے ہوئے ایک ثانیہ کے لئے سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا ہے۔ سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک اور ٹویٹر پر بھی پارٹیاں سیاسی کمپیئن چلا رہی ہیں۔ الغرض ۶ جون کے بخار کے گہرے اثرات جسم کے ہر عضو پر دن بدن مرتب ہوتے جا رہے ہیں۔

FB پر پاکستان کے معروف ومشہور شاعر عباس تابشؔ کے اعزاز میں منعقدہ انحراف ادبی فورم کے آنلائن طرحی فی البدیہہ مشاعرہ ۱۰ مئی ۲۰۱۳ء میں پیش کردہ راقم السطور کے کلام میں یہ دو شعر بھی شامل تھے جس کا پسِ منظر آج کی صورتحال پر من وعن صادق آتا ہے ؎
ہر جگہ لاشیں پڑی ہیں اب تو ارضِ پاک میں
نعرۂ آہ وفغاں ہر سمت پھیلاتا ہوں میں
اب الیکشن نے اڑا لی نیند سب کی، ہوش بھی
پارٹی جو بھی کھلائے اس میں سے کھاتا ہوں میں

اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم امام شافعی رحمہ اللہ کے مندرجہ ذیل مشہور قول کو اپنا کر اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کا راہنما اصول بنائیں اور اسے ہمہ وقت مد نظر رکھیں، انہوں نے فرمایا تھا:
"رأيي صواب يحتمل الخطأ، ورأي غيري خطأ يحتمل الصواب" یعنی میری رائے راست ہے مگر غلط ہونے کا احتمال بھی ہے اور دوسرے کی رائے غلط ہے مگر صائب ہونے کا امکان بھی ہے۔ لیکن افسوس یہاں پر سوچ وفکر اور منطق ہی الٹ ہے۔ ہر کوئی ہٹ دھرمی کا شکار نظر آتا ہے، آنکھوں کے سامنے مفادات وتعصبات کی عینکیں ناکوں پر بیٹھ کر کانوں کو مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھی ہوئی ہیں۔ نفسا نفسی کا ہو سا چھایا ہوا ہے۔ انفرادی مصلحت کا پلڑا اجتماعی مصلحت پر بھاری ہے۔

یہی وجہ ہے سیاست کے Temperature کے بڑھتے ہی اپنوں میں بلکہ ایک ہی خاندان کے لوگوں میں اس سے بڑھ کر ایک ہی گھرانے کے افراد میں منافرت، مخاصمت، مجادلت، محاربت، کھنچا تانی، گھتم گھتی، کشتم کشتی کی فضا گرم ہونے لگی ہے۔ یہاں تک کہ پچھلے الیکشنوں میں ازدواجی تعلقات کی مضبوط دیواروں میں نا قابلِ تحمل دڑاریں بھی پڑیں۔ بعض جگہوں پر بات طلاق تک کی نوبت کو پہنچی، بہت سے خاندان تتر بتر ہو گئے۔ GB انتخابات میں عام طور پر ’’عبداللہ کی شادی میں بیگانہ دیوانہ ‘‘ کی مثال اکثر GBians پر فٹ آتی ہے۔

لوگ اپنے اپنے ذاتی مفادات کے لئے عوام کو Tissue Papersکی طرح استعمال کرتے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں ڈبوں سے نکال کر اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں اور قیمتی ’’حقِ رائے دہی‘‘ استعمال کروا کے Dustbins کی نذر کر کے خود جمع، تفریق اور تقسیم کے بٹنز پر مشتمل انتہائی ثمین ونفیس Imported Calculators لے کر حساب وکتاب میں اس قدر مصروف ومنہمک ہو جاتے ہیں کہ آئندہ انتخابات تک کا ’’ مختصر وقت‘‘ گزر جاتا ہے اور ببانگِ دہل جاپانی اور چائنی High Quality Loudspeakers کے ذریعے غریب ونادار عوام سے کئے گئے سب جھوٹے دعوے نقش بر آب ثابت ہوتے ہیں۔ مختصر مدت میں سیاست دانوں کی دولت میں ریل پیل نظر آتی ہے، درجن خدم وحشم ان کی خدمت گزاری میں ہوتے ہیں، Luxury Lifestyle گزارنے لگتے ہیں۔ ’’قومی مفاد‘‘ کے لئے ’’بغیرِ ضرورت‘‘ ملکی وغیر ملکی ’’سیاحت‘‘ میں سرگرداں پھرتے رہتے ہیں۔ حکومتی اداروں میں رشوت ستانی کا بھر مار کر کے بھرتیوں سے پیسے بٹورتے ہیں۔ ان کے رشتے دار اور چہیتے بھی حکومتی کرسیوں پر براجمان نظر آتے ہیں۔ لیکن عام آدمی کی زندگی میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آتی۔ تعلیم، صحت، بجلی، روزگار سمیت بنیادی حقوق دلانے کے جھوٹے وعدوں کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ گندم کی سبسڈی ختم کر کے ان کے منہ سے نوالے چھین کر فاقہ کشی پر مجبور کرنے کی مذموم حرکت تک کی جاتی ہے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ان کا علاقہ بھی Infrastructure کے تمام مظاہر سے ’’ننگ دھڑنگ‘‘ رہ جاتا ہے۔ فقر وفاقہ، مفلسی وتنگدستی اور بے روزگاری کے مسائل ان کا مقدر بن کے رہ جاتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف ہمارے سیاسی ’’گیدڑان‘‘ So Sorry, I mean ’’لیڈران‘‘ بے حس وبے غیرت اور بے ضمیر ہوتے ہیں دوسری طرف قوم کی ذہانت وفطانت اورعقلمندی اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ بہت کچھ سہنے اور Practically گوناگوں تجربوں سے گزرنے کے فورا بعد سب کچھ بھول کر ’’مٹی پاؤ‘‘ پر راضی خوشی عمل پیرا ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی نظریں بھی اس قدر کمزور ہو جاتی ہیں یا نظروں میں دھول پڑجاتی ہے کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکنے کےباوجود وہی Scenarios از سرِ نو دیکھنے کے شوقین ہو جاتی ہے اور دیکھی ہوئی فلموں میں لومڑیوں کے کردار نبھانے والے سب ’’عظیم‘‘ سیاسی ’’ہیروز‘‘ کی شکل وشباہت اور ان کی انتخابی ’’نشانیاں‘‘ تک کو بھول جاتی ہے۔ ہائے کتنی بھولی بھالی ہے میری قوم؟!

وقتِ مقررہ پر کھلکھلاتے، اٹھلاتے، مسکراتے، جھومتے مقامِ موعود پر پہلی فرصت میں پہنچ کر انگوٹھے کو ’’خونی‘‘ بلکہ ’’نیلے‘‘ رنگ میں رنگا کر لہراتے ہوئے ان نشانوں پر فٹافٹ ٹھپے پر ٹھپہ لگاتے جاتے ہیں۔ ہاں اس سے قبل پولنگ سٹیشنز پر ہمارے مستقبل کے ’’ٹھیکداروں‘‘ کے چیلوں کی لمبی قطار لگی رہتی ہے جو ہر آنے والے کو WelCome، حللتم أهلا ودخلتم سهلا اور یا مرحبا یا مرحبا کہتے ہیں۔ پرتپاک انداز میں چہروں پر بناوٹی مسکراہٹ سجا کے سواگت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سود وزیاں سمیت دنیاوی واخروی خوشنوی کے حصول کے دلفریب گر سکھاتے نظر آتے ہیں اور بزعمِ خود مستحق نمائندے کی ’’مردہ علامت‘‘ دکھا دکھا کر ان کے جھوٹے دعؤوں اور کھوکھلے وعدوں کے حق میں سیاسی ،منطقی، عقلی دلائل فر فر سناتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کی باتوں کی توثیق وتصدیق کےلئے بوقتِ ضرورت کشادہ دلی سے آیاتِ بینات واحادیثِ نبویہ پر مشتمل تقاریر بھی فرماتے ہیں۔ ایک ایسا سماں بندھ جاتا ہے کہ دیکھنے والے کے دل ودماغ میں کچھ دیر کےلئے امید کی چھوٹی چھوٹی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں کہ شاید وباید نصرتِ الہی کا نزول ہوا ہے اور وقت آ چکا ہے کہ اس بار تو اپنے حلقے، شہر، ضلع، علاقے کی قسمت سنور جائے گی، ہر فیلڈ میں ترقیاں شروع ہوں گی۔ مگر چشمِ بینا سے دیکھنے پر امید کی کونپلیں پھوٹنے سے پہلے پہلے دل ہی دل میں پھٹ جاتی ہیں اور اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔ دل ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے اور سارا خواب چکنا چور ہو جاتا ہے۔ امیدوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ وفا ورجا اور تمنا کی دیواریں گر جاتی ہیں، بقولِ سامیؔ ؎
تھی دنیا سے امید مجھ کو بہت ہی
رجا کی گری آج دیوار دل میں
نہیں ہے مجھے اب شکایت کسی سے
وفا کی گری آج دیوار دل میں
تمنا جدا ہے، ادا بھی، صدا بھی
بلا کی گری آج دیوار دل میں

شاید ہمیں اسی مخمصے سے گزرتے رہنے کی عادت سی ہوئی ہے، کیونکہ جب کسی چیز کی عادت ہو جاتی ہےتو اس کے بغیر زندگی ادھوری رہ جاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں 1970ء میں پہلی بار انتخاب ہوا اس وقت سے لے کر آج تلک ہم اسی دائرہ نما شکل میں چکر کاٹ کاٹ کر اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ سو ہمیں کوئی احساس یا شعور تک نہیں ہوتا۔ ہم اپنی ماضی کی فاش غلطیوں کو بار بار دہرانے، بحسبِ ادا چہروں کی معمولی تبدیلی سے Exactly Previous Characters Performance اپنانے اور آئندہ موعدِ محدد تک کا انتظار کرنے کے لئے دل وجان سے تیار ہوتے ہیں۔ حسبِ معمول ’’الیکشن سٹیج‘‘ پر امیدوار اور ووٹرز اپنا اپنا ’’مخصوص کردار‘‘ ادا کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ’’ووٹ‘‘ ایک امانت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی ووٹ لینے اور دینے والے دونوں سے ضرور بالضرور سوال کرے گا۔ جسے ذہن نشین کر کے مطمحِ نظر بنائے رکھنا ہم سب کے لئے از بس ضروری ہے۔

جوش میں آ کر ہوش نہیں کھونا چاہئے۔ ایک دوسرے کی دستار اچھالنے، عزت وناموس کے پرخچے اڑانے، رشتوں اور انسانیت کے تقدس پامال کرنے، مخالف کو نیچا دکھانے اور اپنا لوہا منوانے کے لئے دھونس، دھوکہ، جھوٹ، فریب کے فن کا مظاہرہ کرنے، فریب ومنافقت کو عقلمندی وسیاست کا نام دینے سے گریزاں رہنا چاہئے۔ اس پورے کھیل میں اپنی حدود میں رہ کر ما لہ وما علیہ کی پاسداری کی حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے۔ جہاں سے دوسرے کی حدود کی ابتدا ہوتی ہے وہاں پر آپ کی حدود کی انتہا ہوتی ہے۔ اس سلسلے میںOliver Wendell Holmes (1935) کا یہ قول Your freedom ends where my nose begins ضرب المثل بن چکی ہے، جو کہ مبنی بر حقیقت ہے۔

جب تک شعور وبیداری نہیں آئے گی قوم کی نوجوان نسل خرگوش کی نیند سے جاگ نہیں اٹھے گی، ذمہ داری کا احساس دل میں انگڑائی نہیں لے گا ہم پستے اور دبتے رہیں گے، ہمارے حقوق سلب ہوتے رہیں گے۔ ان پڑھ، کم پڑھے لکھے، کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں میں ہمارے انتظامی امور کے زمام رہیں گے اور وہ بسیار آسانی سے قوم کو بھینس بکریوں کی طرح جب ، جیسے، جس طرح اور جہاں چاہئیں ہانکتے لے جائیں گے، جس پارٹی کے کنویں میں چاہئیں دھکیلتے رہیں گے۔ اسی لئے علامہ محمد اقبالؒ قوم کے نوجوانوں کو بیدار وبا شعور اور آگاہ کرنے کےلئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ کہہ کر ’’رفعت میں مقاصد کو ہمدوشِ ثریا کرنے‘‘ کی تلقین فرماتے رہے۔ اس کے کلام اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔

ووٹ کو امانت سمجھنا چاہئے۔ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے وقت امانت داری، عدل وانصاف کو مد نظر رکھنا از حد ضروری ہے۔ ایک دوسرے کی رائے کا احترام اور برداشت کا مادہ پیدا کرنا ہوگا۔ ’’جو مجھ سے متفق نہیں ہو گاوہ میرا مخالف ہو گا‘‘ کا نظریہ چھوڑ کر ’’میرا ہم خیال نہ بنے تو نہ بن میرا مخالف بھی نہ بن‘‘ والا نظریہ اپنانا چاہئے۔ معاشرےمیں کینہ، کپٹ، حسد اور کدوت جیسی مہلک اور وبائی بیماریوں کے پھیلاؤ سے بچنے کے لئے محبت، اخوت، مودت اور یگانگت کے حفاظتی ٹیکے ہر دل کو لگانا چاہئے۔ تاکہ ماحول سازگار اور پر امن رہے ، ہمارا دین ودنیا سنور جائے۔

یہاں پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا نہایت نفیس قول کوٹ کرتا چلوں گا جسے اپنا کر ملک وقوم ترقی کے نقطۂ عروج تک پہنچ سکتی ہے۔

"إن الله ليؤيد الدولة العادلة وإن كانت كافرة، ولا يؤيد الدولة الظالمة وإن كانت مسلمة" جس ملک میں عدل وانصاف کی بالادستی ہو اس کی رب العالمین مدد فرماتا ہے اگرچہ وہ ملک کافر ہی کیوں نہ ہو اور جس ملک میں ظلم وزیادتی کا دور دورہ ہو اس کی رب العزت تائید نہیں کرتا اگرچہ وہ اسلامی ملک ہی کیوں نہ ہو۔
عدل وانصاف کی بالادستی اور اچھے حکمران لانے کے لئے پہلے ہمیں خود ٹھیک ہونا ہو گا کیونکہ ’’أعمالكم عمالكم‘‘ بجا ہے۔ جیسے ہم ہوں گے ویسے ہمارے حکمران ہوں گے۔ یہ فلسفہ کسی مخصوص پارٹی جیالوں پر نہیں سب پر فٹ آتا ہے۔

تقریباًنصف صدی سے قائم اس دائرہ نما محیط سے نکل کر حقیقی تبدیلی لانے کے لئے کتاب وسنت کو اپنا دستور وضابطہ بنا کر لوگوں میں Awareness پیدا کرنے کی اجتماعی سطح پر جد وجہد کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ’’خوشحال ترقی یافتہ بلگتستان‘‘ دینے کا ہمارا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ کیونکہ دار الفناء ودارالبقاء کی کامیابی وکامرانی کا راز ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ کے راہنما اصول کے نفاذ میں مضمر ہے۔ آخر میں ان دعائیہ کلمات کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔ اللهم ول أمورنا خيارنا ولا تول أمورنا شرارنا، ولا تسلط علينا من لا يخافك فينا ولا يرحمنا، برحمتك يا أرحم الراحمين.
 

Yasin Sami
About the Author: Yasin Sami Read More Articles by Yasin Sami: 9 Articles with 8938 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.