مودی سرکار کے نشانے پر تبلیغی جماعت کیوں؟

کیا واقعی ’تبلیغی جماعت ‘ہندوستانی سرکار کے نشانے پرہے ؟

یہ سوال مرکزی وزارت ِ داخلہ کے ایک ایسے ’مکتوب ‘ سے اٹھ کھڑا ہوا ہے ‘جو ریاستی سرکاروںکواس ہدایت کے ساتھ بھیجا گیا ہے کہ اُن غیرملکی مبلغین پر‘جوسیاحتی ویزوں پر ہندوستان آتے ہیں مگر تبلیغ میں لگ جاتے ہیںاور اس طرح ویزوں سے متعلق اصولوںاورضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘نظررکھی جائے ‘ انہیں’ملک بدر ‘ کیاجائے اوران کے ناموں کی فہرست مرکزکوبھی سونپی جائے تاکہ آئندہ کے لیے ملک میںان کے داخلے پرروک لگائی جاسکے۔

سچ تو یہ ہے کہ مرکزی وزارت ِ داخلہ کے مکتوب میں ’تبلیغی جماعت ‘کا نام شامِِل نہیں ہے لیکن چونکہ ’تبلیغ ‘کے کام میں یہی جماعت سرگرم ہے اس لیے مسلم حلقوںمیںبھی اورغیرمسلم حلقوںمیں بھی سمجھا یہی جارہا ہے کہ مرکزی وزارت ِ داخلہ نے ’تبلیغی جماعت ‘ کا نام لیے بغیرغیرملکی مبلغین کا بہانہ بنا کر اسی پر نشانہ سادھا ہے ۔

’تبلیغی جماعت ‘ کے ذمے داروں کی جانب سے ابھی تک مرکزی وزارت ِ داخلہ کے مکتوب پرکسی قسم کا ردّعمل سامنے نہیں آیاہے … اورشاید آئے گا بھی نہیںکیونکہ ’تبلیغی جماعت ‘ کی سرشت ’بات کا بتنگڑ‘ بنانے والی نہیں ہے ۔ ہاںمسلمانوں کی مختلف مذہبی اورسماجی تنظیموں اورجماعتوں کی طرف سے کچھ ردعمل ضروری سامنے آئے ہیں۔ سب سے سخت ردعمل جمعیتہ علما ء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی کا تھا کہ انہوں نے ممبئی کے آزاد میدان میںایک بھرے مجمع کے سامنے کہا تھاکہ ’’اگرمرکزی سرکار یہ سمجھتی ہے کہ اس طرح کے فیصلے سے وہ مسلمانوں کوتبلیغ سے روک سکے گی تووہ یہ سمجھا کرے اوراب تو ہم مسلمان تبلیغ میںمزیدوقت لگائیںگے ‘‘۔ جہاںتک ’تبلیغی جماعت ‘ کے ردّعمل کا سوال ہے تو اسے شاید اس لیے کسی ردّعمل کی ضرورت نہیںہے کہ اس کے ذمے داران بخوبی جانتے ہیں کہ غیرملکی مبلغین نہ ویزا کے اصولو ں اور ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اورنہ ہی ان کی جماعت ایسے کاموںاور ایسی سرگرمیوں میںمصروف ہے جوقانون کی نظر میںجرم ہیں ۔اور یہ کہ اس کے مبلغین ‘ملکی بھی اورغیرملکی بھی ‘ان ہی اصولوںاورضابطوں پرعمل کرتے ہیں جوملک کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں۔

تبلیغ کے عالمی مرکزنظام الدین دہلی کے ذمے داروں میںسے ایک ذمے دار کے مطابق ’’ 1960ہی سے سرکار ایسی پابندیاں لگارہی ہے مگرتبلیغی جماعتیں چونکہ تمام قانونی پہلوؤںپر عمل کرتی ہیں اس لیے قابل ِ گرفت نہیںہوتیں اوررہی بات تبلیغ کرنے کی تو‘روک غیر مسلموںمیںتبلیغ کرنے پرہے اور ہم توصرف مسلمانوںمیں تبلیغ کرتے ہیں‘ویسے ایسے مکتوبوں سے بیرونی ملک کی جماعتوں کوکچھ دشواریاں ضرور پیش آتی ہیں‘‘۔

یہ حقیقت کسی سے بھی پوشیدہ نہیںہے کہ ٰ ’تبلیغی جماعت ‘ایک ایسی خالص مذہبی جماعت ہے جو مسلمانوں کو ’ایمان ‘بچانے کی اور’اسلامی اصولوںاور ضابطوں ‘ یعنی روزہ ‘نماز‘کلمہ ‘حج اورزکوٰۃ کے فرائص پرعمل کرنے کی دعوت دیتی ہے ‘وہ نہ غیرمسلموں میںتبلیغ کرتی ہے اورنہ ہی سنگھ پریوار کی طرح ’ گھرواپسی ‘ جیسی کسی شرانگیزتحریک کو پروان چڑھاتی ہے اورنہ ہی وہ وی ایچ پی اوربجرنگ دل کے اس دعوے کی کہ ’ ہم 2020 تک سارے مسلمانوںکوہندوبنادیںگے ‘ تقلید میں یہ دعوے کرتی ہے کہ ’ہم ہندوؤںکومسلمان بنائیںگے ‘… ایک خالص غیرسیاسی اورغیرمتشدد جماعت کی حیثیت سے ’تبلیغی جماعت‘ کی ساری دنیا میںایک ساکھ ہے لیکن مرکزی وزارت ِ داخلہ کے مکتوب کے بعد ’تبلیغی جماعت ‘ پر بالخصوص میڈیا کی طرف سے یوں انگلی اٹھنے لگی ہے جیسے کہ یہ بے حد متنازعہ جماعت ہو … ثبوت کے طورپر انگریزی کے کثیرالاشاعت روزنامہ ’ٹائمزآف انڈیا‘ میںشائع ہونے والی ایک تحریر کے کچھ اقتباسات بطور حوالہ کے پیش ہیں۔

29 اپریل کو’ٹائمزآف انڈیا‘ کی ویب سائٹ پرسیدمحمد کی ایک تحریر بعنوان Tableegi Jamat :Extermist or Pacifist?یعنی ’تبلیغی جماعت : شدت پسند یاامن پسند؟‘شائع ہوئی ہے ۔
مضمون نگار نے پہلے پیراگراف میںمرکزکے اس مکتوب کا جوریاستی سرکاروں کوبھیجا گیا ہے حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مکتوب میں ’تبلیغی جماعت ‘ کا ذکرنہ ہونے کے باوجود ’’مسلم فرقہ میں بڑے پیمانے پر یہ احساس پایاجارہا ہے کہ ’تبلیغی جماعت ‘ سرکار کے نشانے پرہے ‘‘… آگے تحریر ہے کہ ’’تبلیغی جماعت تنازعات سے متعلق اجنبی نہیںہے ‘‘ یعنی یہ کہ ’تبلیغی جماعت‘ کے ساتھ تنازعے لگے رہے ہیں ۔لیکن مضمون نگار نے جماعت سے متعلق کسی ایک بھی ’تنازعے ‘کا ذکر نہیںکیا ہے بلکہ مذکورہ جملہ لکھنے کے بعدانہوںنے 1920میں ’حضرت جی ‘ یعنی مولانا الیاس کاندھلویؒ کے ہاتھوں ’تبلیغی جماعت ‘ کی بنیاد کا ذکرکیاہے … مگر انہوںنے یہ ذکرکرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی ہے کہ ’جماعت‘ کی بنیاد کیوں رکھی گئی تھی !

کچھ تذکرہ ’تبلیغی جماعت ‘ کی بنیادکا ضروری ہے ۔ حضرت مولاناالیاس ؒ نے جب مسلمانوںمیں دین سے بڑے پیمانے پر دوری دیکھی تو وہ تڑپ اٹھے تھے اورانہوں نے مسلمانوںکودین سے جوڑنے اوران کی اصلاح کے لیے اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ اورجب انہیںیہ اطلاع ملی کہ مختلف ہندوتنظیمیں دین سے نابلد مسلمانوںکو مرتدکررہی ہیںتو انہوںنے ’تبلیغی تحریک ‘ شروع کی۔

جمعیتہ علما ء (مہاراشٹر) کی قانونی امداد کمیٹی کے سکریٹری گلزاراعظمی کے بقول ’’حضرت مولانا الیاس ؒ نے جب دیکھاکہ میوات میں ارتداد پھیل رہا ہے تو’تبلیغی تحریک ‘ کے ذریعے انہوںنے مسلمانوںکو ارتداد سے بچانے کی کوشش شروع کی‘ وہ بذات ِ خود میوات گئے اورمسلمانوں کے گھرگھر جاکرانہیں دین کے تقاضوں اورضروریات سے آگاہ کیا ‘انہیں بتایاکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کیا ہیں‘ وہ بخوبی جانتے اورسمجھتے تھے کہ وہی مرتد ہورہے ہیں جودین سے نابلد ہیں‘ مولانا الیاس ؒ کی کوششوں سے میوات میں ارتدادتھم گیا اورآج وہاں گھرگھر دین کا بول بالا ہے ‘ تویہ ’تبلیغی جماعت‘ بنیادی طورپرمسلمانوں کے اندرہی تبلیغ کی تحریک ہے ‘ اس کا کسی غیرمسلم کو مسلم بنانے سے کوئی تعلق نہیںہے اورآج کے اس مادی دورمیںمسلمانوںکے لیے ‘جودین سے دورہو تے جارہے ہیں اس تحریک کی اہمیت اور ضرورت ہے ‘‘۔
سیّد محمد نے اپنے مضمون میں ان ہندوتنظیموں کا ‘جِن میں آریہ سماج نامی تنظیم پیش پیش تھی کوئی ذکرنہیںکیاہے جو مسلمانوں کی ’شدھی ‘ یا آج کی اصطلاح میں ’گھرواپسی ‘کی مہم چلائے ہوئے تھیں… مسلمانوںکو مرتد بنانے کا ذکرجب بھی ہوگا ’تبلیغی جماعت‘ کا ذکرلازمی ہوگا۔آج بھی برہانپور اورمہاراشٹر کے ست پڑا پہاڑی سلسلے میں تڑوی پٹھانوں اوریوپی کے ہاتھرس ’آگرہ اورمتھرا وغیرہ کے مسلمانوںمیں ارتداد کے خلاف یہی جماعت سینہ سپرہے ۔

مضمون نگار مزیدتحریر فرماتے ہیں کہ ’’اس کے غیرسیاسی اوراس کے ٹکراؤ نہ کرنے والے مزاج کے باوجود’ تبلیغی جماعت ‘پرمسلم فرقے کے اندراورباہرسے نکتہ چینیاں ہوتی رہی ہیںنیزیہ کہ اس جماعت کو روایت پسند Ritualisticاورشدت پسند Extermistقرار دیاجاتاہے … اوریہ مانا جاتا ہے کہ اس کے جوسبق ہیں وہ اس سے منسلک افراد (یعنی اراکین ِ جماعت )کو ’سخت گیر اعتقادات‘کی طرف لے جاتے ہیںجس کی وجہ سے انقلابی تبدیلیوں Radicalisationکا خطرہ ہے ‘‘۔

مضمون نگار نے ’تبلیغی جماعت ‘ کے اسباق یا نظریات کودیوبندی نظریۂ فکرکہہ کر’دوسروں ‘کے ذریعے جماعت کو ترقی اورروشن پسندی کی مخالف Obscuranlist کہہ کر نکتہ چینی کرنے کا بھی ذکرکیاہے … انہوںنے صوفیوں کے ایک وفد کا بھی ذکرکیا ہے جووزیراعظم نریندرمودی سے ملا تھا اوران سے یہ درخواست کی تھی کہ Radicalisation کو جِسے وہ ’وہابیت ‘کہتے ہیں ختم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ مضمون نگار نے حالانکہ ’فضائلِ اعمال ‘کا ذکر کرتے ہوئے ’تبلیغی جماعت ‘ کی اس صفت کا اعتراف کیاہے کہ وہ ’جہاد‘ اور’تشدد‘کے نظریئے کی تبلیغ نہیںکرتی اور یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب سمیت کئی ملکوںمیں اس جماعت پر’پابندی ‘ ہے اورہندوستان کے اندربھی مسلمانوںکے کئی فرقے اپنی مسجدوںمیں اسے آنے سے روکتے ہیں لیکن مضمون کچھ اس اندازسے تحریر کیا گیا ہے کہ وہ ’جماعت ‘ کوکسی شدت پسند ‘قدامت پسند‘ اور سخت گیر جماعت کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کرتا زیادہ نظر آتاہے ۔

مضمون نگار نے آگے چند ایسی باتوں کی جانب بھی اشارہ کیاہے جو ’مرکزی سرکار‘ کی ذہنیت کواُجاگر کرتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’تبلیغی جماعت ‘ ہندوؤں کی شدت پسند تنظیموں کی طرح ’گھرواپسی ‘ کی تحریک نہیں چلاتی بلکہ وہ گھرگھرجا کر صرف مسلمانوں کی دینی اصلاح کی کوشش کرتی ہے لیکن اب مرکزی وزارتِ داخلہ نے جومکتوب دیاہے اورجس طرح بقول جمعیتہ علما ء ہند نالگنڈہ میں پولس نے جماعت کے مبلغین کی تصویریں کھینچی ہیں اس سے ایک طرح کاشک وشبہ بڑھ رہا ہے ۔ مضمون نگار مزیدلکھتے ہیں کہ کہیں ایسا تونہیں کہ مسلمانوںکے کسی مخصوص گروپ کو بڑھانے اورکسی ایک مخصوص گروپ کی اہمیت کو گھٹانے کی اس کوشش سے مرکزمسلمانوں میںدراڑڈالنے کی کوشش کررہا ہے ؟سیدمحمد یہ سوال بھی پوچھتے ہیں کہ ’’سب کا ساتھ ‘ سب کا وکاس ‘کیا کوئی گھنٹی بجی ؟‘‘

یہ سچ سامنے ہے کہ ’تبلیغی جماعت ‘ تشدد پسند نہیں اورنہ ملک دشمن ہے ۔ یہ بھی سچ سامنے ہے کہ وہ نہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہے اورنہ غیرملکوںمیں جاکروہاںکے قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہے بلکہ بقول گلزاراعظمی ’’جماعت کے جو لوگ غیرملکوں سے آتے ہیں ‘ان کا اپنے وطن سے نکلتے ہوئے ہی قیام کہاں ہوگا ‘ یہ طے ہوتاہے ‘تمام سرکاری کلیرنس موجود ہوتی ہیں اس لئے یہ کہنا کہ ویزا کے اصولوںکی خلاف ورزی ہوتی ہے غلط ہے ‘نہ یہ ویزے کے اصولوںکی اورنہ ہی ملکی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ یہ سختی سے اس کی پابندی کرتے ہیں‘‘۔

ایک ایسے وقت میں جب ملک میں مودی سرکار ہے اور ’اسلاموفوبیا‘ کا زورہے ‘ مرکزی وزارت ِ داخلہ کی طرف سے اگرواقعی ’تبلیغی جماعت ‘ کونشانے پرلینے کی کوئی کوشش ہوتی ہے تو اسے افسوس ناک ہی کہنا ہوگا۔ یہ حقیقت سامنے ہے کہ سنگھ پریوار ’گھرواپسی ‘ کی مہم سے پیچھے نہیں ہٹا ہے‘ ’لوجہاد‘ کی شرانگیزمہم اب یہ رخ اختیارکرگئی ہے کہ فرقہ پرست شورمچاتے ہیں غیرہندوؤں کی بیٹیوں کو اپنی ’بہوئیں‘ بناؤاور یہ کہ ملک کے ایک بڑے حصے میںارتداد پھیل رہاہے … ظاہرہے کہ وہی مسلمان جو دین کی بنیادسے نابلدہوںگے ‘مرتد ‘بنیںگے اور انہیںمرتد بننے سے روکنا ہم تمام مسلمانوںکا ہی فرض ہے … اگرایسی کوئی جماعت جو مسلمانوں کو ’ایمان ‘ کی اہمیت سے آگاہ کرتی ہو‘ کام کرنے سے روک دی جائے تودیکھئے مسلمانوںکے لیے حالات کیسے بگڑجائیںگے !

گلزاراعظمی کے مطابق ’’ اصل میںدین سے ناواقف مسلمان ہی بہکاوے میں آتے ہیںاور میںیہ سمجھتا ہوں کہ اگر’تبلیغی جماعت ‘نشانے پرہے تو صرف اس لیے کہ فرقہ پرست یہ نہیںچاہتے کہ مسلمان دین سے واقِف ہوں‘اگر وہ دین سے ناواقِف رہیںگے تو ان کی ’گھرواپسی ‘ آسان رہے گی ‘‘۔

اگر واقعی میں یہ منصوبہ ہے تو یہ بے حد خطرناک منصوبہ ہے ‘ اس کے خلاف آوازاٹھنی ہی چاہئے کیونکہ ’ایمان ‘ کی دولت ہی مسلمانوںکے لیے سب سے عظیم دولت ہے ۔

shakeel rasheed
About the Author: shakeel rasheed Read More Articles by shakeel rasheed : 8 Articles with 5017 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.