کیا یہ خدا کے غضب کو دعوت نہیں؟

آٹھ اکتوبر 2005 کے زلزلے کی تباہ کاریوں سے کون واقف نہیں۔ مانسہرہ ، بالاکوٹ، کشمیر کے عوا م پر اﷲ کی ایک بہت بڑی آزمائش آئی تھی۔ اگر چہ پنجاب کے جنوبی علاقوں تک یہ جھٹکے محسوس کیے گئے لیکن مرکز وہ علاقہ ہی تھا۔ اسلام آباد میں مرگلہ ٹاورز کی جوڑی تنہا رہ گئی تھی کہ ایک ٹاور زمین بوس ہو گیا تھا۔

سات بج کراٹھاون منٹ پر یہ زلزلہ آیا تھا۔ ساڑھے دس بجے تک پاکستان کا پورا میڈیا صرف مرگلہ ٹاورز کی تباہی دکھاتا رہا۔ پھر باہر کسی ملک سے اس وقت کے اربابان اختیارات کو اور میڈیا کو پیغام ملا کہ یہاں تو صرف سو ، پچاس افراد ہی ہلاک ہوئے ہیں۔اور آپ سمجھ رہے ہو کہ بہت تباہی ہو گئی ہے۔ خبر لو اپنے ان علاقوں کی جہاں جھیل سیف الملوک کو راستہ نکلتا ہے، جہاں سے سے آنسو جھیل کے لیے گاڑیا چلتی ہیں، جہاں سے کشمیر جنت نظیر کو نگا ہ جاتی ہے۔ سید احمد شہید کے علاقے کی، جہاں زمین ایسی الٹ گئی ہے جیسے کوئی بھری ہوئی پلیٹ کو الٹ کر رکھ دے۔ پھر جب میڈیا نے وہاں کارخ کیا تو کوئی اور خبر چلانا ہی بھول گئے۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ کبھی یہاں کوئی زندہ انسان مکانات میں بھی رہا ہو۔

پچاسی ہزار سے زیادہ افراد لقمہ اجل بنے۔ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوئے۔ ہزاروں بچے یتیم، ہزاروں خواتین بیوائیں، ہزاروں کی گود اجڑی۔ لاکھوں زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو دیکھ کر کبھی تو زبان سے استغفر اﷲ نکلتا تھا تو ساتھ میں سبحان اﷲ بھی کہ اﷲ نے کیسے حالات میں بھی انھیں زندگی سے نوازا۔ لیکن ان کی حالت دیکھ کر کہ کسی کا بازو نہیں ، تو کوئی ٹانگوں سے محروم ہوا، بے اختیار زبان سے استغفراﷲ کا ورد جاری ہوتا تھا۔

یہ سب کچھ بظاہر تو اﷲ کی طرف سے ایک آزمائش تھی۔ لیکن اس سے بڑا امتحان ان لوگوں کے لیے شروع ہو گیا تھا جو کہ ان علاقوں سے باہر تھے یا ان ہی علاقوں میں بالکل زندہ سلامت بچ گئے تھے یا بہت معمولی زخمی ہوئے تھے۔ ان کا امتحان یہ تھا آیا وہ ان بے بس لوگوں کی مدد کرتے ہیں، انکے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں یا انکی تکالیف میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اﷲ پاک سب پر رحم فرمائے، آمین۔
ACCC
میرا چھوٹا بھائی بھی ان دنوں بالاکوٹ میں جاب کرتا تھا۔جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے کے مصداق اسے بھی اﷲ نے زندگی دی۔ اسکے آفس کی عمارت گر گئی تھی۔ اسے ، اسکے باس اور ایک اور ساتھی کو ملبے کے نیچے سے نکالا گیا۔ وہ زخمی تھے۔ ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے روڈ پر آئے۔ ایک ٹیکسی والے کو اشارہ کیا کہ ان تینوں نے بالاکوٹ سے مانسہرہ آنا تھا۔بکنگ کی بات کی۔ اس وقت ٹیکسی عام طور پر دوسو سے اڑھائی سو لیتی تھی۔ لیکن صد افسوس۔ بجائے اسکے کہ انکی حالت دیکھ کر اور ارد گرد لوگوں کی حالت دیکھ کر خدا کی پناہ طلب کرتا، الٹا ایک ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ جج صاحب (میرے بھائی کا باس) تو گو یا بپھر ہی گئے کہ ایک طرف لوگوں پر کیسی اﷲ کی آزمائش آئی ہوئی ہے اور وہ لوگوں کو لوٹنے پر لگے ہوئے ہیں۔ ایک دوسری ٹیکسی والے سے بات کی۔اس نے منہ پھاڑ کر پندہ سو کا مطالبہ کیا۔ غضب خدا کو للکارنے والی بات ہوگئی۔ جج صاحب اور بھائی لوگوں نے آنا تو تھا۔ مسٔلہ رقم کا نہیں تھا۔اس وقت حالات ایسے تھے کہ سب گاڑی رکھنے والوں کو چاہئے تھا کہ زخمیوں کو اپنی اپنی گاڑ ی میں سوار کرتے اور ہسپتال پہنچاتے۔ جیسا کہ کوئی چھ ، سات گھنٹے کے بعد دیکھنے میں آیا۔ لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ انکے پاس پجارو ہے، لینڈ کروزر ہے یا ایکس ایل آئی ہے۔ بس پھیروں پر پھیرے لگا تے رہے اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتے رہے۔

خیر چار و ناچار ٹیکسی والے کو ایک ہزار روپے پر ہائر کیا۔ جج صاحب نے راستے میں ٹیکسی ڈرائیور کو خوب سنائیں کہ ایسے حالات میں تو خدا یا د آتا ہے۔ بندہ اپنے منہ سے نوالا نکال کر دوسرے کے منہ میں ڈالتا ہے اور وہ ایسے میں لاچاروں، بے بسوں کو لوٹنے میں لگا ہوا ہے۔ ڈرائیور ڈھٹائی سے بولا کہ صاحب یہ ہی تو موقع ہے کمائی کا۔ (کیا بات کہی۔ حالانکہ یہ موقع کمائی کا تھا لیکن نیکیاں کمانے کا)۔ یہ کوئی بالاکوٹ کا ایک واقعہ ہی نہیں ہے۔ ہر شہر میں اسی طرح ہوتا ہے۔ موسلادھار بارش ہو رہی ہے۔ ٹیکسی والا اگر ایک مقام کے عام حالات میں ایک سو روپے لیتا ہے تو اس وقت یہ دیکھنے کے باجود کے لوگ مجبور ہیں منہ پھاڑ کر کم از کم دو سو روپے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ یہ کیوں ؟ توجواب کہ یہ ہی تو کمانے کے اوقات ہیں۔رمضان کے دنوں سے کون واقف نہیں۔ مہنگائی کہاں تک پہنچ جاتی ہے۔لاکھ لعنت ہے اور تف ہے ایسی کمائی پر اور ایس بات پر۔ جبکہ عیسائیوں کے ایسٹر کے تہوار پر یا کرسمس کے دنوں میں غیر ممالک میں ہر وہ چیز جو عام آدمی استعمال میں لاتا ہے اسکی قیمت اگر بہت زیادہ بھی ہو تو آدھی کر دی جاتی ہے۔

پھراگلے چند دنوں میں جو آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا اس پر تو شہرکے جانور بھی ماتم کریں۔ جو گھر مکمل گرنے سے بچ گئے ان گھروں میں لٹیروں کی طرح گھس کر قیمتی سامان کو چرایا گیا۔ لوٹنے والے چور ڈاکو نہیں تھے بلکہ موقع پرست تھے۔پھر زخمی خواتین کے کانوں سے بالیاں نکالی گئی۔ مردہ عورتوں کی تو بات ہی نہیں۔ اگر کسی خاتون کی لاش کی کلائی میں سونے کی چوڑیاں نظر آئیں اور نکالے سے نہ نکل سکیں تو ہاتھ کاٹے گئے۔ وقت کی کمی کے باعث اسی طرح کانوں سے بالیاں اور گلے سے لاکٹ کھینچ کر نکالے گئے۔ یہ نہ سوچا گیا کہ لاشوں کی بے حرمتی ہو تی ہے۔ یہاں تک کے اگر کسی امیر گھرانے کا بچہ انگلیوں میں انگوٹھی پہنے نظر آیا یا گلے میں سونے کی زنجیر تو اسکو بھی نہیں بخشا گیا۔بجائے اسک کے انکی لاشوں کو ڈھانپا جاتا، یہ سلوک انکے ساتھ کیا گیا۔

کوئی بتائے کہ ہم بتائیں کیا؟ بجائے استغفار کرنے کے، اپنے کردہ ، ناکردہ گناہوں کی معافی مانگنے کے جب اس قسم کے اعمال کئے جائیں گے تو کیا یہ خدا کے غضب کو پکارنے والی بات نہیں۔ اﷲ ہم سے کیسے راضی ہو۔ اور اسکی ناراضگی کی صورتیں ہم سب کے سامنے آتی رہتی ہیں۔ ہم ہی انجان بنے رہتے ہیں۔
Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 63949 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More