صحت اﷲ کی امانت ہے

صحت اﷲ کی امانت ہے۔ لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کیلئے اس کے ذاتی فائدہ کے علاوہ اس کا دینی فریضہ بھی بنتا ہے۔ اور صحت کے بارے میں لا پرواہی ایک لحاظ سے امانت میں خیانت کے مترادف ہوگی۔ صحت کی حفاظت کے بارے میں ہزاروں حکماء، ڈاکٹروں اور فلاسفروں کے اقوال موجود ہیں۔ مگر ہمارے لئے اصول ہمارے نبی پاک حضرت محمد ﷺ نے چھوڑے ہیں۔ جن پر عمل کر کے ہم اچھی صحت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اور بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ صفائی کی اہمیت نبیﷺ کے اس فرمان سے واضح ہوتی ہے۔کہ " صفائی نصف ایمان ہے"۔ یعنی صفائی کے بغیر مومن کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ صحت کی حفاظت کے چیدہ چیدہ اصولوں میں جسمانی صفائی، ذہنی پا کیزگی، ماحولیاتی صفائی، صحت مند عادات، صحت بخش خوراک اور بر وقت علاج شامل ہیں۔

جسمانی صفائی:۔
ہماری فضا میں خصوصاً شہری علاقوں میں ہر وقت مختلف قسم کے کیمیکل، جراثیم اور وائرس موجود ہوتے ہیں۔ با قاعدگی سے غسل نہ کرنے کی صورت میں یہ ہمارے بدن پر جمع ہو کر خارش اور دیگر جلدی امراض اور الرجی پیدا کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ جراثیم جسم کے نازک حصوں مثلاً بغل میں زخم بھی پیدا کرتے ہیں۔ جسم سے پسینہ کی صورت میں خارج شدہ فاسد مادے تھکاوٹ اور بیماری پیدا کرتے ہیں۔ باقاعدہ غسل کے ذریعہ ان نقصان دہ مادوں اور عوامل کو دور کر کے نہ صرف بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس سے جسم کو ایک قسم کی مالش بھی مل جاتی ہے اور سکون و تازگی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ پانی کی کمی کے باوجود ہفتہ میں ایک بار ضرور غسل فرماتے تھے۔ جسمانی صفائی سے متعلقہ مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا صحت کے لئے بہت اہم ہے۔
 

image


دانتوں کی صفائی:۔
دانت انسانی صحت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خوراک کی ہر چیز دانتوں سے چبائے جانے کے بعد مُنہ سے گزر کر معدہ میں پہنچتی ہے۔ لہٰذا بدن کی صحت کا گہرا تعلق دانتوں کی صحت سے ہے۔ اس لئے ان کی صفائی و صحت بہت ضروری ہے۔ نبی پاک ﷺ صبح بیدار ہونے کے بعد مسواک فرماتے تھے اور مسواک کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھتے تھے تاکہ گرد و غبار اور کیڑے مکوڑوں سے یہ آلودہ نہ ہو جائے۔ آجکل ڈاکٹر بھی ہمیں ٹوتھ برش بند کر کے رکھنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ لیکن یہ پیغام ہمیں ہمارے نبی ﷺ نے چودہ سو سال پہلے ہی دے دیا تھا۔

بیت الخلاء کا طریقہ:۔
نبیﷺ بیت الخلاء سے فارغ ہو کر ہاتھوں کو صاف مٹی سے اچھی طرح مل کر دھوتے تھے۔ اُس وقت صابن نہ ہونے کی وجہ سے یہی بہترین طریقہ تھا۔ صابن دستیاب ہونے کی سہولت میں ہمیں بیت الخلاء سے فارغ ہونے کے بعد لازمً صابن سے ہاتھ دھونے چاہئیں تاکہ معدہ کے ذریعہ پھیلنے والی بیماریوں سے بچا جا سکے۔

کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا:۔
ہمارے نبی ﷺ ہمیشہ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھوتے تھے۔ اور انہیں کپڑے سے خشک نہیں کرتے تھے۔ اس میں حکمت یہ تھی کہ ہاتھ دھونے سے یہ جراثیم دور ہو جاتے ہیں لیکن تولیہ یا کپڑے سے خشک کرتے وقت اس پر موجود جراثیم دوبارہ ہاتھوں پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ آج کل ڈاکٹر صاحبان بھی یہی تلقین کرتے ہیں کہ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھو کر تولیہ سے خشک نہیں کرنا چاہیے۔

ناخن تراشنا:۔
بغیر تراشے یا بڑھائے ہوئے ناخنوں کے اندر جراثیم وغیرہ سے بھری غلاظتیں جمع ہو جاتی ہیں۔ جو کھانا کھاتے وقت خوراک کے ساتھ معدہ میں منتقل ہو جاتی ہیں اور مختلف بیماریوں مثلاً اسہال، ہیضہ، پیچش وغیرہ کا سبب بنتی ہیں۔ لہٰذا ناخنوں کو تراش کر ان بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے ۔رسول ﷲﷺ نے اسی لئے ناخنوں کا بڑھانا منع فرمایا اور ان کو تراشنے کا حکم دیا۔

مونچھوں کا تراشنا:۔
مونچھوں کے بالوں پر سانس کے ذریعے خارج ہونے والے فاسد مادے اور جراثیم اور فضا میں موجود ہر قسم کے ضرر رساں مادے جمع ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ مونچھیں بڑھی ہوں تو یہ مادے ہمارے کھانا کھانے یا پانی و مشروبات پینے کے دوران ہمارے جسم میں داخل ہو کر بیماری پیدا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا بڑھی ہوئی مونچھیں صحت کیلئے نقصان کا باعث ہیں۔

ذہنی پاکیزگی:۔
ہر قسم کے فاسد خیالات یعنی غم و غصہ، حسد، بغض و کینہ حِرص، شہوانیت وغیرہ متعدد بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ جن میں بلڈ پریشر، دل کی بیماریاں۔ معدہ کی تکالیف اور اعصابی بیماریاں شامل ہیں۔ ان بیماریوں سے بچنے کیلئے مثبت اور پا یزہ سوچ کو اپنانا ضروری ہے۔ اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہے اگر ہم اﷲ اور رسولﷺ کے احکامات پر عمل کریں۔ اور قرآن میں جگہ جگہ بیان کئے ہوئے اس بیان پر کامل یقین اور ایمان قائم کریں کہ اﷲ ہمارے دلوں کا حال جانتا ہے۔

ماحولیاتی صفائی:۔
اس سے مراد ہمارے ارد گرد موجود ہر اس چیز کی صفائی ہے جس سے ہماری زندگی کا کوئی تعلق ہے مثلاً ہوا، پانی و خوراک کا صاف ہونا، گھر کے اندر و باہر کی صفائی وغیرہ۔ گھروں سے باہر کوڑے اور گندگی کے ڈھیر اور نشیبی علاقوں میں کھڑا گندہ پانی مچھروں، مکھیوں اور دیگر بیماری پیدا کرنے والے کیڑے مکوڑوں کی افزائش کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور ہر سال لاکھوں لوگ ان کی وجہ سے بیمار پڑتے ہیں اور ہزاروں موت کے مُنہ میں چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا ان غلاظتوں کو جلدی دور کرنا چاہیے۔ کم از کم یہ ضرور کیا جائے کہ کھڑے پانی پر مٹی کا تیل چھڑک دیا جائے اور کوڑے کے ڈھیروں پر کافی مقدار میں چونا ڈال دیا جائے۔ آلودہ پانی بیماریاں پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ پاکستان میں 80 فیصد بیماریاں آلودہ پانی سے پیدا ہو رہی ہیں ان میں ہیضہ، اسہال، پیچش، یرقان، ٹا ئفائیڈ و پیراٹائفائیڈ وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا ان بیماریوں سے بچاؤ کیلئے صاف پانی کا استعمال لازمی ہے۔ آلودہ پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ آجکل مارکیٹ میں کئی فلٹر دستیاب ہیں لیکن وہ غریب آدمی کی رسائی میں نہیں ہیں۔سب سے کم خرچ طریقہ یہ ہے کہ پانی کو شفاف شیشہ یا پلاسٹک کی بوتلوں میں بھر کر دھوپ میں ایک دو گھنٹے تک پڑا رہنے دیں۔سورج کی شعائیں جراثیم کشی کا کام کرتی ہیں۔ دوسرا کم خرچ طریقہ بلیچنگ پاؤڈر کا استعمال ہے اس کیلئے 80 لٹر پانی میں ایک گرام بلیچنگ پاؤڈر ڈال کر اچھی طرح مکس کریں اور پھر آدھ سے ایک گھنٹہ تک چھوڑ دیں اس کے بعد پانی کو اچھی طرح پھینٹ لیں اور پھر استعمال کریں۔ تیسرا سب سے عام طریقہ پانی کو 5سے7منٹ تک اُبال کر صاف کر نے کا ہے مگر اس میں ایندھن کا خرچہ کافی آتا ہے۔
 

image

گھر کے اندر کی صفائی:۔
گھر کے اندر کسی قسم کا کوڑہ کرکٹ وغیرہ جمع نہ ہونے دیں۔ روزانہ پورے گھر کی صفائی کیا کریں۔ فرنیچر بستروں وغیرہ پر پڑی گرد سانس کی بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔ بچی کچھی کھانے پینے کی چیزیں خاص کر رات کو کھلی نہ چھوڑیں۔ یہ بیماری پھیلانے والے کیڑوں کو دعوت دیتی ہیں۔ ان کو ڈھکن والی بالٹیوں یا پلاسٹک کے تھیلوں میں بند کر دیا کریں۔ صحت کیلئے با ورچی خانہ اور غسل خانہ کی با قاعدہ صفائی ضروری ہے۔

خواتین کا سر ڈھانپنا:۔
فضا میں موجود گرد وغبار میں قسم قسم کے مضر صحت جراثیم اور وائرس ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ یہ سر کے با لوں سے چپک کر وہاں جمع ہوتے ہیں اور بالوں کی چکنائی میں نشو نما پاتے ہیں۔ بالوں کو چھونے یا خارش کرنے سے بال جھڑتے ہیں اور کھانے پینے کی اشیاء میں گر کر انہیں جراثیم سے آلودہ کر کے بیماری کا باعث بن سکتے ہیں۔ لہٰذا خواتین کو گھر میں بھی خصوصاً کھا نا تیار کرتے وقت اور کھانا پیش کرتے وقت سر کو لازماً ڈھانپ کر رکھنا چاہیے۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے عورتوں کیلئے سخت تلقین فرمائی کہ وہ سر ڈھانپ کر رکھا کریں اس میں ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ اس سے ہم بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔

تھوکنے میں احتیاط:۔
جگہ جگہ تھوکنا نہ صرف غیر مہذب اور دوسروں کیلئے کراہیت کا سبب ہے بلکہ یہ بیماریاں پھیلانے کا بڑا مؤثر ذریعہ ہے۔ ہمیں تھوکتے وقت خیال رکھنا چاہیے کہ دوسرے متاثر نہ ہوں۔ اس کیلئے ہمارے نبیﷺ اس اَمر کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے کہ جگہ جگہ نہ تھوکا جائے اور یہ عمل محفوظ طریقہ سے کیا جائے۔

سوتے وقت سانس کی نالی کی حفاظت:۔
رات کو سوتے وقت اگر ہمارے کپڑوں اور بستر پر گرد و غبار موجود ہو تو وہ ہماری نیند کے دوران سانس کی نالی سے پھیپھڑوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور الرجی اور سانس کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ اس سے بچنے کا طریقہ بھی اﷲ کے رسولﷺ نے ہمیں یہ بتایا کہ آپ سونے سے پہلے کپڑے تبدیل کرتے تھے اور بستر کو اچھی طرح جھاڑ کر صاف کر لیتے تھے۔ ہمیں بھی اس طریقہ کو اختیار کر کے صحت کی حفاظت کرنی چاہیے۔

سنت کے مطابق سونے کا طریقہ:۔
دائیں کروٹ پر لیٹیں اور دائیں ہاتھ سر کے نیچے رکھ لیں۔ الٹا یعنی پیٹ کے بل سونے سے پر ہیز کریں۔
پاکی کا بیان:۔ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس وقت تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ وضو کے پانی میں نہ ڈالے جب تک کہ ہاتھ کو تین مرتبہ نہ دھو لے کیونکہ تم کو معلوم نہیں کہ تمہارا ہاتھ کس کس جگہ پڑا۔

چھینکتے، کھانستے اور جمائی لیتے وقت مُنہ کو ڈھانپنا:۔
ان تینوں صورتوں میں کسی شخص کی سانس کے ذریعے خارج شدہ فاسد مادے اور جراثیم ارد گرد کے لوگوں کے جسم میں سانس کے ذریعے داخل ہو کر انہیں بیمار کر سکتے ہیں۔ لہٰذا چھینکتے، کھانستے اور جمائی لیتے ہوئے ہمیں مُنہ کو کپڑے یا ہاتھ سے ڈھانپ لینا چاہیے تاکہ دوسرے لوگ متا ثر نہ ہوں۔ اﷲ کے نبیﷺ بھی چھینک یا جمائی کے وقت کپڑے یا ہاتھ سے مُنہ ڈھانپ لیا کرتے تھے۔ چھینکنے یا کھانسنے سے ٹی بی جیسا خطرناک مرض بھی ایک مریض سے دوسرے شخص کو منتقل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں مُنہ کو دور کرنا اور کپڑے سے ڈھانپنا ضروری ہے۔

کرنسی نوٹ گنتے وقت تھوک کا استعمال:۔
ہم لوگ عموماً نوٹوں کی گنتی کرنے کے دوران اُنگلیوں کو بار بار تھوک سے تر کرتے ہیں۔ چونکہ یہ نوٹ کئی بار ایسے عمل سے گزر چکے ہوتے ہیں لہٰذا ان پر بیمار لوگوں کی تھوک سے مختلف بیماریوں کے جراثیم وائرس موجود ہوتے ہیں۔ جو ہر نئے گننے والے کے منہ میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور نیا گننے والا ان میں اپنے جرا ثیم کا اضا فہ بھی کر دیتا ہے۔ یہ کئی قسم کی خطرناک بیماریاں پھیلانے کا ایک موثر اور بڑا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس عادت کو ترک کر کے بوقتِ ضرورت انگلیوں کو پانی سے گیلا کرنا چاہئے تاکہ ان بیماریوں سے بچا جا سکے۔

رات کو کھانے پینے کے برتنو ں کا ڈھانپنا:۔
رات کے وقت اگر کھانے پینے کی اشیاء کھلی چھوڑدی جائیں تو ان پر کیڑے مکوڑے اور زہریلے جانور جمع ہو کر انہیں جراثیم اور زہر آلودہ کر دیتے ہیں۔ اور ان چیزوں کے کھا لینے سے صحت کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مثلاً لال بیگ گٹروں وغیرہ میں پلتے ہیں اور غلاظت سے ہیضہ، اسہال، ٹائفائڈ اور پیچش جیسی خطرناک بیماریوں کے جراثیم کھانوں میں منتقل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا رات کو کھانے پینے کی کوئی بھی چیز بغیر اچھی طرح ڈھکے ہوئے نہ چھوڑی جائے۔ اس بارے میں ہمارے نبی ﷺ تاکید فرماتے تھے کہ پانی کے مشکیزوں کا منہ اچھی طرح باندھ دیا کرو اور کھانے کے برتن کو ڈھک کر اس پر کوئی لکڑی وغیرہ رکھ دیا کرو۔ ہمیں اس سنت پر عمل کر کے اپنے اور اہل خاندان کو ضررسے بچانا چاہیے۔

صحت مند عادات:۔
انسانی صحت کا اُس کی عادات سے گہرا تعلق ہے۔ اور ہر انسان صحت بخش عادات اپنا کر نہ صرف بہت سی بیماریوں سے بچ سکتا ہے بلکہ اچھی صحت سے بھی لُطف اندوز ہو سکتا ہے۔ مدینہ منّورہ کا ایک واقعہ ہے کہ وہاں ایک طبیب نے اپنا مطب شروع کیا تو بہت کم مریض اُس کے پاس علاج کیلئے آتے تھے اُس نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا مدینہ کے لوگ بیمار نہیں ہوتے لوگوں نے جواب دیا کہ وہ محمد ﷺ کے بتائے ہوئے اُصولوں پر عمل کرتے ہیں اور بیماریوں سے دور رہتے ہیں۔ یہ باتیں سُن کر طبیب نے کہا کہ یہی حقیقی علاج ہے کہ لوگ بیمار ہی نہیں پڑتے۔صحت کے یہ کیا سنہرے اُصول ہیں ان کو مختصراً بیا ن کرتے ہیں۔
 

image

صبح نیند سے بیدار ہو کر اُٹھنے کا طریقہ:۔
نیند کی حالت میں انسان کے دل پر خون کا دباؤ کم ہوتا ہے اور دل کو کم کام کرنا پڑتا ہے لیکن رات کی نیند سے صبح بیدار ہوتے ہی فوراً اُٹھ کھڑے ہونے سے بلڈ پریشر میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی دل پر درد بھی بڑھ سکتا ہے۔ اس خطرناک صورت حال سے بچنے کیلئے ہمیں نبی پاکﷺ کے معمول پر عمل کرنا چاہئے۔ آپ ﷺ بیدار ہونے کے بعد بستر پر بیٹھ کر کچھ دیر تک قرآنی آیات کا وِرد فرماتے تھے۔ اس کے بعد کھڑے ہوتے تھے۔ اور پھر اپنے معمولات شروع کر دیتے تھے۔ ہمیں بھی اسی سنت پر عمل کرنا چاہیئے۔ آج کل طبی ماہرین بھی اس معمول کو تجویز کرتے ہیں۔

کھانا کھا نے کے بعد آرام کی ضرورت:۔
کھانا کھانے کے بعد خون کا زیادہ بہاؤ معدہ کی طرف ہو جاتا ہے۔ اور دوسرے اعضاء اور دماغ کی طرف ہی بہاؤ نسبتاً کم ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں فوراً چلنا پھر نا شروع کر دینا، ورزش کرنا یا کوئی مشقت کا کام کرنا دل کے دورہ کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سے بچاؤ کیلئے ہمیں رسول اﷲﷺ کے معمول پر عمل کرنا چاہئے یعنی آپ ﷺ کھانے کے بعد تقریباً ایک گھنٹہ آرام فرماتے تھے۔ اس کے بعد روزمرہ کے کام سر انجام دیتے تھے۔

غُسل کا صحیح طریقہ:۔
بغیر گرم کئے ہوئے پانی کا درجہ حرارت انسانی جسم کے درجہ حرارت سے کم ہوتا ہے۔ اگر ٹھنڈا پانی اچانک جسم پر ڈال لیا جائے تو جسم میں ایک قسم کی کپکپی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جسم کا مدافعتی نظام تیزی سے حرکت میں آجاتا ہے۔ اس حالت میں سانس رُکنے کی سی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور بعض اوقات دل کے متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ عام بات ہے کہ دل کے مریض اکثر اوقات نہانے کے دوران دل کے دورہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ غُسل کا بہترین طریقہ بھی رسول اﷲ ﷺ کا طریقہ ہے۔ آپ ﷺ رفع حاجت کے بعد استنجا فرماتے اور پھر صاف مٹی سے ہاتھوں کو اچھی طرح رگڑ کر دھوتے تھے۔ پھر گیلی انگلیوں سے سر کے بالوں میں خلال فرماتے۔ اس کے بعد سر پر پانی ڈالتے اور پھر سارے بدن پر پانی ڈالتے تھے۔

پانی پینے کا طریقہ:۔
کھڑے ہو کر اور ایک سانس میں پانی پینا صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔ صحیح طریقہ جو ہمارے نبیﷺ نے بتایا وہ یہ کہ آرام سے بیٹھ کر اﷲ کا نام لے کر تین سانسوں یا وقفوں میں پانی پئیں۔

کھانا کھانے کا طریقہ:۔
ہمارے نبی ﷺ ہمیشہ اﷲ کا نام لے کر کھانا شروع کرتے تھے۔ صرف اپنے سامنے رکھا کھانا کھاتے اور دائیں ہاتھ سے کھاتے تھے اور کبھی پالتی مار کر نہ بیٹھتے ایک گھٹنا موڑ کر سیدھے بیٹھ کر کھاتے۔ کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھاتے۔ اُن کا فرمان ہے کہ مومن ایک انتڑی اور کافر سات انتڑی رکھتا ہے یعنی مومن کم خور اور کافر بسیا خور ہوتا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ معدہ کے تین حصے کرو۔ ایک خوراک کیلئے ایک پانی اور ایک خود معدہ کیلئے چھوڑ دو۔ یہ صحت کا سنہرا اصول ہے۔ زیادہ کھانے سے وزن کا غیر ضروری بڑھ جانا، بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ کا خطرہ ہوتا ہے۔ کم کھانے اور پانی کے زیادہ استعمال سے ان بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ کوشش کریں کہ پانی کھانا شروع کرنے سے کچھ دیر پہلے پئیں۔

گرم کھانے کو پھونک سے ٹھنڈا کرنا:۔
اکثر لوگوں کی عادت ہے کہ گرم کھانا یا چائے وغیرہ پیتے وقت وہ اسے بار بار پھونک مار کر ٹھنڈا کرتے جاتے ہیں۔ اس طریقہ سے ہماری سانس کی نالی سے خارج ہونے والے جراثیم کھانے یا مشروب میں شامل ہو کر بیماری پیدا کرتے ہیں۔ رسول اﷲﷺ نے کھانے یا مشروب پر پھونکنے سے منع فرمایا۔ لہٰذا ہمیں اس غیر صحت مند عادت سے گریز کرنا چاہئے تاکہ بیماری سے بچ سکیں۔

کمر کی حفاظت:۔
کمر یعنی ریڑھ کی ہڈی انسانی جسم کا ستون ہے لہٰذا اسکی حفاظت بہت ضروری ہے۔ کمر پر زیادہ جھکاؤ یا دباؤ سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہے اور انسان معذور ہو سکتا ہے۔ اس سے بچاؤ کیلئے اسے ہر حالت میں سیدھا رکھنا ضروری ہے۔ اس کا عملی نمونہ ہمارے نبی ﷺ نے اپنے روز مرّہ کے معمولات میں پیش کیا۔ آپ ﷺ کمر کو اکثر اوقات کپڑے سے باندھ کر رکھتے اور کمر کو سہارہ دینے کیلئے تکیہ کا استعمال کرتے تھے۔

رات کو سونے سے پہلے ہاتھ دھونا:۔
اگر ہاتھوں کو چکنائی لگی ہو تو رات کو نیند کے دوران یہ کیڑے مکوڑوں اور زہریلے جانوروں کو متوجہ کر سکتی ہیں اور ان کے کاٹنے سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ رات کو سونے میں چوہوں کا انگلیوں پر کاٹ لینا عام بات ہے۔ اس کی وجہ انگلیوں پر لگی چکنائی و خوراک کی خوشبو ہو سکتی ہے۔ اس لئے نبیﷺ نے رات کو چکنائی والے ہاتھ دھونے کی تلقین فرمائی ہے۔

تمباکو نوشی، نسوار، و نشہ آور چیزوں سے پر ہیز:۔
تمباکو کے دھویں میں کم از کم 18 مضر صحت کیمیکل پائے جاتے ہیں جو مختلف بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں جن میں پھیبھڑوں کا سرطان، دل کے امراض خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ نسوار اور پان سے مُنہ کے السر اور سرطان کے بہت امکانات ہوتے ہیں۔ چرس، افیون و ہیروئن انسانی صحت کو تباہ کر کے اُسے موت کے مُنہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان نشہ آور چیزوں پر بے حد پیسہ ضائع ہوتا ہے اور نشے کا عادی شخص معاشرے کا بے کار جُز بن کر اُلٹا اس پر بوجھ بن جاتا ہے۔ اسی لئے اسلام میں ہر قسم کے نشے کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ لہٰذا اچھی صحت کیلئے نشہ آور چیزوں سے بچنا لازمی ہے۔

صحت بخش خوراک:۔
اچھی صحت کیلئے اچھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحت کے اصولوں کے مطابق اچھی خوراک کی تعریف یہ ہے کہ یہ غذائیت سے بھرپور ہونے کے ساتھ جلدی ہضم ہوجانے والی، متوازن اور سادہ ہو، اس سلسلہ میں بھی ہمیں اپنے نبی ﷺ کی سنت پر عمل کر کے اچھی صحت برقرار رکھنی چاہئے۔ ہمارے نبیﷺ بہت سادہ خوراک کھاتے تھے جس میں سبزیاں خاص کر لوکی، کدو، ککڑی وغیرہ پسند فرماتے تھے۔

خوراک میں صرف حلال چیزوں کا استعمال:۔
جسمانی صحت اور اخلاقی صحت دونوں کے حوالے سے اسلام میں حلال و حرام کا بڑا تعلق ہے۔ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ صحت کیلئے ہر لحاظ سے مضر ہیں۔ مثلاً سُور کا گوشت انتہائی مہلک بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔ شراب سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں جن میں معدہ کا السر، دل اور گردوں کا متاثر ہونا، جگر کا سکڑنا اور سرطان اور بلڈ پریشر کی زیادتی وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح جو چیزیں اسلام نے مکروہ قرار دی ہیں اُن کے کھانے میں بھی ضرر ہے لہٰذا ان سے بھی پرہیز بہتر ہے۔

بغیر چھنے آٹے کی روٹی کا استعمال:۔
آجکل ہم لوگ چھنے ہوئے سفید آٹے کی روٹی وڈبل روٹی کھانے کے عادی ہو گئے ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اس سے قبض، بڑی آنت کا سرطان، بلڈ پریشر، دل کی بیما ریاں اور سر درد کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ بغیر چھنے آٹے کی روٹی میں ایک طرف تو غذائیت زیادہ ہوتی ہے تو دوسری طرف اس میں بورے کا ریشہ ہونے کی وجہ سے یہ فاسد مادوں کو معدہ میں جمع نہیں ہونے دیتا۔ لہٰذا اس کے استعمال سے انسان کئی مہلک بیما ریوں سے محفوظ ہو سکتا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے تمام عمر کبھی بھی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائی۔

بر وقت علاج:۔
ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ دُنیا میں کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا علاج موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کیلئے کوشش اور جستجو لازم ہے۔ اور چونکہ صحت اﷲ کی امانت ہے لہٰذا بیماری کی صورت میں اُس کی حفاظت کیلئے کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے۔ علاج کیلئے ہمیں ہمیشہ مستند معالج کے پاس جانا چاہیئے۔ اور جعلی ڈاکٹروں اور نیم حکیموں سے علاج کروا کر اپنی زندگی کو خطرہ میں نہیں ڈالنا چاہیئے۔ کئی لوگ کم علمی کی وجہ سے بیماری کا علاج تعویز گنڈوں اور عاملوں وغیرہ سے کروا کر پیسہ اور صحت دونوں کا تقصان کرتے ہیں۔ اﷲ سے شفاء کیلئے دُعا کرنی چا ہئے کیونکہ وہی شافی ذات ہے۔

بچوں کی نگہداشت:۔
بچوں کیلئے اچھی غذا اور صاف ماحول کا مہیا ہونا ضروری ہے لیکن ساتھ ہی پیار، محبت اور صحیح نشوونما بھی اسی قدر اہم ہے۔ انہی چیزوں کے ساتھ ہی بچے آئندہ زندگی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بچے کے ابتدائی چند سالوں میں ہمیں مندرجہ ذیل با توں کا خیال رکھنا چا ہیئے:

بچے کو پیدائش کے فوراً بعد ماں کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے جو غذائیت سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بیماریوں سے بھی بچاتا ہے۔ اسی لئے اﷲ کے رسول ﷺ کا حکم ہے کہ بچے کو دو سال تک ماں کا دودھ پلایا جائے۔ بچے کی صحت کی خاطر ماں کو خود بھی صاف رہنا چاہئے اور بچے کی بھی صفائی رکھنی چا ہئے اور دودھ پلانے سے پہلے اپنے ہاتھ صابن سے دھو لینا چاہئیں۔

بعض علاقوں میں مائیں نوزائیدہ بچوں کو کپڑے میں لپیٹ کر رَسی یا فیتہ وغیرہ سے باندھ دیتی ہیں تاکہ بچہ سکون سے سویا رہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ بچوں کو آزادی سے ہاتھ پاؤں ہلانے دینا اُن کی صحت کیلئے بہتر ہے۔

ہمارے ہاں بچوں کی آنکھوں میں سُرمہ لگانا عام رواج ہے۔ اگر سُرمہ معیاری ہو تو ٹھیک ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر سُرمہ میں سیسہ کی اچھی خاصی مقدار پائی جاتی ہے۔ جو انتہائی مضر صحت ہے۔ لہٰذا جب تک یہ یقین نہ ہو کہ سُرمہ میں سیسہ موجود نہیں تو اس وقت تک اسے استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیدائش کے ایک سال کے اندر بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچانے کیلئے حفاظتی ٹیکوں کا کورس کرایا جائے۔ یہ کورس بچوں کو چھ خطرناک بیماریوں یعنی خسرہ، کالی کھانسی، خناق، پولیو، تشنج اور ٹی بی سے بچاتا ہے۔ اس کورس کے بارے میں اپنے قریبی ہیلتھ سنٹر سے معلومات حاصل کریں۔ اور یہ ٹیکے اپنے بچوں کو ضرور لگوائیں۔
 

image

پانچ ماہ کی عمر سے بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ ٹھوس غذا مثلاً دلیہ، سا گودانہ، نرم چاول وغیرہ دیں۔ اور ایک سال کے بعد دیگر نرم خوراک انڈے، دہی، نرم سبزیاں اور پھل وغیرہ دیں۔

بچوں کو کھانا کھلاتے وقت اپنے اور اُن کے ہاتھ صا بن سے دھوئیں۔

بچوں کے کھلونے گندے ہونے پر انہیں صابن سے دھوئیں۔

چھوٹے بچوں کو ہوا میں اُچھالنا ان کے نازک دماغ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے باز رہیں۔

بچے نرم و شائستہ آواز پسند کرتے ہیں لہٰذا ان سے اسی لہجہ میں بات کریں۔

بچے بڑوں کو دیکھ کر ان کی نقل کرتے ہیں لہٰذا ان کے سامنے کوئی غیر مہذب گفتگو، حرکت اور جھگڑا یا تو تو میں میں نہ کریں۔ خاص کر والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے سامنے نرم و شائستہ لہجے میں بات چیت کر یں اور ہر کا م سلیقہ سے کر کے بچوں کو پیروی کا موقع دیں۔ اسی طرح والدین خود صفائی اپنائیں اور بچوں کو نہلانا، دانت برش کرنا اور رفع حاجت کے بعد اور کھا نے سے پہلے صا بن سے ہاتھ دھونا سکھائیں۔

بچے کو ہر اچھی حرکت پر شاباش دیں۔ تاکہ وہ آئندہ بھی اس پر عمل کرسکیں۔

بچوں پر چیخنے چلانے ڈانٹنے اور مارنے سے ان کی خود اعتمادی ختم ہوجاتی ہے۔ اور ان کی شخصیت دب جاتی ہے۔ اور وہ آپ سے پیار کی بجائے ڈرنے لگتے ہیں۔لہٰذا ایسا ہر گز نہ کیا کریں۔

بچوں کو اندھیرے سے یا جن بھوت یا جانوروں سے نہ ڈرائیں اس طرح وہ ہر وقت خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔

بچوں کے پیٹ میں کیڑوں کا ہونا ایک عام شکایت ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ 1 جب کیڑوں کے انڈے مٹی سے یا گندی خوراک کے ساتھ منہ کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوں تو وہ آنتوں میں نشوونما پاتے ہیں اور کیڑے بن جاتے ہیں- 2 جب کیڑوں کے لاروے ( بچے) بچوں کے ننگے پاؤں کے جلد خاص کر تلووں کے ذریعے جسم میں داخل ہوکر خون کے ذریعے پھیپھڑوں اور پھر آخرکار آنتوں میں پہنچ کر با لغ کیڑے (Mature Worm) بن جاتے ہیں۔ یہ کیڑے نہ صرف بدن میں خون کی کمی کا باعث بنتے ہیں بلکہ چڑ چڑا پن، سانس کی تکلیف ،کھانسی، نقاہت اور بعض اوقات آنتوں کے بند ہونے (Intestinal Obstruction) کا سبب بھی بنتے ہیں۔اس لئے اپنے بچوں کو ہمیشہ جوتے پہنائے رکھیں۔ چاہے وہ عام حالت میں ہوں یا کھیل کود کے دوران ہو اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آپ کا بچہ پاؤں میں چوٹ لگنے سے محفوظ ہوجائے گا۔

گھر کے اندر دوائیاں اور دوسری اشیاء مثلاً مچھر یا جوؤں کو مارنے کی دوائی، کیمیکل اور گرم اشیاء، ماچس کی تیلیاں، مٹی کا تیل وغیرہ ہمیشہ ایسی محفوظ جگہوں پر رکھیں جہاں بچوں کی رسائی ممکن نہ ہوں۔

دیوار پر کم اونچائی پر لگے ہوئے بجلی کے ساکٹ اور سوئچوں کے سامنے میز، کرسی یا دوسری رکاوٹیں رکھ دیں تاکہ بچے ان میں انگلی نہ ڈال سکیں۔ آجکل بازار میں بجلی کے ساکٹوں کو بند کرنے کیلئے پلاسٹک کے پلگ دستیاب ہیں۔ ان کا استعمال کریں۔ سوئچوں کو ہمیشہ بند (off) رکھیں۔

خواتین کی صحت کے مسائل:۔
ہمارے ملک میں خواتین کی صحت سے متعلقہ مسائل بہت گھمبیر اور پیچیدہ نوعیت کے ہیں اور یہ زیادہ تر غربت، جہالت اور جاہلانہ رسم و رواج سے متعلقہ ہیں۔ بسا اوقات بچیوں کو ہمارے معاشرے میں شروع سے ہی امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور انہیں تعلیم سے بے بہرہ رکھ کر ان کی ذہنی نشوونما بھی نہیں رہنے دی جاتی۔ ہمارے ہاں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے اور کئی خواتین پہلی زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ویسے تو عمومی طور پر بھی حمل کے دوران اور زچگی کے وقت ماہر لیڈی ڈاکٹر سے معائنہ ضروری ہے لیکن پہلی زچگی میں تو یہ نہایت اہم ہے دیگر یہ کہ عام طور پر خواتین ماہواری کے دوران کپڑے یا روئی کا استعمال کرتی ہے ۔ بہتر تو یہی ہے کہ اس مقصد کیلئے بازار سے مخصوص تولیے (Pade) خرید کر استعمال کریں ورنہ کم از کم جو بھی کپڑا یا روئی استعمال کریں وہ بالکل صاف ہو۔ ایک ہی کپڑے کو بار بار استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔

ہمارے دیہاتوں میں عموماً عورت کی زندگی بہت سخت ہوتی ہے وہ نہ صرف سارا دن گھر کا کام کاج کرتی ہے بلکہ اسے کھیتوں میں بھی مشقّت کرنا پڑتی ہے ان سے سے بڑھ کر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بہت سے جاہل مرد عورت سے انتہائی غیر منصفانہ سلوک کرتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو وہ بچاری شوہر و ساس دونوں کے تشدد کا نشانہ بن جاتی ہے۔

افسوس کہ ہم اپنے دین کی اہم تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں جن میں عورت کو ہر حیثیت میں انتہائی بلند و اہم مقام دیا گیا ہے۔ ہمارے آقا ﷺ نے بچیوں کی پیدائش کو والدین کیلئے رحمت قرار دیا اور فرمایا کہ جن والدین نے تین بچیوں کو اچھی طرح پرورش کی وہ جنت کے حقدار ٹھرے۔ ایک روایت ہے کہ یہ بشارت دو بچیوں کے والدین کیلئے بھی ہے اس کے بعد بیویوں کی حیثیت میں عورت سے سلوک کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ " تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہے" اور قرآن کے خوبصورت اور جامع الفاظ کا مفہوم اس بارے میں یہ ہیں کہ "میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں"۔ لباس کا مقصد انسان کی ستر پوشی سے بڑھ کر اس کو گرم و سرد موسم سے تحفظ دینا ہے۔ اور یہی تحفظ مرد و عورت ایک دوسرے کو دینے کے پابند ہیں۔ اور آخر میں ایک ماں کی حیثیت میں جو اعلیٰ مقام ہمارے دین اسلام نے عورت کو دیا اس کی مثال کسی معاشرے یا مذہب میں نہیں ملتی۔ ماں کے پاؤں تلے جنت کی بشارت سنا دی گئی اور خدمت میں اُسکا درجہ باپ سے تین گنا قرار دیا گیا۔ اگر ہم ان تعلیمات پر عمل کر سکیں تو نہ صرف ہمارے معاشرے میں عورت کے تمام مسائل جن میں صحت و علاج بھی شامل ہے آسانی سے حل ہو سکتے ہیں بلکہ اُسکے استحصال کی بھی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ ہم اس سادہ سی حقیقت کو سمجھ لیں کہ جسمانی و ذہنی طور پر صحت مند مائیں ہی صحت مند قوم و معاشرے کی تشکیل میں مدد دے
سکتی ہیں۔

بعض دیہی علاقوں میں خصوصاً سرد پہاڑی علاقوں میں مویشیوں کو گھروں کے اندر ایک ہی کمرے یا چھت کے نیچے رکھا جاتا ہے۔ اس سے ایک تو جانوروں کی بیماریاں انسانوں کو منتقل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جو بعض اوقات انتہائی مہلک ہوتی ہیں۔ یہ بیماریاں جانوروں کے سانس اور ان کے جسم پر موجود پسُوؤں، جوؤں اور چیچڑوں کے ذریعے انسانوں کو لگ سکتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی غلاظتوں پر پلنے والے کیڑے مکوڑے یعنی مکھیاں، مچھر وغیرہ بہت سی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ لہٰذا مویشیوں کو گھروں میں رکھتے وقت مندرجہ ذیل احتیاط برتنی چا ہئیے۔

جانوروں کو رات کو بند کرنے کیلئے با لکل علیحدہ کمرے یا دالان کا بندوبست کریں اور اُن کا راستہ اپنے داخلی راستہ سے بالکل مخالف سمت اور دُور رکھیں۔

ان کا ہر چند مہینوں کے بعد جانوروں کے ہسپتال یا ڈاکٹر سے معائنہ کرایا کریں۔

آخر میں لیکن بہت اہم بات مویشیوں کو گرمی و سردی سے بچانا اور ان کیلئے مناسب خوراک کا بندوبست کرنا ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE:

Taking care of your health, your body the way Prophet Muhammad (pbuh) did. 1400 years old health guidelines of Prophet Muhammad (pbuh) to remain physically fit, that is also applicable today for the mankind.