سعودی حملوں کی بندش اور حوثیوں کا اہم شہر پر قبضہ

 یمن کی صورتِحا ل نے مشرق وسطیٰ میں ایک انتہائی خطر ناک ہلچل پیدا کی ہوئی ہے جس سے تمام عرب ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔اس صورت حال کا فائدہ نہ لڑنے والوں کو ہوگا اور نہ ہی اس آگ پرتیل ڈالنے والوں کو ہوگا۔ یہ ایسی جنگ ہے جس سے اسلامی دنیا کے(نام نہاد) اتحاد کو شدید صدمہ پہنچے کا اندیشہ ہے۔مسلم دشمن قوتیں ہردو جانب آگ بھڑکانے میں مصروف ہیں ایک جانب حوثی باغی اور انہیں چلانے والے ہیں تو دوسری جانب عرب قوتیں ہیں۔اس جنگ کے حوالے سے امریکی صدر اوباما نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ یمن کے بحران کا سیاسی حل نکالنے میں مدد دے۔ واشنگٹن کی جانب سے تہران پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کو اسلحہ کی ترسیل جاری رکھے ہوئے ہے۔ایران اس مسئلے کا حصہ بننے کے بجاے یمن بحران کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔اوباما کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم یمن کی صورت حال پر قابو پا سکتے ہیں۔جس کے لئے ہمیں فریقین کو سیاسی حل کی طرف لانا ہوگا۔

دوسری جانب سعودی عرب نے جیسے ہی 21،اپریل کی شب کوفضائی حملے روکنے کی تصدیق کی، کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی عربوں نے یمن میں کیا جانے والا ”فیصلہ کن طوفان“ نامی آپریشن روکدیا ہے تو حوثی باغیوں نے اس اعلان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جواب میں تعز شہر پر حملہ کر کے اہم فوجی اڈے پر بڑھ کر قبضہ کر لیا ۔باغیوں نے تعز شہر کے مضافات میں صدر منصور ہاد ی کی حامی فوج کے 35، ویں آرمڈ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیا۔

اس صورت حال کے پیش ِنظر سعودی فضائیہ نے چند ہی گھنٹوں میں فضائی آپریشن روکنے کا فیصلہ واپس لے لیا، اور اس کے بعد سعودی فضائیہ نے یمنی باغیوں پر ایک مرتبہ پھر بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا ۔اس طرح ہوثی باغیوں کے خلاف چند گھنٹوں میں ہی عرب اتحادی ملکوں نے فوجی آپریشن کے خاتمے کا اعلان واپس لینے میں دیر نہیں کی۔جس کے بعد عدن اور صوبہ لج کے دارلحکومت ہوتا میں بھی باغیوں سے جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سعودی عرب کے طیاروں نے باغیوں اور ان کے اتحادیوں کی کاروئی روکنے کی غرض سے تعز کے علاقے میں باغی قبائل پر شدید بمباری کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔تاکہ باغیوں کی مزید پیش قدمی کو روکا جائے ۔

فرانسیسی خبر رسان ایجنسی کے مطابق اس جنگ مں سینکڑوں افراد ہلا ک کئے جا چکے ہیں اس کے بعد باغیوں نے اقوام متحدہ کی ثالثی میں امن مذاکرات کی بحالی کے لئے مشروط آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی بحالی کے لئے فضائی حملے بند کرنا ہوں گے ۔دوسری جانب یمن پر حملے بند کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی ایران نے جنگ زدہ افراد (حوثیوں) کو مدد فراہم کرنے اور نئی حکومت کے قیام کیلئے مذاکرات پر زور دینا شروع کر دیا ۔ ایک جانب ایران کی جانب سے اسلحہ سے لیس کشتیاں یمن کی جانب جاتی ہوئی دیکھی گئی ہیں۔اور ایران نے سعودی عرب کو یہ دھمکی بھی دیدی ہے کہ اگر یمن پر بمباری نہ روکی گئی تو ایران سعودی عرب کے خلاف کاروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ایران کی اس دھمکی سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سعودی عرب نے ایران پر حوثیوں کی مدد کا لزام غلط نہیں لگا یا تھا۔اس دھمکی سے واضح ہوتا ہے کہ حوثی بغاوت میں ایران بھر پور ملوث ہے۔جو خلیجی ریاستوں کو قابو کرنا چاہتا ہے۔

سعودی عرب کی اس وقت کوشش یہ ہے کہ حوثیوں کو باب المندب پر قبضے سے روکیں۔کیونکہ اس علاقے کی اہمیت یہ ہے کہ یہاں سے ہر سال قریباََ 20، بحری جہازوں کا گذر ہوتا ہے اس داخلے کے راستے کو عدن سے آسانی کے ساتھ کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔اس طرح اس ہم تجارتی راستے پر قبضہ کر کے عربوں کو زبردست معاشی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔جو سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں کے لئے نا قابلِ برداشت ہوگا۔

یمن تنازعے میں پاکستان فریق تو نہیں ہے۔ مگر سعودی عرب سے ہمارے دیرینہ اور مضبوط تعلقات ہیں۔وزیر اعظم کی زیرصدارت کابینہ کا ایک اہم اجلاس بدھ 22 ,اپریل کووزیر اعظم ہاﺅس میں ہوا جس میںوزیر اعظم کے مجوزہ دورہ سعودی عرب اور یمن کے معاملات پر غور کیا گیا۔وزیر اعظم کے وفد میں چیف آف آرمی اسٹاف جنر ل راحیل شریف وزیرِ دفاع خواجہ آصف، طارق فاطمی اور،اعجاز چوہدری شامل ہوں گے۔ یہ وفد سعودی شاہ سے مل کرخطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال اور سعودی حکومت اور عوام سے پاکستان کی جانب سے یکجہتی کا اظہار کرے گا۔پاکستان کے عسکری او ر سیاسی حلقے یمن کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔وزیر اعظم پاکستان کا دومامیں یہ دوسرا سعودی عرب کا دورہ ہے۔موجودہ دورے کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ پارلمنٹ کی قرار داد کے حوالے سے بعض حلقوں میں پیدا شدہ تحفظات کو دور کرنا ہے تاکہ پاکستان کے عوام اور حکومت سعودی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑ ے دکھائی دیں ۔اس آزمائش کی گھڑی میں ہم اپنے سعودی بھائیوں اور مخلص ترین دوست کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔آرمی چیف کا وزیر عظم کے ساتھ جانا اس بات کا اظہارہے کہ پاکستان کی فوج اور حکومت سعودی عرب کے ساتھ کھڑی ہیں۔سعودی برادرز اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں ہم پاکستانی ان کے ہر دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔
prof.mustaqima bagum
About the Author: prof.mustaqima bagum Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.