ایرانی آکٹوپس اور جوہری معاہدہ

مغربی اخبارات میں ان دنوں یہ چرچاجاری ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکاامریکی کانگرس کے جائنٹ اجلاس سے ایرانی نیوکلیر معاہدہ پرسخت اورجارحانہ رویہ خطاب انتہائی کارگرثابت ہوا اور بالآخر امریکا بہادر اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کرایرانی جوہری پروگرام محدود کرانے میں کامیاب ہوگیاہے۔کیااستعماری طاقتیں مشرقِ وسطیٰ کوزیرِنگیں رکھنے کی چالوں میں ایک اور''فتح''حاصل کرگئیں ہیں؟اس کے داعی اسرائیل کے ایٹمی اسلحہ کے ڈھیرسے چشم پوشی کرتے ہوئے خطے میں عدم توازن قائم کرکے ایک اوربے انصافی کی شرمناک مثال قائم کرگئے ہیں۔سوئٹزرلینڈمیں مذاکرات کے طویل سلسلے کے بعدایران چھ بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری پروگرام مستقبل کے بارے میں معاہدے کے فریم ورک پراتفاق ہوگیا جس کی ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی تصدیق کردی ہے۔ان کا کہناہے کہ ایران کے تنازع پروگرام کے بنیادی حل تلاش کر لیے گئے ۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پراپنے پیغام میں ایرانی وزیرخارجہ جوادظریف نے کہاہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے مسئلے کے حل کے لیے فریم ورک طے پاچکاہے جس پرعالمی قوتوں نے بھی رضا مندی ظاہرکردی ہے۔ ایران، امریکااور جرمنی کاکہناہے کہ آخر کار٨روزکی گفت و شنید کے بعد اتفاق رائے ہوگیا۔جامع جوہری معاہدہ ٣٠جون تک تشکیل دے دیاجائے گا۔حتمی معاہدے کے بعد امریکا اور یورپی یونین ایران پرعائد پابندیاں ختم کردیں گے۔جوہری فریم ورک دس سال کیلئے طے پایاہے جس کے تحت ایران جوہری مقاصد کیلئے افزودگی کم کرنے پرراضی ہوگیاہے۔

معاہدے کے بنیادی خدوخال اس امرکی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایران کو١٩ہزارمیں سے ٦١٠٤سینٹری فیوجزچلانے کی اجازت مل گئی ہے۔ان میں سے ٥ہزار ایسی ہوں گی جویورینیم کی افزودگی کریں گی،جوبھی ذخیرہ ہوگاوہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی زیرنگرانی ہوگا۔ ایران اپنے کم مقدارمیں افزودہ حالت میں موجودیورینیم کے ذخیرے کوکم کرے گاجوکہ جوہری بم بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ایران فردوع میں موجوداس زیرِزمین سائٹ کو١٥سال کے لیے بندکردے گاجہاں یورینیم کی افزودگی ہوتی ہے۔معاہدے کے مطابق بین الاقوامی معائنہ کاروں کونہ صرف ایران کی اہم جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل ہوگی بلکہ وہ یورینیم کی کانوں اور کارخانوں کابھی معائنہ کر سکیں گے اورایران پابندہوگاکہ وہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کوملک بھر میں مشکوک یاخفیہ مقامات تک رسائی دے ۔ان پابندیوں میں سے کچھ تودس سال کیلئے ہیں جبکہ کچھ کو١٥ سال کے لیے لاگوکیاجارہاہے۔ مغربی ممالک میں اس معاہدے پراظہارطمانیت کیا جا رہا ہے کہ عالمی قوتوں اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے پرمذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں جواسے جوہری تنازعے کے حل میں اہم پیش رفت اور اچھی خبرقراردے رہے ہیں۔

دوسری جانب ایرانی میڈیاکاکہناہے کہ عالمی قوتوں سے معاہدے کے مطابق ایران اپنی جوہری صلاحیت ایک تہائی کم کردے گاالبتہ امریکی صدراوبامانے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران جوکچھ کہاوہ اہل نظرکے نزدیک انتہائی معنی خیز ہے ۔اوباماکاکہناہے کہ ایران سے جوہری پروگرام پرتاریخی معاہدہ ہوگیا،معاہدے کے تحت ایران کبھی بھی پلاٹونیم بم نہیں بناسکے گا ۔ معاہدے کی خلاف ورزی پرایران کے خلاف سخت ترین کاروائی کریں گے،ایران کواپناایٹمی پروگرام محدودکرناپڑے گا۔ایران آئندہ دس سال تک کوئی ایٹمی ری ایکٹرتعمیرنہیں کر سکے گا۔معاہدے کے تحت ہم نے اپنے تمام مقاصدحاصل کرلیے ہیں۔ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے کے ڈھانچے پراتفاق رائے کے باوجودغیر جانبدار مبصرین کے ان سوالات سے صرفِ نظرنہیں کیا جا سکتاکہ ایران کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں عالمی طاقتوں کاردّعمل کیاہوگا؟کیاایک بارپابندیاں ختم کرکے دوبارہ عائدکی جاسکیں گی؟اوریہ بھی کہ کس حد تک خلاف ورزی ہوگی تواس پرایکشن لیا جائے گا؟

محرمانِ اسرارجانتے ہیں کہ ٢٠١٣ء کے اواخرمیں انتخابی مہم کے دوران میں ایران کے موجودہ صدرحسن روحانی نے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکااورمغربی ممالک کویہی پیغام دیاتھاکہ اس کے خاتمے کے حوالے سے کسی نوع کاسمجھوتہ کرنے کیلئے تیارنہیںہیں۔٢اپریل کوایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کے مندرجات سے مترشح ہوتاہے کہ امریکااور مغربی ممالک کی کوششیں بارآورہوئیں اورایران نے انجام کارایسامعاہدہ طے کر لیاجس کے بعد آئندہ دس سے پندرہ سال تک اس کیلئے اپنے ایٹمی پروگرا م کوایٹمی اسلحہ سازی میں تبدیل کرناخاصامشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گاتاہم ایران پرجوسخت اقتصادی پابندیاں لاگو تھیں،تیل کی آمدنی کے باوجود ان کی وجہ سے ایران کی داخلی معیشت زبوںحالی کاشکارتھی ۔اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ ١٢برس بعدامریکااور مغربی ممالک ،عالم اسلام کے دوسرے بڑے مسلمان ملک کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
اقتصادی پابندیاں اٹھانے کیلئے بھی ٥سال کی شرط عائدکی گئی ہے۔ایران نے اس ضمن میں جوفیصلہ کیاہے یقینا اپنے مفادات کوسامنے رکھتے ہوئے کیاہوگا۔بادی النظر میں یہ معاہدہ ایران اور مغرب میں جاری کشیدگی اوراختلافات کم کرنے میں مدد دے گا۔اربابِ خبرونظرسے یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ اس معاہدے کے باوجود تہران اورواشنگٹن کے درمیان بہت سے معاملات پر اختلافات اب بھی موجودہیں۔یہ امرذہن نشین رہے کہ یہ مسائل ومعاملات جوہری مذاکرات پراثر اندازنہیں ہوئے۔ اس معاہدے کے بعدہی مستقبل میں منکشف ہوگاکہ ایران کے جوہری پروگرام کی رفتارکیاہو گی کیونکہ امریکی محکمہ خارجہ نے مشترکہ اقدامات کے جامع پلان کے عنوان سے جوفہرست جاری کی ہے اس کے بعض مندرجات پرغیر جانبدارحلقے حیرت کااظہارکررہے ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ سپرپاورامریکانے ایران کے ایٹمی پروگرام کوختم کرنے کیلئے اپنی پوری توانائیاں صرف کیں لیکن یہی امریکا اسرائیل کے اس ایٹمی پروگرام سے مجرمانہ چشم پوشی کررہاہے جو صرف مشرقِ وسطیٰ کیلئے ہی نہیں بلکہ ہراس ملک کیلئے فناکاپیغام ہے جس نے ابھی تک اسرائیل کوتسلیم نہیں کیا۔اس تناظرمیں لوزین میں ہونے والا معاہدہ خطے میں عدمِ توازن کاباعث بنے گا۔

پاکستانی قوم کواپنی اس قیادت کوشکرگزارہوناچاہئے جس نے ١٩٧٤ء میں شروع کیے گئے پرامن ایٹمی پروگرام کو باوجود انتہائی عالمی رکاوٹوں اورمشکلات کے تکمیل تک پہنچایا اور مئی ١٩٩٨ء میں امریکااورمغربی دنیاکی تمام ترترغیب و ترہیب کوخاطرمیں نہ لاتے ہوئے ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کودنیاکی ساتویں اورعالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی ریاست بنادیا۔اگر خدانخواستہ پاکستانی قیادت بھی دباؤ میں آجاتی تواس کاانجام بھی ایران جیساہوتا۔یہ پاکستان قوم کی اجتماعی کامیابی ہے کہ باوجودانتہائی نامساعدحالات کے اللہ کی مدد سے نہ صرف جوہری ریاست بننے میں کامیاب ہوئی بلکہ اس وقت میزائل ٹیکنالوجی کے علاوہ دیگرجدیددفاعی آلات میں ایک مضبوط ریاست کے طور پراپناوجودمنواچکی ہے۔

شہرہ آفاق الجزیرہ ٹی وی چینل نے امریکاایران معاہدے کو خطے کیلئے انتہائی خطرناک قراردیتے ہوئے اپنے تجزیئے میں کہاہے کہ ایران کے ساتھ معاہدے کے باعث ایسامعلوم ہوتا ہے کہ صورتحال مزیدخراب ہوجائے گی کیونکہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ کاخطہ عراق ،یمن،شام اورلبنان میں ایرانی مداخلت کے باعث انتشار کاشکارہو چکا ہے۔ایسامعلوم ہورہا تھا کہ مذاکرات کسی دوسرے سیارے میں منعقد ہورہے ہیں ۔ امریکی صدراوبامانے ١٤ویں صدی کے ایک ایرانی شاعرکا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ہم دونوں ممالک کے علاوہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جوسفارتی حل کی مخالفت کرتے ہیں۔اے اہل ایران!میراآپ کویہ پیغام ہے کہ ہمیں اپنے مستقبل کی بات کرنی چاہئے۔

معلوم ہوتاہے کہ امریکیوں کے نزدیک ایران کے ساتھ معاہدہ بہت ضروری ہے اوراس پرتنقیدامریکیوں کے نزدیک اس معاہدے کی رکاوٹ ہے اس امرکااظہاراس وقت نمایاں ہوگیاتھا جب امریکی انتظامیہ نے امریکی کانگرس سے اسرائیلی وزیر اعظم کے خطاب کے حوالے سے غیظ و غضب کااظہارکیا تھا ۔اس معاہدے کی علامتی تصویر دیکھ کرمعلوم ہوتاہے کہ کس طرح یہ معاہدہ طے پایا ۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری یایورپین یونین کے خارجہ امورکے سابق سربراہ کے ساتھ مذاکرات کے موقع پر کھینچی گئی تصویرمیں ایرانی وزیرخارجہ کیوں اس قدرکھل کرمسکرارہے ہیں؟کون واقعتاًیہ سمجھتاہے کہ یہ مذاکرات ایران کیلئے سخت تھے۔اس معاہدے کے ذریعے سے ایران نے جوچاہا حاصل کرلیا۔پابندیوں میں کمی جوہری توانائی کوافزودہ کرنے کی اجازت جواس کے نزدیک پرامن مقاصدکے لیے ہے۔اس سے پہلے ایران کے روحانی رہبراعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کویہ فتویٰ ''فروخت''کیا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کا ڈھیرلگاناممنوع ہے۔

یہی روحانی رہبرہیں جواطلاعات کے مطابق شدیدبیماراور خطرے میں ہیں۔جب جان کیری نے اس معاہدے کااعلان کیاتو انہوں نے واضح کر دیاکہ یہ معاہدہ خطے میں امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم عنصرہے۔یہ معاہدہ امریکی مفادمیں تھا تاکہ ایران کے ساتھ ایک بہترمعاہدہ کیا جائے لیکن مفادکے پیچھے تفصیلات خطرناک ہیں۔اس معاہدے کے متعلق یہ تنقید کی جاتی رہی ہے کہ یہ معاہدہ علاقے میں ایران کو طاقت ور بنانے کیلئے ہے۔یہ امرقطعاً باعث حیرت کاباعث نہیں کہ لبنان میں ایران نے حزب اللہ کو مالی تعاون مہیاکیاجس کے ساتھ اسرائیل کی جنگیں ہوئیں اورجس کے ہتھیار اسرائیل کیلئے خطرہ ہیں۔ برسوں سے ہی عرب حکومتوں اورلبنان کویہ بتایا جارہا ہے کہ حزب اللہ،لبنان میں ایک مزاحمتی قوت ہے جواسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔حزب اللہ کی یہی مزاحمت شام میں داخل ہوئی اوربشارالاسدکے اقتدار کو گرنے سے بچالیا۔ جس ظالمانہ طریقے سے حزب اللہ اوراسد کی حکومت نے شام میں سنی جنگجوؤں کوکچلا،اس کے باعث اس خطے میں داعش جیسی عسکریت پسند تنظیموں کوابھرنے کاموقع ملا۔یہ کیسااستہزائی عمل ہے کہ جب داعش جیسی عسکریت پسند تنظیمیں لبنان میں عروج حاصل کرتی ہیں توحزب اللہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ان کے خلاف مزاحمت کررہی ہے۔

حزب اللہ کے قائدحسن نصراللہ نے اعلان کیاتھاکہ حزب اللہ اس لیے جنگ کررہی ہے تاکہ یہ خطہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ نہ لگ جائے لیکن حزب اللہ نے اس کے برعکس کام کیا ہے اس نے شام پر حملہ کیا،اس نے لبنان میں شورش برپاکی جب سعودی عرب اوردیگردس عرب اقوام کے علاوہ جی سی سی اورمصرنے یمن میں مداخلت کی تواس کی سب سے پہلے مذمت حزب اللہ کے قائدحسن نصر اللہ کی طرف سے آئی۔اب سوال یہ ہے کہ حزب اللہ نے یمن میں مزاحمت کاراستہ کیوں نہیں اختیارکیا؟اس کی وجہ یہ ہے کہ نصراللہ اوران کے ایرانی حامی ایک ہی قوت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایرانی جرنیل قاسم سلمانی جو تکریت پرعراق کی شیعہ ملیشیاکی سربراہی کررہاتھا،ایرانی معاونت سے یمن میں حوثیوں کی عسکری تربیت میں مصروف ہے اور اب کافی تعداد میں بھاری ایرانی اسلحہ یمن میں پہنچایاجارہاہے اوراس کے جہازگزشتہ چندہفتے قبل صنعامیں اترے تھے۔

زیادہ ترایرانی مذاکرات کار،سنیئرسفارت کارہیں،بہت زیادہ مہارت کے حامل ہیں اورزیادہ ترمغرب میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔علی اکبر اصلاحی ایران کے نائب چیف مذاکرات کار ،امریکامیں تعلیم حاصل کرچکے ہیں اوروہ امریکیوں کی طرف میلان رکھتے ہیں۔وہ اوران کے ساتھی اوباماکی''امن''کی خواہش کاخوب ادراک رکھتے ہیں،اس لیے انہوں نے خبردار کیاتھاکہ اگرمعاہدہ طے نہ پایاتوجنگ کے امکانات بڑھ سکتے ہیں لیکن اس صورتحال کوکیانام دیاجائے جوایران نے مشرقِ وسطیٰ پرمسلط کررکھی ہے۔کیایہ جنگ سے کم صورتحال ہے؟ایران کی شیعہ ملیشیا ،دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ میں مداخلت کررہی ہیں جس کے باعث عرب ممالک انتشار کا شکارہوتے جارہے ہیں۔یہ بھی درست ہے کہ شیعہ ملیشیانے یمن سے لبنان تک معیشیتیں تعمیرنہیں کیں اورنہ یونیورسٹیاں قائم کیں بلکہ انہوں نے محض عرب ممالک کی خود مختاری کو خطرے میں ڈالا۔

جب امریکی وزیرخارجہ اس معاہدے کوایک اچھامعاہدہ قرار دیتے ہیں تویہ معاہدہ ایران کیلئے اچھاہے لیکن باقی دنیاکیلئے خطرناک ہے۔ ایران کے پاس جوہری طاقت موجودہے اوراس خطے میں ایرانی فوجی مداخلت کاآکٹوپس پھیلتاجارہاہے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350194 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.