اہم پیش گوئیاں! 100 سال بعد کیا ہونے والا ہے؟

یہ 1900ء کی بات ہے، ایک امریکی سول انجینئر، جان الفریتھ ویٹکنز نے دس ایسی پیش گوئیاں کیں، جو 2000ء تک پوری ہو سکتی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے بعض ’’عجیب و غریب‘‘ اور ’’تقریباً ناممکن‘‘ پیش گوئیوں نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ ویٹکنز کی کامیابی سے متاثر ہو کر مشہور امریکی اخبار، نیویارک ٹائمز نے اپنے قارئین کو دعوت دی کہ وہ بھی اگلے 100 برس کی ایسی پیش گوئیاں کریں۔اس سکیم یا منصوبے میں قارئین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سینکڑوں پیش گوئیاں کیں۔ بعد ازاں ماہرین نے ان میں سے ایسی چند بہترین پیش گوئیوں کا انتخاب کیا، جو اگلے برسوں میں واقعتاً حقیقت کاروپ دھار سکتی تھیں، جو اب نذرِ قارئین ہیں:
 

سمندروں میں بنتے فارم!
اگلے 100برس میں دنیا کی آبادی تقریباً 10ارب تک پہنچ جائے گی۔ ظاہر ہے، ان کو خوراک مہیا کرنا بڑا مسئلہ ہوگا چنانچہ سمندروں میں جگہ جگہ مچھلیوں کے فارم بن جائیں گے۔ ان میں پھر کروڑوں مچھلیاں پلیں گی تاکہ وہ دعوتِ طعام میں کام آسکیں۔ مزید برآں سمندروں ہی میں الجی کے فارم بنانے کے منصوبے بھی زیرعمل ہیں۔ یہ لاکھوں ٹن الجی نباتاتی ایندھن بنانے میں کام آئے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مویشیوں کا چارا اگانے کے لیے سمندری فارم بن جائیں۔

image


کمپیوٹر اور دماغ کا ملاپ!
امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ایسے کمپیوٹر بننے لگے ہیں ،جو سر پر پہنے جاتے ہیں۔ ان کمپیوٹروں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ براہِ راست انسانی دماغ سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ تو ابھی آغاز ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ء تک ایسے کمپیوٹر ایجاد ہوجائیں گے ،جو ہمارے اذہان کی طاقت اور کام کرنے کی صلاحیت دگنی تگنی بڑھا دیں گے۔ 2075ء تک ترقی یافتہ ممالک میں تقریباً سبھی لوگ اپنی دماغی استعدادِ کار بڑھانے کی خاطر کوئی نہ کوئی مشین استعمال کریں گے اور رواں صدی کے آخر تک پوری دنیا میں ایسی مشینیں مستعمل ہوجائیں گی۔ ظاہر ہے، جب ایک انسان نے ایسی مشین سے استفادہ کیا، تو دوسروں کو بھی تقلید کرنی پڑے گی۔

image


سوچ کی لہروں کے ذریعے رابطہ!
ماہرین طبیعات کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ایسی مشین ایجاد ہوجائے گی ،جو ہمارے دماغ سے نکلنے والے خیالات جمع کر کے دوسروں تک پہنچا دے گی۔ یہ ہوگی مستقبل کی خیالی نشریاتی ( Transmission Thought) مشین! ماہرین کہتے ہیں، ابھی ہم اپنے خیالات و جذبات کو کمپیوٹر میں جمع کرنے کے قابل ہیں، لیکن وہ وقت دور نہیں جب انہیں لہروں کے ذریعے ایک سے دوسرے دماغ تک پہنچانا ممکن ہوگا۔

image


امریکا کی ٹوٹ پھوٹ!
امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ہزارہا لوگ چاہتے ہیں کہ وہ وفاق امریکا سے الگ ہوجائیں۔ وجہ یہ ہے کہ امریکا میں سب سے زیادہ امراء اسی ریاست میں بستے ہیں۔ چنانچہ وہی سب سے زیادہ ٹیکس بھی دیتے ہیں۔ لہٰذا کیلی فورنیا میں یہ احساس رفتہ رفتہ ابھر رہا ہے کہ وہاں ٹیکس دینے والے ہی امریکیوں کی اکثریت کو پال رہے ہیں۔ چنانچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں کیلی فورنین امریکا سے الگ ہونے کی تحریک چلا سکتے ہیں۔

image


انٹارکٹکا(قطب جنوبی) میں کاروبار!
عالمی گرمائو (گلوبل وارمنگ) کے باعث انٹارکٹکا میں صدیوں سے جمی برف پگھل رہی ہے۔ یوں نہ صرف دنیا کی چھت پر ایک نیا سمندری راستہ وجود میں آ رہا ہے، بلکہ انٹارکٹکا میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں۔ چنانچہ وہاں ’’اپنی اپنی زمین‘‘ حاصل کرنے کی خاطر عالمی قوتوں میں کھینچا تانی شروع ہوگئی ہے، لیکن ان قوتوں پر عالمی دباؤ یہی ہے کہ تیل و گیس نکالنے کا عمل ایسی جدید ترین ٹیکنالوجی سے شروع کیا جائے ،جو انٹارکٹکا کے قدرتی ماحول کو نقصان نہ پہنچائے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی اگلے 100 برس میں منظرعام پر آجائے گی۔

image


گداخت ری ایکٹر بن جائیں گے!
ستاروں میں ہائیڈروجن گیس و ہیلیم کے باہمی ادغام سے زبردست توانائی یا آگ جنم لیتی ہے۔ اسی عمل سے بجلی بنانا بھی ممکن ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہائیڈروجن گیس کے ایٹم انتہائی بلند درجہ حرارت پر جل کر توانائی خارج کرتے ہیں۔ یہ انتہائی درجہ حرارت ایٹم بم پھاڑنے ہی سے جنم لیتا ہے۔ مگر ماہرین اب تک ایسا ری ایکٹر نہیں بنا سکے جہاں قابوشدہ (کنٹرولڈ) حالت میں ایٹم بم پھاڑا جائے،تاہم طبیعات دانوں کی پیش گوئی ہے کہ 2050ء تک درج بالا قسم کا گداخت (Fusion) ری ایکٹر بن جائے گا۔ شاید وہ تجرباتی نوعیت کا ہو، مگر 2100ء تک یہ ٹیکنالوجی نکھر جائے گی۔ چنانچہ تب ممکن ہوگا کہ صرف ایک گداخت ری ایکٹر سے پورے پاکستان کو بجلی مہیا کی جاسکے۔ یعنی ایک ایسا ری ایکٹر 50ہزار سے ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔

image


برطانیہ میں انقلاب!
امریکا کی طرح انگریزوں کے دوسرے بڑے مرکز برطانیہ کو بھی ٹوٹ پھوٹ کے شدید خطرے کا سامنا ہے۔ دراصل گزشتہ دنوں سکاٹ لینڈ میں یہ جاننے کے لیے ایک ریفرنڈم ہوا کہ علاقے میں مقیم باشندے خود مختاری و آزادی چاہتے ہیں یا نہیں؟ تاہم ابھی حالات قابو میں ہیں اور اگر سکاٹشوں نے کبھی علیحدگی کا مطالبہ کیا، تو سمجھیے تاجِ برطانیہ کا ایک موتی الگ ہوا۔

image

دنیا بھر میں ایک کرنسی!
ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے کریڈٹ کارڈ یا برقی کرنسی وجود میں آچکی، جو کئی ممالک میں چلتی اور قبول ہوتی ہے۔ یہ رجحان آنے والے برسوں میں مزید بڑھے گا۔ چنانچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے، وسط صدی تک صرف تین چار بڑی کرنسیاں رہ جائیں، نیز برقی کرنسی پوری دنیا میں چلنے لگے گی۔ لہٰذا ممکن ہے، رواں صدی کے اختتام تک تمام چھوٹی کرنسیاں نابود ہو جائیں اور صرف ایک عالمی کرنسی باقی رہ جائے۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

Have you ever wondered how the world will be in 100 years? No one can know it from now but highly-regarded scientists (physicists, biologists, sociologists) studying the evolution of the society, human life and the world in general make such kind of predictions based solely on scientific data. According to their publications in scientific journals, see how the world might look like in 100 years from now.